جمشید کو اس سے بہت پیار تھا. سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، چوبیس گھنٹے صرف اس کے نام کی مالا جپنا، اسی کو یاد کرنا، اسی کے ذکر سے محظوظ ہونا ، حتیٰ کہ کوئی اور اسکا ذکر کرے تو بھی بجاۓ رقابت کے اسکا شکر گزار ہوجاۓ کہ مدح سرائی میں کوئی تو ہمنوا ہو. مگر آج کل کی دنیا میں سچی محبّت اور کھرا انسان پنپتا ہی کب ہے، خاندانی، نسلی ، زبانی اور ذات پات کا تعصب، اوپر سے فرقوں کی چنگاری، اسکی محبّت کا گھر جلانے کو کافی تھی. اسکی شادی کہیں اور ہو گئی
جمشیدنے بھی زندگی گزارنی تھی سو اس نے بھی شادی کرلی . آج سولہ سال بعد گھر کی صفائی کے دوران ایک بوسیدہ سا ڈبّا ہاتھ لگا، کانپتے ہاتھوں سے جمشید نے اسے کھول تو لیا مگر وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں ، گلاب کے شکستہ مرجھاۓ ہوئے پھول اور درجنوں خطوط. وہ ہاتھ میں اپنی محبّت کی تصویر لئے سوچ رہا ہے کہ کیا گزشتہ سولہ سال انہی یادوں میں گزر گئے؟ باہر سے بیگم کی آواز آئی جو شام کی چائے کا عندیہ دے رہی تھی، جمشید نے جلدی سے ڈبّا بند کیا اور “جی آیا ” کا نعرہ مارتے ہوئے باہر لپکا.
ساحر کی ہاؤس جاب لیاقت نیشنل ہسپتال میں لگی، نیا نیا ڈاکٹر بنا تھا ، اسکی زندگی کا محور اسکی پڑھائی ، آگے بڑھنے کی لگن ، امریکا جانے کا شوق ، پیسہ کمانے کی دھن اور کچھ کر دکھانے کا جنون تھا. اسے خبر ہی نہ ہوئی وہ کب ایک نووارد میڈیکل انٹرن کے نظروں اور دل کا محور بن گیا. لڑکی نے لاکھ جتن کئے، خوب لاڈ بھرے مگر ساحر کی توجہ نہ حاصل کر سکی. بطور احتجاج خودکشی کرکے ساحر کے وارڈ تک میں آگئی ، مگر پھر بھی ساحر کے لئے اسکی جگہ ایک مریض سے زیادہ نہ تھی. ہسپتال سے ڈسچارج کرتے ہوئے اس نے نہایت شکست خوردہ لہجے میں کہا . جاؤ ڈاکٹر ساحر ، اپنی دنیا بناؤ ، ذہانت و محنت کے کرشمے دکھاؤ ، مگر دل کا جو تالا ہے نہ ، یہ اب نہیں کھلے گا. اس زنگ آلود تالے کی چابی میں نے گھمادی ہے. بیس سال گزر گئے ، ساحر کی زندگی میں دولت ، شہرت ، مقام ، بیوی ، بچے سب ہیں مگر نجانے کیوں، کس لئے آج بھی دسمبر کی راتیں اس پر سخت گزرتی ہیں ، نجانے کیوں وہ تنہائی میں رو پڑتا ہے ، نجانے کیوں سب کچھ مل جانے کی اذیت کچھ نہ ملنے کی اذیت سے زیادہ ہے اور نجانے کیوں جب کوئی عشق کی بات کرے تو اسے اپنی آنکھیں چور لگتی ہیں.
فائق کو اپنی
sophistication
پہ ناز تھا ، اپنے جذبات پر کنٹرول تھا ، وہ ہر چیز١عتدل میں ہی رکھنا چاہتا تھا، محبّت بھی . وہ سیاست میں جا کر ایک بھرپور زندگی گزارنے کا خواھش مند تھا . اسکی پیاری سی بیوی ہر چند کوشش کرتی کہ اسکی توجہ حاصل کر سکے مگر فائق تو محبّت بھی ناپ تول کے دینے کا عادی تھا. محبّت میں شمار نہیں ہوتا، ریاضی کچھ کام نہیں آتی. بے چاری اپنی زندگی کی بازی ہار گئی. فائق آج اپنی جماعت کا ایک بھرپور کارکن ہے ، نوکری بھی کرتا ہے ، بچوں سے بھی محبّت ہے ، سب اچھا ہے ، مگر جسے عشق بد دعا دے دے اسکی زندگی کے رنگ بے معنی ہو جاتے ہیں، وہ محبت کے باغ میں دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت سے محروم بینچ پہ بیٹھا سوچتا ہی رہتا ہے کے بھلا یہاں لوگ کیوں آتے ہیں ؟
اور عبدللہ کا واقعہ تو سب سے الگ . لوگ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف جاتے ہیں ، یہ بیچارہ حقیقی سے مجازی کی طرف پلٹ آیا . اب بیچ میں کھڑا سوچتا رہتا ہے کہ کہاں جائے ؟ کہاں کا شہری ہے ؟ وہ سوچا کرتا کہ انا العبد سے گزرے بغیر انا الحق کی تشریح ممکن نہیں ، ذات کا کفر اسکے ہونے کی گواہی دیتا ہے . مگر اس “میں” کو مارے کون ؟
رات رحمت کی بھیک مانگتے گزر جاتی ہے کہ اے الله ، آج تیری کائنات میں میرے سے زیادہ رحمت کا مستحق کوئی نہیں تو دن شخصیت کے تضاد کی نظر ہوجاتا . جتنے گناہ ڈبل کلک اور آئی فون نے ایجاد کئے ہیں ، ہم سے پچھلوں نے تو صدیوں میں سوچے تک نہ ہونگے . اور سوچ کے گناہ تو اصل سے بد تر کہ انکا دورانیہ طویل اور اثر طویل تر ہوتا ہے. وہ سوچا کرتا کے خود سے اٹھوں تو خدا تک پہنچوں مگر ان دونوں کے بیچ میں جو آگ کا دریا ہے وہ کیسے عبور کیا جائے ؟ جو اپنا آپ لٹا کے اس کا ہو سکے تو کیا کہنے مگر جسکا اپنا آپ کہیں رہن رکھا ہوا ہو وہ اس غلامی سے کیوں کر نکلے ؟ آستینوں میں صنم پالنے والے عشق کا دعو ی کرتے اچھے نہیں لگتے . نفس و عشق کی کش مکش میں کھڑا تنہا عبدللہ روز عرضی لے کر اسکے دربار میں جاتا ہے کہ بس اب تو حد ہوگئی ، حسن کی حدّت اور عشق کی آگ کو تیری مے سے ٹھنڈا کرتا ہوں ، اب حسرتوں پہ عذاب نہ کر ، اب بخش دے میرے مالک ، اب پوچھنا مت کہ کہاں سے آرہے ہو ؟ جہاں ہار اٹل ہو وہاں جیت کا ڈنکا تیری رحمت کا منتظر ہے .
ان ادھوری کہانیوں کے دکھ کو اٹھاۓ یہ چاروں دوست ” مکمل” زندگی جی رہے ہیں.