امریکہ نے نئی کمپنیوں کے لیے ایک start up مقابلے کا انعقاد کیا؛ ملک بھر سے 400کمپنیوں نے مرحلہ وار پروگرام میں شرکت کی۔ عبداﷲ کی کمپنی بھی جیتتے جیتتے فائنل میں پہنچ گئی۔ آج شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں فائنل رزلٹ کی اناؤنسمنٹ تھی۔ عبداﷲ تیار ہوکرگیا۔ بلّو کو، بچوں کو، مفتی صاحب کو، کمپنی کے تمام لوگوں کو لے کر گیا۔
آج اُس کا دِل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا، پاکستا ن کے تمام چوٹی کے لوگ موجود تھے اسکی فیلڈ کے ۔تمام کمپنیاں اور عبداﷲ سوچ رہا تھا کہ اگر آج اُسے پہلا انعام مل جائے توکمال ہو جائے۔ اِس ملک میں لوگ اسکی ڈگریاں اس کے منہ پر مار کے نکال دیتے تھے اور کہتے تھے کہ عبداﷲ کاپڑھ جانا ایسے ہی ہے جیسے سورج مغرب سے نکلے۔ عبداﷲ مفتی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور دِل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ اے اﷲ، تُونے کہا (کُلَّ یَوْ مٍ ھُوَ فِی شَأْنٍ) مجھے بھی دکھا اپنی شان، آج نکال ہی دے سورج کو مغرب سے ۔
آج جِتا ہی دے، آج دکھا ہی دے، اپنی قدرت کا مظہر بنادے۔ اتنے میں پہلی پوزیشن کا اعلان ہوا اور عبداﷲ کی کمپنی اوّل آئی۔ عبداﷲ کے منہ سے صرف اتنا نکل سکا۔
’’کیا بات ہے میرے اﷲ۔‘‘جب وہ اسٹیج کی طرف جارہا تھا تو دل میں کہتا جارہا تھا۔ ملک کے تمام دانشور جو میری فیلڈ میں ہیں آج میرے پاؤ ں کے نیچے اور یہ ہے اﷲ کا فضل جو کسی وجہ کا محتاج نہیں ہے۔
عبداﷲ آج پھولا نہیں سما رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ آج سے روز ایک تسبیح اس جملے کی پڑھے گا۔ کیا بات ہے میرے اﷲ۔ تاکہ ربّ کا شکرادا ہو سکے۔ ٹی وی والوں، اخباروالوں اور فنکشن سے فراغت کے بعدعبد اﷲ گھر کو روانہ ہوا۔بلّواور عبدالرحمن کے ساتھ۔
مغرب کا وقت ہو چلا تھا اس نے گاڑی مسجد میں روکی‘ نماز ادا کی، شکرانے کے نفل پڑھے اور پھر چل پڑا۔تھوڑا سا آگے پہنچا تو روڈ بلاک تھا اور آگے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ عبداﷲ اور اس کا ڈرائیور گاڑی سے اتر کر پتھر اٹھانے لگے تو آس پاس سے چھ مسلح ڈاکوؤں نے گھیر لیا۔
انعام کی رقم، لیپ ٹاپ، بلّوکے زیور، بٹوہ، موبائل فونز سب ہی کچھ تو لے لیا۔ جب وہ جانے لگے تو عبداﷲ نے کہا۔ بھائی ! بات سنو! میرا سامان واپس کردو۔ تو وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے بکواس بندکرو۔ ہم سانس بعد میں لیتے ہیں گولی پہلے مارتے ہیں۔ عبداﷲ نے کہا، اﷲ پوچھے گا۔
اِس پر ایک ڈاکو بہت غصہ ہوا، کہنے لگا دھمکی دیتے ہو۔ عبداﷲ نے سوچا اور کہا کہ ہا ں غریب آدمی دھمکی تو دے ہی سکتا ہے۔
بس یہ سننا تھا کہ وہ سب عبداﷲپرپل پڑے، لاتیں، گھونسیں مشین گن کے بٹ، 3دانت توڑے، ایک پسلی اور چہرے پہ مارمار کے بھرتا بنا دیا۔، بِلّو کو بھی مار پڑی اور بیٹے کو بھی، اور عبداﷲ ٹوٹی ہوئی ٹرافی کے ساتھ گھر واپس۔
سب نے کہا پولیس کو فون کرو۔ کچھ کرو مگر عبداﷲ سیدھا کمرے میں گیا۔ دروازہ بند کیا۔خون رکنے کے بعد وضو کیا اور دو رکعت ” نماز دوستی” کی نیتّ کر کے کھڑا ہو گیا جا نماز پر۔ پتہ نہیں کیسی نماز پڑھی کہ قرآن کم اور آنسو زیادہ تھے، رکوع میں گیا تو جیسے اُٹھنا ہی بھول گیا ہو اور سجدے میں گیا تو جیسے جسم اُٹھ جانے کے باوجود دل سجدے میں ہی چھوڑ آیا ہو تمام عمر کے لیے۔
پتہ نہیں نماز تو گھر پہ پڑھ رہا تھا مگر سجدے کی ضرب کہاں لگ رہی تھی۔ اِتنی لمبی دو رکعتیں اس نے زندگی میں کبھی نہ پڑھی تھیں۔ غم بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہوتے ہیں کہ بندہ رجوع کرتا ہے۔
عبداﷲ نے دعا کو ہا تھ اُٹھائے، بِلّو بھی پیچھے آ کے جا نماز سے لگ کے بیٹھ گئی:۔
“اے میرے اﷲ! میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے۔
تو یقین کر لے میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے، کوئی بھی تو نہیں ہے۔ اے اﷲ تیری حمد بیان کرتا ہوں۔ یا اﷲ تیرا حق بنتا ہے کہ تیری عبادت کی جائے، میرے مالک تیرا حق بنتا ہے کہ تیری تعریف کی جائے۔ میرے ربّا تیرا حق بنتا ہے کہ تجھ سے دُعا کی جائے، جو کچھ بھی ہو ا بے شک میری گناہوں کی نحوست تھا۔ مجھ میں اور میرے گناہوں میں زمین و آسمان کا فاصلہ کر دے۔ مشرق و مغرب کا فاصلہ کر دے۔ دھودے میرے گناہ میرے اﷲ۔
میرے اﷲ، پیارے نبی ﷺ نے تیری قسم کھا کے کہا تھا کہ جو خرچ کرے گا تُو اس کا مال بڑھا دے گا اور جو معاف کرے گا تُو اِس کی عزّت بڑھا دے گا۔
اے اﷲ میں نے تجھے خوشی میں یاد رکھا تھا، تُو خوب جانتا ہے، تُو مجھے غم میں نہ بُھلانا ۔
تو یقین کیوں نہیں کرتا کہ میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے۔ اے اﷲ تیرے سِوا کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ کوئی مارنے والا بھی نہیں ہے۔ موت سے بندے کو صرف موت ہی تو بچاتی ہے۔
او، میرے اﷲ، میری سن، ساڈی وی سن لے میرے مالک، اے شہنشاہ یہ دو رکعت نفل ہے تیرے دربار میں تیرے بندے کی طرف سے، اے اﷲ، مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار بندہ تجھ سے رجوع کرتا ہے، اے اﷲ میری سُن۔ دیکھ یہ بِلّو بھی ساتھ بیٹھی ہے۔ اِسکی بالیاں نوچ لیں، کان سے خون بہہ رہا ہے۔ اے نِعْمَ الْمَا ھِدُوْن اﷲ، یا نِعْمَ الْمُجِیْبُوْن اﷲ، یا نِعْمَ الْقَادِرُوْن اﷲ ۔میری سن، میری سن، او ترس کھانے والے اﷲ۔ اے ااﷲ میں آج زیر وزبر ہو گیا، تیرے سامنے اپنے آپکو پیش کرتا ہوں۔ اے اﷲ حسد کی آنکھ لگ گئی، فضل کی آنکھ بھی لگا۔ اے ااﷲ میں اِقرار کر رہا ہوں کہ میں
گنا ہگار ہوں، اب تو معاف کر دے
یا ذُوالجلا ل والاکرام تکلیف پہنچی ہے
یا ذُوالجلا ل والاکرام دانت ٹوٹ گئے۔ یا ذُوالجلا ل والاکرام لاتوں سے مارا ہے۔
یا ذُوالجلا ل والاکرام خوشی نہ دیکھی گئی اِ س ملک سے میری۔ یا ذُوالجلا ل والاکرام عین خوشی کے وقت پہ مارا ہے۔ اے اﷲ تجھ سے مددما نگتا ہوں۔ نماز کے ذریعے اور دعا کے ذریعے۔اے بغیر موسم کے پھل دینے والے اﷲ میری سُن۔ کبھی بھی کسی ایسے بندے کو تنگ نہیں کرنا چاہیے جِس کا اﷲ کے سِوا کوئی نہ ہو۔ میرا تو تیرے سوا کوئی نہیں ہے، تُو تو جانتا ہے۔ میرے تو ماں باپ بھی مر گئے۔ دوست بھی کوئی نہیں۔ ہمراز بھی کوئی نہیں ،ہم پیالہ بھی کوئی نہیں۔ سمجھنے والا بھی کوئی نہیں۔ پکّایتیم ہوں میرے اﷲ ۔
اے اﷲ، پیارے نبی ﷺ نے فرمایا جب ظلم عام ہو جائے توبٹیرا گھونسلے میں مر جاتا ہے۔ اﷲ زمین پہ ظلم ہوتا ہے تو شاید اس کا دل دھڑکتا ہے اور زلزلے آ جاتے ہیں اور جب اِنسان اِنسانوں کے لیے نہیں روتا تو پہاڑ روتے ہیں اور سیلاب آجاتے ہیں۔
اے اﷲ تو پاک ہے۔ تیرے جیسا دنیا میں کوئی نہیں ہے تو سب کچھ ہے میں کچھ نہیں۔ اے اﷲ میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں بوسیلہ اِ س کے کہ تُو اﷲ ہے۔ اے اﷲ۔ اے میرے مالک میں چاہتا ہوں کہ تیری ایسی تعریف کروں جیسا کہ تُو خود ہے۔ جیسی کہ تیری سلطنت، جیسا کہ تیرا چہرہ، میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جِس سے میں تجھے استعارہ دے سکوں، بس جیسا تُو ہے ویسی ہی تیری تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ اے اﷲ شکر ادا کرنا بندگی کا ثبوت ہے میں تیرا ہی شکر ادا کرتا ہوں۔
اﷲ، تو چھوڑ یو نہیں ڈاکوؤں کو، یہ دنیا کیا کہے گی، میری دوستی کی لاج رکھ لے او لاج رکھنے والے۔ تُونے ہی تو کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنا خاص فضل کریں اِ ن بندوں پر جو ہماری زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ہم اِ نکو سربراہ بنائیں اور انہی کوزمین کا وارث بنائیں۔ میرے اﷲ دیکھ میں کمزور ہوں۔ اب تُو فضل کر۔
اﷲ تو چھوڑنا نہیں، تُو میرا بدلہ پورا لینا۔ آج جس نے بھی حسد کیا ہو اس سے بھی لینا۔ جس جس نے دکھ پہنچا یا ہو اس سے بھی لینا۔ جس نے مارا اس سے بھی لینا۔ جس نے مارنے دیا اس سے بھی لینا۔ جس نے نہ روکا اس سے بھی لینا۔ اِن ڈاکوؤں کو ضرور پکڑوا دینا۔ میرا کیمرہ مجھے بہت عزیز ہے وہ بھی واپس دلوا دینا۔ میرا سامان بھی میرے پیسے بھی۔
اﷲ تُو نے کہا ہے نا کہ ہر اِک کو ہم پہنچائے جاتے ہیں، اِن کو اور اِن کو تیرے ربّ کی بخشش میں سے اور تیرے ربّ کی بخشش کسی نے نہیں روک لی۔ اﷲ مجھے دے نادیکھ میں دونوں ہاتھ پھیلا کے، جھولی پھیلا کے مانگ رہا ہوں۔ تُو تومضطرِب کی سنتا ہے نا۔ تو میری بھی سن اور یقیناًتُو میری ضرور سنے گا۔ تو اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑنا۔ کاش میں اڑ سکتا تو آج غلافِ کعبہ پکڑ کے روتا۔ او میرے اﷲ، آج اکیلا نہ چھوڑ یو، آج دلوں پہ خوف طاری ہے، تیرے بندے ڈر گئے ہیں، لُٹ گئے ہیں، پِٹ گئے ہیں۔ افسردہ ہیں، غمگین ہیں۔اے ذُوالجلا ل والاکرام تجھے تیری اُس محبت کا واسطہ جو تُو مجھ سے کرتا ہے۔ آج نہ چھوڑ یو، آج میرے آنسو ضرور خشک کروانے آ۔ اے اﷲ آپ تو ضامن ہیں ہر چیز کے، تجھ سے ہی مانگنے آیا ہوں، آج تو نے مدد نہ کی تو دوستی کی لاج لٹ جائے گی میرے ربّ۔
تُو مجھے کن لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے میرے اﷲ۔
میری سن میرے مالک!
میری سن میرے رب!
میری سن میرے اﷲ
اوشہ رگ سے قریب اﷲ میری سُن!
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ کی کچھ طبیعت سنبھلی تو پولیس کو کال کر کے بلوایا۔ انھوں نے بڑا تعاون کیا۔ ایک ہی دن میں FIRبھی کٹ گئی۔ عبداﷲ نے خود ان کا بڑا ساتھ دیا اور سیل فون ڈیٹا کی مدد سے Fencing۔ Geo کر کے ڈاکوؤں کے ٹھکانے تک پہنچا دیا۔ 18روز میں ڈاکو پکڑے گئے سامان سارا واپس مل گیا، پیسے نہ ملنے تھے نہ مِلے۔ کورٹ میں پیشی، مقدمہ، جیل میں شناخت پریڈ اور عدالت کی بار بار کی پیشیوں سے عبداﷲ بے زار آ گیا۔
جج نے عبداﷲ کو اپناہی سامان واپسی لینے کے لیے مچلکے جمع کروانے کا کہہ دیا۔ عبداﷲ نے شور مچا یا تو انھوں نے شخصی ضمانت پہ سامان تو واپس کر دیا مگر اِن تمام چکروں اور جیلوں میں شناخت پر یڈ اور تھانوں کے چکّروں سے اسکی روح تک مجروح ہوتی گئی۔
وہ تمام لوگ جو بڑے بڑے دفاعی اِداروں میں تھے، جن کے لیے عبداﷲ دِن رات کام کرتا رہا۔ اُن میں سے کسی نے کوئی مددنہ کی، فون تک اُٹھانا چھوڑ دیااور عبداﷲ سوچتا رہ گیا کہ اگر وہ اس دن مر جاتا تو کوئی جنازے پر بھی نہ آتا۔
اس نے اپنی وصیّت لکھ ڈالی کے مروں تو گھر کے گارڈن میں دفن کر دینا، بیٹے سے کہا وہ نماز پڑھا دے اور نوکروں سے کہا وہ پیچھے پڑلیں تا کہ اِس ملک میں دفنانے تک کے لیے کسی سے احسان نہ لینا پڑے۔ جب دینا ہی ہے اور وہ بھی اﷲ کے لیے تو واپسی کی اُمید کیا رکھّے اور کیوں رکھّے؟
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ کو امریکہ کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی سے لیکچر کی دعوت آئی۔ وہ جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک غیر ہیں جو اپنے خرچے پر بلاتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر دیتے ہیں۔ عزّت بھی دیتے ہیں اور ایک اپنے، جہاں مفت میں پڑھانے بھی جاؤ تو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ یا تووہ بے و قوف ہوئے یا یہ۔ اُسے باہر جا کر ہمیشہ ایک خوشی کا احساس ہوتا کہ وہ نِت نئی چیزیں سیکھتا اور نئے نئے لوگوں سے ملتا۔ وہ ہمیشہ کہتا جو لوگ باہر جانا پسند نہیں کرتے، وہ ٹھیک نہیں سوچتے کہ آدمی سفر سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور کچھ غلطیاں آدمی کو کر بھی لینی چاہئیں۔ زندگی میں غلطی نہ کرنا بھی ایک غلطی ہی ہوتی ہے اور بے شک انِسان اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔
اسے یہاں کے لوگوں سے مل کے بھی حیرت ہوتی، ایک سے بڑا ایک پروفیسر مگر انتہائی تمیز سے بات کرتا ہے کوئی غرور و انا نہیں۔ ہمارے ملک میں بچیّPh.D نہیں کر پاتے کہ ایڈوائزر کو سال میں 4بارملنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ بے شک اﷲ جس قوم کو عاجز کرنا چاہیں اُس سے عاجز ی چھین لیتے ہیں۔
عبداﷲ کو یہاں لہلہاتے درخت اور کثیر تعداد میں پودے اور پھول بھی بہت پسند تھے۔ وہ سو چا کر تا تھا کہ کائنات میں ذکر کا ایک Equilibrium بنا ہوا ہے۔ جس زمین پر ذکر کرنے والے زیادہ نہیں ہوتے وہاں پودے، پھول، جانور زیادہ ہوتے ہیں اور پہاڑ بھی تو ہیں۔ یہ سب اپنی زہانوں میں اﷲ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور جِس زمین میں ایسے لوگ زیادہ ہوتے ہیں وہاں شاید اول الذکر چیز یں کم ہو جاتی ہیں۔ ایک Threshold ہے جس کا سِوائے اﷲ کے کسی کو نہیں پتہ۔ کبھی سیلاب پودوں مویشیوں کو کھا جاتا ہے تو کبھی زلزلہ لوگوں کو نگل لیتا ہے، الغرضEquilibrium برابر رہتا ہے۔ ذکر کرتے رہنا چاہیے۔ ذکر کرنے والوں کے صدقے رزق مِلتا ہے اور دِل کرے بھی کیا گر ذکر نہ کرے؟
اُسے یہاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے جوڑے بھی بہت بھاتے۔ وہ سوچا کرتا کہ محبت اور جنس کی سرحد یں آپس میں ملتی ہیں۔ وہ امریکہ کی رنگار نگی دیکھ کے سوچا کر تاکہ دنیا 3 سِسٹمز ڈھونڈ رہی ہے۔ حکومت کا، معاشیات کا، اور اِخلاقیات کا۔
ایک اِدارہ ایسا بنا نا چاہیے جو انسان بنائے، انسان سازی پر کام کرے۔
کیاہی عجب بات ہے کہ ملک میں ہر چیز کا اِدارہ موجود ہو مگر اِنسان کیسے بننا ہے اُس کا نہ کوئی اِدارہ، نہ کوئی کتاب اور اب تو استاد بھی تھوڑ ے رہ گئے جو شاذو نادر ہی بر ستے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اُمت میں نماز سکھانے کا کورس کوئی نہیں کراتا، دعا مانگنا کوئی نہیں سکھاتا، کوئی ٹریننگ اِنسان بنانے کی نہیں ہوتی۔ ہر ٹریننگ ’’میں‘‘ میں اِضافہ کرتی ہے، اِسے ختم نہیں کرتی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ میں نماز پڑھتے ہوئے خود کش حملے میں مرنے کا خوف نہیں ہوتا، اِسلام آباد میں دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کیاہی بد نصیب شہر ہے جِسے اپنے نام تک کا پاس نہیں رہا۔ ہمارے لوگ ایسے اکل کُھرے نکلے کہ یہ تک نہیں سوچتے کہ ایمان و کُفر کی بنیا د عقیدے پہ رکھنی ہے فِرقے پر نہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو آزاد پیدا کیا ہے مگر یہاں ہر کوئی اپنا قیدی بنانا چاہتا ہے، کوئی معاشی تو کوئی عقلی، کوئی دلی تو کوئی نفسی، کوئی اعتقاد میں تو کوئی ایمان میں۔ بڑے کہتے تھے کہ مرید کی خواہش رکھنا کہ فلاں آدمی اثرورسوخ والا میرے حلقے میں آئے، طریقت کا شِرک ہے۔ اور شیخ کو مرید بنانے سے ایسا ڈرنا چاہیے جیسا درندے کو دیکھ کے انسان ڈرتا ہے۔
عبداﷲ سوچنے پہ آیا تو سوچتا ہی چلا گیا۔ یہ دماغ بھی جِسم کا مال روڈ ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم کی کار بھی یہاں سے گزرتی ہے اور میو نسپلٹی کاکچرے کا ٹرک بھی۔ وہ سوچنے لگا کہ انسانیت کے حقوق کا پرچار کرنے والے ملک میں کوئی اِدارہ ایسا بھی ہے جو انِسانیت کے فرائض پر بھی بات کرے۔ اﷲ کے کیا حقوق ہیں وہ بھی بتائے۔
وہ سوچنے لگا کہ ہماری نفرتوں نے ہمیں غیر سے تعلیم لینے سے روک رکھا ہے۔ آخر قدرت کاکُلیّہ یہی ہے کہ جو محنت کرے گا وہ پھل پائے گا۔ دِل کی نفرتیں آدمی کو بچھو بنا دیتی ہیں اور نفرت کا ذہن ہدایت کو قبول نہیں کرتا ۔
وہ سوچنے لگا کہ امریکہ بھی کتنا بد نصیب ہے، ہرملک اِس سے کھاتا ہے اور گالیا ں بھی اسے ہی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جو لوگ اپنے ملکوں کو چھوڑ کے یہاں آ بسے ہیں۔ یہاں سے کماکرکھا رہے ہیں وہ بھی اِ سی سے بغض رکھتے ہیں۔
وہ سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میں بندے بنتے ہیں، یہاں اِدارے بنتے ہیں۔
اور ایساپیسوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے ہمارے ملکوں میں۔ اور جو دولت ہمارے حکمران لوٹ کر اپنی اولادوں کو کھلا دیتے ہیں ان سے سب سے پہلے اُن کا اِخلاق تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ جتنا فساد مسلمان متکبر مچاتا ہے اتنا کا فر عبادت گزار نہیں مچاتا۔ وہ سوچنے لگا کہ ہم بحیثیت قوم بہت سے گنا ہ کرتے ہیں اور پھر بد دعاؤں کے کوٹے میں سے اپنی اپنی اُجرت بھی لے لیتے ہیں۔
عبداﷲ اِس آزاد ماحول میں بہت خوش تھا جہاں کم از کم بولنے اور سوچنے کی تو آزادی تھی۔ جہاں ایک غریب آدمی سکون سے اپنی زندگی گزارنا چاہے تو گزار تو سکتا تھا۔ جہاں انصاف تو ملتا تھا۔ اور عمر کا کوئی بھی حِصّہ ہو اگر بندہ ٹھان لے تو شیطان میں کبھی بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے راہ سے ہٹا سکے اِلاّ ماشاء اﷲ۔عبداﷲ آج بہت خوش تھا، وہ سو چ رہا تھا کہ دعاؤں کو لکھ لینا چاہیے تا کہ پتہ لگتا رہے کتنی قبول ہو رہی ہیں۔ عبداﷲ اپنے پرانے خطوط نکال کے پڑھتا تو اُسے ہنسی آتی کہ وہ کن چیزوں پہ روتا رہا ہے اور کیا کیا مانگتا رہا ہے اپنے ربّ سے ۔
اِنسان کی یاداشت اپنے بارے میں بڑی کمزور ہوتی ہے ،لکھنا بڑا کام دیتا ہے۔
اور شاید قبر میں بھی ایسا ہو کہ اِ نسان زندگی بھرکی خواہشوں اور رونے کو دیکھے اور اِس کو یہ سب گُڈے گڑیا کی خواہش ہی لگیں۔
دو دِن کو اے جوانی دے دے ادھار بچپن
عبداﷲ وطن واپس پہنچا تو سینٹر اِسکا لر شپ نے اسے اِنٹر ویوز لینے کے لیے بلایا۔ اُسے بڑی خوشی ہوئی اور اس نے حتی الامکان کو ششیں کی کہ بہترین طالب علموں کو چنا جائے۔ ابھی یہاں سے فراغت ہوئی تھی کہ ایک یونیورسٹی نے لیکچر کی دعوت دی جو عبدااﷲ نے بخوشی قبول کر لی۔ عبداﷲ سوچا کرتاکہ وہ فوجی جو جنگ کے دن غیر حاضر ہو جائے اُسے گولی مار دینی چاہیے بالکل اِسی طرح جِسے خدانے علم دِیا اور وہ لوگوں تک نہ پہنچائے اسے بھی گولی مار دینی چاہیے۔
عبداﷲ کو جب کبھی کسی نے Mentor بننے کی درخواست کی وہ انہیں امین بھائی یا احمد بھائی کے پاس بھیج دیتا اور خود منع کر دیتا، وہ کہتا Mentor کے لیے شرط ہے کہ اسکی نظروں میں عزت و ذلت، اور مال کا ہونا یا نہ ہونا سب برابر ہو جائے ،تب اﷲ کی حکمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ورنہ ایسا آدمی کسی کو راہِ راست پر گائیڈ کیسے کرے گا جو خوشا مد پر بِک جائے گا یا عزت پر ۔عبداﷲ خود تو اِس قابل تھا نہیں امین بھائی اور احمد بھائی بڑے لوگ تھے انہی کے پاس بھیج دیا کرتا تھا۔
خیر عبداﷲ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ ٹاپک تھا ’’پاکستان‘‘
حاضرینِ کرام میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں اِسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اِسلام خو د مقبوض ہو کے رہ گیا ہے۔
یہ ایک ایساملک ہے جہاں40 ہزار لوگ خود کش حملوں میں ہلاک وزخمی ہو ئے ہیں، لگ بھگ 5ہزار ڈرونز کینذر ہوگئے، جہاں 12 ہزار بند ے سال میں بھوک سے مر جاتے ہیں، جہاں نماز پڑھنے جائیں تو چپلیں بھی باندھ کے رکھنی پڑتی ہیں۔ جہاں کے 40 فی صدAdults سگریٹ پیتے ہیں، جہاں سال کے 42 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، جہاں ہر 28 میں سے ایک بچہ اپنی پہلے سالگرہ سے پہلے مر جاتا ہے، جو دنیا میں ٹی بی والے ملکوں میں چھٹے نمبر پر ہے ۔
جہاں 5 سال سے کم عمر 30 فی صد بچے خوراک کی کمی کا شِکار ہیں، جہاں 30 لاکھ آدمیوں کو ہر سالhepatitis B اور Cہو جاتا ہے، جہاں 93% لوگوں کے دانت خراب ہیں (اور یہ اُس نبی ﷺکی اُمتّ ہے جو دن میں 9 بار دانت صاف کرتے تھے)، ایسا ملک جہاں 61% بچے بغیر کسی ٹرینڈاِسٹاف کے پیدا ہوتے ہیں، جسکا نمبر کرپشن میں پچھلے سال تک پہلے نمبر پر تھا، جہاں قبائلی علاقوں میں شرحِ خواندگی 7% ہے، جہاں اِسکو لوں کوبموں سے اڑا دیا جاتا ہو، جہاں جرائم 18% سالانہ کی اوسط سے بڑھ رہے ہوں، جہاں 2700 لوگوں کو سالانہ اغواء کر لیا جاتا ہو اور جہاں کے صرف ایک شہر کراچی میں روزانہ کے 15قتل ہوتے ہوں، ایک ایسا ملک جہاں 13ہزار بندے سالانہ قتل ہوتے ہوں، 12 ہزار خودکشی کر لیتے ہوں، 5ہزار بچے نالیوں سے ملتے ہوں، اور 1500سے زنا ہو جاتا ہو۔
میں آپ سب کو اس ملک میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی ہیں۔ ہم ٹھیک نہیں ہوتے، ہم ٹھیک نہیں کرتے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ اِس یونیورسٹی میں بیٹھنے کے سبب آپ کتنے خوش نصیب ہیں؟
پاکستان میں پڑھا لکھا اسے کہتے ہیں جو اپنا نام لکھ سکتا ہو اور وہ بھی صرف 55%یعنی قریباً80ملین لوگ ایسے ہیں جو اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے ۔
پرائمری تک پہنچنے والے 13.07 فی صد
مڈل کلاس تک 8.26فی صد
میٹرک تک7.66فی صد
انٹرمیڈیٹ تک 3.39 فی صد
بیچلرز تک0.3 فی صد
ماسٹر ز تک 0.124 فی صد
ایم فل تک 0.009 فی صد
اور
PHD تک 0.00048 فی صد
اور پھر یہ معدودے چند اِن یونیورسٹی میں لیکچر ز دیتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں اور AC لگا کے سو جاتے ہیں۔
سورؤ نساء میں آیا ہے کہ اﷲ کے فرشتے وقت نزع پوچھیں، کس حال میں رہے ہو تو کیا جواب دیں گے ؟ اُس ملک سے آ رہے ہیں جہاں یہ سب کچھ ہوتا تھا۔ جہاں حلال کے راستے مسدود تھے۔ جہاں زنا عام تھا، جہاں شراب بکتی تھی۔ تو وہ فرشتے کہیں گے کہ کچھ کیا کیوں نہیں؟ بندہ کہے گا ملک تو کسی اور کا تھا ہم تو کمزور بنا دئیے گئے تھے تو وہ کہیں گے کہ اﷲ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کر جاتے ؟
ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔ ہمیں تبدیل کرنا ہے اپنے آپکو، اپنے گھر خاندان کو اپنے معاشرے اور شہر کو اور اپنے ملک کو۔ ورنہ کہیں اور چلے جائیں تا کہ کم از کم اِس آیت کا جواب تو نہ دینا پڑے ۔
عبداﷲ نے سوچ لیا تھا کہ کام باہر کرے گا، پیسہ وہاں سے کمائے گا اور ٹیم پاکستان میں Develop کرے گا۔ نہ یہاں پیسے کا لین دین کرے گا نہ ہی جان کا جلاپا ہو گا۔ ہاں کسی نے پڑھانے کے لیے بلایا تو جا کے پڑھا آئے گا بھلے مفت میں ہی کیوں نہ پڑھانا پڑے۔
آج عبداﷲ ایک کام کے سلسلے میں کہیں گیا ہوا تھا۔ ایک جگہ اِنتظار کرنا پڑا تو وہ سامنے چائے کے ریستوران میں بیٹھ گیا۔ اب مفتی صاحب کا بتایا ہوا ذکر اسکی سانس میں چلتا تھا اور اسے کافی پریکٹس ہو گئی تھی۔ یاد دِہانی کو وہ عموماََہاتھ میں ایک تسبیح بھی پہن لیتا تھاکہVisual Reminder رہے۔ گناہ سے پہلے نظر پڑے تورک جائے کہ جس کی یاد میں کچھ لمحے بیتے ہیں اس سے کچھ حیا کرو اور نافرمانی نہ کرو۔
چائے کے ریستوران کے سامنے ایک رنگریزدوپٹے رنگ رہا تھا، اس نے سفید، جو گیا، نیل گوں، کتھئی اور پتہ نہیں کون کون سے رنگ کے دو پٹے رنگ دیئے اور عبداﷲ ٹکٹکی باندھے بس اُسے ہی دیکھتا رہا۔
وہ سوچنے لگا کہ زندگی میں بھی طرح طرح کے رنگ چڑھتے ہیں، کبھی جوانی کا تو کبھی وِژن کا، کبھی پیسوں کا تو کبھی گھر کا، کبھی بیوی کا تو کبھی بچوں کا،
کبھی گناہ کا تو کبھی نیکیوں کا۔ کبھی انکار تو کبھی اقرار کا، کبھی توبہ کا تو کبھی ضدکا۔
اور ایک رنگ اﷲکا بھی تو ہے۔ صِبغتہ اﷲ ، وہ جن پہ چڑھتا ہوگا وہ کیسے ہو نگے؟
پہلی شرط تو دوپٹے کا سفیدہونا ہے۔ کپڑے کا بُنا جانا ہے۔ رنگ تو بعد میں چڑھے گا۔ اپنے آپکو آدمی باطنی برائیوں سے پاک نہیں کرے گا تو رنگ کیو نکر چڑھے۔ اور کوئی اور رنگ چڑھا ہوا ہو تو بھی کیسے چڑھے۔
اِسلام ایک مزاج کا نام ہے ایک رنگ ہے جو شخصیت کا پور ا پورا احاطہ کر لیتا ہے۔ اِسلام بہت حسّاس ہے۔ کسی اور رنگ کو برداشت ہی نہیں کرتا۔ صاف صاف بتا دیتا ہے یہ کرو یہ نہ کرو، یہ حلال یہ حرام، یہ جائز یہ ناجائز،یہ عبادت یہ شرک۔
اور جن پہ اِسلام کا رنگ چڑھ جائے انھیں نماز کی لت لگ جاتی ہے، قرآن کا سرور چڑھ جاتا ہے، دعاؤں کی عادت پڑجاتی ہے۔ رونے کی بیماری لگ جاتی ہے اور پھر وہ اگر کسی کو چھولیں تو اسے بھی لال کرکے چھوڑتے ہیں اور کچھ کو تو مرتے دم ہی پتہ لگتا ہے کہ وہ رنگے جاچکے ہیں۔ لال کو کب پتہ ہوتا ہے کہ وہ لال ہے۔
عبداﷲ کی آنکھ سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، وہ اٹھا رنگریز کے پاس گیا اسے بہت سارے پیسے دیئے اور اسے حیرت زدہ چھوڑکے چلا آیا۔
آج عبداﷲ پھر مانگ رہا تھا:۔
“اے اﷲ، او رنگریز اﷲ ، مجھے رنگ دے، مجھے رنگ دے، مرے مالک، مجھے رنگ دے، اﷲ مجھے اپنے رنگ کا ٹھپّا لگا دے، اے اﷲ، مجھے آزاد کر اِس دنیا سے کہ میں تیری قدرت دیکھوں۔ اپنے آپ سے کہ میں تجھے پہچانوں۔ یہ دنیا ایک بڑا پنجرہ ہے۔سونے کا ہی سہی، ہے تو پنجرہ۔ میں کھل کے اُڑبھی نہیں سکتا۔ میرے تخلیق کا دم گھٹتا ہے۔ تونے ہی تو کہا ہے کہ اور جو لوگ ہمارے لیئے کوشش کریں گے تو ہم انھیں اپنے راستوں کی رہنمائی ضرور کریں گے۔ اور اﷲ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
اے اﷲ! مجھے مل جا، مجھے لکھ دے، مجھے رنگ دے۔
*۔۔۔*۔۔۔*