عبداﷲ کی TDL پر اگلا ہدف اﷲ کا ذکر تھا۔ اﷲ کے ذکر کو محورِ زندگی بنانا تھا اورباقی تمام چیزیں اس کے گرد لپیٹنی تھیں۔
عبداﷲ نے اپنا تمام تر فوکس اپنی نئی کمپنی کی جانب مرکوز کر دیا۔ بزنس پلان، مارکیٹنگ ٹیم کی استعداد اور جو کا م ملے وہ پوری دیانتداری اور مگن سے کرنا۔ جوں جو ں کام بڑھتا گیا۔ عبداﷲ کو ملک کے نئے نئے رنگ نظر آتے چلے گئے۔ ہر روز کوئی مسئلہ، ہرروز کوئی جھوٹ، کینہ پروری، حسد اور نجانے کیا کیا۔ عبداﷲ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان سے خائف رہنے لگا، وہ راتوں کو اٹھ کر رورو کے ملک کے لئے دعائیں کر تا اور دن بھر وہی لوگ اسے ذہنی اذیت دیتے جن کے لیے اس نے رات دعا کی تھی۔ ہمارے ملک میں لوگ پنج وقتہ حاسد ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے مرنے سے زیادہ لوگوں کے جینے کاغم ہوتا ہے، شراب اور سگریٹ پینے کی طرح ظلم کرنا بھی ایک عادت ہے۔ دھیرے دھیرے اگر ایک بار یہ پختہ ہو جائے توپھر چھٹتی نہیں۔ یہاں تک کہ بندہ ظلم کرتے کرتے مر جاتا ہے۔ عادی ظالموں کے اِس ملک میں ہر شخص ایک بار صرف ایک بار یہ سوچ لے کہ ایک دن مرنا ہے۔ اور اس دن ساری عادتوں کا جواب دینا پڑے گا تو شاید کبھی اپنے گریبان میں جھانکیں اور پوچھیں کہ کیا کر رہے ہیں۔
کبھی اپنے دل کے اندر جو دیکھتے تو رکتے
تیرے کاخِ بے مکیں کا یہ طواف کرنے والے
ہم اپنے بچوں کو فخر کی غذا دیتے ہیں، رعونت سکھاتے ہیں،محنت نہیں، ادب نہیں، قدرتِ خیرات نہیں دیتی، مگر محنت کرنے والوں کا ساتھ ضرور دیتی ہے۔ ویسے تو اللہ کی مرضی ہے جب چاہے جسے چاہے دے دے۔ اس کا کسی سے لگا تھوڑا ہی ہے مگر کلیہ یہی بنتا ہے۔
ہمارے ملک میں لوگ ترقی سے اور ترقی کرنے والے سے حسد رکھتے ہیں۔ دشمنی پال لیتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح بس اسے زوال آجائے۔ حالانکہ اس کا سیدھا حل ہے ،حسد انفارمیشن پہ پلتا ہے۔ اسے اگر انفارمیشن نہ ملے تو یہ بھوکا مر جائے۔ اگر آپکو حسد کنٹرول کرنا ہے تو کچھ دنوں کے لیے سوائے اپنے سب لوگوں کی فکر اور ٹوہ میں رہنا چھوڑ دیں۔ حسد بے چارہ بھوک سے مر جائے گا۔
حسد ہوتا بھی اپنی ہی فیلڈ کے لوگوں سے ہے۔ اب بھلا کمپیوٹر سائنٹسٹ کورنگریز سے حسد کیوں ہونے لگا۔ انسان کو چاہئے کہ جن لوگوں سے حسد کرتا ہے ان کے لیے نماز میں دعا مانگا کرے کہ اللہ انہیں اور دے۔ اس سے بھی حسد جاتا رہتا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبد اللہ بہت پر جوش تھا۔ وہ صوبائی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ملنے لاہور جا رہا تھا اپنے سافٹ وئیر کی Presentation کے لئے۔ میٹنگ کے بعد وہ اعلیٰ عہدیدار مخاطب ہوئے۔عبداللہ آپ کا کام بہت شاندار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ملک و قوم کے کام آئیں۔جی میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ آپ بتائیے کب سے کام شروع کریں۔ عبداللہ نے کہا۔
مگر میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ عہدیدار صاحب گویا ہوئے۔ وہ یہ کہ کام فی سبیل اللہ کرنا ہو گا۔پیسے کوئی نہیں ملیں گے۔ حب الوطنی کا جذبہ یہی تقاضا کرتا ہے۔
عبد اللہ نے بات سنی اور ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ جناب میں اپنا ہوم ورک کرکے آتا ہوں، الل ٹپ کوئی بات نہیں کرتا۔ آپکے پاس 40 کروڑ کا بجٹ ہے اس ادارے کے لیے، 22 بندے آپکے پرسنل سٹاف میں ہیں، ایک گھر اور 2 گاڑیاں اور اچھی خاصی تنخواہ۔ اسی سافٹ ویئر کے لئے آپ کینیڈین کمپنی کو 3 ملین ڈالر سالانہ دینے کو تیار ہیں مگر جب بات آئی اپنے لوگوں کی ،ملکی استعداد کی تو ،آپ بن گئے عبد الستار ایدھی۔ اور اگر آپ ایدھی ہوتے تو میں مفت میں کام کر لیتا۔ جناب والا حبّ الوطنی اور غلامی میں فرق ہے۔ میں غلام نہیں آزاد آدمی ہوں۔
عہدیدار صاحب سے آج تک کسی نے اس لہجے میں بات نہ کی تھی وہ سیخ پا ہو گئے۔ کہنے لگے اگر آپ نے لالچ کا مظاہرہ کرنا ہے اور پیسے ہی کمانے ہیں تو دفع ہو جائیے اس ملک سے، یہ اللہ کے نام پہ بنا ہے اور اللہ ہی ا س کا نگہبان ہے۔
یہ میرا ملک ہے، (عبد اللہ گرجا)حب الوطنی میرے خون میں ہے، میں کیوں کسی کو ثابت کروں کہ میں کتناحب الوطن ہوں۔ میں ادھر ہی ہوں۔ کیونکہ آپ بوڑھے ہیں۔ کچھ سالوں میں ریٹائر ہو جائیں گے پھر کچھ سالوں میں مر جائیں گے۔ میں انتظار کروں گا اس دن کا تاکہ ملک اس ڈگر پہ چل سکے جہاں چلنا چاہئے اور تب تک میں وہ نسل تیار کروں گا جو آپ کی انا کو چیلنج کرتی رہے۔
عبد اللہ کی بات پوری ہوئی اور مغلّظات کا اک طو فان جناب والا کی زبان سے جاری ہوا اور عبد اللہ کو دھکے دے کر نکال دیا گیا۔
عبد اللہ گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلا گیا۔ بلّونے بڑا دلاسا دیا اور کہا کوئی بات نہیں، آئندہ ایسا نہیں ہو گا، تمھیں زیادہ نہیں بولنا چاہیئے تھا۔
مگر بِّلوانہیں تو گالی دینے تک کا ذوق نہیں تھا۔ کمینہ اس شخص کو کہتے ہیں جس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ سکے۔ خبیث اسے کہتے ہیں جس میں شیطانی صفات ہوں۔ گالی کسی کو اشتہادلِانے کے لیے دی جاتی ہے میں تو محظوظ ہوتا رہا۔ مرزا غالب کہتے ہیں بچے کو ماں کی گالی،جو ان کو بیوی کی اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دینی چاہئے۔
اتنی اردو تو آتی نہیں جناب والا کو پتہ نہیں اتنے بڑے افسر کیونکر بنے۔ نہ کوئی سمجھ، نہ ذوق، نہ اٹکل، نہ طنز، نہ استعارہ بس لشتم پشتم آفیسِر ی ہو گئی۔ بالکل ہی اکل کھرے تھے وہ۔
بِلّوہمیشہ کی طرح ہنس کے خاموش ہو گئی۔
اُوپرتلے ایسے بہت سے واقعات ہوتے چلے گئے۔ کبھی کسی نے کام کرواکے پیسے نہ دیئے تو کبھی بلاوجہ contract کینسل کر دیا، کبھی contract کو اپنے کسی رشتہ دار کو جاب دینے سے مشروط کر دیا تو کبھی بیٹی یا بیوی کے لئے لیپ ٹاپ کی فرمائش کر دی۔ اور سب سے زیادہ دکھ جب کوئی سیکورٹی رسک قرار دے کہ عبد اللہ امریکہ سے پڑھا ہے۔
عبداللہ ایک دن بِلّوسے کہنے لگا کہ باضمیر شخص کو مارنے کے لیے گولی کی ضرورت تھوڑا ہی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں وہ روز مرتا ہے، اور با ضمیر وہ ہوتا ہے جسکی آنکھ دل بن جائے اور دل آنکھ۔ نہ ہی وقت کوئی زخم بھرتا ہے، نہ ہی کوئی اذیت بھلائی جاتی ہے، ہاں اگر کسی کی یا داشت کمزور پڑ جائے تو اور بات ہے۔ بِلّوتو دیکھنا یہ سب لوگ ایک دن آئیں گے میرا سافٹ وئیر خریدنے۔ اللہ مظلومیت کے نشانات کو باقی رکھتا ہے۔ آج تک ظہر و عصر میں قرآن کی تلاوت آہستہ آواز میں ہوتی ہے۔ آج تک صفا و مروہ کے بیچ میں لوگ بھاگتے ہیں۔ ان لوگوں کو میرا صبر پڑ جائے گا۔
ملکی حالات و معاملات سے دلبرداشتہ ہوکر عبد اللہ نے انٹرنیشنل consulting شروع کر دی۔ آئیڈیا یہ تھا کہ سال میں تین ماہ باہر کام کرے گا اوسطاََ اور باقی نو ماہ ملک میں جو چاہے کرے۔ باہرپیسہ اچھا ملتا ہے تو تین ماہ میں پورے سال کا بندوبست ہو جائے گا۔ آج عبد اللہ اپنے پہلے بڑے contract پہ کام کرنے لتھونیا روانہ ہوا۔Vilnius بڑا خوبصورت شہر ہے۔ عبد اللہ نے گیسٹ ہاؤس میں سامان رکھا اور باہر گروسری اسٹور سے کھانے کا سامان خریدنے چلا گیا۔ کچھ فروٹ، موبائل کی سم، پانی وغیرہ لے کے جب cash counterپہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کی کریڈٹ کارڈ کی مشین خراب ہے۔عبد اللہ نے یورو نکال کے دئیے تو معلوم ہوا کہ لیتھونیا یورپین یونین میں تو ہے مگر یورو یہاں نہیں چلتے۔ اب عبد اللہ بڑا پریشان ایک آدھا فروٹ وہ کھا چکا تھا۔ سم موبائل میں ڈال چکا تھا اور پانی کی بوتل بھی کھول چکا تھا۔ اسے پریشان دیکھ کے ایک اور لتھونین شخص آیا۔ اسے انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ اس نے پیسے ادا کیے اور عبد اللہ کو ہاتھ پکڑ کے باہر لے گیا۔ اشاروں سے پوچھا کچھ اور چاہئے، عبد اللہ نے کاغذ پہ STARBUCKS لکھ دیا اور وہ کافی ہاؤس پہنچ گئے، پھر اس نے اسے گیسٹ ہاؤس چھوڑ دیا۔ پیسے کوئی نہیں لیئے۔ عبد اللہ نے گیسٹ ہاؤس کی مالکہ سے کہا کہ اسے فون کرکے پوچھے کہ کیا ہوا ہے لتھونین زبان میں۔
مالکن نے پوچھا تو اس شخص نے جواب دیا۔
آج زندگی میں پہلی بار کسی داڑھی والے اور مسلمان سے ملا۔ پاکستانی بھی پہلی بار ملا۔ میں نے سوچا ملک میں پہلی بار آیا ہے کیا تاثر لے کے جائے گا تو کچھ مہمان نوازی کر دی۔ گھر جا کے بچوں کو بتایا وہ کل اسکول میں بتائیں گے، میں کل آفس میں یہ قصہ سناؤں گا، بیوی محلے والوں کو بتائے گی تو سوسائٹی میں خیر پھیلے گی۔ اور یہ جب اپنے ملک واپس جائے گا تو ہمارے ملک کی تعریف کرے گا۔ یہاں اور سیاح آئیں گے۔
آج عبد اللہ کو معلوم ہوا کہ انسان کسے کہتے ہیں۔ وہ عرصے سے انسان ڈھونڈ رہا تھا۔ اسے ہمیشہ شکوہ رہتا ہے کہ انسان نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا سیکھ لیا۔ مچھلی کی طرح دریا میں تیرنا سیکھ لیا، مگر اسے انسانوں کی طرح زمین پہ چلنا نہیں آیا۔
ایک ایسا انسان جس سے کسی کو دکھ نہ پہنچے، جو نفع بخش ہو، نفع خور نہیں۔ جو درخت کی طرح کم لے اور زیادہ دے، اسے بھی چھاؤں دے جو اسے کاٹنے آئے۔ وہ ہیرا ہو جو سب کو چمک دے اسے بھی جو اسے پتھر کہیں۔
وہ انسان جسے انسانیت کا غم ہو، جو اوروں کے لیے روئے، جو مرکب ہو ہمت اور محبت کا۔ جسکو مکمل قابو ہو نفس، غصے اور عقل پر۔ جسکو زندگی نہ بھگائے بلکہ زندگی کی کما نیں جسکے ہاتھ میں ہوں۔
عبد اللہ کو یہاں کا معاشرہ بہت پسند آیا۔ ہر گھر میں گھوڑا رکھنے کا رواج اور ہر شخص نشانہ بازی سیکھنے کا شوقین۔
عبداللہ شہر کی کتابوں کی دکان پر گیا۔اور قرآن طلب کیا، کیا ہی خوبصورت قرآن پاک تھا۔ لتھونین ترجمے کے ساتھ50 پاؤنڈز کا۔ عبد اللہ نے پوچھا اتنا مہنگا کیوں تو دکاندار نے بتایا کہ جب مارکیٹ میں آیا تو 2 پاؤنڈکا تھا، طلب بڑھ گئی تو پبلشر نے50 کا کر دیا ہے۔ اب کوئی نہیں لیتا۔
عبداللہ کو اپنا وجود زمیں میں گڑھتا ہوا محسوس ہوا۔ اگلے دن عبد اللہ شہر کے مشہور میوزیم میں گیا تو شو کیس میں ٹوپی، قرآن، جائے نماز اور تسبیح اور وضو کا لوٹا دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جب vilnius پر کچھ سو سال پہلے حملہ ہوا تو انہوں نے عرب فوجوں کو یہاں بلایا تھا دفاع کے لئے یہ انکی باقیات ہیں۔ عبداللہ کو جستجو ہوئی کہ وہ لوگ آئیں ہونگے تو رہے ہونگے، شادیاں کی ہونگی، آخر ڈھونڈتے ڈھانڈتے وہ ایک قریبی شہر پہنچ گیا جو ان عرب مجاہدوں کی ذرّیات میں سے تھا، وہاں لوگوں کو اسلام تک کا پتہ نہیں تھا۔ ایک بوڑھی عورت کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کے عبد اللہ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو کہنے لگی کہ جب دعا مانگنی ہوتی ہے تو اس پر لِلّٰہ ( lillah) پڑھتی ہوں۔ یہ لفظ کیا ہے وہ اسے معلوم نہ تھا۔
عبداللہ کو اپنے آپ پر بڑا غصہ آیا کہ ایک خدائی ہے جو دین سننے کے لئے بے تاب ہے مگر ہم انھیں کافر کہتے نہیں تھکتے۔ اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجنئیر بنا دینگے مگر عالم نہیں جو یہاں آ کر ان کی زبان میں انکو اللہ کا پیغام پہنچا سکے۔
مسلمان گیس اسٹیشن کھول لے گا، ریسٹورنٹ چلائے گا، گاڑیاں دھو لے گا، و یٹربن جائے گا مگر اپنے بچوں کو اچھا عالم نہیں بنائے گا۔
مدرسوں میں زکوٰۃ کا پیسہ دیتے ہیں اور اب تو زکوٰۃ بھی حلال مال کی نہیں رہی۔ زکوٰۃ میل ہوتی ہے وہ بھی حرام کا۔ سینکڑوں بچے کسمپرسی میں پل بڑھ کے،جُھوٹا کھا کے بھی اگر قرآن حفظ کر جائیں تو سلام ہے ان کی عظمت کو۔
اور ہم پڑھے لکھے، پیسے والے سوائے بغض وعناد کے مولوی سے کچھ نہیں رکھتے۔کیوں نہ ایک اسکول/ مدرسہ بنایا جائے جہاں پوری کھیپ تیار ہو ایسے بچوں کی جن کا کام ہی دنیا کے ملکوں میں جا کے وہاں دین کا کام پھیلانا ہو۔ ان کی اپنی زبان میں۔
مغرب کے پاس سب کچھ ہے سوائے ایمان کے۔ اگر مشرق یہ نعمت ان تک پہنچا دے تو کیا کہنے۔ مغرب ایک ایسا بچہ ہے جو بنا ماں باپ کے ہی بڑا ہو گیا ہے۔ اسلام وہ تمیز وہ مزاج، وہ رنگ ہے جو اسے بہترین بنا دے۔ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آج بھی اتنی جان باقی ہے کہ وہ ایک نئی امت تشکیل دے سکے۔
عبد اللہ کی سوچ کا دھارا کہیں اور ہی چل نکلا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبد اللہ نے لتھونیا میں اپنا کام بہترین طور پر مکمل کیا کہ وہ لوگ بھی ایک پاکستانی کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے اور پھر عبد اللہ لتھونیا سے Estonia, Latvia, Poland اور Finland کی سیاحت پہ نکل گیا۔
Latvia اور Estonia کی سرحد پر اس کا قیام ایک مدرسے نما ہوٹل میں ہوا جس کے نچلے دو فلور ہوٹل تھے اور اوپر کے دو یہودیوں کے اسکول کے۔ ہوٹل سے ہو نیوالی کمائی سے اسکول چلتا تھا۔ عبدا للہ کو یہ آئیڈیا بڑا پسند آیا۔
عبد اللہ نے اس سفر میں بہت کچھ سیکھا، خوب پیسہ کمایا اور خوب سیاحت کی۔ واپسی میں تُرکی بھی رُکا اور دوہفتوں میں تُرکی ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھوم لیا ۔
عبد اللہ سوچ رہا تھا کہ اگر زیادہ نہیں صرف 10مسلمان مِل جائیں تو وہ لتھونیا جیسے ملک کو، 10سال میں مسلمان کرسکتے ہیں اور یورپ میں دین کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں۔ عبد اللہ نے آس پاس نظر دوڑائی مگر مسلمان ہیں کہاں؟
جنھیں خودذکرِ الٰہی پہ یقین نہ ہو، کلمۂ حق پہ اعتبار نہ ہو، اللہ کے رب ہونے پر یقین نہ ہو، نمازوں کی اہمیت بھول گئی ہو، دعا کی طاقت سے ناآ شناہوں، درد کی لذت سے ناواقف ہوں، رت جگوں کی عادت نہ رہی ہو، وہ کس کو اور کیسے ایمان کی دعوت دیں گے۔
آج عبد اللہ کو شدت سے اہلِ دل کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم آلات و مصنوعات کے مُو جد نہ بنا سکے، المیہ تو یہ ہے کہ ہم نیک اِرادوں کے ‘خالص نیت کے، اعلیٰ مقاصد کے اور اخلاص کے مُوجدبھی نہ بنا سکے۔
آج عبد اللہ پھر اپنی حالت پہ رورہا تھاکہ زندگی عبث کاموں میں ضائع کردی۔ کاش اتنا وقت اپنے آپ پر لگایا ہوتا تو ملکوں پہ بھاری ہوتا۔ جتنی ترقی اِنسان کے اِردگرد موجود ماحول نے کی ہے اتنی ہی اگر اِنسان خود کر جاتا تو کیا بات تھی اور عبد اللہ خود بھی تو آلات بنانے کا ایک پُرزہ ہی تو تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدا للہ کی گنگناہٹ کو ساتھ بیٹھے مسافر نے توڑا وہ ایمسٹرڈم سے پاکستان جا رہے تھے اورپاکستانی ہی تھے۔ کہنے لگے۔ مسٹر آپ نے داڑھی رکھی ہے۔ آپ پیدائشی مسلمان ہیں۔ اصل مزہ تو جب ہے جب آپ کھلے دل سے غیر مسلم ہو جائیں۔ ادیان اسلام کا مطالعہ کریں پھر سوچ سمجھ کے عقل کے مطابق کوئی دین کا انتخاب کریں۔ یہ جو اسلام آپ نے لیا ہواہے یہ تو تلواروں کے زور پہ آیا تھا۔ عبد اللہ نے عقل کی شوخیاں پہلے ہی دیکھ رکھی تھیں مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ کہاں ہے وہ تلوار، وہ لا دیں مجھے، میں اس کا منہ چوم لوں۔ اسی کے زور سے یہ بندہ مسلمان تو ہوا جہنم کی آگ سے تو بچا۔ ان صاحب سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو خاموش ہو رہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج جمعہ کا دن تھا۔ عبد اللہ کو بچوں کے اسکول جانا تھا کسی کام سے ۔اس نے سوچانماز وہیں قریب کی مسجد میں پڑھ لوں گا۔ اب شامت یہ آئی کہ عبد اللہ نے youtube کی t-shirt پہن رکھی تھی جو وہ اپنے سابقہ دورۂ امریکہ میں بڑے شوق سے خرید کر لایا تھا اور آج مولوی صاحب کا بیان youtube کے ہی خلاف تھا۔ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جو ویڈیو وہاں اپ لوڈ کی گئی تھی پورے عالمِ اسلام میں ایک آگ برپا تھی۔
مولوی صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو کہا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ دلیلیں مانگتے ہیں بحث کرتے ہیں۔ جس نے قرآن میں بحث کی یا دلیل مانگی وہ کافر۔ سب لوگ ہاتھ اٹھائیں اور کہیں کہ وہ کافر۔ عبد اللہ نے ہاتھ اٹھانا تھا نہ اٹھایا۔ چپ چاپ نماز پڑھی اور فرض کے بعد نکل آیا۔
اسے بار بار سورۃ فرقان کی 73 ویں آیت یاد آرہی تھی۔
” اور وہ کہ جب انکو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)۔”
عبد اللہ سوچنے لگا کہ کچھ لوگوں کو دین کا ہیضہ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد وہ پورے معاشرے کے لیے وبال بن جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ولی اللہ ہونے کی غلط فہمی ہو جاتی ہے اور وہ اسی غلط فہمی میں دو چار لوگوں کو مرید بنا لیتے ہیں اور پھر ان تمام لوگوں میں ایک میں بچ جاتا ہوں، سیاہ کار اور سوچ کاکافر۔
سلمان رُشدی کو Satanic Verses لکھے ہوئے 26 سال ہو گئے مگر 44 اسلامی ملکوں سے کوئی اس کا جواب اسکی زبان میں نہ لکھ سکا۔ ڈنمارک کے خلاف مظاہرے ہوئے تو بینرز پہ ڈنمارک کے اسپیلنگ تک غلطلکھے تھے۔ اسرائیل کو لعن طعن میں سب سے آگے مگر اس کے میزائل ڈیفنس سسٹم Iron dome کی الف ب بھی نہیں پتہ۔
دنیا اسباب کی دنیا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ تیراکی نہ سیکھیں اور سمندر میں کود پڑیں۔ ہم اسلام کو ہر اس جگہ استعمال کرتے ہیں جہاں کام نہ کرنا پڑے۔
اللہ کے نام پر تقریریں کرنا سب چاہتے ہیں۔ ہجوم کے دلوں کو گرمانے کا منکہ سب کے پاس ہے، لوگوں کو جنت و جہنم کے حقدار ثابت کرتے رہیں گے، اور صبح و شام فتویٰ بھی لگاتے رہیں گے۔ مگر اتنی شرم نہیں آتی کہ جس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نام بیچ میں لاتے ہیں اسی کی کوئی لاج رکھ لیں۔ بے شک اللہ کا نام بڑا ہے، ہر عیب سے پاک ہے، برکت والا ہے۔
مگر اللہ کے نام پہ کوئی کمپیوٹر سائنس نہیں پڑھتا انگریزی ہی پڑھ لو، فرنچ سیکھ لو، کتابیں ہی پڑھ ڈالو۔ ارے بھئی دعامانگنا ہی سیکھ لو۔ اگر دعا مانگنا ہی آ جائے تو آپ کسی دور جنگل میں بیٹھ جائیں ایک پگڈنڈی خود بخود چلتی ہوئی آپ کے گھر تک پہنچ جائے گی اور ایک مخلوق کا تانتا بندھ جائے گا۔ مگر مِن حیث القوم جب سب گزارہ کرنے لگ جائیں تو صلاحیتوں کوسستی کی دیمک تو چاٹ ہی لے گی نا۔ ہوا کرتے تھے ایسے لوگ جو گزارہ نہیں کرتے تھے وہ حوالہ بن جاتے تھے۔ آج کل مسلمان تو حاشیوں میں بھی نہیں ملتے۔
عبد اللہ نے دکھی دل کے ساتھ آج پھر ہاتھ اُٹھائے۔
” اے اللہ میری مثال ایسے اندھے کی سی ہے جو بیچ چوک پہ کھڑا ہو جائے کہیں جانے کے لیے ۔اب جوکوئی بھی اس کی منزل کی طرف آواز لگائے یہ اس کے پیچھے چل پڑتاہے۔ آگے جا کہ پتہ لگتا ہے کہ یہ تو کھوٹی راہ ہے۔ پھر واپس آتا ہے، پھر چوراہے پہ کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر کسی اور کے پیچھے چل پڑتا ہے۔اے میرے اللہ تو مجھے کن لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ ساری بے راہ رویاں، یہ ساری دربدری تیرے ہی ٹھکانے کے لیے ہے۔ تیری ہی جستجو ہے۔ میں جب راہ سے ہٹا تیرے لیے۔ جب راہ پہ آیا تیرے لیے۔تو تو جانتا ہے۔ مجھے معاف کر دے، مجھے اپنا لے، مجھے واپس نہ کر، میرے سارے راستے اپنی ہی جانب موڑ دے۔ تو تو بے نیاز ہے اس سے کہ منزل میں مقید ہو۔ اے میرے حاضرو ناضر اللہ مجھے مل جا۔
– آج عبد اللہ پھر مفتی صاحب کے پاس بیٹھا تھا،
– مفتی صاحب، قیامت کا ISO standard کیا ہے ؟
ایمان۔ جو شخص ایمان سلامت لے کے آ گیا اس کا بیڑہ پار ہے۔
– اور زندگی کی TDL کیا ہونی چاہئے؟
ہر کام سنت کے مطابق ہو، زندگی خود بخود ٹھیک ہوتی چلی جاتی ہے۔
– نفس کو قابو میں کیسے کریں؟
ضرورت ہی کیا ہے۔ جب نفس برائی کا کہے تو نہ کرو۔ نیکی سے روکے تو کر لو۔ اتنی سی بات ہے۔ نفس کی کُشتی زندگی بھر چلتی ہے، اس کا بس چلے تو آدمی کو فرعون بنا کے چھوڑے۔ کبھی کبھی نفس ضد پہ آ جاتا ہے برائی کی، پھر عمر بھر مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔
– اللہ کے پاس پہنچنے کا شارٹ کٹ کیا ہے؟
پہلا پاؤں نفس کی گردن پہ دوسرا اللہ کے صحن میں
یہ جو لوگ جادو ٹونے کی کاٹ کے لیے اُلٹے سیدھے عاملوں کے پاس جاتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟
اللہ پاک کے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں بتائی ہیں وہ مانگیں اور پھر بھی اگر افاقہ نہ ہو تو بھلے مر جائے یہ اچھا ہے مگر عامل کے پاس نہ جائے۔
ہمت کیا ہے؟
ہمت کنویں کا پانی ہے جو اندر سے نکلتا ہے، باہر سے فائر بریگیڈ نہیں ڈالتی۔
انسان دو ہی چیزوں کا تو نام ہے ہمت اور محبت۔ اللہ کی توفیق منتظر رہتی ہے اس بات کی کہ بندہ ہمت کرے۔ آدمی ہمت کرتا ہے تو اللہ توفیق دے دیتا ہے اور مدد بھی کرتا ہے۔
حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ اللہ پسند کرتا ہے بڑے کاموں کو اور خدا کو بری لگتی ہے سستی ان بڑے کاموں میں۔
اور ہمت اور شوق کے پَربرابر ہونے چاہئیں ورنہ اُڑا نہیں جا سکتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*