آج عبداﷲ پھر مفتی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اپنے سوالات کے ساتھ۔
مفتی صاحب ملک سے باہر جارہا ہوں چاہتا ہوں لوگوں کو اسلام کی طرف بلاؤ ں۔ کوئی مشورہ؟
جو شخص اﷲکی طرف بلائے اُس پر فرض ہے کہ اﷲکا ذکر کثرت سے کرے۔ یہ نہ کرے کہ تقریر یں بہت کرے اور تنہائی میں اﷲکو یادنہ کرے۔ اﷲ سے نسبت قوی کرے لوگوں پر اس کا اثر بھی پڑے گا۔ یادرکھنا۔ اﷲکی معرفت حرام ہے اس شخص پر جس کی تنہائی پاک نہیں۔ خلوت میں عبادت کا شوق اخلاص کی نشانی ہے۔
یہ انسان بڑی عجیب چیز ہے۔ ماننے کو آئے تو اپنے جیسے کو خدا مان لے اور نہ ماننے پر آئے تو سیدھی سادھی بات نہ مانے۔
حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ تم جوانی میں کوئی کام ایسا نہ کرنا کہ جب بڑھاپے میں لوگوں کو اﷲ کے دین کی طرف بلاؤ تو وہ جوانی کے کارنامے گنوائیں۔ جوانی کو ہمشہ بے داغ رکھو۔
کسی سے اتنی محبت نہ کرو کہ ٹوک نہ سکو، نہ اتنی نفرت کہ ضرورت پڑنے پر شرم کے مارے جانہ سکو۔
– کس چیز سے بچوں؟
زندگی کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ شیطان دین کی گمراہی کے کام کو اچھا کرکے دکھاتاہے۔ جب گمرا ہی دین کے رنگ میں آتی ہے، تو اضع کِبر کے رنگ میں آتی ہے۔ غرور عاجزی سے پیدا ہوتا ہے اور فقر میں انا آجاتی ہے تو اﷲسے پنا ہ مانگو۔ بے شک اﷲکی پناہ بڑی چیز ہے۔
– چوری کیا ہے؟
بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے ، توحید اﷲکی غیرت کا نام ہے۔ نماز میں ایک باراﷲ کی طرف دھیان فرض ہے۔
– اﷲکے دوست کون ہوتے ہیں؟
اﷲنے کہا ہے کہ میرے دوست جن پرر شک کیا جائے وہ ایسے ہیں کہ کم مال چھوڑتے ہیں۔ کم بیویاں چھوڑتے ہیں۔ شہر سے دور رہتے ہیں۔ محلے میں کوئی دعوتوں میں نہیں بلاتا اور میں اسے نماز میں بڑا حصہ دیتا ہوں اور ان کے دل ہدایت کے روشن چراغ ہوتے ہیں اور جب اِن کا وقت آتا ہے تو نقد چل پڑتے ہیں۔
– تصوف میں روزہ نہیں رکھا جاتا، پتہ کیسے لگے کہ اثر ہورہا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ملے نہ۔
لَیسَ لِلْاِ نْسَانِ اِلّا ما سعیٰ
تو مگر پھر بھی نہ مجھ کو مل سکا
(سیدّمبارک شاہ)
بچہ بڑا ہو رہا ہو تو اسے پتہ نہیں لگتا۔ آہستہ آہستہ کچھ سالوں میں پتہ لگتا ہے۔
– صبر کیا ہے؟
جب شکایت کا رخ اﷲکی طرف ہو جائے۔ صبر کے معنی ہیں جسِ مشن پر چلاہے اِس میں جو مصیبتیں اور مشکلات آتی ہیں ان سے نپٹے اور جما رہے۔ ہار ما ننا تو شکست ہے۔
– آزمائش اور سزا میں کیا فرق ہے؟
اﷲکی طرف سے گناہوں کی سزا اور اچھے اعمال کی آزمائش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ جب سزا آتی ہے تو دل کا سکون چِھن جاتا ہے۔ جب آزمائش آتی ہے تو دل پر سکون رہتا ہے۔
– آئیڈیل کسے بناؤں؟
اﷲکے نبی محمد صَلی اﷲعلیہ وآلہ وسلّم کے علاوہ کسی کو بھی آئیڈیل بناؤ گے تو frustateہوجاؤ گے۔
– بہت ڈرتا ہوں اعمال کی وجہ سے۔
بہت ااچھی بات ہے۔ بے خوف ہو جانا بُری بات ہے۔ خو فزدہ رہنا ایما ن کی دلیل ہے۔
– صالح آدمی کون ہوتا ہے؟
جسے اپنے غصہ، جنس اور عقل پہ کنٹرول ہو۔
– ذلّت کیا ہے۔
ذلّت آرزؤں کی کشرت کا نام ہے۔ با طن کی صفائی سے آرزو ئیں محدود ہو جاتی ہیں۔
– جوانی اور بڑھاپا کیا ہے؟
جب جسم نفس سے گناہ کا کہے تو سمجھو جوان ہے، جب نفس جسم سے کہے تو سمجھو بوڑھا ہوگیا ہے۔
اچھا مفتی صاحب میں اذان دینے جارہا ہوں دعا کرنا۔
اﷲبرکت دے۔
عبداﷲ مفتی صاحب سے مل کر مسجد سے نکلا تو فقیر نے صدا لگائی۔
صاحب جی کچھ دیتے جاؤ۔ یقین کرو میرا اﷲ کے سواکوئی نہیں۔
ارے۔ مبارک ہو۔ بھنگڑا ڈالو، خوشیاں مناؤ، شکرانے کے نفل پڑھو۔ جسے اﷲ مل گیا اسے اور کیا چاہیے ۔
اچھا ایسا کرو میرا بٹوہ تم لے لو اپنا اﷲمجھے دے دو۔
عبداﷲ فقیر کوسکتے میں چھوڑ کی اپنی نئی assignmentپر ملک سے باہر جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔
ایک بار پِھر سوالات کی یلغار اس کے دماغ میں تھی۔ اﷲکہتے ہیں کہ ان کی سنّت تبدیل نہیں ہوتی تو وہ سنت آخر ہے کیا؟
اور عبداﷲ کا قلم اسکی ڈائری میں چلنا شروع ہو گیا۔
ائیر پورٹ پربلّو نے کہا، عبداﷲ دیکھو اِس بار کڑوانہ بولنا وہاں کسی سے، بلّو لوگ تو کہی ہوئی باتیں کچھ منٹو ں یا دنوں میں بھلا دیتے ہیں، اپنے ساتھ تو زندگی گذارنی ہے، جھوٹ کیسے بولوں؟
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ آج کے دن کا بڑا اِنتظار کر رہا تھا، آج سلیکون ویلی کی ایک بڑی کانفرنس میں اُس کی تقریرتھی۔عبداللہ نے رات بھر تیاری کی کہ اس کا سامنا اب دُنیا کے بہترین دِماغوں سے تھا۔
عبداللہ نے اپنی کمپنی کے وِژن اور سافٹ ویئر کے بارے میں بات کی اور ہجوم سے خوب داد وصول کی۔ تقریر کے بعد کئی ایک لوگ آگے بڑھے اور عبداللہ کو اپنے وزٹنگ کارڈ پکڑاتے ہوئے انوسٹمنٹ کی آفر کی۔ سب سے اچھی آفرایک وی سی فنڈنگ کی بڑی کمپنی نے کی،3ملین ڈالر کی اور جواب میں صرف کمپنی کا 15فیصد حصہ وہ لیں گے۔
دو روز بعد ملاقات کا وقت طے ہوا، عبداللہ دو دِنوں تک پلان بناتا رہا کہ ان پیسوں سے کیا کرے گا، کون سی ٹیم ہائر کرے گا اور کون کون سی پراڈکٹس کتنے عرصے میں بنائے گا۔
ملاقات کے دن انویسٹرصاحب نے کہا۔عبداللہ ہم چاہتے ہیں کہ تم یہاں امریکہ میں آ جاؤ، یہیں ٹیم ہائر کرو، اور خوب محنت کرو،ہمیں کامیابی کا100فیصد یقین ہے۔
جی بہتر، مگر ٹیم تو میں پاکستان میں ہائر کروں گا۔ ہمارے ملک میں بہت ٹیلنٹ ہے۔
عبداللہ، دیکھو یہ ممکن نہیں۔ پاکستان میں آئے دن دنگے فسادات خودکش حملے اور پتہ نہیں کیا کچھ چلتا رہتا ہے۔ وہاں پیسہ لگانا رِسک ہے جو ہم نہیں لے سکتے۔ سال بھر میں پراڈکٹ بنا کے کمپنی کسی اور کو بیچ دیں گے، پھر تم جو چاہے کرنا پیسوں سے۔
’’ہاں مگر کمپنی سال میں نہ بکی تو؟‘‘
’’تو کیا ہوا دو سال میں چارسال میں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں۔‘‘
انویسٹرصاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’مگر ہم کمپنی بیچیں ہی کیوں، کیوں نہ ہم اِسے ایپل یا ما ئیکروسافٹ بنا دیں؟‘‘ عبداللہ کے سوالوں کی پوٹلی پھر کھل گئی۔
’’نہیں عبداللہ جو سرمایہ لگاتے ہیں وہ اِتنا اِنتظار نہیں کر سکتے۔‘‘
عبداللہ گویا ہوا’’سر ٹیم پاکستان میں ہائر ہو گی۔ آپ کو اعتبار نہیں تو میں آپ کے پاس رہ جاؤں گا بطورِ تاوان، ورنہ مجھے منظور نہیں۔‘‘
اور انویسٹرصاحب اُٹھ کر چلے گئے۔
عبداللہ کافی دیر تک سوچتا رہا کہ ایسے تو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کچھ سوچنا پڑے گا۔عبداللہ نے قیام کو کچھ طویل کیا اور کوئی پچیس سے اُوپر سرمایہ کاروں اور کمپنی کھولنے میں معاونت کرنے والوں سے ملا قا تیں کیں۔
کسی نے اُسے شاندار جاب کی آفر کی تو کسی نے اس کے آئیڈیاز کو بے کار قرار دیا، حتیٰ کہ پاکستانی تک پاکستانی کمپنی میں انویسٹ کرنا نہیں چاہتے۔
عبداللہ بڑا دلبرداشتہ ہوا۔
اُس نے سوچا کہ اگر معمولی سی فنڈنگ مُلک سے ہی مِل جائے تو بھی کام چل سکتا ہے، وہاں بھی تو اِتنے اِدارے موجود ہیں۔ غیر سے پیسہ لیں ہی کیوں۔ یہ سوچ کے اُسے بڑا اطمینان ہوا۔اُس نے باقی ماندہ دِن کنسلٹنگ کے گن کے پورے کیے اور واپس پاکستان چلا گیا۔
پاکستان پہنچ کے پتہ لگا کہ اس کی کمپنی اسٹارٹ اپ ورلڈ کپ میں شارٹ لسٹ ہو گئی ہے اور وہ آرمینیا پہنچ گیا اور ایک بار پھر پہلی پوزیشن لے کے پہلا ورلڈکپ جیت لیا۔ اِس سے اسے کافی حوصلہ مِلا۔ عبداللہ نے سب کچھ بھلاکے پھر سے کام کرنے کا سوچا۔
اگلے چند ما ہ گرانٹ پرپوزل لکھتا رہا۔ اسے پوری اُمید تھی کہ جن ٹیکنالوجیز پر وہ کام کر رہا ہے ان سے پاکستان کو کسی حد تک دہشت گردی سے نجات مِل جائے گی۔ ڈیٹاسائنس کی ہر جگہ دھوم تھی اور عبداللہ کا اِس سے متعلق تمام چھوٹی بڑی اِصلاحات پر ہاتھ صاف تھا۔کسی کتاب میں اُس نے پڑھا تھا کہ کسی بھی فیلڈ میں مہارت قائم کرنی ہو تو زندگی کے دس ہزارگھنٹے اِس میں لگا دو۔ عبداللہ کوئی سترہ ہزارسے اُوپر گھنٹے اِس فیلڈ میں لگا چکا تھا۔
ایک دن اُمید بر آئی اور اُسے ایک کروڑ کی گرانٹ کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ صوبائی حکومت ویسے بھی بڑے اچھے کام کر رہی تھی اور یہ تو ویسے بھی وہ پیسے تھے جو انھیں انٹر نیشنل ڈویلوپمنٹ فنڈسے ایسے ہی کاموں کے لیے ملے تھے۔
عبداللہ مہینہ بھر سے آنے والے چیک کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آیا۔ اُس نے بارہا کال کی مگر ہر بار ’’صاحب‘‘ کسی دورے پر ہوتے۔ اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھائی نہیں دینے پیسے تو بتا دو۔ کوئی جواب تو دو مگر اعلیٰ عہدیداروں کی صرف آنکھیں ہوتی ہیں کان نہیں یا شاید حواسِ خمسہ ہوتے ہیں مگردل نہیں۔وہ متعدد بار ان کے آفس بھی گیامگر وہ عبداللہ جیسے چھوٹے بندوں سے مِل لیتے تو ’’صاحب‘‘ کہلاتے ہی کیوں؟
عبداللہ کو آج ایک حدیث یاد آ رہی تھی کہ جو حکمران ضرورت مندوں اور غریب لوگوں کی شکایت سننے کی بجائے اپنے دروازے بند رکھے گا تو پھر اِس حکمران کو جب خود مدد کی ضرورت ہو گی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے دروازے اِس کے لیے بند کر دے گا۔
عبداللہ نے کوشش جاری رکھی۔ ’’صاحب‘‘ کا تبادلہ ہو گیا۔ نئے صاحب آ گئے۔ نئے صاحب حج پر چلے گئے اور پھر مُلک میں الیکشن آ گئے، پھر سب بجٹ بنانے میں لگ گئے، پھر صوبائی بجٹ بنانے میں لگ گئے اور پھر نئے صاحب کا بھی تبادلہ ہو گیا اور نئے سے نئے صاحب ابھی آئے نہیں۔
عبداللہ نے وفاقی سطح پر قائم اِداروں کو پروپوزل دیئے۔ اِس نے انھیں بتایا کہ جن پراڈکٹس پر آپ ملین ڈالرز لائسنس کی مد میں دیتے ہیں وہ ہم خود لاکھ ڈالر میں بنا سکتے ہیں پھر آپ دوسرے ممالک سے زر مبادلہ کمانا۔
پھر سے ایک دور شروع ہوا۔ ملاقاتوں کا گفتگو کا۔ پروپوزل جمع کروانے کا مگر نتیجہ ندارد۔ آخر میں کہا گیا کہ آپ کے Technicalپروپوزل میں جان نہیں۔ عبداللہ نے بہت سٹپٹایاکہ جنابِ والا آپ کے مُلک میں کوئی دوسرا ہے ہی نہیں جو انھیں صحیح طرح سمجھ سکے۔
بڑی مشکلوں سے ایک صاحب سے بالمشافہ ملاقات کروائی گئی۔ جنھوں نے پروپوزل پڑھاتھا۔ انھوں نے فرمایا۔ ڈاکٹر عبداللہ ہم نے آپ کو ایک Tvپروگرام میں دیکھا تھا جو باتیں آپ کرتے ہیں وہ ہمیں پسند نہیں۔
عبداللہ نے لاکھ سمجھایا کہ جس پروگرام کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں میں زندگی میں بھی نہیں گیا اور اس پروگرام کا میرے پروپوزل کے معیارسے کیا تعلق۔
مگر ان صاحب نے جو بات کہہ دی سو کہہ دی۔ جس ملک میں نام کے ساتھ لگا عہدہ عقل کا تعین کرے وہاں ایسے نادرالوقوع حادثات روز ہوتے ہیں۔
میٹنگ سے واپسی پر عبداللہ کو اپنے بچپن کی کہانیاں بڑی یاد آ رہی تھیں جہاں بونے صرف پستہ قد والے ہی ہوتے تھے۔
سارے ذرائع کو آزمانے کے بعد صرف ایک حکومتی اِدارہ بچا جہاں سے عبداللہ کو پوری اُمید تھی کہ کام بن جائے گا۔ آج اُن سے ملاقات تھی۔ عبداللہ رات بھر دُعا مانگتا رہا کہ یا اللہ یہ آخری در ہے اِس دُنیا میں، یہاں سے ضرور کچھ کروا دے۔ سارے معاملات طے پا گئے تو ’’صاحب‘‘نے فرمایا:
’’بھئی عبداللہ، مبارک ہو اِتنا بڑا پراجیکٹ ملنے والا ہے۔ بس کچھ ہی دنوں میں کام شروع کرتے ہیں مگر ہمارا کیا خیال کرو گے؟‘‘
’’جی میں کچھ سمجھا نہیں۔‘‘
’’ارے بھائی،ہم نے جو اِتنی محنت کی اِسے منظورکروانے میں۔ تیس فیصد جو پیسے آئیں گے ان میں سے ہم رکھ کے باقی آپ کو دے دیں گے۔ میرا سیکرٹری آپ کو تین پروفائلز دے گا۔ آپ تینوں کو رکھ لیں لاکھ روپے مہینہ پر، اور اب کے باہر جائیں تو دو نئے والے آئی فونزلیتے آیئے گا۔
عبداللہ کا غصہ اس کے چہرے پر آ کر ثبت ہو گیا۔ اس نے بڑی مشکل سے کہا:
’’سر، آپ کے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے، اِن پیسوں کی تو کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ میرا پراجیکٹ آپ کی شرائط کے بعد آدھا بھی نہیں ہو گا۔
اب غصہ کی باری صاحب کی تھی۔ تو کیا آپ نے ہمیں اپنا چپڑاسی سمجھ لیا ہے جو ہم آپ کے لیے فون کرتے پھریں۔ عبداللہ یہاں تم جیسے درجنوں روز جوتیاں چٹخاتے ہوئے ملاقات کا وقت لینے آتے ہیں اور ذلیل ہو کے چلے جاتے ہیں۔ ہماری ملاقات ختم۔
عبداللہ نے واپسی کی راہ لی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کچھ لوگ زندگی بھر اَناکی پرورش کرتے ہیں، اور گھمنڈ کو پالتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اور اُن کا گھمنڈ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ باقی سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
عبداللہ نے آج پھر اللہ سائیں کو خط لکھا:
’’اے اللہ،
ہمیں خیر کی خبر سنا اور ہمیں خیر ہی پر مطلع فرما اور اے اللہ ہمیں عافیت نصیب فرما اور ہمیں ہمیشہ ہمیشہ عافیت سے رکھ۔ اے اللہ، ہمارے دِلوں کو تقویٰ کے کاموں پر جمع فرما دے اور ہمیں اِن اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی اور خوش ہوا۔
اے ہمارے پروردگار، ہم پر گرفت نہ فرما جب ہم بھول چوک جائیں، مالک ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ اے پروردگار، ہم سے وہ بوجھ نہ اُٹھوا، جس کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ نرمی برت، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ہمیں کافروں پہ غالب کر۔‘‘
عبداللہ نے ملک سے کسی فنڈنگ کا آئیڈیا ہمیشہ کے لیے دل و دماغ سے نکال دیا۔ یہاں کسی کو اپنی پراڈکٹ کے بارے میں سمجھانا پراڈکٹ بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔
بِلّو اِس سے کہتی۔ عبداللہ دال روٹی چل رہی ہے، گھر ہے، گاڑی ہے، بچے اسکول جا رہے ہیں، کمپنی میں بیس سے اُوپر ملازم ہیں۔ تو کیوں پریشان رہتا ہے۔
عبداللہ اِسے کہتا کہ اگر وہ دو ہزار لوگوں کو ملازمت دے سکتا ہے تو بیس لوگوں پر اکتفا کیوں کرے؟ ’’دیکھ بِلّو۔‘‘ عبداللہ گویا ہوا۔
اِس وقت اُمت کو سب سے زیادہ ضرورت پیسوں کی ہے۔ کئی ثاقب الذہن لوگ موجود ہیں مگر وسائل ان کے پاس نہیں ہیں۔ دیکھ میں نے کتنے دھکے کھائے مگر دھیلہ نہیں مِلا۔ یہ مُلک مسجدوں پر، مدرسوں پر، ہسپتالوں پر، حتیٰ کہ کھیل کے میدانوں پر، بھوکوں کو روٹی کھلانے پر، زلزلے کے متاثرین کو، بیواؤں کو، یتیموں کو سب کو چندہ دے دیتا ہے مگر بزنس کے لیے نہیں، جو بھیک مانگنا سکھاتے ہیں انھیں پیسے مِل جاتے ہیں ،جو کشکول توڑنے کا ہنر جانیں انھیں نہیں۔
زندگی میں کوئی اُمنگ نہ ہو۔ آرزو نہ ہو، پلان نہ ہو، چاہ نہ ہو تو زندگی موت بن جاتی ہے۔ عبداللہ جیتے جیتے مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اُسے کچھ ماہ بعد آنے والے رمضان کا انتظار تھا کہ وہ پھر مفتی صاحب کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ سکے اور مسجد ہی وہ جگہ تھی جہاں عبداللہ کو قرار آتا تھا، ویسے تو وہ بے قرار ہی رہتا تھا۔
آج کل عبداللہ کے کمپنی کے تھوڑے بہت کاموں کے علاوہ صرف دو کام تھے۔ کتابیں پڑھنا اور فیس بک۔ وہ ہزار صفحات روزانہ کی رفتار پر پہنچ چکا تھا۔ ایک دن اِس سے کسی نے پوچھا کہ حافظہ تیز کیسے ہو کہ آدمی اِتنا پڑھ بھی لے اور ذہن میں رہ بھی جائے۔
عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم کبھی گندی پلیٹ میں کھانا نہیں ڈالتے۔ علم کی آنرشپ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے پاس ہے، اگر ذہن صاف نہ ہو گا تو وہ بھی نہیں آئے گا۔ آنکھوں کی حفاظت کریں تو حافظہ تیز ہو جاتا ہے، جس ذہن میں ناچ گانے، فحاشی اور بے ہودہ لطیفے بھریں ہوں وہاں علم کہاں سے آئے گا۔
عبداللہ روز فیس بک پر کچھ نہ کچھ ایسا لکھ دیتا کہ لوگ ِ چڑ جاتے اور اُسے خوب سناتے۔ وہ اِن سب باتوں پہ خاموش رہتا۔ اُسے ٹھنڈا مزاج پسند تھا۔
وہ بِلّو سے کہتا کہ بے وقوف آدمی یا تو عقل سیکھنے کی کوشش کرتا رہے اور عقلمندوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی گفتگو سنے اور اُن کے اعمال کی علت سمجھنے کی کوشش کرے، یا پھر اپنے آپ کو کسی عقلمند کے حوالے کر دے اور یا پھر خاموشی سے موت کا اِنتظار کرے۔
اُسے بہت تعجب ہوتا جب وہ فیس بک پرایسی تصویریں دیکھتا کہ بیوی تو مکمل شرعی پردے اور حجاب میں ہیں اور شوہر صاحب نے گھٹنوں تک شارٹس اور بغیر آستینوں والی ٹی شرٹس پہنی ہوئی ہے جیسے کہ فیشن کا حق صرف مرد کو حاصل ہے۔
اسے نہ تو شارٹس اور ٹی شرٹس سے کوئی بیر تھا نہ بُرقعے سے۔ وہ محظوظ یہ سوچ کہ ہوتا کہ کاش کوئی ایسی بھی تصویر نظر آئے، جس میں بیوی ماڈرن لباس میں ہو اور شوہر عبا پہنے، پگڑی باندھے۔ ہاتھ میں تسبیح اور یہ لمبی داڑھی کے ساتھ کھڑا ہو۔
جو معاشرہ پہلی تصویر پر کچھ نہیں کہتا اُسے دوسری تصویر پر بھی کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔ عبداللہ سوچتاپاکستان میں مرد عورتیں ہیں اور عورتیں مرد اگر پیمانہ صبروبرداشت ہو۔
فیس بک پر اسے اب تک منافقت کی اِتنی سندیں مِل چکی تھیں کہ اگر کریڈٹ ٹرانسفر کا کوئی اِدارہ ہوتا تو وہ پی ایچ ڈی کر چکا ہوتا۔
اور کچھ نہیں تو آئے روز کوئی نہ کوئی دوست میسج بھیج دیتاکہ آپ کے بچوں نے فرنگی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں گلاس تھا فلاں پکچر میں تو وہ لال رنگ کا مشروب کیا تھا؟ تو کبھی آپ کی اہلیہ بُرقع نہیں کرتیں۔ وہ بھی جہنمی اور آپ بھی کہ انہیں کہتے نہیں ہیں۔ ہمارے گھر میں یوں ہو جائے تو ہم کشتوں کے پُشتے لگا دیں۔
عبداللہ ایسی باتوں پہ بڑا حیران ہوتا، کہ یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں، یہی کہ کسی غریب کا گھر بربادہو جائے؟ بلاوجہ اپنی پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والے کی عمر کیا ہے؟ کن مسائل سے گزر رہا ہے؟ کن سوچوں میں مگن ہے؟ کون سی جنگ ہے جو ہار کے لوٹا ہے؟ کون سا محاذ ہے جس پہ جانا باقی ہے؟
آخر تنگ آ کر اُس نے ایسے سارے نام نہاد ریڈی میڈ فتویٰ دینے والے ’’دوستوں‘‘ سے جان ُ چھڑا لی، فتویٰ نہ ہوا ٹیپ ہو گئی جہاں چاہو چپکا دو۔
صحابہ کرامؓ کے دور میں کُل 142لوگ تھے جو فتویٰ دیتے تھے اور 20عورتیں۔ ہمارے محلے میں کوئی 162نکل آئیں گے۔
عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھو۔ کیوں بھائی، لے کر ہی کیوں آتے ہو کسی غریب کو اگر ایسے ہی اِرادے ہیں؟
مرد پیسہ لاتا ہے، کماتا ہے، تو۔ کیا وہ مالک ہو گیا۔ جسم کا، سوچ کا، اِرادوں کا، رُوح کا، گماں کا، اِمکان کا؟
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسے نہیں کھاتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسوں پہ نہیں سوتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر پیسوں سے راحت نہیں ملتی۔ نہ خوشی ملتی ہے۔ نہ اطمینان۔
اِن پیسوں کو کھانا عورت بناتی ہے۔ اِن پیسوں کو گھر، خوشی، اطمینان، سکون اور بستر عورت بناتی ہے۔
آپ کا نام نہاد’’مرد‘‘ تو روز آفس سے گالیاں، غیبت، بہتان، جھوٹ، ظلم اور حسد کھا کے آتا ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو اُسے تسکین دیتی ہے۔ کھانا کھلاتی ہے۔ دوبارہ سے جوڑتی ہے اور صبح ’مرد‘ بنا کے بھیجتی ہے، جس اِسلام نے عورت کے اِستحصال کے درجنوں طریقے ختم کر کے اُسے نکاح کی حفاظت میں دیا۔ ہم مسلمان ایسے گئے گزرے کہ اسے جانور کے حقوق بھی نہ دیں۔ تف ہے ایسی مردانگی پر۔
عبداللہ کوبِلّو سے بہت محبت تھی۔ زندگی میں کچھ لوگ اعراب کی مانند ہوتے ہیں۔ کوئی کومہ، تو کوئی سیمی کولون، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کے پاس کوئی فل اسٹاپ ہو کہ اِس کے آ جانے سے زندگی رُک جائے، تھوڑی دیر کو ہی سہی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج کراچی سے عبداللہ کے دوست ماہرفاروقی آئے تھے۔ بڑے ہی بُردبار قسم کے معصوم سے آدمی تھے۔ ایم بی اے بھی کیا تھا اور مسجد کے اِمام بھی تھے۔ یعنی ایک تو شریف، اُوپر سے مولوی۔ بڑی مشکل سے ایسے لوگ ملتے ہیں۔
ماہر بھائی خاموش لاؤڈاسپیکر ہیں۔ زبان خاموش رہتی ہے مگر پورا جسم بول رہا ہوتا ہے۔ آنکھیں تو چپ ہی نہیں ہوتیں۔ عبداللہ اِن کی موجودگی میں بہت لطف اُٹھاتا۔ وہ جتنے شرمیلی طبع کے تھے عبداللہ انھیں اِتنا ہی زِچ کرتا۔
ماہر بھائی سے عبداللہ نے کچھ حالات ڈِسکس کئے تو انھوں نے اسے سمجھایا کہ کراچی میں اُن کے شیخ ہیں کوئی مولانا صاحب، اُن سے ملاقات کر لو۔
عبداللہ نے سوچا لو جی ایک اور آیا، پھر مریدوں کاجمگھٹّا، پھر لائن میں اِنتظار اور پھر وعدے وعیدیں۔ عبداللہ نے ماہربھائی کو صاف منع کر دیا کہ وہ نہیں کرے گا بات۔ ماہربھائی بضد رہے۔ آخر پہلے فون پر بات کرنے کی حامی بھری۔ ماہر بھائی نے فون لگا کر عبداللہ کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ‘‘
عبداللہ کو ایک مدھم، ٹھہری ہوئی محبت بھری آواز سنائی دی۔
عبداللہ نے دِل میں سوچایہ توبڑے ماہر ہیں اب دام سے کون نکلے ۔ اُس نے بے چارے مولوی صاحب کو خوب سنائی کہ اُس کی زندگی کا اِمچور ان کے بھائی بندوں کی وجہ سے بنا ہے۔ مولوی صاحب بارہا کہتے رہے کہ آپ غلطی سے ڈاکٹر سمجھ کر کمپاؤنڈر سے ملتے رہے ہو۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ بھئی آ کیوں نہیں جاتے ملنے اگر اِتنے ہی مسائل ہیں۔
یہ کاری وار تھا۔
عبداللہ نے پینترہ بدلا کہ آپ حضرت ٹائم ہی نہیں دیں گے، اب میں پچیس ہزار کا ٹکٹ آپ کے دیدار کے لیے تو خریدوں گا نہیں۔
مگر مولوی صاحب نے بالمشافہ ملاقات کا وعدہ کر لیا اور کہاجتنا ٹائم چاہئے ملے گا۔اور فون بند۔
عبداللہ کویہ بھلے لگے۔ مفتی صاحب کے ادب کی وجہ سے اور ان کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے عبداللہ ان سے بے تکلفی سے بات نہیں کر پاتا تھا کہ مبادا وہ ناراض ہو کر ملنا ہی نہ چھوڑ دیں۔ اس نے ایک دو بار مفتی صاحب کو کسی سے سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے سن لیا تھا اور وہ سوچتا تھا کہ اگر اس سے کبھی ایسے بات کر لی تو وہ تو مر ہی جائے گا۔
عبداللہ نے سوچا یہ نئے مولوی صاحب سے اگر بن گئی تو اچھا ہے کہ کوئی متبادل بھی ہاتھ آ جائے گا اور شاید وہ اِن سے بے تکلفی سے بات کر سکے، انھوں نے اکیلے میں ٹائم دے کر عبداللہ کا دل آدھا تو جیت ہی لیا تھا۔
عبداللہ اگلے ہی روز مولوی صاحب کے پاس کراچی پہنچ گیا۔ وہ راستے بھر سوچتا رہا کہ ملک کا ہر شخص اُمت کے واسطے کام کرنا چاہتا ہے اور اِنفرادی لوگوں کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ کہاں جا کے رہے جو کہیں کا نہ رہے؟
مولوی صاحب بہت خوش مزاج، ہنستے بولتے شخص تھے۔ عبداللہ کو مسکرانے والے مولوی بہت پسند ہیں۔ یہ تو شکل سے بھی بچوں کی طرح معصوم تھے اور تھے بھی غریب عام سی 100روپے والی چپل، 20روپے گز والے کپڑے کا جوڑا اور عام سی ٹوپی۔ عبداللہ کو ماہربھائی کی تمام باتیں اِن صاحب کے بارے میں مبالغہ آرائی لگی کہ عقیدت مند مرید ایسے ہی بڑھا چڑھا کے بولتے ہیں کہ ہمارے حضرت کہ یہ پراجیکٹس اور فلاں فلاں۔
خیر مولوی صاحب نے عبداللہ کو دوپہر کا کھانا کھلایا جس میں بکرے کی کلیجی تھی۔ عبداللہ کو کلیجی بہت پسند ہے۔ اِس نے بلاتکلف پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور کہنے لگا مولوی صاحب! آپ واحد مولوی ہیں جو کلیجہ کھلاتے ہیں، باقی سب تو کھاتے ہیں۔
مولوی صاحب نے عبداللہ کو ساتھ لیا اور ایک فیکٹری میں لیکچر دینے چل پڑے۔ لیکچر کے دوران عبداللہ سوچتا رہا کہ بڑی نپی تلی بات کرتے ہیں اور باتونی لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔ بیان کے بعد کھانا لگا تو مولوی صاحب کھانا کھائے بغیر واپس آ گئے۔ فیکٹری کے مالک نے بمشکل تمام ہاتھ میں کوئی چھوٹا سا تھیلا پکڑا دیا۔
عبداللہ نے سوچا کھانا کھا لینا چاہئے تھا اور لیکچر دینے کے پیسے بھی لینے چاہیے تھے۔ خیرگاڑی میں بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے ملنے والا تحفہ عبداللہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اُس میں ایک انتہائی قیمتی عطر تھا۔ عبداللہ نے کہا یہ توآپ کی مزدوری ہے ۔اِتنی محنت سے لیکچر دیا اور آپ نے ایک نظر دیکھا بھی نہیں ملنے والے تحفے کو؟
انھوں نے کچھ نہیں کہا اور کہا رکھ لو عبداللہ۔
عبداللہ خدا حافظ کہہ کر دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے چلا آیا، مگر سوچتا رہا کہ کچھ لوگ آج بھی موجود ہیں جو صرف اللہ کے لیے کام کرتے ہیں بغیر کسی غرض، بغیر کسی فائدے کے عبداللہ نے اپنی تمام توجہ ایک نئے سافٹ ویئر بنانے پر لگا دی، نہ کوئی دوست آتا نہ ہی عبداللہ کہیں جاتا، ہفتوں ہفتوں اپنے کمرے میں بیٹھا کوڈلکھتا رہتا۔
جب بھی کسی سے بات کرنے کا دِل چاہتا تو گھر کے قریب موجودپیپل کے گھنے درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور اسی سے بغض کرنے لگتا۔
اُسے یہ پیپل کا درخت بڑا پسند تھا۔ عبداللہ اُسے پیپل بھائی کہہ کر مخاطب کرتا۔ آج عبداللہ پچھلے دو گھنٹوں سے درخت کوگھُور رہا تھا۔کبھی اس کی شاخوں پہ ہاتھ پھیرتا تو کبھی تنے سے گلے لگ جاتا۔ کبھی پتوں پر پڑی شبنم دیکھتا تو کبھی اس کے اُوپر بیٹھ جانے والے پرندوں سے محظوظ ہوتا۔ وہ درخت کو ایسے پیار کرتا جیسے کوئی اپنے بچوں کو پیار کر رہا ہو۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ اُس کی زندگی اِس پیپل کے درخت سے کتنی مشابہ ہے۔ عرصہ پہلے لوگوں نے زمین میں ایک بیج دبایا ہو گا اور بھول گئے ہوں گے۔ زمین، سورج، ہوا، پانی، حشرات الارض، سب نے مِل کے اُسے سینچا ہو گا۔ بیج میں سے زندگی نکلی ہو گی، کونپل آئی ہو گی اور پھر اس نازک سی کونپل نے زمین کا سینہ پھاڑ کے اپنے وجود کا اعلان کیا ہو گا، پھر وہ بڑھتی چلی گئی ہو گی۔ آس پاس کی ہواؤں کے زور اور تھپیڑے سہنے کے لیے اس کاتنا طاقت ور ہوتا چلا گیا ہو گا اور پھر شاخیں، پھر پھول اور پھل۔ اسی کا نام تو زندگی ہے۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ اس کے ملک کے لوگوں نے اِسے بھی زمین میں دبا دیا۔ یہ تو اُن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ بیج ہے۔اللہ کی قدرت نے اِسے سینچا اور وہ زمین کا سینہ توڑ کر باہر نکل گیا۔ معترضین اور حاسدین کے حسد سے بچنے کے لیے اس کا بھی تنا موٹا ہو گیا۔ گر جانے کے خوف سے اس نے بھی اپنی جڑیں زمین سے چپکا لیں اور وہ بھی آج اِس پیپل کے درخت کی طرح کھڑا حالات کا مقابلہ کر رہا ہے۔
عبداللہ نے باٹنی میں پڑھا تھا کہ یہ درخت بھی دیکھتے ہیں۔ الٹراوائلٹ لائٹ سے انھیں بھی پتہ چلتا ہے کہ بندے نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہیں، اگر کوئی اور پودا اِن کی روشنی روک لے تو یہ مخالف سمت میں بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پانی کم ہو تو جڑیں دُور دُور تک پھیلا دیتے ہیں۔
عبداللہ کو لگتا کہ درختوں کی میموری بھی ضرورہوتی ہو گی، بھلا پانی دینے والوں کو بھی کوئی بھولتاہے ؟ انھیں خوف بھی آتا ہوگا، جب ایک پودے پر وائرس حملہ کر دیں تو آس پاس والے پودے خودبخود اس وائرس سے بچنے کے لیے کیمیکل بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
عبداللہ سوچتا یہ درخت بھی ذِکر کرتے ہوں گے اور دُعا مانگتے ہوں گے، مجھے اِن کی دُعاؤں میں ضرور شامِل ہونا چاہئے۔ وہ سوچنے لگا کہ اِسے درختوں سے سیکھنا چاہئے، باقی مخلوق کے برعکس یہ اپنے حالات اور ما حول تبدیل نہیں کر سکتے۔
حالات سازگار ہوں نہ ہوں تو پرندے کُوچ کر جاتے ہیں۔انسان نقل مکانی کر جاتے ہیں، مگر درخت۔ یہ تو کہیں نہیں جاتے، انھیں تو ہمیشہ اُسی جگہ پر ثابت قدم رہنا ہوتا ہے اور مرتے دم تک حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ انسان کو صبر درختوں سے سیکھنا چاہئے۔
آہ! یہ درخت بھی اِنسانوں سے بازی لے گئے۔ عبداللہ نے بھیگی آنکھوں سے درخت کو بوسہ دیا جو اسے بھی سایہ دیتا ہے جو اِسے کاٹ رہا ہو اور گھر واپس روانہ ہو گیا۔