عبد اللہ کی مصروفیات روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ کمپنی کا کام، انٹرنیشنل consulting اسائنمنٹس اور کتابوں کا مطالعہ جو اس کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ کمپنی میں ملازموں کی تعداد بڑھ کے 21 ہو چکی تھی اور عبد اللہ کو ششیں کرکے انہیں بہترین پروگرامر بنانے میں لگا ہوا تھا۔ تمام لوگوں کو وہ امین بھائی اور احمد بھائی کی ٹریننگز میں بھی بھیج چکا تھا۔اسے ذاتی طور پر جو فائدہ یا نقصان ہوا وہ اپنی جگہ، اسے ان دونوں کے اخلاص پہ کوئی شک نہیں تھا اور ویسے بھی جو articulation وہ سکھاتے ہیں وہ آگے چل کے بڑے کام آتی ہے۔ مثلاً عبد اللہ کو اپنے اندر موجود ’’میں ‘‘کا پتہ اسی وژن کی Articulation کے بعد لگا۔ کچھ بنیادی باتوں میں اختلاف کے علاوہ جو کچھ بھی وہ پڑھا رہے تھے۔ بنفسہٖ تو اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ عبداللہ کی سوچ اپنے آپ سے شروع ہوتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ پہلے خود وہ اس قابل ہو جائے کہ لوگوں کو نصیحت کر سکے اور وہ اپنے آپکو اس مقام سے ہزاروںِ میل دور پاتا تھا۔
ہمارے ملک میں اختلاف اور ادب جمع نہیں ہوتے۔ جب کسی سے محبت ہوتی ہے یا کسی کے معتقد ہوتے ہیں تو اسے نبوت سے بس ایک آدھ انچ ہی نیچے لے جا کے چھوڑتے ہیں اور کسی سے اختلاف ہو جائے تو کافر بنا کے بھی چین نہیں آتا۔
ان تمام مصروفیات کے باوجود عبد اللہ نے اپنے ذکر پہ توجہ رکھی ہوئی تھی۔ کلمے کا جو ذکر مفتی صاحب نے تجویز کیا تھا وہ، تھوڑی بہت قرآن شریف کی تلاوت، مُّلا علی قاری کی حزب الاعظم اور بہت ساری دعائیں اس کا روز کا معمول تھا۔ خصوصاً تہجد کے وقت، فجر کے بعد اور عصر کے بعد کے اوقات و ہ فون تک نہ اٹھاتا تھا۔ وہ سجدے میں دیر تک پڑادعائیں مانگتا رہتا۔ عبداللہ کو مسنون دعائیں بہت پسند تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ ان دعاؤں نے قبولیت کے راستے دیکھے ہوتے ہیں۔ بندے کے دو ہی تو کام ہوتے ہیں: علم حاصل کرنا اور اللہ کی یاد ۔
عمرگزری ہے تیری یاد کا نشہ کرتے
اب تیرا ذکر نہ چھیڑیں تو بدن ٹوٹتا ہے
آج رات عبداللہ نے پھر دعا مانگی۔
” اے ا للہ تو مکمل ہے، تیری ذات، تیری صفات، تیری قدرت، تیرا رحم، تیرا کرم، تیری عطا، تیرا فضل، تیری قدرت، تیری جنت، تیری محبت، تیری بادشاہت، تیرا عروج، تو مکمل ہے۔ میرے اللہ ایک چیزجو نامکمل رہ گئی ہے وہ ہے تیرا اور میرا تعلق۔ تیری طرف سے کرم کی عنایات۔ مجھ سے شکر ہی ادا نہیں ہو پاتا، تیرا فضل میرے گناہ، تیرا رحم میری سرکشی، تیری محبت میری لاپرواہی، یہ تعلق ون سائیڈ ڈ لگتاہے۔ میرے اللہ اسے بھی مکمل کر دے کہ میں بندگی کا حق ادا کر سکوں۔ میری تجھ سے جو بھی ٹوٹی پھوٹی محبت کا جھوٹا سچا دعو یٰ ہے۔ اسے مکمل کر دے میرے ربّا۔ او ربّ، او سننے والے، او کمزوروں پہ اپنا خاص فضل کرنے والے، مجھے تکمیل دے، مجھے ادھورا نہ چھوڑیو، مجھے کامل کر دے!
آمین!
*۔۔۔*۔۔۔*
عبد اللہ نے پارٹ ٹائم ایک یونیورسٹی میں جاب کر لی تھی اور ہفتے دو ہفتے میں کچھ لیکچرز دے آتا تھا، اس طرح اسے طالب علموں سے بات کرنے کا موقع مل جاتا تھااور جو کچھ وہ سیکھ رہا تھا اسے شیئر کرکے اسے بھی دلی خوشی محسوس ہوتی ۔ آج لیکچر سے واپسی پر مین روٖ ڈپر اسے 3 مولوی حضرات نظر آئے جنہوں نے اپنا سامان اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ انھوں نے گاڑی کولفٹ کا اشارہ دیا اور عبد اللہ نے گاڑی روک لی۔ تینوں حضرات سلام و شکریہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ تعارف کے بعد عبداللہ نے منزل پوچھی تو وہ بھی اسی جگہ کے پاس جا رہے تھے جہاں عبداللہ کو جانا تھا۔ سفر لمبا تھا، بات شروع ہوئی۔ مسافر صاحب گویا ہوئے، ہم سب لوگ اللہ کی راہ میں نکلے ہیں تبلیغ کے لیے، زادِ راہ پنڈی پہنچ کے ختم ہو گیا تو اب مری کے لیے پیدل نکلے ہیں، آپ کی بڑی گاڑی دیکھی تو لفٹ مانگ لی۔
جی، مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں نیک لوگوں کے کچھ کام آ سکا۔ عبداللہ نے کہا۔ مسافر صاحب نے بات جاری رکھی، جناب !’’اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین پکا ہونا چاہئے۔‘‘
عبد اللہ اس جملے سے بہت دیر تکمحظوظ ہوتا رہا۔ وہ صاحب آگے بھی بہت کچھ بولتے رہے مگر عبداللہ تو ابھی اسی جملے میں گُم تھا۔ کیا بات کی ہے، یہ جملہ تو توحید کی جان ہے۔عبد اللہ نے دل میں سوچا۔ عبد اللہ سوچنے لگا کہ روٹی کی طرح علم بھی رزق ہے جو پہنچ کے رہتا ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ کس طرح رزق دینا ہے، بالکل اِسی طرح جیسے اسے پتہ ہے کہ کس طرح پیدا کرنا ہے۔
عبد اللہ پھر مسافر کی طرف متوجہ ہوا۔ حضرت آپ لوگوں نے کچھ کھانا کھایا ہے۔ جی بس صبح سویرے ناشتہ کیا تھا۔ مسافر نے جواب دیا۔
عبد اللہ نے تھوڑی ہی دیر میں گاڑی ایک اچھے سے ہوٹل کے سامنے روک دی، سب کو اندر لے کر گیا اور پوچھا آپ کیا کھائیں گے۔
جی بس ایک دال اور دو روٹی، ہم تینوں کو کافی ہو جائے گا۔
مگر حضرت یہاں مرغ مسلم، بریانی، باربی کیو سب موجود ہے۔ کولڈ ڈرنکس بھی اور میٹھا بھی۔ نہیں جناب دنیا تو بس گزارہ ہے، آخرت میں کھائیں گے۔
ارے حضرت ! جو اﷲ آخرت میں کھلائے گا وہ یہاں بھی کھلا رہا ہے، کیوں کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ عبدا للہ نے ایک اچھا خاصا آردڑ لکھوا دیا۔
کھانے کے دوران مسافر صاحب پھر گویا ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے وقت دیا، لفٹ دی اور اب کھانا بھی کھلا رہے ہیں، آپ تو ولی اللہ ہوئے۔
عبد اللہ کو یہ بات اتنی بری لگی کہ اسکی آنکھ سے آنسو نکل پڑے۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ جس ملک کی حالت یہ ہو اس میں شاید میرے جیسے ہی لوگوں کو ولی اللہ کہتے ہوں گے۔عبداللہنے بات جاری رکھی، مولانا صاحب آپ کو ایک کہانی سناؤں۔ جی ضرور۔
ایک جنگل میں سب ہی جانور تھے سوائے گدھے کے۔ ایک دن ایک گدھا کہیں سے نکل آیا، سب جانور اسکے اردگرد اکٹھے ہو گئے کہ اس کا تو جثیّٰ الگ ہے۔ آواز بھی بڑی منفرد ہے۔ اب گدھے نے جو اپنی اتنی آؤ بھگت دیکھی تو وہ بڑا اترایا، جب اس سے پوچھا گیا تو کون ہے تو اس نے کہا کہ وہ ’’انسان‘‘ہے۔ اب رو زجنگل میں اسکی خاطر مدارت ہونے لگی، لومڑی اور شیر مشورے کرنے لگے۔ کئی سال گزر گئے اور اہلِ جنگل کا اتفاق ہو گیا کہ یہ گدھا ہی انسان ہے۔
اب کچھ سالوں بعد وہاں ایک اصل انسان آ نکلتا ہے، پھر گھیراؤ ہوتا ہے۔ اب جب انسان دعویٰ کرتا ہے تو اہلِ جنگل گدھے کو آگے کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں انسان تو ایسے ہوتے ہیں۔ جرگہ بیٹھتا ہے اور فیصلہ سنا یا جاتا ہے کہ گدھا ہی اصل میں انسان ہے اور انسان جھوٹ بول رہا ہے۔ اب یا تو وہ جھوٹ کا اقرار کرکے معافی مانگے یا سزائے موت۔
بالآخر انسان بے چارہ یہ کہتے کہتے مر جاتا ہے کہ یہ انسان نہیں گدھا ہے۔
اس کا مسئلہ بہت آسان تھا، جس نے ایک بار انسان دیکھ لیا ہو وہ کسی اور شے کو انسان مان نہیں سکتا۔ہمارے ملک سے انسان ختم ہو گئے، ولی اللہ تو دور کی بات ہے۔ لہٰذا جب بھی میرے جیسے گدھے نظر آتے ہیں لوگ انسان کے نعرے مارنے لگتے ہیں۔ یہ میں کوئی کسرِ نفسی سے کام نہیں لے رہا، اصل واقعہ یہی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مسافر حضرات کچھ سمجھ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہنسنے لگے، پھر مخاطب ہوئے کہ آپ اچھے آدمی ہیں، مگر یہ کافرانہ لباس (جینز اور ٹی شرٹ) نہ پہنا کریں، آپکے موبائل میں تصویر بھی جائز نہیں، اور اسطرح کھلم کھلا دین سے تعلق رکھنے والوں کا مذاق اڑانا تو کفر تک پہنچا دیتا ہے (وہ شاید پوری کہانی کو اپنے پہ چوٹ سمجھے تھے)۔ عبد اللہ بڑا سٹپٹایا کہ اب آدمی بات بھی کرے تو کس سے۔ اس ملک میں آدمی اگر غلطی سے پڑھ لکھ جائے تو گو نگا ہو جائے کہ کوئی بات سمجھنے والا مشکل سے ہی ملتا ہے۔
عبد اللہ نے معذرت کی، انہیں باقی ماندہ سفر کا خرچہ دیا اور خدا حافظ کہہ کر چلا آیا۔ مگر دل پورے دن بوجھل ہی رہا۔
وہ سوچنے لگا کہ داعی کو لوگوں پر لعن طعن نہیں کرنی چاہئے انہیں چپ چاپ کام کرتے رہنا چاہیے۔ داعی کی نظر جتنی وسیع ہو گی اتنے ہی لوگوں پر اعتراضات کم ہو جائیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ داعی کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ دعوت سننے والے کی انا (ego) کو نہ چھیڑے، جب کہ ہمارے یہاں دعوت کا کام ہی کسی کو ذلیل کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ آپ نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے ہیں؟ یہاںآپ ٹی وی کیوں دیکھتے ہیں؟ آپ فلاں جگہ کیوں جاتے ہیں؟ فلاں سے کیوں ملتے ہیں؟ فلاں سے کیوں نہیں ملتے؟ پہلے دن ہی داعی صاحب ہر اس چیز کے دشمن ہو جاتے ہیں جو آپ کو محبوب ہو۔ ارے بھائی، اسے بہتر محبت کا بتاؤ، اسے بہتر ذکر سکھاؤ۔ دل خود بخوداچھی چیزوں پر مائل ہو جائے گا۔ پھر بتاتے رہنا چھوٹے موٹے مسائل۔ داعی ایسا بندہ ہوتا ہے جو بندے اور اللہ کے بیچ میں آ جاتا ہے۔ اب اگر غلط راستہ بتاؤ گے تو پوچھ تو تمہاری بھی ہو گی نا؟ اگر اجازت ملی تو میں صاف کہہ دوں گا کہ اللہ اس کے پاس آیا تھا تیرا پوچھنے اس نے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔
پتہ نہیں ہر دینی آدمی کو، (مولانا کہنا تو ظلم ہو گا، ہر شخص جو داڑھی رکھ کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے وہ مولوی تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ مولوی کے لیے تو بہت پڑھنا پڑتا ہے) ہاں باتونی کہہ سکتے ہیں۔ تو ہر باتونی آدمی کو میری جینز سے ہی دشمنی کیوں ہوتی ہے؟ اور ایسا ہی کیوں ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو باطنی پر ترجیح ہے۔ اللہ میاں ہمارے اندازوں سے کتنے مختلف ہیں۔ عبد اللہ اپنی ذہنی رو میں بہتا ہی چلا گیا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ قیامت کے روز بہت سے لوگوں کو سرپرائز ملے گا۔ بہت سی نیکیاں جنہیں وہ نیکیاں سمجھ رہے ہو نگے وہاں سرے سے شاید ہوں ہی نہیں اور بہت سے گناہ شاید گناہ کے خانوں میں نہ ہوں اور بہت سی نیکیاں شاید گناہ میں لکھ دی جائیں ( جو اللہ کے لیے نہیں ہوں) اور بہت سے گناہ شاید نیکیوں میں لکھ دئیے جائیں۔ اللہ کی مرضی ہے۔ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ اب اگر صحابہ کرام سے غلطیاں سرزد نہ ہوتیں تو سزائیں کسے ملتیں؟ اور اگر شرعی حدود اس وقت نہ لگتیں تو آج1400 سال بعد کون لگاتا۔
حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز ایک بندہ آئے گا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسکے تمام گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیں گے تو وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ آپ نے فلاں فلاں گناہ تو گنے ہی نہیں؟۔ بس آدمی کو اگر بُرائیاں ہی گننی ہوں تو کیا اپنا نفس کافی نہیں ہے؟ کسی دوسرے کے بارے میں ہمیشہ گمان رکھنا چاہیے کہ بخشا جائے گا، کوئی ایسی نیکی کر جائے گا کہ اگلا پچھلا سب برابر ہو جائے گا اور اپنے نفس سے اِتنی بدگمانی ہو نی چاہیے کہ یہ کافر کرکے چھوڑ ے گا۔ بس اﷲہی بچالے۔
عبداﷲ کا ذہن رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اُس کے آنسو اُسکے ذہن کی رفتار کا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کر رہا تھا کہ اُسے اِن نیک آدمیوں سے سخت بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ساری نیکی بھی برباد ہوئی۔ کاش خاموش رہتا۔ جب بولتا ہے کوئی نہ کوئی فساد کا سامان ہوتا ہے۔ اپنی ذات سے بڑا فتنہ دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ آج عبداﷲکو اِس بات کا مکمل یقین ہوگیا۔ عبداﷲنے آج تمام لوگوں کو صدقِ دل سے معاف کر دیا کہ دل صرف اﷲکی یاد کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اِس لیے کہ لوگوں کی باتیں اُس میں رکھی جائیں۔
عبداﷲ آج پھر سر اپا دعا تھا:-
’’اے دعاؤں کو قبولیتبخشنے والے اﷲ۔ یَا اَنْتَ اَرْحَمَ الرَّ احِمِیْنَ۔ اے ترس کھانے والوں میں سب سے زیادہ ترس کھانے والے اﷲ۔ اے آسوں کے آس والے اﷲ، اے عاصیوں کے آس والے اﷲ، اے وہ اﷲکہ جس سے سب کو آس ہوتی ہے۔ چرند، پرند، انسان، ملا ئکہ اور جن سب کی نظریں، سب کی آس صرف تجھ پہ ہی آکے رکتی ہیں۔ میری آس نہ توڑیو۔ اے عزت والے اﷲ، میری لاج رکھ لے۔‘‘
اﷲسائیں ،مخمل میں ٹاٹ کاپیوند نہ ہو وے ہے۔ اُمّتِ محمد صلّی اﷲ علیہ وسلّم میں سے ہوں۔ یہ سارے مخمل لوگ ہیں۔دین کا کام کرتے ہیں۔ میں اِک ٹاٹ رہ گیا۔ دنیا کیا کہے گی۔ تجھے اپنے نبی صلّی اﷲ علیہ وسلّم سے محبت کا واسطہ مجھے بھی مخمل کردے۔ اے اﷲ تُو صمدہے، کیا ہی خوبصورت نام ہے تیرا، خوف و اُمید دونوں اِس میں یکجا ہوگئے ہیں۔ جب تیری بے نیازی پہ نظر پڑتی ہے تو ڈر جاتا ہوں کہ سارے اعمال سے بے نیاز ہوگیا کہ میرے لیے تھوڑاہی کی تھیں تو مارا جاؤں گا، ہا ں اگر رحمت کی نظر کی اور بے نیازی میں کوئی پرواہ نہ کی کہ کتنے گناہ لے کے آیا ہوں تو بیڑہ پا ر ہے۔
اے اﷲ! میں باربار گناہ کرتا ہوں۔ گنا ہ دہرایا جائے تو غلطی نہیں مر ضیبن جاتی ہے۔
اے اﷲ معاف کر دے۔ مجھے تھوڑے لوگوں میں سے کر دے جن کے بارے میں تو بشارتیں دیتا ہے قرآن میں کہ وہ جنّت میں جائیں گے۔ وہ جو تیرا شکرادا کرتے ہیں، وہ جو تیرے حکم پہ چلتے ہیں۔ اُن زیادہ میں سے نہ کرنا جو حکم عدولی کرتے ہیں۔ جو جہنم میں جائیں گے۔ جو نافرمان ہیں۔
اے اﷲ، کوئی اگر ہوتا تیرے علاوہ تو میں قسم کھاکے کہتا ہوں کہ عبادت تیری کرتا اور نافرمانی اُس کی کر تا مگر کوئی ہے ہی نہیں۔ کوئی چوائس نہیں ہے۔ نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کے نافرمانی بھی تیری ہی ہو جاتی ہے۔ تُو معاف کر دے، درگزر فرما دے۔ آ ئندہ نہیں کروں گا اور آئندہ کرلوں تو پھر سے معاف کر دینا ۔
گناہ بھی تو ایک تعلق ہے نا میرے اﷲ، استغفار بھی تو ایک تعلق ہے نامیرے آقا۔ یہ روتا، پیٹتا، گرتا، پڑتا بندہ بھی تو تیرا ہے نا میرے اﷲ۔
خیال رکھنا میرے مالک ، نافرمان ہوں مگر ہوں تیرے در کا ، تیری ہی نافرمانی ہو جاتی ہے کسی اور کی نہیں۔
اے اﷲ، میں دِن کے اجالے میں غرور کرتا ہوں اور رات کی تاریکیوں میں گناہ۔ میں تو کسی پل بھی تیرا فرمانبردارنہ رہا، میں تو مارا جاؤں گا۔
تو مجھے میرے گناہوں پہ معاف فرما،
تو مجھے میرے نیکیوں پہ بھی معاف کردے۔
آئندہ غلط بات نہیں کروں گا۔
من جا میرے ربّا، من جا میرے ربّا۔”
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ کی زندگی لشتم پشتم گزر رہی تھی۔ مجموعی طور پر وہ لکھنے پڑھنے درس و تدریس اور سوچنے میں ہی مصروف ہوتا اور اگر کچھ ٹائم بچ جاتا تو کوئی نہ کوئی واقعہ اُسے تمام دِن تک محو رکھتا ۔
عبداﷲ کو ملک کی سب سے بڑی ڈیفنس یونیورسٹی سے ایک بہت اہم کورس کرنے کا دعوت نا مہ مِلا، جِسے اُس نے بخوشی قبول کرلیا۔ کچھ ہی ہفتوں کے اس کورس میں عبداﷲ کو ملک کی تما م دفاعی تنصیبات دیکھنے کا موقع ملا، تمام دِفاعی اداروں اور سِول گورنمنٹ کے حکّام سے ملا، چاروں وزرائے ا علیٰ سے ملاقات ہوئی اور وطنِ عزیز کے تمام صوبوں اور قبائلی علاقہ جات میں رہنے کا موقعہ مِلا۔ عبداﷲ نے جتنا پاکستان کو اِن چند ہفتوں میں جانا اتنا کبھی نہ جاناتھا۔ اسے شدت سے اس بات کا احساس ہو ا کہ وطنِ عزیز میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔
بغیر اعلیٰ تعلیم کے، بغیر زندگی کی بنیادی سہولتوں کے بھی اگر یہ قوم یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ نیو کلئیر پاور بن سکتی ہے، ہر چھٹے روزایک خودکش حملے اور ہر چھٹے روز ڈرون حملے میں مرنے کے باوجود زندہ رہ سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو یہ نہیں کر سکتی ۔
اگر بندہ ہمت کرے اورر محنت کرے تو نبوت کے علاوہ وہ کو نسا ایسا مقام ہے جو حاصل نہ کیا جاسکے۔ سُپر پاور بننے سے خُدا کی ولایت اور دوستی تک سب ہمت و اُمید کے ہی تو مرہونِ منّت ہیں۔ اور سب سے بڑا ظلم جو اِس قوم پر ہوا وہ اُمید کی غربت ہے۔ نا اُمیدی کا یقین ہے۔ اندھیرے کی نو ید ہے جو ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے جوانوں کی رگوں میں ہر روز نشے کی طرح اُتار رہے ہیں۔ پہلے کوئی سوچتا تھا کہ ایسے بولیں گے تو کوئی کیا کہے گا، جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے وہ ‘کوئی’ بھی مر گئی۔ ہمارے ملک میں لوگ زندگی کے خواب دیکھتے ہیں، باہر والے خوابوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ اور اب تو خواب دیکھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں، دن ورات ایک کرنے پڑتے ہیں، پّتہ ماری کی محنت ہوتی ہے۔ مگر جو لوگ ہِمت نہیں کرتے وہ پھر کرامات/معجزات کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کرتے کرتے فنا ہو جاتے ہیں۔
عبداﷲ آج سوچنے لگا کہ ہمارے ملک، ہمارے معاشرے کا اگر کوئی تجزیہ کرے یا تاریخ لکھے تو وہ کیالکھے گا، شاید وہ لکھے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا۔
جِس میں تری باقی تھی، جس میں ایمان کی رمق موجود تھی، جِس میں دین کی چنگاری پنہاں تھی۔ ایک ایسی قوم تھی جو روز مرتی تھی مگر جینا نہیں چھوڑتی تھی۔ جو لٹانے پر آئے تو سب کچھ لٹادیتی تھی، جو جیتتی تھی تو بچوں کی طرح گلیوں میں آجاتی تھی۔ جو نا چتی تھی تو موسم بدل دیتی تھی اور جب روتی تھی تو آسمانوں کورُلا دیتی تھی۔
مگر ایک قوم ایسی جس میں شدت تھی، محبت میں بھی اور نفرت میں بھی، جس کو کچھ دینے اور سب کچھ دینے کا فن آتا تھا، جس کے بچے کا نے اور تختی سے پڑھ کے نکلے اور ایٹم بم بنا ڈالا، جو بغیر چھت کے سو جاتی تھی، جو بنا پیئے بھی سیراب تھی، اور جو ایک بار ٹھان لے اس کو پورا کرنے میں پوری کائنات اس کا ساتھ دیتی تھی۔
مگر
اس قوم کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوا، اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ وہ کس خمیر کی مٹی سے بنی ہے، اس کو لوگوں نے، لیڈروں نے اپنی اپنی منشاء کے مطابق بانٹا اور تقسیم کیا۔ اس نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا اور نجات دہندہ کو رد کر دیا۔
اس نے اپنے دین کو بھلا دیا، اپنے ایمان کو بیچ دیا اور اپنے اوپر پڑھنا لکھنا اور سچ بولنا حرام کرلیا۔
پاکستا نی بھی عجیب قوم ہے یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی ہے۔ ہر شخص اپنے پہ ہونے والے مظالم کی داستان سُناتا ہے۔ مگر جب جہاں موقع ملتا ہے اپنے سے کمزور کو پیس دیتا ہے اور کوئی رعایت نہیں چھوڑ تا۔ پردے کے ہلنے سے ڈرنے والا مسلمان اﷲسے نہیں ڈرتا اور اس ملک میں لوڈشیڈنگ بھی بہت ہے۔ صرف بجلی کی ہی نہیں کہ بلب بجھ گئے ہیں۔ خانقاہوں میں چراغ بھی بجھ گئے ہیں، مسجدوں کی رونق بھی بجھ گئی ہے۔ بچوں کے چہرے بھی بجھ گئے ہیں اُمیدوں کی شمع بھی گل ہوگئی ہے، ستاروں کی چمک بھی ماندپڑگئی ہے، چاند کا حسن بھی زائل ہو گیا ہے۔ منبرو محراب بھی خاموش ہیں۔ الغرض نصیبوں کی لوڈشیڈنگ ہوگئی ہے۔
یہ قوم علم سے ایسے متنفر ہوئی، ایسی بے تو فیق ہو ئی کہ کوئی مہینے میں 5ہزار صفحات بھی نہیں پڑھتا۔ صرف وہ علم حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے پیسہ کماسکے، معاشی حیوان بن جائے۔ مگر کاش پیسہ ہی کمالیا ہوتا۔ وہ بھی کہا ں کمایا؟
مؤرخ لکھے گا کہ جس قوم کو اپنے پیچھے ادارے ،افراد، اور منصوبے چھوڑ کے جانے تھے وہ پلاٹس اور شاپنگ پلازے چھوڑ گئی۔ مؤرخ لکھے گا جس قوم نے روٹی اس لئے کھانی تھی کہ رزاق کا شکر ادا کرسکے، روٹی اُس قوم کو کھا گئی۔ مؤرخ لکھے گا ایک ایسی قوم تھی جو فطرت سے ٹکرا گئی اور پھر فطرت نے اُسے پچھاڑدیا۔ مؤرخ لکھے گا کہ جتنا چھپا کے گناہ کرتی تھی اتنا چھپا کے نیکیاں کر گئی ہو تی تو سُرخرو ہو جاتی۔ اور شاید یہ بھی لکھے کہ جس اسلام کے نام پر ملک لیا، اسی اسلام کو اسی ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا۔
ایک ایسی قوم جسے غلامی سے عشق تھا۔ جس نے پلاننگ کا سارا کام اپنے آ قاؤں کے سپرد کر دیا تھا کہ غلام پلاننگ تھوڑا ہی کرتا ہے۔ جس کا ریشہ ریشہ غلام تھا، جسے غلامی اچھی لگنے لگی تھی ٗ جسے غلامی سے محبت ہوگئی تھی ٗ جسکی رگ وپے میں غلامی سرایت کر گئی تھی۔ جس کا مزاج غلا ما نہ بن گیا تھا۔ جہاں غلامی کے بغیر جینا مشکل تھا، جہا ں آزاد بندوں کا سانس رک جاتا تھا یا روک دیا جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو نادیدنی زنجیروں میں جکڑ دِی گئی ۔جسے شک کی وادی میں ہانک دیا گیا۔ جس میں اعتماد نہ رہا اور جب اعتماد نہ رہے تو کیسے کوئی پہاڑوں کا سینہ چاک کرے اورکیسے کوئی کائنات کو مسخر کر ے۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے خود محنت نہ کی بلکہ بیاّ کا گھر بھی توڑ دیا، جس نے کم ظرفوں کو دین کی تعلیم دے دی اور بد عقلوں کو دنیا کی۔ یہاں بھنورے میں پلے ہوئے لوگوں کو حکومت ملی جنھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک تھا جہاں غریب، کسمپرسی کی حالت میں کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ جہاں ہرکام کے لیے غریب کو دن میں ہزاروں سجدے کرنے پڑتے تھے، جہا ں سچ بولنے کی زکوٰۃ تنہائی تھی، جہاں ٹھنڈے مزاج لوگوں کو بے غیرت کہا جاتا تھا، جہا ں گنا ہ تکرار کے باعث عادت بن چکے تھے۔ جہاں علم بغیر تزکیے کے پھیلا اور جہاں ذکر بغیر علم کے پروان چڑھا، ایک ایسی قوم جسے بے وقوفی اور حُسنِظن میں فرق ہی پتہ نہ چل سکا، اور ایک ایسی قوم جو سواسو سالوں سے تصویر کے جائز یا نا جائز ہونے کا فیصلہ ہی نہ کر سکی، ایک ایسی قوم جسے اﷲ67 سالوں سے درگزر کرتا چلا آیا۔ جس کے ساتھ مالکِ کُل نِباہ کرتا چلا آیا مگر اس نے نباہ نہ کی۔
اور مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے ایک بچی کے سر میں گولی ماری تھی اور اس کا علاج تک نہ کرسکی اور جب اس نے ملک سے باہر جاکے کتا ب لکھی تو پورے ملک نے کفر کے فتوے لگا دیئے مگر کسی ایک بچی کو تعلیم یا زندگی کی گارنٹی نہ دی۔
ایک ایسی قوم جو، اسکولوں کوبموں سے اُڑا دیا کرتی تھی اور جہا ں عالم پڑھائی کو بے غیرتی کی وجہ بتاتے تھے۔ ایک ایسی قوم جہاں جھوٹ کیبیسیوں قسمیں تھیں۔ یہاں تک کہ جس شخص پہ تھوکنے کو دل نہ چاہے اس کی بھی خو شامد کریں۔
ایک قوم جس کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا مگر عمل کا نہیں، جو سچی بات سے منہ پھیر لیتی تھی اور کِبر کرتی تھی۔ جہاں حق گوئی قابلِ تعزیر جرم تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی جے جے کار، جہاں لوگوں نے بولنا اِس لیے سیکھا کہ باقی لوگوں کوبیو قوف بنا سکیں اور حدیث کی روشنی میں ملعون ٹھہرے۔
ایک ایسا ملک جہا ں 5ہزار بچے سالانہ نالیوں اور کچرے کی ڈبّوں میں پھینک دیئے جاتے ہوں، 6ہزار قتل ہو جاتے ہوں ۔10لاکھ FIR کٹتی ہوں، 1500بچیوں کے ساتھ زنا با لجبر ہوتا ہو، 80کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو جاتی ہو،لوگ بچے بیچ کے پیٹ بھرتے ہوں اور ایمبولینس میں انتظار کرتا بیمار، صاحب کیگزر جانے تک لاش بن جاتا ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداﷲ پھر مفتی صاحب کے سامنے بیٹھا ہو ا تھااپنے سوالات کی فہرست، ڈائری اور قلم لے کر:۔
* مفتی صاحب دنیا کسے کہتے ہیں؟
ہر وہ چیز جو اﷲکی یاد کو بھلادے وہ دنیا ہے۔
* ندامت کی انتہا کیا ہے؟
چھوڑ دے اس کام کو۔ اﷲ کی یاد بڑی چیز ہے۔ اﷲ بڑے ہیں۔ کیا منہ دکھائے گا۔ نہ کرے ایسا ۔
* توبہ کی انتہا کیا ہے؟
آدمی اپنی نیکیوں پہ بھی توبہ کرے کہ ان کا حق ادا نہیں ہوا۔
* آپ لوگ کہتے ہیں کہ “ہم تو گنا ہگار بندے ہیں۔ کچھ آتا جاتا نہیں” یہ کیا بات ہوئی؟
میں کمپیوٹر سائنس کااُ ستاد ہوں اب اگر میں کلاس میں جاکر کہوں کہ مجھے تو کچھ آتا جاتا نہیں تو کلاس پڑھے گی کیوں؟ چلیں مان لیا کہ آپ پنڈی اور اسلام آباد کے سب سے گنا ہگار آدمی ہیں تو بتائے میں کیوں آؤں اِصلاح کے لیئے آپکے پاس۔ یہ آپ نیک لوگ اتنی confusionکیوں مچاتے ہیں؟
ایسے ہی ہوتا ہے عبداﷲ ‘با لکل ایسے ہی ہوتا ہے۔ جو شخص جتنا پڑھے گا اتنا ہی جاہل رہ جائے گا۔ ہر شخص کی مجہولات اس کی معلومات سے زیادہ ہیں۔
رسالتِ پناہ حضرت محمد صلّی اﷲ علیہ و سلّم دِن میں 70بار استغفار کرتے تھے۔ وہ تو معصوم تھے تو پھر کس گناہ سے استغفارکرتے تھے۔ بندہ جب معر فت کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کا ہر آنے والا دِن اسے وہ مقامات دکھاتا ہے کہ گذشتہ دِن کو دیکھ کے اس پر استغفار ہی کرسکتا ہے۔ صرف اﷲ کو پتہ ہے، کون کتنا متقی ہے بندے کو تو اپنے بارے میں ڈرتے ہی رہنا چاہیئے۔ جوانی پہ خوف غالب ہو تو بڑھا پے میں اُمید قائم رہتی ہے۔ اِنھی دو کیفیات کے درمیان رہتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔
* اچھا، برکت کسے کہتے ہیں؟
برکہ عربی میں زیادہ کو کہتے ہیں۔ تھوڑا زیادہ ہو جائے تو اِسے برکت کہتے ہیں۔
اﷲ برکت دینے والا ہے اور کبائر سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔
* اچھی صحبت اور فرائض کی تکمیل کے علاوہ کیا چاہئے ہوتا ہے؟
تقویٰ۔ تقویٰ آدمی کو اندر سے مانجھ دیتا ہے اور جب ذہانت کے ساتھ تقویٰ ملتا ہے تو اﷲاِلہام کرتا ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ جو کام کرے یہ سمجھے کہ اﷲ دیکھ رہا ہے اور اﷲ کے لیے ہی کرے ۔
َِ* میرا بیرونِ ملک سفر رہتا ہے اور سفر میں عمو ماً نا محرم پہ نظر پڑہی جاتی ہے، کیا کروں؟
کوشش کریں جتنا بچاؤ ممکن ہے وہ کریں۔ اور جو دن میں کئی بار نظر اپنے آپ پر پڑتی ہے آئینے میں اس کا کیا؟ جو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ واہ کیا لگ رہے ہو؛ کیا بات ہے؟ اُس کا بھی تو سوچے۔ کئی ایک ایسے گناہ ہیں جن کو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ یہ جو نفس روز انسان سے باتیں کرتا ہے نا یہ جوپٹیاں پڑھاتا ہے یہ بہت خطرناک ہیں۔ بایزید بسطامیؒ کے پاس ایک لڑکا آیا اور روئے جارہا تھا کہ حضرت بات سن لیں، گناہ کر آیا ہوں۔ اکیلے میں پو چھا تو کہنے لگا حضرت شراب پی آیا ہوں۔ تو انھوں نے جواب دیا او ہو، ہم سمجھے غیبت کر آئے ہو۔ اب شراب پینا تو بُری بات ہے پر مگر غیبت تو اس سے بھی بُری ہوئی نا۔
* مفتی صاحب کبھی کبھی نماز پڑھتے ہوئے گھبر اتا ہو ں کہ اﷲ کا سامنا کیسے کروں۔ اتنے گناہ ہیں۔
گناہوں کے ایسے تجز یئے کرنا کہ بندہ اﷲ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائے شیطان کی بڑی چال ہے۔ گناہ سے اس وقت تک پریشان رہو جب تک سرزد نہ ہو جائے، بعد میں اﷲ سے معافی مانگو۔ نماز پڑھا کرو۔ اتنا نہ سو چا کرو، اﷲ رحم کرے گا۔
* یہ جوہم روزانہ میرے ’’پیارے ‘‘ نبی صلّی علیہ وسلّم بولتے ہیں تو پیارے پہ جھوٹ کا گنا ہ تو ملتا ہوگا کہ زندگی میں تو پیارے ہوتے نہیں ہیں۔نہ بولیں ایسا۔
ضرور پیارے بولا کریں، عقیدت کا ثواب ہوگا۔ اور یہ بولنا اور یہ سوچ ایک دن ضرور راہ پہ لے آئی گی۔
* مٹے ہوئے لوگ کون ہوتے ہیں؟ جن کی انانیت ختم ہو گئی ہو؟
حضرت حارث محاسبیؒ ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے۔ ایک شخص آیا اور ان کوحلیے سے مسجد کا خادم سمجھا تو کہنے لگا مسجد اتنی گندی ہے صاف کردو۔ وہ اُٹھ کے باہر چلے گئے۔ شخص بڑا غصے میں آیا کہ میں نے کام کہا اور یہ باہر چلے گئے۔ باہر جاکے پوچھا تو کہنے لگے، میں نے نظر دوڑائی تو مسجد میں سب سے زیادہ ناپاک چیز اپنی ہی ذات نظر آئی تو آپ نے کہا تھا صفائی کر دو تو میں باہر آکے بیٹھ گیا۔
ایک اور بزرگ تھے بغداد میں، ایک شخص نے سوچا کہ انھیں آزماتے ہیں۔ ان کے پاس جاکر کہنے لگا کہ حضرت کل شام کھانے پہ تشریف لے آئیے مغرب کے بعد۔ اور مغرب پاس والی مسجد میں ہی پڑھ لیں۔ وہ نماز پڑھ کے پہنچ گئے۔ دروازے پہ دستک دی کسی نے نہ کھولا، وہیں سائیڈ پر بیٹھ گئے، عشا ء ہو گئی دروازہ نہ کھلا تو عشاء پڑھنے چلے گئے پھر واپس آکے بیٹھ گئے۔
پوری رات گزرگئی۔ تہجد کے وقت وہ میزبان باہر نکلا اور حیرت سے پوچھا آپ یہاں کیسے۔
اس سے کہا کہ آپ نے دعوت پہ بلایا تھا تو کہنے لگا ،میرے تو ذہن میں نہیں ہے۔ اچھا آپ بیٹھیں تو میں کھانا لے کے آتا ہوں۔ پھر غائب، فجر ہوگئی اشراق ہو گئی دن چڑھے نکلا اور کہا گھر میں عورتیں سوئی ہوئی ہیں ،یہ لیں ایک سکہ اور بازار سے کھالیں۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا سکہ لیااور واپس آگئے۔
شام کو وہ شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ میں تو آزما رہا تھا تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں بغدادکے کتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جہاں سے ملنے کی اُمید ہو وہا ں پڑے رہتے ہیں۔
عبداﷲ یہ تھے وہ لوگ جو مِٹے ہوئے تھے۔
* عبداﷲنے روتی آنکھوں سے پوچھا؛ اِخلاص کسے کہتے ہیں:۔
جنید بغدادیؒ کہتے تھے کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا۔ ایک دن میرے استاد نے کہا کہ تمھارے بال بہت بڑھ گئے ہیں اب کٹواکے آنا۔ پیسے کوئی تھے نہیں پاس میں‘ حجام کی دکان کے سامنے پہنچے تو وہ گاہک کے بال کاٹ رہا تھا۔ انھوں نے عرض کی چاچا۔ اﷲکے نام پہ بال کاٹ دو گے۔ یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کو سائیڈ پر کیااور کہنے لگا پیسوں کے لیے تو روز کاٹتا ہوں۔ اﷲ کے لیئے آج کوئی آیا ہے۔
اب ان کا سر چوم کے کرسی پہ بٹھایا۔ روتے جاتے اور بال کا ٹتے جاتے۔ حضرت جنید بغدادی نے سوچا زندگی میں جب کبھی پیسے ہوئے تو، انکو ضرور کچھ دوں گا ۔عرصہ گزر گیا، یہ بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن ملنے کے لئے گئے، واقعہ یا دد لایا اور کچھ رقم پیش کی۔ تو حجام کہنے لگا، جنید تو اتنا بڑا صوفی ہو گیا تجھے اتنا نہیں پتہ چلا کہ جو کام اﷲ کے لیے کیا جائے، اس کابدلہ مخلوق سے نہیں لیتے؟
* بچوں کی تربیت کیسے کروں؟
اولاد کو صرف رزقِ حلال کھلاؤ۔ رزقِ حلال میں بڑی برکت ہے یہ ایک دن اپنا اثر دکھائے گا۔ صدقہ اولاد کے سامنے کیا کرو تاکہ اُن کی عادت بنے۔ نماز کے لیے کہتے رہو۔ بڑوں کا ادب اور تمیز سکھاؤ۔
* اچھا، آخری سوال۔ اگر کسی بندے سے لڑائی ہو جائے تو کیا کروں؟
صرف اتنادیکھ لیں کہ اُس کا اﷲ کے ساتھ کیا معاملہ ہے۔ اگر تو اچھا ہے تو چپ رہیں۔ اﷲ آپکے نقصان کا مداوا کہیں اور سے کردے گا مگر اپنے دوست کوآپ کے حوالے نہیں کرے گا۔ اور اگر معاملہ درست نہیں ہے تو بھی چپ رہیں کہ جب اﷲ کا عذاب آئے گا تو آپ کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا۔
*۔۔۔*۔۔۔*