“تمہاری اوقات ہی کیا ہے، دو ٹکے کے آدمی۔ تم انتہائی گھٹیا اور کمینے شخص ہو۔ تمہاری ماں ۔۔۔ “
یہ آج صبح صبح ملنے والا فیس بُک کا پہلا میسج تھا۔ آدمی اگر آمنے سامنے ہو تو آج بھی کوئی شرم و حیاء کر لیتا ہے مگر فیس بک کے نادیدہ پردے نے تو وہ حجاب بھی غائب کر دیا۔ جب چاہو، جسے چاہو، جہاں چاہو، جیسے چاہو رگید دو اور پشیمانی تک نہ ہو۔ خواہ اپنے منہ میاں مٹھو کے مصداق اپنی تعریفوں کے پل باندھتے چلے جاو یا سامنے والے کی برائی۔ دونوں میں کوئی حد روا نہیں رکھنی۔
ہمارے ملک میں لوگوں کو گالی دینے تک کی ائکل نہیں۔ کوئی ذوق، کوئی وجہ، کوئی طعنہ، کچھ نہیں۔ جو منہ میں آیا بول دیا اور لشتم پشتم سیاست ہو گئی۔ بھائی کم از کم گالی ایسی تو دو جو پلٹ کر واپس نہ آسکے۔
گالی کسی کو اشتہاء دلانے کے لئے دی جاتی ہے۔ مرزا غالب کہتے تھے کہ بچوں کو ماں کی گالی، جوان کو بیوی اور بہن کی گالی اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے۔ اب مجھے جو ماں کی کالی دے رہے ہو تو کیا فرق پڑتا ہے، اللہ جنت نصیب کرے انہیں تو بچھڑے ہوئے ۱۳ سال ہو گئے۔
کمینہ اس شخص کو کہتے ہیں جس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ سکے۔
خبیث ایسا آدمی جو شیطانی صفات رکھتا ہو۔
بےوقوف، وقوف سے نکلا ہے جیسے کہ وقوف عرفہ۔ ایسا شخص جو ٹک کے کوئی کام نہ کر سکے۔ بدعقل وہ جو اپنی عقل کو برے کاموں میں استعمال کرے اور بےعقل وہ جس کے پاس کوئی زیادہ عقل ہو ہی نہ، بھولا آدمی۔
اب آپ کو کیا بتاوں، حیاء آتی ہے۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ گالی دینے والوں نے تو بہت ہی برا کام کیا اور ایسے لوگ تو ایسے ویسے ہوتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو گالیوں سے بچائے اور صحیح اردو اور ادب سکھائے۔ اب اتنا تو سیکھ لیں نا! کہ بدتمیزی اور بے ادبی، ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے کر سکیں۔
رہا سوال “دو ٹکے کا آدمی”، اس کا احوال اگلے مضمون میں بیان کروں گا۔