عبداللہ نے بوجھل دل کے ساتھ قلم اُٹھایا اور امریکہ کے مشہور ٹی وی چینل کی ویب سائٹ کے لئے ایک چھوٹا سا مضمون لکھ دیا۔ اسے پتہ تھا کہ لوگوں کے طنز اور باتیں اسے برداشت کرنی پڑیں گی مگر ضمیر کا بوجھ تو ہلکا ہو گا۔ نفس اور ضمیر انسان کے دو اُستاد ہوتے ہیں اور وہ ایک وقت میں کسی ایک ہی کی کلاس میں بیٹھ سکتا ہے۔
مضمون کا عنوان تھا، ’’میں مسلمان ہوں، آپکی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’میں پچھلے 36 سالوں سے مسلمان ہوں، میں یہاں سوائے اپنے کسی کی بھی نمائندگی نہیں کر رہا۔ میں ایک مسلمان ملک پاکستان میں پلا بڑھا اور آج کل امریکہ میں اپنی کمپنی بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔‘‘
جب لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میں دنیا کو صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ میں اس عام فہم درجہ بندی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہوں۔ اسلام نے پیدائش پر مجھے مذہبی شناخت دی، ملک اور خاندان نے پچھلے 30 سالوں میں رسم و رواج دیئے اور امریکہ نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے دوران مجھے سکھایا کہ مجھے دنیا سے کیا چاہئے اور دنیا کو مجھ سے کیا چاہئے۔ میں نے انگریزی امریکی ڈراموں کو دیکھ کر سیکھی اور داڑھی امریکہ میں آنے کے بعد رکھی کہ انسانوں کے اس جنگل میں کوئی تو شناخت باقی رہے۔
میں آج جہاں بھی ہوں اس میں میرے معاشرے کا، میری پڑھائی کا، صحبت کا، ملنے والے مواقع کا، زندگی میں فیصلوں کے انتخاب کا اور تقدیر کا بڑا ہاتھ ہے۔
میں نے اسلام بڑے غیرروایتی طریقے سے سیکھا۔ ملکوں ملکوں کے سفر کے دوران غیرمسلموں نے جو سوالات پوچھے ان کے جوابات کی کھوج مجھے اسلام سے قریب لے آئی۔ یقین جانیئے میں آج زیادہ مسلمان اس لئے نہیں ہوں کہ میں پاکستان میں پیدا ہوا۔ میں زیادہ مسلمان اس لئے ہوں کہ میں امریکہ میں پڑھا۔
میں آج یہ مضمون کسی چیز،کسی بات کا دفاع کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ ہم مسلمان اسلام سے اتنا دور ہو گئے ہیں کہ ہمیں خود بھی نہیں پتہ کہ ہم چلے کہاں سے تھے۔ ہم نے اپنی اقدار، اپنے خواب، اپنے اخلاق، اپنے اصول، پسند وناپسند، جینے کا سلیقہ ، مرنے کی ریت، رہبری کے اطوار، تقلید کی مثال سب بھلا دیئے۔
کوئی تعجب نہیں کہ آج دنیا ہمیں تنقید ، تعصب اور ناانصافی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اپنی اس حالت کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم ہی نے دنیا کو اپنی حرکتوں سے اس بات کی اجازت دی ہے کہ یہ رویہ روا رکھا جائے۔ صرف اپنے غیرمسلم دوستوں کے لئے ایک نصیحت ہے اگر آپ اسلام کو پڑھنا چاہتے ہیں تو اسلام کو سمجھیں ، مسلمانوں کو نہیں۔ مجھے تو اب برا بھی نہیں لگتا جب ایئرپورٹ پر سینکڑوں لوگوں کے بیچ میں سے مجھے ’’مزید چیکنگ‘‘ کے لئے علیحدہ کر دیا جاتا ہے، مجھے عجیب نہیں لگتا کہُ الٹے سیدھے سوالوں کا نشانہ میں ہی کیوں بنتا ہوں اور مجھے دُکھ بھی نہیں ہوتا کہ چبھتے ہوئے طنز اور آرپار ہوتی نظروں کا مسکن میں ہی کیوں بنا۔ مجھے معلوم ہے مجھے ایک لمبا سفر کرنا ہے اپنی کھوئی ہوئی شناخت واپس لانے کے لئے، اپنے وجود کی گواہی کے لئے، دنیا کو یہ باور کروانے کے لئے کہ میں کس طرح اسے فائدہ پہنچا سکتا ہوں، اور دنیا مسلمانوں کے بغیر کیا رہ جائے گی۔
اُمتوں کامزاج صدیوں میں بنتا ہے، اتنی جلدی کیا ہے، مجھے وقت چاہئے۔ میں اس پر لگا ہوا ہوں۔ طوفان یا سیلاب ، بارش یا آگ، سردی یا گرمی، ورک ڈے یا چھٹی، دن یا رات، میں لگا ہوا ہوں ا ور میں جلد یا بدیر آخر اپنی منزل کو پا ہی لوں گا اور پھر میں اچھا بھی لگوں گا دنیا کے سوالات کا جواب دیتے۔
تھوڑا صبر کریں، کچھ مہلت دیں، ایک دوسرا موقع، کہ ہم سوچ سکیں کہ کیا کر بیٹھے ہیں، کہاں پر غلطی ہوئی، کہاں پر بہکائے گئے، کہاں راہزنوں نے لوٹا، کہاں چلے گئے، کہاں لوٹ جانا تھا، کیسے بہتری لائیں، جس دن ہم یہ سیکھ گئے اس دن ایک بہترین دنیا ہوگی، میرے لئے، آپ کے لئے ،ہم سب کے لئے۔
میں اُس دنیا کا خواب دیکھتا ہوں جہاں مسلمانوں کو یہ نہ بتانا پڑے کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیا کرتے ہیں اور ہم آپ کی مدد کیسے کریں؟
ٹونی اور مارتھا عبداللہ کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے نوٹ کرتے، انہیں بڑی حیرانی ہوتی کہ اچھا خاصا دنیا دار بندہ اچھا بھلا کام کرتے کرتے یہ کِن سوالوں اور جوابوں کی دنیا میں نکل جاتا ہے۔ یہ آخر اپنی زندگی کو کیوں خود ہی مشکل بنا رہا ہے؟ لائف کو اِنجوائے کرے، سب چلتا ہے۔
آج جمعہ کا دِن تھا، دونوں نے فرمائش کی کہ ہمیں بھی مسجد لے چلو، ہم بھی تو دیکھیں کہ کون ہے جو تمہاری نیندیں حرام رکھتا ہے۔۔
عبداللہ نے سوچا اچھی بات ہے، نماز ہدایت و توفیق کی دعا کا نام ہے، چلیں گے تو کچھ اچھا ہی سیکھ کر آئیں گے، وہ ڈرتا ڈرتا انہیں مسجد لے گیا کہ کوئی کسی قسم کا جُملہ نہ کس دے۔ آج اِمام صاحب نے بڑا شاندار بیان دیا ہے کہ قرآن میں اِنسان کی تعریف کیا ہے، ٹونی نے عبداللہ اور مارتھا نے بِلّو کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کی۔
ٹونی کو خطبہ بہت پسند آیا وہ کئی عرصے تک عبداللہ سے کہتا رہا غصّہ نہیں کرنا چاہئے، قرآن نے اِس سے منع کیا ہے۔ عبداللہ سوچتا رہا کہ مجھ سے زیادہ خطبہ تو اِس نے یاد کر لیا ہے۔
مسجد سے نِکلتے وقت عبداللہ کی نظر دروازے کے پاس بیٹھے ایک شخص پر پڑی، وہ کونے میں بہت اُداس بیٹھا ہوا تھا اور بار بار نظر اُٹھا کے آسمان کو دیکھتا تھا، عبداللہ کو لوگوں میں پتہ نہیں کیا نظر آ جاتا تھا، وہ کہا کرتا تھا مظلومیت دِل تک محدود نہیں رہتی، آدمی کا پورا وجود مظلومیت کی گواہی دیتا ہے۔ عبداللہ اُس کی طرف جانے کے لئے بڑھا تو پاس کھڑے شخص نے ٹوکا کہ یہ آدمی 2 سال جیل میں کاٹ کر آیا ہے۔ لہٰذا مسلم کمیونٹی نے اِس کا ’’سوشل بائیکاٹ‘‘ کر رکھا ہے تم بھی وقت برباد نہ کرو۔
عبداللہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی جیسے اُس نے کوئی لطیفہ سُن لیا ہو، اُس نے جلدی سے ٹونی اور مارتھا کو خدا حافظ کیا اور خاموشی سے اس شخص کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ کوئی 15 منٹ گزر گئے مگر اس شخص نے تو جیسے بات نہ کرنیکی قسم کھائی ہوئی تھی۔ عبداللہ کوبھی کوئی جلدی نہیں تھی وہ جمعہ کی چھٹی کرتا تھا کام سے۔ جب مسجد خالی ہو گئی تو وہ شخص جانے کے لئے اُٹھا تو عبداللہ نے ہاتھ پکڑ کے سلام کیا اور کہا بھائی بہت بھوک لگی ہے، اکیلے کھانے کا جِی نہیں چا رہا، آپ ساتھ چلو گے تو بڑا احسان مند رہوں گا، اس شخص نے سر ہلا کے حامی بھر لی۔
کھانا کھاتے ہوئے اُس شخص نے عبداللہ سے کہا۔
لگتا ہے نئے آئے ہو، کمیونٹی نے میرا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ میں 2 سال جیل میں رہ کر آیا ہوں، اچھا آدمی نہیں ہوں، تم بھی آئندہ نہ مِلنا۔
عبداللہ نے کہا، ارے واہ! چلیں ہاتھ اُٹھائیں میرے واسطے دعا کر دیں، اللہ مجھے آپ کے صدقے سے قبول کر لیں۔
آدمی حیران و پریشان عبداللہ کو دیکھتا رہا، کہنے لگا سماعت میں خلل ہے کیا، عمرہ کرکے نہیں جیل سے آ رہا ہوں، تم دعا کا کہتے ہو۔
عبداللہ نے کہا، دیکھیئے جناب جیل میں تو آدمی تنہا ہوتا ہے۔ اوپر خُدا ہوتا ہے اور نیچے اُس کا پچھتاوا، اِس حالت میں کوئی 2 سال گزار دے تو اُوروں کی زندگیوں پر بھاری ہے۔ آپ نے خوب دل لگا کے یکسوئی کے ساتھ دعائیں مانگی ہونگی۔
اُس شخص نے گھورتی آنکھوں سے بے یقینی کی سی کیفیت میں عبداللہ کو دیکھا اور کہنے لگا کہ آپ فلاں آدمی کو تو جانتے ہونگے۔ مسجد میں بڑے مشہور ہیں اور بڑا پڑھا لکھا ہے انہوں نے اِسلام کو۔ وہ تو ابھی کہہ رہے تھے کہ ’’مِسٹر قدرت تم سے اِنتقام لے گی، اللہ بُھولتا نہیں ہے وہ بدلہ لے گا اور جہنم میں فلاں فلاں سزائیں ملیں گی اور اللہ بڑا ہے اِس بات سے کہ وہ تم جیسے لوگوں کو سُنے وہ بے نیاز ہے۔‘‘ اب کیا کہو گے عبداللہ۔ انہوں نے تو حدیث سے بھی اور تفسیر سے بھی ثابت کر دیا کہ میری دنیا بھی گئی اور دین بھی۔
عبداللہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی لگ گئی، وہ کہنے لگا سبحان اللہ، اگر اللہ نہیں سُنے گا تو ہے کون کائنات میں جو سُنے۔ وہ سمیع و بصیر ہے۔ آپ فکر نہ کریں ان صاحب کو علم کی بدہضمی ہو گئی ہے۔ جہالت سے گمراہی آتی ہے۔ علم سے کِبر آتا ہے۔ جہالت کی گمراہی کا علاج بہت آسان ہے، علم کے کِبر کا بڑا مشکل ہے۔ اندھیرے میں کسی کو نظر نہ آئے تو آدمی روشنی کر دے، روشنی کسی کو اندھا کر دے تو کیا کِیا جائے۔
جو شخص اللہ کو جانتا نہیں ہے وہ آخر تفسیر بیان کرتا ہی کیوں ہے۔ اللہ کسی مصلحت کا محتاج نہیں ہے، وہ پاک ہے اِس بات سے کہ بدلہ لے۔ ہم دِن میں 60 سے 80 ہزار بار سانس لیتے ہیں، ڈیڑھ سے دو لاکھ مرتبہ دِل دھڑکتا ہے، عین گناہ کے بیچ میں وہ چاہے تو سانس روک لے، دھڑکنیں آگے پیچھے کر دے، مگر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ بندہ واپس آ جائے، توبہ کرے۔ آپ فکر نہ کریں، اللہ معاف کرے گا، جو کتاب شروع الحمدللہ سے ہوتی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ اس سے بھی نا اُمید ہو جائے؟ یہ کوئی ٹھیکیدار ہیں اللہ کی رحمت کے کہ لوگوں کو اِس سے بھی محروم کر دیں؟ خیر عبداللہ نے بڑی ہمت بندھائی اُس شخص کی، اس کی حتی الاامکان مالی مدد کی اور وعدہ لیا کہ وہ آج سے نئی زندگی کا آغاز کرے گا۔
اُس کے جانے کے بعد عبداللہ سوچنے لگا کہ کیا اِسلام میں صرف اندھے گاؤں میں کانڑا راجہ کے مصداق صرف کانڑے رہ گئے ہیں۔ اِن جذباتی لوگوں کو پتہ نہیں کہ اُسی اللہ کے پاس واپس جانا ہے اُس نے پوچھ لیا تو کیا کہیں گے؟
جذبات اور صرف جذبات، ہر وقت ایک Emotional Pull چاہئے۔ سان فرانسِسکو کے بیٹ مین بچے کی طرح جس نے مرنے سے کچھ روز قبل خواہش کی کہ اُسے بیٹ مین بننا ہے۔ پورا شہر بند ہو گیا اور لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ دنیا نے پیسے لٹائے کہ بچہ نظر آ رہا تھا اور اِسی دنیا میں ہزاروں بچے روز مرتے ہیں مگر کیونکہ ان کی اِسٹوری اتنی دلچسپ نہیں ہوتی لہٰذا اُن کے لئے کسی کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ یہ جذبات نبوّت سے ٹکرا جائیں تو نبوّت فارغ اور اللہ سے ٹکرا جائیں تو اِسٹیٹ اور چرچ الگ الگ ہیں کا راگ الاپنا شروع۔ عبداللہ ایک بار پھر دکھی دل کے ساتھ عصر پڑھنے چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*