ہمارا معاشرہ تین قسم کے لوگوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک نیک لوگ جو نیکیاں سمیٹتے ہی چلے جاتے ہیں، دوسرے بے وفا لوگ جنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نیکی کیا ہے اور گناہ کسے کہتے ہیں اور تیسرے میری طرح کے ازلی گناہگار جو باقی سب کے لیے اچھوت ٹہرے۔
دوسرے گروپ والے انہیں ‘مولوی’ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور اپنی ‘سرگرمیوں’ میں شامل نہیں کرتے تو پہلے گروپ والے ان کے گناہ گن گن کر انہیں انسانوں کی فہرست سے خارج کرکے کتوں اور سوروں سے جا ملاتے ہیں۔
نیک لوگوں کی صحبت بھی ایک دو دھاری تلوار ہے، آدمی کے گناہ بڑھ جاتے ہیں۔ آج سے پہلے جن چیزوں کو گناہ نہیں سمجھتا تھا وہ بھی گناہ ہو گئے۔ بولنا بھی گناہ، ہونا بھی گناہ، پیسہ کمانا بھی گناہ ، باہر جانا بھی گناہ.
علم و شعور کی راہیں، کشف و کرامات کی دنیا، اللہ والوں کے قصے، مجرد و پاکباز زندگی، یا تو آدمی سب کچھ تیاگ دے یا سیدھا سادھا ڈپریشن میں چلا جائے۔
کیا ضروری ہے کہ اللہ تک پہنچنے کی ہر راہ پر خار ہو؟
کیا ضروری ہے کہ ہر بات کے پیچھے کئی پردے اور راز ہوں؟
کیا ضروری ہے کشف و مراقبات کا ہر استعارہ سمجھا جائے؟
کیا ضروری ہے کہ محبت کے اظہار کے لئے فارسی و عربی سیکھی جائے؟
کیا ضروری ہے کہ نفرتوں کا اظہار تقدس کے بھرم کی تھالی میں ملے؟
کیا ضروری ہے کہ ہر سوچ سے الہامی ادراک کی روشنی پھوٹے؟
کیا ضروری ہے کہ زندگی کی ہر سانس کو اخلاص کی کسوٹی پر پرکھا جائے؟
اور کیا ضروری ہے کہ ریاکاری میں ڈوبی نیکیاں ان گناہوں سے افضل ہوں جو اللہ کے ڈر سے ادھورے رہ گئے؟
سیدھی سادھی بات کیوں نہیں کرتے، لگی لپٹائی کے بغیر کیوں نہیں بولتے، کیا سادہ بندوں کا خدا نہیں، کیا رحمت للعالمین گنہگاروں کے لئے نہیں، کیا اللہ کی بخشش ہم جیسوں کے لئے نہیں، کیا ہدایت دینے اور لینے کا حق آپ کو تفویض کردیا گیا ہے۔ کیوں اتنے پیچیدہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کے بندہ ڈر کے مارے خود ہی کوئی مطلب ڈھونڈتا پھرے. ہم در در کی ٹھوکریں کھا کر آپ کے پاس ڈرتے کانپتےآتے ہیں، خوف کی شدّت سے گھٹنے ٹکرارہے ہوتے ہیں ، آواز بھی نہیں نکل پاتی، ہمیں بخوبی علم ہے اپنی کم مائیگی اور نالائقی کا، بہت پتہ ہے کن گناہوں میں گھرے ہوئے ہیں، اتنے ہی پاک ہوتے تو آپ کے در پر کیوں آتے، ہم مانگنے رحم کی بھیک آئے، آپ نے یقین تک چھین لیا، ہم امید کے منتظر آپ نے سراپا شک بنا دیا، ہم دعا کے طلبگار آپ نے بد دعا کے قابل بھی نہ سمجھا۔
نیکیوں کا ایک سائیڈ افیکٹ یہ بھی ہے کہ بندہ گناہ سے بیزار ہوتے ہوتے گناہگاروں سے بھی بے نیاز ہوجاتا ہے، بڑا کڑا امتحان ہے میرے جیسے لوگوں پر، ملک میں گنتی کے ایک آدھ درجن ہی لوگ بچے ہیں جنہیں فالو کیا جاسکے، وہ بھی اگر دروازے بند کر لیں تو اللہ کے کمزور بندے کدھر جائیں گے؟
کیا آپ گناہگاروں کو گائیڈ نہیں کرتے؟ دھتکارے ہوؤں کا بھی کوئی رب ہے، وہ ضرور رہنمائی کرے گا، اس رحمت کے صدقے جو گناہ گاروں کے لیے مخصوص ہے۔
ہم ‘میں’ سے ‘تو’ کا سفر شروع کرتے ہیں تاکہ ‘تو’ سے ‘ہو’ تک جا سکیں، آپ’میں’ کو مارتے مارتے بندہ ہی مار دیتے پیں۔
دنیا والوں سے انتساب اور وجہ تعلق آپ کے دم سے تھا، جسے آپ اچھا کہیں وہ اچھا لگنے لگا، جسے آپ نے برا کہہ دیا وہ نظروں سے اتر گیا، جتنا آپ نے مجھے ناپسندیدہ سمجھا میں خود کو بھی اتنا ہی ناپسندیدہ سمجھنے لگا، اپنے آپ کو بھی آپ کی نظر سے دیکھا، آپ نے چھوڑ دیا مجھ سے بھی اپنا آپ چھوٹ گیا۔زندگی آپ جیسے دوستوں اور مینٹرز کے تذکروں اور عنایتوں کے سوا کچھ نہیں، نالائق ضرور ہیں بے وفا نہیں، اگر ہمارے عشق کا خمیر نفس سے اٹھا ہے تو یہ رسوا کر کے چھوڑے گا اور اگر بندگی سے اٹھا ہے تو یقین جانیئے اس کی تاثیر تفہیم کی محتاج نہیں، یہ سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی زندگی بدل کے چھوڑے گا۔ بھگا دیجیے، دھتکار دیجیے، ہم نے بھی ایک در کے سوا کچھ دیکھا نہیں، کدھر جائیں گے۔ نہ ہوئے مقبول، نہ ملے منزل ، راہ میں پڑے رہینگے، چلنے کی ہمت ٹوٹی تو رخ اس طرف کر لینگے ، ویسے بھی غلط سمت میں بھاگنے سے صحیح سمت میں دیکھنا بہتر ہے. کوئی تو آئیگا جو اٹھا کے ساتھ لے جائیگا.
ہر آدمی کو طرح طرح کے گناہوں کا سامنا رہتا ہی ہے، ہر شخص کو خیال آتا ہے، یہ خیال رکھنا کی میں گناہوں سے پاک ہو گیا ہوں یا فلاں قسم کے گناہ میرے سے سرزد ہو ہی نہیں سکتے باطل خیال ہے اور اپنے آپ سے یہ مطالبہ کرنا سرے سے بندگی کی روح کے بھی منافی ہے، کون ہے جسے مختلف نوعیتوں کے گناہوں کا خدشہ لاحق نہیں، گناہوں کے تسلسل پر نگاہ رکھنا، ان کے ابھار و خواہش کو کنٹرول میں رکھنا، اور توبہ و استغفار سے ان کے خلاف مدد لینا، یہ وہ کام ہیں جو زندگی بھر واجب رہتے ہیں۔
ہر گناہ کی اپنی نحوست ہے، ظلم کرنے سے برکت چلی جاتی بے، بے حیائی سے بندگی کی عمارت میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں، جھوٹ بولنے سے منافقت آسان ہوجاتی ہے، ریاکاری سے شرک کی بو آتی ہے، تکبر سے خشیت نکل جاتی ہے، مگر یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر نیک شخص کا ایک ماضی اور ہر گناہ گار کا ایک مستقبل ضرور ہوتا ہے۔ صفت مغفرت و رحمت بھی کہیں استعمال ہونی ہے کے نہیں.
ایسا نہیں کہ بندہ بندگی کے تقاضے پورے کرنے سے مایوس ہوجائے، اچھا بننا اس کے لیے ممکن ہی نہ رہے۔ مطلقاً اللہ سے تعلق قائم کرنے سے معذور ہو جائے، ایمان و اعمال ہر ہر چیز شک میں ڈوب جائے۔ سب سے زیادہ ضرورت مند وہ ہے جسے امید، دلاسے اور محبت کی ضرورت ہو، آپ کسی کی عزت نہ چھنیں، یہ آپ کے کسی کام کی نہیں، اس کے لیے سب کچھ ہے۔
وہاں میرے سوا سب کچھ ملے گا
یہاں اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
فارسی کہاوت ہے کہ جسے پھول چاہییں اسے کانٹوں سے محبت کرنی پڑے گی۔ باری تعالیٰ نے آپ کو اونچے مقام پر فائز کیا ہے تو ہمیں کہیں اور رکھ چھوڑا ہے، دل اتنا بڑا رکھیں کہ سب کو پیار کر سکیں اور دماغ اتنا کشادہ رکھیں کہ سب کو عزت دے سکیں۔
آیئے ہم سارے اچھوت اور گناہگار مل کر اللہ کے حضور توبہ کرتے ہیں، کوئی سوال نہیں، کوئی عذر و بہانہ نہیں، کوئی شکایت نہیں صرف ایک عرض کے اللہ ضائع نہ کیجیو۔
اللہ سائیں ہم نالائق ہیں، بے وفا نہیں، اللہ سائیں ہمیں معلوم ہے کہ بےوفائی کے مصلے پر پڑھی جانے والی نمازیں شمار تو شاید ہوجائیں مگر اثر نہیں رکھتیں۔ اے اللہ ہم نے اپنے پر ظلم کیا ہم اپنے قتل میں اپنے ہی قاتل کے معاون رہے اور چشم دید گواہ بھی۔ ہم نے نے نفس کا بھرپور ساتھ دیا، شاید انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو اپنے آپ کو اس قدر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آگ میں آگ نہیں جلتی، مٹی میں مٹی نہیں رلتی، برف میں برف نہیں ٹھٹرتی، پانی میں پانی نہیں ڈوبتا، صرف یہ ‘میں’ ہے جو انسان مار دیتی ہے۔
اے اللہ! تیرے نیک بندوں سے ڈر گئے ہیں، ہماری صحبت ان کے ایمان کو داغدار کر دیتی ہے، ہم کدھر جائیں، اے جبرائیل کے اللہ، اے اسرافیل و میکائیل کے اللہ، اے رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ ہماری رہنمائی فرما ان چیزوں میں جہاں لوگ بٹ گئے ہیں ، ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تونے مہربانی کی ، نہ کے ان لوگوں کا جن پر تیرا عذاب آیا. اے اللہ ہم لا وارث ٹہرے، ہماری مدد کو آ، ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تو کیا کرے گا ہمیں عذاب دے کر؟ تو عذاب دے تو تیرے بندے ہیں تیرا حق ہے، تو معاف کر دے تو یہی بادشاہوں کی شان ہے، تو تو ہر چیز کا مالک ہے جو چاہے کرے تجھ سے کس نے پوچھنا ہے، تو ہمارے سارے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے۔
اے اللہ ایسا خوف دے جو نفس کو پاک کر دے، ایسی محبت دے جو سینہ چاک کر دے، اور ایسی معرفت دے جو خاک کر دے۔
ہم بارگاہ عشق میں مقبول یوں ہوئے
خود سے بچھڑ گئے تیری قربت کے شوق میں
اے اللہ ان پر بھی رحم کر جنہوں نے چھوڑ دیا، دھتکار دیا کہ وہ حق پر ہیں، ہمیں ایسے لوگوں سے ملوا جو گناہ گاروں کو بھی گائیڈ کرتے ہیں جنہیں گمنامی مرغوب ہو، عاجزی مطوب ہو اور خامشی محبوب ہو۔
اے اللہ جو ہمیں اچھا سمجھے انہیں خوش گمانی کا اجر دے، اے اللہ جو ہماری عزت کرے اس کی غلط فہمی پر پر درگزر کر، جو برا کہے اسے سچ بولنے کا صلہ دے، جو حقیر سمجھے اسے عزت دے، جو دھتکار دے اس کے درجے بلند کر۔
اللہ سائیں، کل عمر کی جمع پونجی یہ آہ ہے اس کا واسطہ ضائع نہ کیجیو۔
اللہ تو نے دل دیا کہ مان سکیں، عقل دی کہ تجھے پہچان سکیں، زبان دی کی تیری حمد و ثنا کر سکیں، اے اللہ یہ آنکھ بھی کسی دھندے سے لگا دے، تیری قدرت کے شاہکار بکھرے پڑے ہیں، ذرہ میں سورج اور قطرے میں دریا کو سمونے والے رب، اس زرگی کی بھی لاج رکھ لے۔
اے اللہ سائیں، غیر آباد دل سے بھی برا دل ہے کہ ‘غیر’ آباد ہیں, تو مدد کر، اے اللہ سائیں ایسا پگھلا ہوا دل دے جو تیرے قرب کے سارے سانچوں میں ڈھل سکے، اے اللہ میری پیاس، میری پیاس – بادل بانجھ ہوگئے، دریا سوکھ گئے، پانی میں تشنگی ہے میں کہاں جاؤں۔
اللہ منزل بیوقوفوں کو ملتی ہے، عشق والے تو ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں۔ سیرابی تھکے ہوؤں کا واہمہ ہے، پیاس چلتے رہنے والوں کی نشانی ہے۔
اے اللہ کافروں کی تنہائی مسلمان ہے کہ جن پر ایمان لائے وہی کیا، مسلمانوں کی تنہائی کافر ہے۔
اے اللہ میں خاموش مزاروں کا دیا ہوں، تیرے لیے تو کوئی اچھوت نہیں، توچھو کے ہیرا کردے، مجھےفنا والی زندگی اور بقا والی موت دے، تو تو مجھ سے پیار کرتا ہے، کیا تو میرا رب نہیں؟
اگر آپکو اس جیسی اور تحریریں اور مضامین پڑھنے ہوں تو اس لنک سے آپ میری کتابیں آرڈر کر سکتے ہیں