عبداللہ کی قوتِ مشاہدہ روز بروز تیز ہوتی جا رہی تھی، وہ ہر بات کے پیچھے ہونے والے سبب کو محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کے سامنے چیزیں اپنی وقعت، اپنا رنگ، اپنا رُوپ سب کھو دیتی تھیں، وہ ٹوٹے ہوئے برتنوں سے لے کر شہد کی مکھی تک،اور پانی کے مٹکوں سے لے کر بارش کی بوندوں تک سے علم کشید کرنے لگا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ غیراللہ کی محبت بھی ایک جان لیوا مرض ہے جس کا علاج تصوّف کرتا ہے۔
پرندوں کے جھنڈ دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا، جب پرندے Flockکی صورت میں اُڑتے تو اسے قدرت کی سادگی اور کمال پہ تعجب ہوتا کہ کہاں تو اِتنی پیچیدہ پرواز اور کہاں اِتنے سادہ اصول جو نہ اسے دوسرے پرندوں سے ٹکرانے دیتے ہیں۔ نہ سمت بھولنے دیتے ہیں۔ اور اُڑان کا تووہ ہمیشہ سے ہی شیدائی تھا۔ وہ سوچتا کہ پرندوں کو بھی روٹی روزی زمین پہ لاتی ہے۔ اِنسان کو بھی چاہیے کہ تھوڑی دیر معاش کی فکر میں لگائے اور پھر اُڑ جائے خُدائے پاک وبر تر کے جہاں میں اور چھوڑ دے آزاد اپنے تخیل کو کہ مشاہدہ ہو خدا کی صنّاعی کا۔ وہ سوچتا کہ پرندوں کی طرح اِنسانوں کے بھی پَر ہوتے ہیں، ایک ہمت کا اور دوسرا شوق کا۔ دونوں کے سائز برابر ہونے چاہئیں تاکہ اُڑا جا سکے۔ بے شک ا للہ نے دُنیا اہلِ ہمت اور اہلِ صبر کے ہاتھ میں رکھی ہے۔
عبداللہ سوچتا کہ ایک چھوٹا سا بارٹیل گوڈوِٹ پرندہ براعظموں کا سفربلا تکان، بلا رُ کے کرلیتا ہے، دنوں کے سفر میں نہ اُسے نیند آتی ہے، نہ بھوک لگتی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا ہزاروں میل اُڑ جاتی ہے اور کوئی طوفان، کوئی ہوا۔ کوئی بجلی، کوئی بارش اس کا راستہ نہیں روک پاتی۔ سائنسدانوں نے9 دن اور9 راتوں کی 11 ہزار کلو میٹر کی فلائٹ ریکارڈ کی ہے بغیر رُکے جو یہ پرندہ کر لیتا ہے۔
اسے لگتا کہ وہ خود بھی ایک پرندہ ہے اور لا اِلٰہ الّااللہ اُس کا ترانہ ہے۔ عبداللہ کو خاردار تاریں پسند نہیں تھیں۔ وہ کہتا کہ لگتا ہے اُڑنے والے پرندوں کو کسی نے لائن میں پرو دیا ہے۔ اِتنی بڑی دُنیا میں بھی عبداللہ کو اپنا دم گھٹتے محسوس ہوتا اور وہ چاہتا کہ آزاد ہو جائے۔
آج عبداللہ کی ملاقات پھر انہی کراچی والے مولوی صاحب سے ہوئی۔ وہ اپنی بڑی سی گاڑی میں اسے اپنا مدرسہ دکھانے لے گئے۔ گاڑی میں ان کے مسلح محافظ بھی تھے۔
عبداللہ انھیں یاجوج ماجوج کہتا۔ گاڑی میں عبداللہ سوچ رہا تھا کہ وہ تو بے کار آدمی ہے مگر کسی نے اگر مولوی صاحب پر حملہ کیا تو وہ گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپ جائے گا، پھر وہ اپنے خیال پر خود ہی ہنسنے لگا کہ اگر مر گیا تو مولوی صاحب کے مرید کہیں گے کہ واہ جی واہ کیا موت ہے۔ حضرت کے چرنوں میں موت آئی۔ تو وہ سوچنے لگا کہ حملے کی صورت میں مولوی صاحب کے سر پر چڑھ جائے گا، مگر پھر شاید ان کے مرید کہیں گے کہ واہ جی واہ، حضرت کی جان بچانے میں اپنی جان دے دی۔ بھاڑ میں گئے سب میں مروں ہی کیوں اِس کار میں، عبداللہ نے زیرِلب دُعا مانگی۔
خیراللہ اللہ کر کے مدرسہ آیا، کیا خوب عمارت تھی۔ یہاں انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ عبداللہ نے ایک کلاس میں جا کر انگریزی میں بات چیت کی اور مدرسے کے بچوں کی انگریزی سن کے بڑا خوش ہوا۔ کوئی وجہ نہیں کہ مدرسے کے بچے پڑھ لکھ نہ سکیں اگر ہم انھیں صحیح تعلیم دے دیں۔
مولوی صاحب اُسے آخر میں بالائی منزل پر لے گئے اور وہاں ایک طالبِ علم کو بلوایا گیا۔ اُسے سب کمپیوٹر بچہ کہتے تھے۔ بچے نے آکر قرآن پاک سنانا شروع کیا۔ اسے جو آیت سنائی جاتی وہ وہیں سے قرآن پاک پڑھ لیتا۔ اسے سب کچھ یاد تھا۔ سورت مکی ہے یا مدنی ، کتنی آیات ہیں، کتنے رکوع ہیں سب کچھ۔
عبداللہ کی طبیعت سخت مکدّر ہوئی۔ اسے یہ گیم بالکل پسند نہ تھے۔اللہ حسین ہیں حسن کو پسند کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ذہین بچے کو ایک سو رت آتی، ترجمہ، تفسیر اور اُس کی رُوح کے ساتھ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے جب کہا گیا کہ فلاں شخص اُلٹا قرآن پڑھ سکتا ہے تو انھوں نے کہا اللہ اس کے دل کو بھی اُلٹ دیں گے۔ حضرت عمرِفاروقؓ نے ۲۱سال میں صرف سورہ بقرہ یاد کی۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ جتنے حافظ ہمارے دور میں ہوتے ہیں شاید کبھی بھی نہ ہوتے ہوں، لیکن جتنا عمل ہم لوگ کرتے ہیں قرآن پر اِتنا کم عمل بھی شاید کبھی نہ ہوا ہو۔ اسے حفظ کرنے یا نہ کرنے پر کوئی بحث نہیں تھی۔ قلق صرف اِس بات کا تھا کہ میرے محبوب اللہ کا کلام ہے۔ محبت سے پڑھنا چاہیے ایسے کہ جیسے عبداللہ درخت کو دیکھتا تھا۔ تمام جزئیات، احساسات، تراکیب اور روشنیوں کے ساتھ۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ قرآن پہ تماشا کبھی نہیں لگانا چاہئے۔اللہ کا کلام ہے۔ ادب ملحوظِ خاطر رہے۔ بے ادبی میں جب کوئی انسان اپنی زبان کھول دیتا ہے تو نماز چھن جاتی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ سوچنے لگا کہ علم کا آغاز خاموشی سے ہوتا ہے کہ بولے نہیں اُستاد کے سامنے یہ خاموشی بڑی چیز ہے۔ یہ ربّ کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جو غارِحرا میں ۰۰۶سال بعد وحی کھینچ لائی۔ یہ وہ خاموشی ہے جو غارِ ثور میں رسالت پناہ اور صدیقِ اکبرؓ کے درمیان تھی۔اور یہ وہ خاموشی ہے جو آنسو بن کر اس بے بس و کمزور شخص کی آنکھوں سے گرتی ہے جو کسی کم ظرف کے آگے دستِ سوال رکھتا ہے۔ وہ باتیں جو خاموشی میں کی جاتی ہیں، بولنے والے اُسے کا پرتو بھی نہیں پاسکتے۔ بندہ خاموش ہوتا ہے تو قدرت بولتی ہے۔ یہ چرندپرند، یہ پھول بوٹے،یہ آبشار اور جھرنیں، یہ پہاڑ و ہوائیں سب بولتے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ بس بندہ خاموش رہے۔ علم کا دوسرا پڑاؤ سننا ہے، آرام سے، سکون سے، بات کیا ہے۔ پسِ منظر کیا ہے،کون بول رہا ہے۔ سننا اور سنتے رہنا بے شک اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، جس کے اندر جنگ جاری ہو اسے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ باہر جنگ جیتنے سے پہلے اندرونی جنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اپنے آپ میں گم ہو جانا، دُنیا میں گم ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ اُور بے شک اللہ سے بہتر سننے والا کون ہے ؟
علم کا تیسرا پڑاؤ حفظ ہے کہ جو کچھ سیکھے یاد کرے یا لکھ لے کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔
علم کا چوتھا مرحلہ عمل ہے کہ جو کچھ سنا، جو کچھ لکھا اب اِس پر عمل کر کے اُسے بھٹی میں پکا لے۔ علم کے اُوپر آزمائش کی بھٹی چلتی ہے تو علم دِل پر ثبت ہو جاتا ہے، پھر مٹائے نہیں مٹتا۔
اور پانچواں اور آخری مرحلہ علم کو بیان کرنا ہے، شائع کرنا ہے۔ علم جمع کرتے رہنا چاہیے اور خرچ بھی کرتے رہنا چاہیے، جو شخص علم خرچ نہیں کرتا اُس کا علم جمع بھی نہیں ہوتا اور بدترین ملاوٹ علم میں جھوٹ کی ہے۔
عبداللہ کو لگتا تھا کہ اس نے یہ سارے مراحل اُوپر نیچے کر دیئے ہیں۔ باتوں کا اُسے شوق تھا۔ سننے پہ طبیعت کہاں مائل ہوتی ہے۔ تھوڑا بہت یاد کر لیا تو کر لیا، عمل کوئی تھا نہیں کہ نقوش ثبت ہوں اور تشریح و ترویج اُس سے کبھی ہوئی نہیں۔
آنسو ایسے ٹپ ٹپ گرنے لگے جیسے کہ بارش میں کسی کا جھونپڑا ٹپکے۔اس نے دُعا کو ہاتھ اُٹھائے:
’’یا اللہ، اے میرے اللہ سائیں، تو بارش کی بوندوں پر مانگی جانے والی دُعائیں قبول کرتا ہے۔ آج میرے آنسوؤں کی بارش ہے۔ اے اللہ، میں نے ہر اِک سے یہی سنا ہے کہ تو معاف کر دیتا ہے اور مجھے تجھ سے اچھے کی ہی اُمید ہے، مجھے بھی معاف کر دے۔ اے اللہ، عبادت کی تو قضا بھی ہے مگر جو زندگی غفلت میں گزر جائے اُس کا کیا؟ بس معاف کر دے۔
اے اللہ، میں ان تمام گناہوں سے معافی اور تیری بخشش چاہتا ہوں جو گناہ میں نے اب تک کی زندگی میں کر کے، توبہ کی تھی اور پھر اپنی شامتِ نفس سے دوبارہ انھی گناہوں میں مبتلا ہو گیا۔ اے اللہ میں اِن تمام گناہوں سے بھی معافی مانگتا ہوں جو اپنی ذات کے متعلق کوئی وعدے میں نے آپ سے کیے اور پھر وہ وعدے پورے کرنے کی بجائے، پھر انھی گناہوں کو دوبارہ کر لیا۔ اور اے اللہ اِن تمام گناہوں سے بھی معافی مانگتا ہوں جو میں نے اِس لیے کیے کہ تو نے اپنی نعمتیں مجھے دیں لیکن میں نے اِن نعمتوں کو تیری نافرمانی کا ذریعہ بنا لیا۔ اے اللہ وہ تمام گناہ بھی معاف فرما دے جو میں نے کوئی نیکی کا کام جو صرف تجھے راضی اور خوش کرنے کے لئے کرنا تھا لیکن میں نے اُس نیکی کے کام میں تیرے علاوہ کسی اور کو خوش کرنے کی نیت کر کے اپنی نیت اور نیکی کو کھوٹا کر دیا۔
اے اللہ مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ذلیل نہ کر کہ تو تو میرے کرتوتوں کو خوب جانتا ہے اور ا ے اللہ مجھے عذاب بھی نہ دے کہ تجھے تو مجھ پر ہر طرح کی قدرت حاصل ہے اور میں تیرے سامنے بالکل عاجز، بالکل بے اختیار اور بے بس ہوں۔‘‘
عبداللہ کو کچھ ہی روز میں امریکہ سے پھر کچھ کام مِل گیا اور وہ ایک بارپھر روانہ ہوا۔ پچھلے ۶ ماہ میں یہ اُس کا چوتھا چکر تھا۔ دو سال پہلے اسے ایک فیلوشپ کے درمیان ٹونی مِلا تھا۔ ٹونی خود بھی اسی فیلوشپ پہ جا چکا تھا۔ ٹونی ہر بار کوئی نہ کوئی کام عبداللہ کے لیے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اِس بار وہ ٹونی کے بلاوے پر ہی امریکہ جا رہا تھا۔
ٹونی کوئی ۶ فٹ کا سلم اور سمارٹ خوبصورت گورا تھا جس نے بڑی اچھی پوزیشن پر کوئی بیس سال دُنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کیا تھا۔ آج کل وہ اپنی بنائی ہوئی ایک کمپنی میں وائس پریزیڈنٹ تھا۔ ٹونی میں سوائے شہادت کے مسلمانوں والی ساری خصوصیات تھیں۔
ٹونی نے اِس بار عبداللہ کو اپنی دوست جو ایک بہت بڑی کمپنی میں سیلز کی ہیڈ تھی اِس سے ملوایا۔ مارتھا اِس کا نام تھا۔ مارتھا سے زیادہ ہارڈورکنگ عبداللہ نے آج تک کوئی عورت نہ دیکھی تھی۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ عبداللہ کے غیرروایتی مزاح اور نپے تلے گہرے جملوں کو سمجھ لیتی تھی۔عبداللہ خوب جانتا تھا کہ گہرائی میں موجود پریشر کی خبر ساحل سے نہیں ملتی۔ کوئی نہ کوئی غم، کوئی بات مارتھا میں ایسی تھی جو عبداللہ کی فریکونسی سے ہر بارمیچ کر جاتی۔
ٹونی اور مارتھا دونوں کوئی چالیس کے پھیرے میں ہوں گے۔
ٹونی نے عبداللہ سے کہا کہ کیا وہ بتا سکتا ہے کہ جس کاؤنٹی میں وہ رہتا ہے اُس کا مستقبل کیا ہو گا؟ نوکریاں بڑھیں گی یا ختم ہوں گی؟ لوگ آئیں گے یا جائیں گے؟ آبادی کس تناسب سے بڑھے گی؟ کوالٹی آف لائف کیسے اِرتقا پذیر ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
عبداللہ نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔
ٹونی واپسی پر عبداللہ کو ہوٹل چھوڑنے جا رہا تھا تو عبداللہ نے سوال کیا:
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں ٹونی ہوں۔‘‘ ٹونی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ارے ٹونی، میں یہ پوچھ رہا ہوں تمہارا مذہب کیا ہے؟‘‘
’’اوہ! میں پلا بڑھا کیتھولک فرقے میں ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب۔ اب کیا ہو؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ میں پادری و کلیسا سے اِتنا بے زار آ چکا ہوں کہ اپنے آپ کو کیتھولک کہنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے چپکانے کا دِل نہیں کرتا۔
دراصل ہوا یہ کہ بندے اور ربّ کا ڈائریکٹ رابطہ ہونا چاہیے مگر پادری و کلیسا بیچ میں آ گئے۔ میں شاید کبھی بغیر فرقے کے چرچ میں چلا بھی جاؤں مگر اِس خواہش کو بھی سال بیتے کہ پوری نہ ہوئی۔ میں کوئی مذہبی آدمی ہوں ہی نہیں۔ مذہب کا مقصد تو بہتر اِنسان بنانا اورزندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور مذہب یا آج کل کا مذہب ایسا کر ہی نہیں پاتا اور مجھے تو خود بھی اچھے انسان کی تعریف کرنا نہیں آتی۔ کسے کہتے ہیں اچھا انسان، کیا تمہیں پتہ ہے۔‘‘
عبداللہ نے دِل ہی دِل میں کچھ پڑھا اور اِنتہائی آرام و شائستگی سے کہنے لگا۔ ٹونی، اِنسان وہ ہوتا ہے جس سے کسی اور کو نقصان نہ پہنچے، جسے یہ پتہ ہو کہ ایک دن مرنا ہے، جسے پتہ ہو کہ اچھائی ہمیشہ اچھائی ہے۔ بھلے ظاہری نتیجہ کچھ بھی نکلے، جسے پتہ ہو کہ پڑوسی، ماں، باپ، بچوں اور اُس خدا کے کیا حقوق ہیں، جس نے اُسے بنایا۔ وہ جو اپنے لین دین اور وعدوں میں دیانت دار اور سچا ہو، جو وعدے نبھانا جانتا ہو، جو جھوٹ نہ بولے۔ جو دوسروں کا بھی اِتنا ہی خیال رکھے جیسے کہ اپنے اہل و عیال کا اور ایک ایسا آدمی جو شہد کی مکھی یا درخت کی طرح دُنیا سے بہت تھوڑا لے اور زیادہ لوٹائے۔
’’Wow، تمھیں اِسلام کی بڑی معلومات ہیں۔‘‘
عبداللہ سوچتا رہا کہ کتنا عجیب ہے کہ میں اِنسان کی تعریف کر رہا تھا۔ نہ میں نے حدیث پڑھی نہ قرآن کا حوالہ دیا اور پھر بھی یہ سمجھا کہ میں اِسلام کی بات کر رہا ہوں۔ اِس نے سوچا کہ بندے تو ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں خواہ پاکستان ہو یا امریکہ۔ ایک پیدائشی تڑپ ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ خالق تک پہنچے اور سب کے مسائل بھی ایک جیسے، کوئی مولوی صاحب کی عنایتوں کا شکار تو کوئی پادری کے ہاتھوں برباد۔
یہ قصور ہمارا ہی ہے کہ دینِ فطرت کو اِن کی زبان میں اِن تک نہیں پہنچا سکے، ورنہ کیا وجہ ہو کہ اِتنی باشعور، محنتی، عقل سے کام لینے والی اور مجبوریوں سے ماورا قوم اِسلام کو نہ پہچانے، اگر ہم نے اپنا دین ان کی زبان میں ان تک نہ پہنچایا تو وہ کیوں کر مسلمان ہوں گے اگر انھوں نے حشر میں کہہ دیا کہ اللہ ہمیں تو پتہ ہی نہ لگا کہ اِسلام تھا کیا تو ہم کیا کریں۔ ہم نے کوشش کی مگر یہ لوگ خودکش حملوں، مارومارو کافرمارو سے باہر نکلتے تو کچھ سمجھاتے نہ۔ ہر شخص کی اپنی زبان، اپنی تعریف، اپنے سلوک، اپنے احکام، ہم کون سے والے قِسم پہ اِسلام لاتے تو ہم مسلمان کیا کریں گے۔
کیا پتہ ’’کوئی مذہب نہیں‘‘ کہنے والے لوگوں کا دِل کب کب دھڑکتا ہو۔ گواہی میں کہ اللہ ہے مگر حواسِ خمسہ اِس کے وکیل ڈھونڈتے رہ گئے ہوں۔ کیا معلوم کتنوں نے ذہن و دِل کی اِس لڑائی میں جان کھو دی ہو اور کیا پتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کس کس کو کیسے کیسے ہدایت سے بہرہ مند فرما دیا ہو۔ طلب ہو تواللہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، آخر وہ ربّ ہے، پالنہار ہے، لجپال ہے، پروردگارہے۔ اِس کو کب کھلتا ہے کہ بندے کو واپس بھیج دے۔
اے اللہ، سب کو ہدایت دے اور مجھے طاقت دے کہ آذر کدے میں اذان دے سکوں۔ تجھے مؤذّنِ حق بلالِ حبشیؓ کا واسطہ،تجھے صاحب النِداء حضرت عبداللہ بن زیدؓ کا واسطہ۔ اے رونے والوں کے ربّ تجھے ان رونے والوں کا واسطہ مجھ سے کام لے لے۔ آمین!
عبداللہ، ہوٹل میں پہنچا اور رات بھر شہری پلاننگ کے سافٹ ویئر کے بارے میں سوچتا رہا۔
پچھلی صدی میں انسان کے اطراف میں بکھری ہوئی چیزوں، سامانِ آسائش و آرائش اور ماحول میں بڑی ترقی ہوئی۔ اُونٹوں کی جگہ ریل، کار اور جہاز آ گئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کار، مکان، فون بستر، کھانے، گھومنے کی جگہیں، کھیل و تفریح کا سامان، غرض ہر چیز پر کام ہوا، ایک چیز جو رہ گئی، جس پہ کام نہیں ہوا وہ ہے اِنسان کی ذات۔ کاش اِس کا عشرِعشیر بھی اگر انسان بنانے میں لگا ہوتا تو شاید آج دُنیا ایک بڑی اچھی جگہ ہوتی۔
خدا جب شہروں کو دیکھتا ہو گا تو کیسے دیکھتا ہو گا۔ کسے تباہ کرنا ہے کسے بچانا ہے۔ وہ تو ہر ایک کی سنتا ہے۔ اس کی تو سب پر نظر ہے۔
کیا ہم ایسا سافٹ ویئر نہ بنا لیں جس میں کاؤنٹی میں موجود ہر شخص کا ڈیجیٹل کلون موجود ہو جس کے پاس اس شخص کی ساری خصوصیات و معلومات ہوں، جو کہ ارتقا ء کرے ،وقت کے ساتھ ساتھ، نئی چیزیں سیکھے،بات چیت کرے، بڑھے، جوان ہو،مر سکے، کچلا جا سکے اور ترقی کر لے۔ کیا ہم جذبات کی نمائندگی کر سکیں گے کمپیوٹر پروگرامز میں، کیا ہم شعورولاشعور کو الگورتھم میں سما سکتے ہیں۔ کیا ایسی کوئی انفارمیشن ہے جس کے بغیر کام چل سکے۔
کیا ہم اِس ڈیجیٹل دُنیا کو چلا سکیں گے؟ کیامستقبل میں جا سکیں گے؟ کیا ہم مستقبل میں جاکے ماضی کو یہ بتاسکیں گے کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ پودوں اور انسانوں میں بہت سے جینز مشترک ہیں۔ پودوں کو روشنی نہ ملے تو مرجھا جاتے ہیں۔ انسان کی روشنی کیا ہو؟اللہ کا ذِکر، اور نہ کرے تو؟ مرجھایا ہوا اِنسان کیسا لگتا ہے؟
جتنی تیزی سے عبداللہ کا دماغ چل رہا تھا۔ اس رفتار سے اس کے ہاتھ کی بورڈ پر پروگرام ٹائپ کر رہے تھے۔ صبح تک عبداللہ اپنے سافٹ ویئر کی پروٹوٹائپ بنا چکا تھا۔
کچھ ہی روز میں عبداللہ کوئی ساڑھے تین سو لوگوں کے سامنے اپنا سافٹ ویئر پیش کر رہا تھا۔ تعریف و خوشامد کا ایک سیلاب تھا جوتالیوں کی گونج میں اُمڈ آیا تھا۔ عبداللہ جلد ہی بے زار ہو گیا۔ اسے پتہ تھا کہ کِبراور اُس کا اظہار بدترین اخلاقی بیماریوں میں سے ایک ہے۔
عبداللہ نے سوچا کہ یہی کام کرتے رہنا چاہیے۔ خوب پیسے ملیں گے۔ کفر ہو یا اِسلام جڑیں مضبوط کرنے کے لیے مال خرچ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جولوگ اِسلام کے نام پر جھوٹے سچے دعوے کرتے ہیں۔ کل اگر سائبر وار یا نیوکلیئروار چھڑ گئی تو کیا مسجدوں سے اذانیں دیں گے؟ آپ کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہو جائے تو آپ پیسے خرچ کر کے پیٹرول ڈلوا دیتے ہیں۔نا کہ یہ کہ پورا شہر مسجد میں اکٹھا ہو کر دُعائیں مانگیں کہ اے اللہ، گاڑی چلا دے۔
عبداللہ نے ٹونی اور مارتھا سے واپس آنے کا وعدہ کیا اور پاکستان روانہ ہو گیا۔ ٹونی نے امیگریشن، ویزہ سب کی ذمہ داری اُٹھالی، کمپنی کے لیے سرمائے کے بندوبست کی بھی۔آج بھی عبداللہ پھر سربسجود تھا۔
’’اے اللہ! آپ میری حقیقت کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں اور اے اللہ لوگ جو میری تعریف کر رہے ہیں، میں اِن سے زیادہ اپنی حقیقت کو جانتا ہوں۔ اے اللہ مجھے یہ لوگ جتنا اچھا سمجھتے ہیں، مجھے اِس سے بھی بہتر بنا دے اور اے اللہ میری اِن خطاؤں سے درگزر فرما جن کا علم، اِن تعریف کرنے والوں کو نہیں ہے اور اے اللہ جو کچھ لوگ میری تعریف کر رہے ہیں۔ میرا اِن جملوں پر مواخذہ نہ فرما!
اے اللہ، کمپنی کھولنے چلا ہوں تو کامیابی عنایت فرما۔ ا ے اللہ تو دُعا کا در کھولتا ہے تو قبولیت کا بھی کھول دے کہ یہی تیری شان ہے۔ آمین!
عبداللہ پاکستان پہنچا تو اسے ایک شخص کی ای میل ملی جس میں اس نے کچھ ادھار کی درخواست کی تھی۔ عبداللہ نے کچھ ہی دیر میں اسے پیسے آن لائن ٹرانسفر کر دیئے۔ جب بلّو کو پتہ لگا تو وہ حیران رہ گئی کیونکہ وہ مانگنے والے شخص کو جانتی تھی اور یہ بھی کہ اس نے سوائے عبداللہ کو نقصان پہنچانے اور حسد کرنے کے کچھ نہیں کیا۔
بِلّو نے عبداللہ سے کہا۔ عبداللہ کیا ہو گیا ہے تمھیں۔ تم دُنیا میں کسی کو پیسے دے دیتے اسے کیوں دیئے کہ یہ تو ہمیشہ تمہیں نیچا دکھانے کی تگ و دو میں رہتا ہے اور سوائے دُکھ پہچانے کے اِس نے کیا بھی کیا ہے تمہارے ساتھ۔
ٹھیک کہتی ہے بِلّو۔ اِسی وجہ سے تو دیئے ہیں۔ میں نے پہلے سوچا کہ جھڑک دوں مگر پھر میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا ایسا کرنے سے میرا نفس خوش ہو گا یا غمگین تو یقین ہو چلا کہ وہ تو خوش ہو گا۔ تو میں نے دے دیئے۔ پانچ بڑے فائدے ہوں گے اِس سے:
۱۔ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا جو توڑے اُس سے جوڑو۔ تو ایک تو اِس حدیث پر عمل ہو گیا۔
۲۔ دوم یہ کہ ایک مسلمان بھائی کی مدد ہو گئی۔ تو سوچ میرا اس سے جو تعلق ہے اِس کا تو اسے بھی پتہ ہے۔ اِس کے باوجود اگر وہ میرے دروازے پہ آیا تو کوئی تو ایسی مجبوری ہو گی۔ بے بس اور مجبور دُشمنوں سے مقابلہ نہیں کرتے۔ انھیں گلے لگاتے ہیں کہ کدورت دُھل جائے۔
۳۔ سوم یہ کہ ایسا کرنے سے میرے دل میں اگر اِس شخص کے لیے کوئی بغض ہوا تو جاتا رہے گا۔
۴۔ چوتھا فائدہ یہ ہوا کہ شاید اب اس کی زبان بند ہو جائے تو جو میرا وقت فضول اور لغو الزامات سننے میں لگ جاتا تھا اور اُس کے بعد طبیعت پر جو بوجھ آتا تھا وہ اب اِنشاء اللہ نہیں آئے گا اور
۵۔ پانچواں اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ ایک دن میں نے بھی کسی کے سامنے جانا ہے۔ اِس نے اگر حساب کتاب پوچھ لیا تو مارا جاؤں گا۔ اس نے پوچھ لیا کہ نمازیں کیوں چھُٹ گئیں، جھوٹ کیوں بولا۔ گناہ کیوں کرتے رہے تو کیا جواب دوں گا۔
میں نے اللہ کے ایک بندے پر جرح چھوڑ دی اُلٹا اُسے نواز دیا، مجھے اُمید ہے میرااللہ اِس کا پاس رکھے گا۔ وہ بھی اِن شاء اللہ مجھے بغیر جرح کے نواز دے گا۔
بِلّو عبادت کی قضا تو ممکن ہے مگر جو زندگی غفلت میں گزر جائے اُس کا کیا؟ ہر دم اپنی ذات کی نفی کرتے رہنا چاہیے، جو جتنا مٹا، راہِ ہدایت اُس پر اُتنی ہی مر مٹی۔ بِلّو جو فقیر غصے میں ہو اِسے بھیک نہیں ملا کرتی۔ غصہ تھوک دینا چاہیے۔
عبداللہ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے:
’’اے اللہ، میں نے ان تمام لوگوں کو معاف کیا جو بغیر کسی وجہ کے مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، تو بھی مجھے بغیر کسی وجہ کے، معاف کر دے۔ اے اللہ، اِس مُلک میں تو نیتوں کی بھی چوری ہو جاتی ہے۔ میں تیرے لیے کام شروع کرتا ہوں مگر نفس اسے بیچ میں سے اُچک لیتا ہے۔اللہ مجھے نیتوں کے چوروں سے بچا۔ میں اپنی نیتیں تیری اَمان میں دیتا ہوں۔
اے اللہ تو ہر عیب سے پاک ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ تعریف بھی تیرے ہی لیے ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، تیرا کوئی سہیم نہیں۔ میں نے بہت بُرے کام کیے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتا رہا ہوں۔ اے میرے مالک مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور میری توبہ کو قبول فرما، بلاشبہ تو توبہ کو بہت قبول فرمانے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
عبداللہ کو آج علی الصبح فون کال ملی ماہر بھائی کے پاس سے کہ کراچی والے مولوی صاحب اِسلام آباد سے دوگھنٹے کی دُوری پر ایک گاؤں میں آئے ہوئے ہیں۔ اپنے ہی ایک مدرسے کی گریجویشن میں اور اگروہ ملنا چاہے تو وہاں چلا جائے۔
عبداللہ نے گاڑی نکالی اور روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب ابھی پہنچے نہیں ہیں۔ وہ خاموشی سے مسجد میں بیٹھ گیا۔وہاں گریجویشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں، کچھ ہی دیر میں عبداللہ بور ہو گیا۔ خیر مولوی صاحب آ گئے اور فنکشن شروع ہوا۔ مدرسے کے ایک طالبِ علم نے آ کر سیرت النبیﷺکی شان میں انگریزی میں تقریر کی۔ لوگوں نے خوب داد دی۔ عبداللہ فنکشن کے آخر میں اِس بچے سے مِلا اور کہا کہ گو کہ اِس کی انگریزی باقی لوگوں کی نسبت بہتر ہے کہ گاؤں میں کسی کو ڈھنگ سے اُردو بولنا نہیں آتی تو انگریزی تودِلّی ہنوز دُور است۔
عبداللہ نے سمجھایا کہ برخوردار تم سوچتے اُردو میں ہو اور بولتے انگریزی میں ہو اِسی لیے گرامر کی ایسی غلطیاں کرتے ہو کہ حد لگ جائے۔ اِن جھوٹی تالیوں میں آ کر یہ نہ سمجھنا کہ کچھ آ گیا ہے۔ میں تمہیں کچھ کتابیں بھیجوں گا وہ پڑھو اور پھر شہر میں آکے تقریری مقابلوں میں حصہ لو کہ پتہ ماری کی محنت کرنی پڑے۔
تھوڑی دیر بعد کھانے پر مسجد کے مہتمم صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ کراچی والے مولوی صاحب کے معتقدین میں سے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ حضرت کو کیسے جانتے ہیں؟ عبداللہ جینز ٹی شرٹ میں ہونے کی وجہ سے پوری مسجد میں انوکھا ہی لگ رہا تھا۔
جی جانتا کہاں ہوں، تعارف ہے۔ جانا تو آج تک اپنے آپ کو بھی نہیں۔
مہتمم صاحب نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت بڑے مقام والے ہیں۔ کیا شان ہے، کیا تقویٰ، ایسے لوگ تو اَب نایاب ہو گئے ہیں جی۔اللہ کی کیسی کیسی فضیلتیں سمیٹتے ہیں کیا بتاؤں؟
ایسے اچھے ہیں کہ بس کیا بتاؤں؟
عبداللہ نے حدالامکان کوشش کی کہ خاموش رہے مگر’’کیا بتاؤں؟‘‘ کی گردان نے سارے بند توڑ دیئے۔
’’اچھا یہ بتایئے کہ آپ اپنے حضرت کی جگہ کب لیں گے؟‘‘ عبداللہ نے سوال داغا۔
’’جی کبھی نہیں، وہ کہاں ہم کہاں۔‘‘
عبداللہ نے سوچا اس کا کوئی اسٹوڈنٹ ایسا کہتا تو شاید وہ گولی مار دیتا۔
جناب ہمت کریں، آپ جیسے کم ہمت شاگرد اللہ کسی کو کیا، آپ کو بھی نہ دے۔ ظاہر ہے اِن جملوں کی توقع کسی کو نہ تھی۔
حضرت جی کے خوف سے شاید کچھ رعایت کر لی ورنہ عبداللہ کو آج پھر پھینٹی پڑنی تھی۔
رات کا وقت آیا تو احساس ہوا کہ مسجد میں تو ایک کمرہ ہے جہاں دو لوگ سو سکتے ہیں اور اس میں ایئرکنڈیشنر ہے۔
مولوی صاحب نے پوچھا کہ ’’میں اور آپ کمرہ اِستعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں جناب! میں مچھروں میں سوسکتا ہوں۔ روشنی میں نہیں۔‘‘
’’وہ آپ کے مرید صاحب کہہ رہے تھے کہ رات کو کوئی فضل و نور کی بارش ہوتی ہے تو اِتنی روشنی میں مجھے نیند کہاں آئے گی۔‘‘
مولوی صاحب ہنسے ہنستے کشتِ زعفران ہو گئے۔ آخرکار عبداللہ کو اکیلے کمرہ دے دیا گیا اور مولوی صاحب دالان میں کھٹیا پر سو گئے۔
عبداللہ اِس مہمان نوازی پربڑا خوش ہوا۔
صبح نماز کے بعد واپسی تھی۔ فجر میں بچوں کی ایک کثیرتعداد نظر آئی، سب کے سب دُھلے دُھلائے پاک صاف سفید کپڑوں میں بالکل اپنے معصوم دِلوں کی طرح۔
عبداللہ نے ا للہ کاشکر ادا کیاکہ اگر دلوں کی رنگت کپڑوں پرآ جاتی، اگر رُوح کے زخم کپڑوں پر لگ جاتے تو اس نے سوائے کالے سیاہ چیتھڑوں کے علاوہ کچھ نہ پہنا ہوتا۔
فجر کے بعد عبداللہ نے ایک بچے کو (جس کی عمر کوئی 5سال سے تھوڑا ہی شرما رہی ہو گی) روک کے پوچھاکہ آپ ہر روز سفید کیوں پہنتے ہو۔
جی۔ وہ ، یہ کفن کا رنگ ہے نا! تاکہ موت یاد رہے۔
عبداللہ کا دل پھر بجھ گیا، وہ واپسی یہ سوچتا ہوا آیا کہ اُمید زندگی ہے۔ آس ہے، ہمت ہے۔ اِس عمر میں صرف جینا سکھانا چاہیے۔ موت کے اِنتظار میں بیٹھے لوگ کچھ کم ہی کر پاتے ہیں۔
عبداللہ سارے راستے یہ شعر دُہراتے ہوئے آیا:
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
آج پھر پیپل بھائی کی باری آئی۔ آج عبداللہ سننے کے موڈ میں تھا۔ لہٰذا گھنٹوں خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ دیر میں عورتوں کا ایک گروپ گزرا جنھوں نے پانی کے مٹکے سروں اور پہلوؤں پر اُٹھائے ہوئے تھے اور خراماں خراماں چل رہی تھیں۔ اتنے میں پاس سے گاڑی گزری۔ ایک عورت اچانک آواز سے دھڑکی اور سر سے مٹکا اُڑ کے زمین پہ آیا اور دھڑام سے ٹوٹ گیا۔ ٹوٹے ہوئے مٹکے کے ایک نسبتاً بڑے سے ٹکڑے میں صرف اِتنا پانی رہ گیا۔ جتناکہ بوڑھے باپ کے پاس جوان بیٹی بیاہنے کے بعد مال گھر پہبچتا ہے۔
دھیمی چال والوں کا ٹولہ گزر گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک گلہری آئی اور پانی پی کر چلی گئی۔ عبداللہ کی آنکھ سے اتنے آنسو نکلے کہ پیپل درخت کی ساری میموری ہی واش ہو گئی ہو گی۔
وہ سوچنے لگا کہ ہم بھی پانی کی طرح اعمال جمع کرتے رہتے ہیں۔ تقویٰ کے مٹکے میں اور جن کا مٹکا جتنا بھاری ہوتا ہے وہ اتنے ہی آرام سے پیر اُٹھاتے اور رکھتے ہیں کہ گھاس بھی نہ دبے اور جو لوگ عبداللہ کی طرح کھلنڈرے ہوتے ہیں وہ اُچھل کود میں مٹکا تڑوا بیٹھتے ہیں، پھر کوئی آ کے سیراب ہو جائے تواللہ کی شان۔ قرآن میں اللہ نے اپنی ایک صفت ذِی المعارج(سیڑھیوں والا) بتائی ہے کہ مومن کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ ہر سیڑھی پراللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو پاتا ہے اور عجائب در عجائب کی ایک نئی دُنیا روشن ہو جاتی ہے۔اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ شکر کا دروازہ کھول دے اور نعمت کا بند کر دے۔ تصوّف نام ہی ا للہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور وعدہ وعید کو جاننے اور ان پر یقین کا نام ہے۔ جیسے جیسے اِس یقین پر اضافہ ہوتا رہتا ہے، بندے کو اپنے ساتھ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی موجودگی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور یہ احساس شریعت پر پابندی کو آسان بنا دیتا ہے۔
عبداللہ کو لگا کہ اُس کا مٹکا پہلی سیڑھی پر ہی ٹوٹ گیا اور وہ پچھلی دو دہائیوں سے وہیں بیٹھا ہے۔ یہاں صرف سوال اُگتے ہیں اور عبداللہ سوالوں کی فصل کاٹتے کاٹتے تھک چکا تھا۔ ہر جواب کا ایک وقت ہوتاہے۔ سوال کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔
عبداللہ کی حالت اِسی بھکاری کی سی تھی جو جب تک نہ ٹلے جب تک اسے دروازے سے کچھ مِل نہ جائے۔ ویسے بھی جس شخص کی کُل کائنات یقین ہو اسے ہارجانے کا خوف نہیں رہتا۔ عبداللہ کو کچھ اطمینان تھا کہ جب رُوح قبض ہو گی تو بھلے پہلی سیڑھی ہی کیوں نہ سہی، راستے میں تو بیٹھا تھا،اللہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں کا خوب خیال رکھتے ہیں۔
کئی روز گزر گئے۔عبداللہ مٹکا ٹوٹ جانے والی بات میں محو تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیونکر اُٹھے، کیسے پھر سے بھرے، کیسے نہ ٹوٹنے دے۔
دل میں خیال آیا کہ ان کے پاس چلا جائے جن کے پاس پانی کی ٹنکیاں ہوتی ہیں تاکہ سیراب ہو سکے۔ توبیعت کے لیے صحبت ضروری ہے۔ سیکھنے کے لیے کسی زندہ آدمی سے تعلق رکھنا ہی پڑتا ہے۔ کتابیں اور فیس بک کا فائدہ تھوڑا ہی ہے۔ جو علم اوراللہ کی معرفت صحبت سے ملتی ہے، کتاب اُس کا دھوکا ہوتی ہے۔ معرفتِ الٰہی مشینوں سے مِلا کرتی تو ہر شخص ولی ا للہ ہوتا۔
کبھی کبھی رُوح پر بھی فالج گر جاتا ہے اور آدمی کو نیکی یا برائی کی تمیز ہی نہیں رہتی۔
عبداللہ نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔
’’اے اللہ، ا ے اللہ سائیں۔ ٹوٹے ہوئے مٹکے والوں کو معاف کر دے۔ میرے ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی ڈال دے۔
ا ے ا للہ دل صحرا ہو گیاہے۔ اسے سیراب کر۔
اے اللہ، کمپنی چلانے کے لیے اچھے لوگ چاہئیں۔ اچھے مرد چاہئیں جنھیں تو نے قرآن میں رِجال کہا ہے۔ اے اللہ، لوگ تجھ سے صلاح الدین ایوبی اور محمودغزنوی کا سوال کرتے ہیں۔ میں تجھ سے ڈیٹا سائنسٹسٹ مانگتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ نتیجہ وہی آئے۔
اللہ ایسے لوگوں سے میری مدد فرما جو سمندر کی گہرائیوں سے اتھاہ ہوں اور ہمت ایسی کے پہاڑ بے بس نظر آئیں۔
اللہ عافیت فرمائیں۔اللہ میں تیری سلطنت میں تنہا رہ گیا ہوں۔ اجنبی ہوں، میری اجنبیت کا خیال کر، اگر میں یہ جان لیتا کہ مجھے عذاب دے کر تیری سلطنت کو بڑھاوا ملے گا تو میں کبھی اپنی معافی کا طلبگار نہ ہوتا۔ میں تجھ سے بخشش کا سوال ہرگز نہ کرتا۔ مگر اے شہنشاہ، تیرے سوا کوئی جائے اُمید نہیں، کوئی ٹھکانہ نہیں، کوئی جائے پناہ نہیں۔ تو صرف و صرف اپنے کرم سے بخش دے۔
میرے اللہ، قیامت میں سب چلے جائیں گے جنت میں جنھیں تو نے چاہا۔ جنھیں نہ چاہا وہ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ مجھے اپنے اعمال سے خطرہ ہے کہ صرف میں پیچھے رہ جاؤں گا سخت ترین سزا کے لیے۔ میرے گناہ ہوں گے اور تیری رحمت اور تو باقی رہے گا۔ باقی سب فانی۔ میرے گناہوں کو بھی فنا کر دے۔
اے اللہ! تو اپنے نمازی بندوں کے اعضائے سجدہ کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرما دیتا ہے اور درحقیقت محفوظ فرمانے والا تو ہی ہے۔اے بینیاز ذات بے پرواہ مالک کے لیے قصوروار غلام کو آزاد کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ اپنے اِس فانی غلام پر احسان فرما اور اعضائے سجدہ کی طرح باقی جسم کو بھی جہنم سے محفوظ فرما دے!
ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی ڈال دے میرے اللہ!
آمین!‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*