جِھپّی اُس کی زندگی کی پہلی دوست تھی۔ پتہ نہیں دوست تھی یا اُس سے کچھ زیادہ یا کم۔ تین سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے ایسی باتوں کو سمجھنے کے لیے۔ چھوٹے سے شوکت کے لیے سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی یہ گڑیا ہی کُل کائنات تھی۔ خوشی ہو یا غم، کھیل ہو یا کام، اُداسی ہو یا شرارت ، انگنائی سے کوٹھا اور رسوائی سے زنان خانہ۔ پورے گھر میں شوکت اپنی جِھپّی کے ساتھ مٹر گشت کرتا رہتا۔ بچپن کی دوستی، جوانی کی محبت اور بڑھاپے کا غم بھلائے نہیں بھولتا۔ وقت گزرتا گیا اور جِھپّی زندگی کے عناصر میں سے ایک بن گئی. کچھ سال بیتے کہ شوکت کو جِھپّی سے اُلجھن ہونے لگی۔ وہ اس کے ساتھ بات کرتا تو اِسکول کا ہوم ورک رہ جاتا۔ رات جاگتا تو صبح لیٹ ہو جاتا، ایک دن اُستاد نے کام مکمل نہ کرنے پر مار لگائی تو شوکت نے گھر آ کر سارا غصہ جِھپّی پر نکال دیا۔ وہ بے زبان کیا بولتی ، بال نوچ ڈالے۔ ہاتھ پائوں توڑ دیئے۔ کپڑے پھاڑ دیئے اور اُٹھا کر کوڑہ دان میں پھینک دیا۔ گھر میں کسی نے سکھ کا سانس لیا تو کسی نے ہنسی میں اُڑا دیا مگر پتہ نہیں کیوں شوکت کی ماں کی آنکھ نم ہو گئی۔
اِس کے بعد تو شوکت کا یہ معمول ہی ہو گیا، نئی گڑیا لاتا، بناتا، سنوارتا، کھیلتا، پیار کرتا اور جس دن غصہ آتا توڑ تاڑ کے پھینک دیتا۔ اِس مشغلے میں اب تو اس نے گڑیوں کو نام دینا تک چھوڑ دیئے تھے۔
غریب کا حال اور امیر کے احوال کب کسی کو نظر آتے ہیں، کسی نے دھیان ہی نہ دیا اور شوکت بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی میں داخل ہو گیا۔
اس کے والدین ایک دن سچی مچی گڑیا اس کے لیے لے آئے۔ سنبل سے شادی نے شوکت کو جیسے اس کا دیوانہ بنا دیا۔ تھی بھی وہ گڑیا جیسی۔ گورا رنگ، سرمئی آنکھیں ، سرخ ہونٹ ، بھرے بھرے رخسار ، ہنسی ایسی کہ آبشار بہنے کا گھمان ہو اور سگُھڑ ایسی کہ خاندان گُن گائے۔ دس انگلیاں دس چراغ تھی وہ۔ شوکت اس کی آنکھوں کا محور اور مجازی خُدا، جسے خوش رکھنا شاید اس کی زندگی کا واحد مقصد اور شوکت اس کی آنکھوں کا حُسن اپنے چہرے پہ سجائے یونہی اِتراتا پھرتا۔
وقت کا دھارا چلتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں شوکت بے زار رہنے لگا۔ بات بات پہ جھگڑا اور تُو تُو میں میں۔ لشتم پشتم زندگی گزر ہی رہی تھی کہ ایک دن شوکت کو کاروبار میں نقصان ہو گیا جس کی وجہ سے ہمیشہ کی طرح سنبل ہی قرار پائی کہ وہ شوکت کو کہیں اور قرار لینے دیتی تو وہ دِل لگا کے کچھ کر سکتا نا۔
شوکت بپھرا ہوا گھر آیا، سنبل پر نظر پڑتے ہی اس کا دِل چاہا کہ بال نوچ ڈالے، ہاتھ پائوں توڑ کے کہیں پھینک دے۔ اُس نے اپنے جارحانہ قدم ابھی بڑھائے ہی تھے کہ سنبل ڈر کے دیوار سے جا لگی، یہ کہنا مشکل ہے کہ زبان ڈر سے چپ تھی یا صدمے سے۔ اِس سے پہلے کہ شوکت کچھ کرتا، شوکت کی ماں دونوں کے بیچ میں آہنی دِیوار بن کر کھڑی ہو گئی کہ شوکت کو جاتے ہی بنی۔
سنبل اس دن کے بعد گھر میں نہ رُکی ، حق تو یہ ہے کہ جِس نے مارنے کا قصد کر لیا اُس نے مار ہی دیا۔ جسمانی چوٹ کا کیا ہے لگی لگی نہ لگی، روح کے زخم کہاں رفو ہوتے ہیں۔
اِس بات کو چالیس سال گزر گئے، شوکت ہسپتال میں بستر مرگ پہ لیٹا ہے، پچھلی زندگی کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چل رہی ہے، اس نے سوچا کہ اے کاش، جَھپّی کو نہ توڑا ہوتا، زندگی نِکال کے زندہ رکھ چھوڑنے کا یہ کھیل نہ کھیلا ہوتا تو شاید آج زندگی مختلف ہوتی اور شاید کوئی گڑیا آج سرہانے ہوتی۔
شوکت کی آنکھ بند ہو گئی ، کبھی نہ کھلنے کے لیے۔