گناہ بھی اللہ تعالٰی کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہ گناہ نہ ہوں تو بندہ اوتار بن جائے اور اس کا دماغ آسمانوں پر پہنچ جائے۔ یہ گناہ ہی تو ہیں جو بندے کو بندہ قائم رکھتے ہیں اور اسے زمین پر بٹھا رکھتے ہیں۔
وہ نیکی جو ادّعا (دعویٰ) پیدا کرے، اس سے وہ گناہ بہتر ہیں جو توڑ دیں۔ گناہ بھی ایک تعلق ہی تو ہے اپنے رب سے، بندہ اسی کا تو گناہگار ہوتا ہے کسی اور کا تو نہیں۔ اسی کے پاس پھر روتا ہوا جاتا ہے اور معافی مانگتا ہے۔ اللہ کی جو معاف کرنے کی صفت ہے وہ لاگو کس پر ہوگی اگر گناہگار نہ رہیں۔ گناہوں سے نفرت ضرور کریں گناہگاروں سے نہ کریں۔ کون، کب کہاں کس حال میں ہے، کس حال سے گزرا، رب جانے اور رب کے بندے۔ آپ لوگوں کا احتساب کرنا چھوڑ دیں۔ جسے مالک ڈھیل دے رہا ہے آپ نہ پکڑیں۔ کسی میں جو کمی تقدیر کے باعث رہ جائے اس پر بات کرنا آدمی کو پکڑوا دیتا ہے۔ آپ صرف اپنے آپکو کسی سے برتر اس لئے سمجھتے ہیں کہ اس کے گناہ آپکے گناہوں سے مختلف ہیں؟ اس کے گناہ کے انداز و طور طریقے آپکے گناہ کرنے کے انداز و طور طریقوں سے مختلف ہیں؟ بڑی کم علمی اور بے حیائی کی بات ہے۔ کون ہے جو گناہوں سے بچ گیا اِلّا یہ کہ اللہ کی رحمت شاملِ حال ہو۔
ہم سب کا کوئی نہ کوئی پسندیدہ گناہ ضرور ہوتا ہے۔ سوچنا چاہئیے کہ وہ کیا ہے؟ ہمیں جب فرصت ملتی ہے جب نظر چونکتی ہے ہم اسی گناہ پر پلٹتے ہیں۔ جاہل آدمی کا گناہ بھی جاہل ہوتا ہے۔ شقی الّقلب کا شقی الّقلب اور پڑھے لکھے آدمی کا گناہ بھی عالم ہوتا ہے۔
کسی کےلئے شراب تو کسی کےلئے زناَ، کسی کے لئے شرک تو کسی کے لئے اپنے نفس کو خُدا بنا کے پوجنا، کسی کےلئے حسد تو کسی کےلئے کینہ، کسی کو کھوج کھوج کر دوسروں کی برائیاں تلاش کرنی تو کسی کو بار بار اپنی بڑائیوں اور نیکیوں کے تذکرے کرنے۔
آپ سے ایک بات کہوں؟ اس بات کا یقین ہو جانا کہ آپ نیک ہیں اور گناہگار نہیں ہیں۔ یقیناً ایک دن آپ کو گناہ میں ڈال دے گا۔
آج آپ بیٹھ کے سوچیں کہ آپ کا سب سے زیادہ فیورٹ (پسندیدہ) گناہ کون سا ہے؟ جو بار بار ہوتا ہے، جس سے آپ لطف اُٹھاتے ہیں، جسے کرتے تھکتے بھی نہیں ہیں۔ جو چھٹتا بھی نہیں ہے، جو رکتا بھی نہیں ہے۔ جو بس ہر بار ہو جاتا ہے اور پھر ہو جاتا ہے اور پھر۔۔۔
اس منحوس پہ کام کرنا، اس سے رک جانا، یقین جانئیے کہ شاید ہزار نیکیوں سے بہتر ہے۔ یہ بحری جہاز کا وہ لنگر ہے جو آپ کو آگے نہیں جانے دیتا۔ اسے پانی سے نکالیں۔ ویسے بھی رک جانے کی قوت کر گزرنے کی قوت سے ہزار درجے زیادہ ہے۔
گناہوں کا شوق اور رغبت بھی بڑی اچھی چیز ہے، جتنی چاھت و کشش زیادہ ہوگی اتنی ہی محنت روکنے میں لگے گی اور بندہ اتنا ہی ترقی کرے گا۔
یہ اوپلے ہیں، ان سے آگ لگا کر روح کو روشن کیا جاتا ہے۔
آئندہ کوئی میرے جیسا گناہگار ملے تو طنز نہ کریں۔ یہ ریس میں پیچھے رہ جانے والا وہ کھلاڑی ہے جسے چلنا بھول گیا ہے۔ اِس کو سہارا دیں، اِس کا ہاتھ پکریں اور اس کی چلنے میں مدد کریں۔
آج تک یہ بات سمجھ نہ آئی کہ آیا مطمئن دل کے ساتھ گزرنے والی تہجد کی راتیں بھلی ہیں یا مضطرب دل کے ساتھ نادم و پشیمان کی توبہ۔ وہ نیکیاں بھلی ہیں جو ریاکاری میں پوری ہو گئیں یا وہ گناہ جو اللہ کے ڈر سے ادھورے رہ گئے۔
گناہ تو آدمی لذت کے لئے کرتا ہے۔ جن گناہوں سے پہلے بھی اللہ کا خیال آئے، درمیان میں بھی آدمی اللہ سے ڈرتا رہے اور آخر میں بھی توبہ کرکے روتا ہی رہے تو بھاڑ میں جائیں ایسے بےلطف گناہ۔
اے اللہ! نیکی کوئی ہے نہیں، تو مجھے میرے بےربط و بےلطف اور ادھورے گناہوں کے صدقے بخش دے۔
آمین!
اگر آپکو اس جیسی اور تحریریں اور مضامین پڑھنے ہوں تو اس لنک سے آپ میری کتابیں آرڈر کر سکتے ہیں