آج عبداللہ کی کمپنی کی بورڈ میٹنگ تھی جس میں کمپنی کی فنانسنگ، اخراجات اور اسٹافنگ پر بات ہونی تھی، کچھ کلائنٹس کی طرف سے ممکنہ پراجیکٹس بھی زیربحث تھے۔
عبداللہ نے کمپنی کے بنیادی اصول طے کرتے ہوئے سب پر بات واضح کر دی کہ نہ تو ہم سود پر کوئی پیسہ لیں گے اور نہ ہی کسی ایسے کلائنٹ کے لئے کام کریں گے جس کا شریعت سے براہ راست کوئی اختلاف ہو۔ شروع کے ملنے والے کچھ کلائنٹس میں ایک کمپنی تھی جو کہ ڈیٹا سائنس کو استعمال کرکے یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ کون شخص کس قسم کی شراب کو پسند کرے گا تاکہ اُسے آئی فون App کے ذریعے پسندیدہ شراب تجویز کی جا سکے۔ ایک اور کلائنٹ چاہتا تھا کہ وہ جوئے کے بزنس میں مدد کریں اور اس جیسے بہت سے پراجیکٹس عبداللہ اپنے بورڈ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔
اُسے امریکہ میں پہلی شریعہ Compliant بورڈ میٹنگ دیکھ کر بڑی مسرت ہو رہی تھی۔ بورڈ نے بڑا زور لگایا کہ باقی کلائنٹس تو ٹھیک ہیں مگر شراب والے میں کیا قباحت ہے۔ ہم تو صارفین کی خریداری کی ہسٹری دیکھ کر صرف یہ بتا رہے ہیں کہ وہ آئندہ کیا خریدنا پسند کریں گے۔ اب جہاں وہ ہزاروں دوسری اشیاء پسند کرتے ہیں وہاں شراب بھی سہی۔ نہ تو ہم پی رہے ہیں نہ پینے کا کہہ رہے ہیں نہ بیچ رہے ہیں مگر عبداللہ کا دل نہ ماننا تھا سو وہ نہ مانا۔
ابھی میٹنگ کو ہوئے کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ عبداللہ سے ملنے اسکے پڑوسی آ گئے، میاں بیوی اور ایک عدد ان کا کتا، میاں بیوی نے ویک اینڈ نائٹ کی مناسبت سے لباس پہنا ہوا تھا اور شراب کی بوتلیں ان کے ہاتھ میں، کہنے لگے ہم کلب جا رہے ہیں سوچا کہ آپ کو ساتھ لیتے چلیں۔ عبداللہ نے کہا جی ضرور، آئیے تھوڑی دیر بیٹھ کے بات کر لیتے ہیں پھر طبیعت میں ہوا تو ضرور چلیں گے۔
عبداللہ نے نہ صرف انہیں گھر میں بلا لیا بلکہ ان کے کتے کو بھی، بِلّو نے کتے کو پیالے میں کچھ دودھ اور کھانا دے کر سائیڈ پر بٹھا دیا۔ وہ عبداللہ پر شدید حیران تھی کہ کہاں تو کل تک وہ شراب کا نام بھی نہیں سننا چاہتا تھا اور کہاں آج گھر میں بٹھا کر شراب پیتا دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح صرف دیکھتی رہی۔ عبداللہ نے بات شروع کی۔
آپ لوگوں نے یہاں آ کر بہت اچھا کیا، مجھے آپ کے ملک اور کلچر کے بارے میں جاننے کا بڑا شوق ہے آپ کا ملک بہت اچھا ہے، امن ہے، سکون ہے، اور یہ محلہ تو مجھے بہت ہی پسند ہے، امریکہ کے دنیا پر کتنے احسانات ہیں ،یہ ساری ایجادات ،میڈیکل سائنس، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اتنی ذہین اور باہمت قوم سے صرف اچھے کی ہی اُمید کر سکتے ہیں۔ یہ قوم لگتا ہے اپنے ہر منٹ کا حساب رکھتی ہے اور خرافات کے لئے تو جیسے اس کے پاس وقت ہی کوئی نہیں ہے۔
پھر مہمانوں نے امریکی کلچر کے بارے میں کچھ دیر گفتگو کی شراب کی بوتلیں ختم ہو چکی تھیں جنہیں بِلّو نے کب کا کچرے میں پھینک دیا تھا اور اس کے بدلے گرین ٹی وہ ان کے سامنے رکھ چکی تھی۔ مہمان جب اپنی کہہ چکے تو کہنے لگے۔
ڈاکٹر عبداللہ، اپنے کلچر اور مسلمانوں کے بارے میں توکچھ بتائیے یہ کیوں ذرا ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ یہ کارٹون بنانے والا کیا معاملہ ہے، آپ کا دین کیسا ہے اور آپ کو کیا سکھاتا ہے۔
عبداللہ نے بڑے مفصل انداز سے اسلام کا ایک مختصر مگر جامع تعارف کروا دیا اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت پر خدمات کو بھی تاریخ و جغرافیہ کی روشنی میں بیان کر دیا۔
دونوں مہمان اس گفتگو سے بڑے متاثر ہوئے کہنے لگے دو سوال اور۔ عبداللہ نے کہا جی فرمائیے۔
جی پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمان غیرمسلموں سے جزیہ لیتے ہیں اور اگر اسلامی مملکت آ گئی تو وہاں رہنے والوں کی ساری کمائی مسلمان ہتھیا لیں گے؟
اور دوسرا اسلام اتنی چھوٹی عمر میں شادی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ یہ تو معصوم بچیوں پر سراسر ظلم ہے۔
سوالات کی نوعیت دیکھتے ہوئے عبداللہ سمجھ گیا کہ ان مہمانوں نے یقیناً اسلام کا مطالعہ ضرور کیا ہے یا کم از کم اسلام کے خلاف لکھے جانے والے مضامین اور انٹرنیٹ بلاگز ضرور پڑھیں ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر موجود تمام بلاگز کھنگال لیں اور اسلام کے خلاف موجود تمام کتابیں اور لٹریچر پڑھ ڈالیں۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے آج تک، کوئی لگ بھگ دو سو سالوں میں لکھے جانے والے اعتراضات کی اصل کوئی صرف 30,35 ہی سوال ہیں جس کو ہر دور ، ہر ملک میں اسلام کے خلاف لکھنے والوں نے، معتضرین اور حاسدین نے گھما پھرا کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کتاب لکھتے وقت تو کم از کم مصنف کچھ حوالہ جات اور مآخذ کا خیال رکھتا ہے ،انٹرنیٹ بلاگز پر تو اس قید کی بھی پوری چھوٹ جو چاہے لکھ دو کس نے جانچنا ہے اور کس نے مناظرہ کرنا ہے۔ سوال تو سوال ان پر دیئے جانے والے جواب بھی پڑھ کے آدمی ماتم ہی کر لے تو اچھا ہے۔
نہ سوال لکھنے والے نے کبھی ٹھنڈے دل سے پڑھنے کی کوشش کی اور نہ جذباتی جواب دینے والوں نے ریسرچ کی محنت کی، جس زبان میں آج کل کے نوجوان مشرکین کو جواب دیتے ہیں اس سے بدرجہا بہتر زبان تو دِلّی کی طوائف بولتی تھیں۔
عبداللہ نے لمبی آہ بھری اور مہمانوں سے مخاطب ہوا۔
جناب ! طویل بحث ہے انشاء اللہ کچھ لکھ کر ضرور چھپوا دوں گا کچھ آسان باتیں عرض کر دیتا ہوں (عبداللہ نے دل ہی دل میں تین بار یہ دعا پڑھ لی۔ )رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْOوَیَسِّرْلِیْ ٓاَمْرِیْO وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ Oیَفْقَھُوْا قَوْلِیْO (سورۃ طحہٰ25-28:) ترجمہ: اے میرے رب : میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
اسلامی معاشرے میں غیرمسلم کے Rights مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ ان کی جان و مال کا تحفظ اسلامی مملکت کے فرائض میں شامل ہے۔ رسالت پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر غیرمسلم کا قتل ہو گیا اسلامی مملکت میں تو قیامت کے دن میں ان کا وکیل بن جاؤں گا۔
غیرمسلموں کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی ہے، عبادت گاہیں بنانے اور آباد رکھنے کی بھی اور ہر قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی بھی جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہو۔
جنگ کی صورت میں اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک غیرمسلم اپنے ہی بھائی بہنوں، ہم مذہب کے خلاف محاذ آراء ہو کہ اس کی دینی حمیت اسے شاید اس بات کی اجازت نہ دے اور ضمیر الگ کچوکے لگاتا رہے۔
تو ایک تو اسے مکمل حفاظت دی گئی دوسرا یہ کہ جو خطرے والا کام تھا اس سے بھی رعایت بخشی گئی تو اس رعایت کی وجہ سے ایک معمولی سا اضافی ٹیکس ہے جسے جزیہ کہتے ہیں اور بس، اگر اسلام اسی طرح غیرمسلموں کی املاک ہڑپ کرتا تو رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ اجمعین کو کیا ضرورت تھی کہ یہودیوں سے قرضہ لیں؟
اور جہاں تک اضافی ٹیکس کا سوال ہے یہ تو آج تک رائج ہے، مسلمان تو کیا غیرمسلمان ملکوں میں بھی مثلاً امریکہ میں، کیونکہ میں امریکی شہری نہیں ہوں تو میری تمام تر آمدنی پر اضافی ٹیکس کٹتا ہے اور ٹیکس ریٹرن میں چھوٹ بھی کم ملتی ہے اگر آپ کے بچے امریکن ہوں تو IRS کیDeduction ملتی ہے ورنہ نہیں اور ایسی ہی بیسیوں Treaties تمام ملکوں کے درمیان اقوام متحدہ کے زیرسایہ آج بھی موجود ہیں بلکہ پھل پھول رہی ہیں اب اگر میں یہ کہوں کہ امریکہ غیرامریکیوں پہ ظلم کر رہا ہے یا اُن کا مال ہڑپ کرنے کے درپہ رہتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہو گا؟
جس قانون جس تہذیب میں آپ رہتے ہیں اُن کے قوانین تو ماننے پڑتے ہیں۔ کاش کوئی مسلمان LAW کا طالب علم ہارورڈ جیسی یونیورسٹی میں آکے تمام اسلامی قوانین کا موازنہ کرے آج کل کے بین الاقوامی قوانین اور Treaties سے تو یقین جانیئے اگر ٹھنڈے دل سے اور بہترین دماغ سے سوچا جائے تو امریکہ اسلامی قوانین لاگو کر دے۔ ویسے بھی درجنوں ایسے قوانین امریکہ میں آج تک رائج ہیں جو سراسر اسلامی ہیں مثلاً رئیل اسٹیٹ اور پڑوسیوں کے حقوق کا چارٹرڈ لگتا ہے امریکہ میں کسی مسلمان عالم نے لکھا ہے۔ کاش کوئی اس پر کام کر سکے۔
دوسرے سوال کا جواب تو آپ خود ہی دے سکتے ہیں صرف تھوڑی سی کامن سینس کی ضرورت ہے۔ اجازت اور حکم میں بڑا فرق ہے۔
اسلام بلوغت کے بعد شادی کی اجازت دیتا ہے والدین کی رضامندی کے بعد جِسے آپ امریکہ میں Parental Consentکہتے ہیں اس کے علاوہ ہر ملک و معاشرے کی روایات بھی تو ہیں۔ اگر بات صرف اتنی ہے کہ کم عمر میں شادی کی اجازت دینی ہی نہیں چاہئے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ تھوڑا سا تاریخ کا اور تھوڑا امریکہ کے قانون کا مطالعہ کر لیں۔
اسلام سے پہلے رومن ایمپائر میں شادی کے لئے قانونی عمر 10 سے 14 سال تھی اور قانون تو تھا ہی اشرافیہ کے لئے۔ باندی غلاموں یا نچلے طبقے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔
چوتھی صدی عیسوی تک چرچ میں قانونی عمر 12 سال تک تھی۔
سولہویں صدی کے آغاز میں یورپین ممالک میں یہ عمر 13سے 16 سال کے درمیان تھی اور امریکہ میں 5 سے 10 سال کے درمیان، تاریخ میں1689میں ورجینیا کی ریاست میں 10 سالہ بیویوں کے کئی حوالہ جات موجود ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں انگلستان میں قانونی عمر 8 سے 10 سال تھی، اور پندرھویں صدی تک امریکن کالونیوں میں بھی یہی رواج تھا۔ شیکسپیئر کی جولیٹ بھی تو 13 سال کی تھی۔ عبداللہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
جی، آپ کی بات بجا ہے۔ میں ماضی کی بات نہیں کرتا میں تو آج کل کے دور کی بات کرتا ہوں، مہمان نے سوال کیا۔
آج کل کے ماڈرن ، پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور حقوق نسواں کے علمبردار دور میں بھی کیا یہ ممکن ہے کہ 18 سال سے کم عمر میں بچیوں کی شادی کر دی جائے؟
مہمان صاحب کچھ جوش میں آ گئے، دیکھئے عبداللہ، امریکہ میں شادی کی اوسط عمر خواتین کے لئے 30 سال یا اس سے کچھ زائد ہے۔ یہ 18 کے آس پاس 20,21 سال کی عمر کچھ مناسب نہیں لگتی۔
عبداللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہمیں یہ بتائیں ’’کاغذ کے ایک ٹکڑے‘‘ سے آپ کو پریشانی کیا ہے؟
بالکل نہیں، ہمیں تو پریشانی لڑکیوں کی صحت کی ہے کہ وہ اس کم عمر میں جنسی معاملات کو کیسے نبھائیں گی اور حمل کے مراحل کیسے طے کریں گی۔
عبداللہ نے شوخ آنکھوں کے ساتھ اپنی بات جاری رکھی۔
خدایا! آپ جیسے معصوم لوگ تو ملکوں کا سرمایہ ہوتے ہیں ، کیا آپ اخبار نہیں پڑھتے؟ ٹی وی، ریڈیو بھی نہیں؟
جناب والا ! 1960 تک ڈیلاوئیرمیں 7 سال کی عمر کی بچی سے جنسی تعلق جائز تھا اگر ماں باپ کی مرضی سے شادی ہوئی ہو۔
سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر آج بھی امریکہ کی تمام ریاستوں میں شادی کی قانونی عمر 16 سال ہے 18 نہیں۔ مساچوسیٹس کی ریاست میں 12 سال ہے۔
انڈیانا، ہوائی اور جارجیا میں 15 اور پینسلوانیا اور نیویارک میں 14۔
کیلی فورنیا میں کم از کم عمر کی تو کوئی قید ہی نہیں ہے۔ اگر ماں باپ کی مرضی شامل ہو تو کسی بھی عمر میں شادی جائز ہے۔ کتنی ہی ایسی ریاستیں ہیں جو عمر کی حد میں مزید کمی کر دیتی ہیں اگر لڑکی حاملہ ہو تو۔
اور جہاں تک جنسی معاملات یا حمل کی مشکلات کا سوال ہے تو امریکہ میں قریباً نصف کے قریب ہائی سکول میں پہنچنے والے ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ سال میں کوئی 10 لاکھ بچیاں 13 سے 19 سال کی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں۔یعنی ہر ایک منٹ میں 2 ۔ امریکی حکومت سال کا 40 بلین ڈالر صرف انہی کی دیکھ بھال، بچاؤ اور مشورے اور تعلیم پر خرچ کرتی ہیں۔حاملہ ہونیوالی ان لڑکیوں سے ان کے ہونے والے بچوں کے باپ شادیاں نہیں کرتے۔ ہر 10 میں سے 8 لڑکے بغیر شادی کے بھاگ جاتے ہیں۔ 89% یہ لڑکیاں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں۔
یہ بچیاں امریکہ میں ہونے والی پیدائشوں کا 21% بنتی ہیں۔1975 تک یہ 52% تھیں آج بھی امریکہ میں 41% بچے شادی سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔
آپ فرما رہے تھے کہ اوسطً عمر 30 سال ہے شادی کی۔
ارے بھائی امریکہ کے اپنے صدر Grove Cleveland نے 2 جون 1886 کو وائٹ ہاؤس کے بلیو روم میںFrances Folsom سے شادی کی جب خاتونِ اوّل کی عمر صرف 21 سال تھی تو آپ کی اوسط سے تو وہ بھی قابل تعزیر قرار پائے۔
آپ لوگوں کی حقائق کے برخلاف انہی تقریروں کی وجہ سے پاکستان ، انڈیا اور ایسے ہی کئی ممالک میں شادی کی قانونی عمر 18 سال کر دی گئی ہے مگر آپ کے یہاں نہیں ہے اور مسلمانوں کا ہی رونا کیوں، اندورا ، کولمبیا اور پیراگوائے میں آج تک یہ عمر 14 سال ہے، مالی اور انگولا میں 15 سال ، میکسیکو ، اسکاٹ لینڈ، سیریا لیون، گیمبیا، انگلینڈ اور لائبریا میں 16 سال اور ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔
کتنے ہی Duke of England ہیں جن کی شادیاں 16 سال کیا 14 سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہوئیں۔
بحث اس بات کی نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے میں تو صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ ہر معاشرے، ہر ملک، ہر طبقہ، ہر تاریخ ، ہر جغرافیہ کے اپنے اپنے اطوار ہوتے ہیں اور انکی عزت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی کسی مفلوک الحال بچی کے ساتھ ظلم کر رہا ہے تو وہ بلاشبہ واجب التعزیر ہے وہ بھلا پاکستان میں ہو یا امریکہ میں۔
آئیے مل کر Early Teenage Pregnancy پر آئی فون کی کوئی App بناتے ہیں کہ بے چاری بچیوں کا بھلا ہو۔ اسلام اور حقوق نسواں پر پھر کسی روز تفصیل سے بات کریں گے۔
مہمانوں کو عبداللہ نے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی، وہ حیران رہ گئے کہ اس شخص کو ملک میں آئے جمعہ جمعہ 8 دن نہیں گزرے اور وہ ان کے اپنے ملک کے بارے میں اتنا جانتا ہے۔
خیر وہ اچھے سے گڈبائی کہہ کر رخصت ہوئے اور آتے رہنے کا وعدہ بھی کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اُن کے جانے کے بعد عبداللہ سوچنے لگا کہ قرآن کے مطالعے کے لئے تاریخ اور جغرافیہ کتنا ضروری ہے اور داعی کے لئے لازم ہے کہ اس کا دل وسیع ہو، وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ صرف کتے یا شراب کو دیکھ کر انہیں گھر میں آنے سے منع کر دیتا تو یہ گفتگو نہ ہو پاتی۔ 3 گھنٹے کی بات میں نہ انہیں ٹائم ملا کہ کلب جا سکیں نہ ہی عبداللہ کو آفر کر سکے۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی تھی اس کا شاید کچھ نہ کچھ اثر تو مہمانوں کے دلوں پر بھی پڑا ہو گا یا شاید اس کے اپنے ہی دل پر پڑا ہو، شاید وہ بھی کبھی اچھا امتی بن سکے۔
وہ سوچنے لگا کہ کلمہ اور کلمہ طیبہ میں بڑا فرق ہے اور کسی بھی کلمے میں طیبہ کا عنصر نہیں آتا جب تک انسان کا دل اس کام کی فکر میں نہ لگے۔ دعوت میں بسا اوقات تذکیر کسی غافل ، شکّی اور مدہوش دل سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے اور اندر گھسنے کی راہ نہیں پاتی اس لئے ضروری ہے کہ غفلت و قساوت اور شک کے اسباب دور کئے جائیں تاکہ دل پر کچھ اثر ہو۔وہ سوچنے لگا کہ داعی کے لئے 4 چیزیں ضروری ہیں۔
-1 انسان اور انسانیت سے واقفیت
-2 زبان پہ مہارت
-3 دردمندی اور
-4 دل کا ذکر
دنیا میں ایک چوتھائی مسلمان ہیں یعنی 4 میں ایک مسلمان۔ یہ 75% باقی لوگ تھک گئے ہیں اسلام کے بارے میں سنتے سنتے۔ یہ اب اسلام کو دیکھنا چاہتے ہیں، محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ جب کسی سکول میں 150 بچوں کو ذبح کر دیا جائے اور ماسٹر مائنڈ کا نام CNN پر ’’فضل اللہ ‘‘ ظاہر ہو،جب کینیا کی یونیورسٹی میں 147کرسچن طالب علموں کو گولیوں سے بھون دیا جائے اور ماسٹر مائنڈ کا نام ’’محمد محمود‘‘ ہو تو آخر دنیا نے بھی کیا قصور کیا ہے کہ وہ ہمیں برا نہ سمجھیں۔ اس دنیا میں اسلام کی تبلیغ زبان سے کیسے ہو سکتی ہے؟
*۔۔۔*۔۔۔*
اسلام کی تبلیغ آج کل کے دور میں باتوں سے نہیں ہو گی۔ محض عقل ، محض ذہانت، فقط فنِ خطابت، فنِ تحریر باتوں کو پیش کرنے کے طریقے اور دعائیہ کلمات کافی نہیں ہونگے۔ یہ الفاظ کے چناؤ کا نہیں، دلوں کے چناؤ ، روحوں کے سنگھار کا موسم ہے۔ یہ موسم ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حیرت میں ڈوبنے کا،یہ وقت ہے۔ اس سے مانگنے کا، آہ و زاری کا، گریہ کا، اُن دلوں کا جن سے نکلنے والی دعا وقت کا دھارا موڑ دیتی ہے، زمانے کی کلائی پکڑ لیتی ہے، یہ وقت تعداد کا نہیں استعداد کا ہے۔ یہ وقت کچھ کرنے کا ہے، صرف آباؤ اجداد کے کارناموں پر فخر سے کچھ نہیں ہوگا۔ جو حضرت یا پیر میٹرک کے امتحان میں پاس نہ کرا سکیں۔ (کہ آپ جائیں اور کہیں کہ سوالات کے جوابات تو نہیں آتے مگر میں فلاں فلاں کو جانتا ہوں) وہ قبر کے اِمتحان میں کیا خاک پاس کرائیں گے؟ یہ وقت ہے خود سے کچھ کرنے کا اور اللہ سے مانگے کا۔
صبر کے جو معنیٰ ہم عمومی طور پر پیش کرتے ہیں یہ وقت اس صبر کا بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی صبر بڑا مظلوم لفظ ہے۔ الفاظ کے معنیٰ کبھی وسیع ہو جاتے ہیں اور کبھی محدود اور ہم نے صبر کو ’’شکایت نہ کرنے‘‘ تک محدود کر دیا ہے۔ عربی میں صبر جم جانے کو، مقابلہ کرنے کو اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کو کہتے ہیں بھلے کچھ ہو جائے۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ کاش بدر کے 313 میں سے آج کوئی ایک صحابیؓ آ جائے تو پوری دنیا کے لئے کافی ہو جائے۔ عبداللہ اسی طرح اپنے اللہ سائیں سے باتیں کرتے کرتے سو گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ نئی کمپنی کی مصروفیت میں پھر سے مصروف ہو گیا مگر ایک تہیہ دل میں کر لیا کہ اسلام کے بارے میں لکھے گا ضرور اور جو بھی فارغ وقت ملا اُس میں اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا مطالعہ کرکے اُن کی فہرست ضرور بنا لے گا کہ شاید کوئی کبھی ان کا جواب لکھ سکے۔
کمپنی کے شروع کے ہی دنوں میں 3 بڑے کلائنٹس مل گئے، ایک ہیلتھ کیئر کا، دوسرا ایجوکیشن کا اور تیسرا رئیل اسٹیٹ کا، عبداللہ دن رات ڈیٹا سائنس کی کتابیں پڑھتا رہتا، وہ ایک وقت میں ایک ہی کام کو اچھے طریقے سے کرنے کا عادی تھا۔
ہلکے ہلکے اس نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی پروگرامرز کی ایک اچھی ٹیم تیار کر لی تھی، یوں تو وہ ٹیم سے بہت خوش تھا مگر اسے ہمیشہ شکایت رہتی کہ یہ بچے جتنا اچھا کام کر سکتے ہیں اتنا نہیں کرتے، میں ایسا کیا کروں کہ یہ اپنے آپ سے Compete کرنے لگ جائیں، یہ بغیر کسی سپروائزر کے کے اپنے وقت اور کام کو متعین کر سکیں۔ اگر یہ باقی لوگوں کے لئے مثال بننا چاہتے ہیں تو ’’مثال‘‘ جیسا کام بھی تو کریں۔ یہ آگے بڑھ کر کیوں نہیں سوال پوچھتے، فیلڈ میں مانے جانے والی حقیقتوں کوچیلنج کیوں نہیں کرتے۔ عبداللہ سوچ رہا تھا کہ وہ ٹیم کے پروگرامرز کو 2 ماہ کے لئے کسی اور ملک لے جائے اور وہاں دن رات لگا کر سافٹ ویئر کا پہلا ورژن بھی بنالے اور انہیں کچھ سیکھا بھی دے۔ وہ چاہتا تھا کہ ان دو مہینوں میں وہ اپنے جیسے 12,15 عبداللہ تیار کر لے۔
عبداللہ کہا کرتا کہ مشین لرننگ ڈیٹا سائنس کی شاہ ولی اللہ ہے اور اگر کسی کو کامیاب Entrepreneur بننا ہے تو اسے شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ بالغہ ضرور پڑھنی چاہئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج وہ صبح سے اپنے کمرے میں بڑے سائز کے وائٹ بورڈ کے سامنے بیٹھا اپنی آنے والی پراڈکٹ کا خاکہ تیار کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اِسٹارٹ اپ بھی ایک خالی سفید بورڈ ہوتا ہے۔ آپ کو صرف ایک بات معلوم ہونی چاہئے اور وہ ہے کہ آپ کو کچھ نہیں معلوم۔ اس پورے سفید بورڈ کے درمیان ایک کالا نقطہ آپ کا آئیڈیا ہوتا ہے۔ آپ نے یہاں سے ہر چیز کا کھوج لگانا ہوتا ہے اور ڈھونڈنا ہوتا ہے کہ کب کہاں جا کر کس سے کیا سیکھنا ہے۔ آپ نے ہر بات معلوم کرنی ہوتی ہے مارکیٹنگ سے لے کر فنڈنگ تک، ٹیکنالوجی سے لے کر آپ نے کس کو ہائر کرنا ہے۔ ٹیکس سے لے کر قانونی پیچیدگیوں تک، اور پارٹنرز سے لے کر آپ کے Competitors تک۔ اِس پورے عمل میں آپ بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں۔ کچھ ٹھیک ہو سکتی ہیں۔کچھ نہیں۔ مگر یہ سب چلتا ہے۔ آپ اِس بڑے سفید بورڈ میں سارے خانے بھرتے چلے جاتے ہیں اور پھر انہیں اپنی بہترین صلاحیتّیں، بہترین کاوِش، بہترین وقت، بہترین ٹیم اور بہترین دِماغ دیتے ہیں اور آخر میں آپ کے پاس دو میں سے ایک چیز بچتی ہے۔ یاتو ایک اِسٹوری جو آپ دنیا کو سنا سکیں، یا ایک پراڈکٹ جو آپ دنیا کو بیچ سکیں۔ رزلٹ خواہ کچھ ہی نکلے۔ آپ ترقی ضرور کرتے ہیں۔
اس نے سوچا ایسی کون سی پراڈکٹ بنائی جائے جس سے انسان کا بھلا ہو۔ یہ سوچتے ہی اس نے قرآن پاک اٹھایا اور اسی سوچ کے ساتھ وہ پڑھتا چلا گیا۔ قرآن میں انسان کی کون کون سی خامیوں کا ذکر ہے مثلاً وہ جلدباز ہے تو کیا اسے Impulse shopping پر ابھارا جا سکتا ہے۔ کون کون سی خوبیاں ہیں۔ کون سی باتوں کو قرآن نے ذکر کیا ہے۔ قرآن پاک مکمل ہوا تو احادیث کی باری آئی، پھر حجۃ اللہ بالغہ اور پھر مفتی صاحب کے آن لائن بیان، کوئی مہینے بھر کے رت جگے کے بعد عبداللہ اپنی آنے والی پراڈکٹ کا روڈمیپ بنا چکا تھا۔
اس نے باقاعدہ پلاننگ کی کہ اب اگلے 18 ماہ میں کس طرح، کب اور کیسے اپنی ٹیم کو اس بارے میں بتائے گا۔ آج کل کی نسل کو اسلام سے اپنے آئی فون جتنی بھی مناسبت نہیں۔ وہ ڈرتا تھا کہ اگر سافٹ ویئر ڈیزائن کے پیچھے چھپی وجوہات کا ذکر کرے گا تو یا تو ٹیم چھوڑ کر بھاگ جائے گی یا نوکری سے نکالا جائے گا۔
عبداللہ شب و روز کی لگاتار محنت سے تھک چکا تھا۔ پورے ماہ میں اسکی روزانہ 2 گھنٹے کی بھی نیند اوسطاً نہیں ہوئی تھی۔ اوپر سے ذکر کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ ٹائم نہ نکال سکا تھا وہ تو نماز میں پڑھی جانے والی آیات کے بارے میں بھی سوچتا کہ کس آیت سے کون سی پروگرامنگ اصلاح نکلے گی۔
یوں تو یہ عجیب سی بات لگتی ہے مگر قرآن کا مخاطب بھی انسان ہے اور عبداللہ کا سافٹ ویئر بھی انسان کو ہی ٹارگٹ کر رہا ہے تو وہ سوچتا کہ ضرور وہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
عبداللہ نے 3 دن تک کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ جب بھی ایک کام سے اُکتا جاتا تو وہ بریک ضرور لیتا، چاہے وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا۔
*۔۔۔*۔۔۔*