آج عبداللہ کی سان فرانسسکو کی فلائیٹ تھی وہ ایک ڈیٹا سائنسز کی کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں جا رہا تھا۔ فلائیٹ کے پہلے کنکشن میں بزنس کلاس میں ایک بوڑھا آدمی اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ عبداللہ ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور اسے جلدازجلد ختم کرنا چاہ رہا تھا، لہٰذا رسمی باتوں کے بعد چپ ہو رہا۔ اُس شخص نے کئی بار ہمت کرنے کی کوشش کی مگر عبداللہ ہوں ، ہاں سے آگے نہ گیا۔
جب فلائٹ نے ہیوسٹن لینڈ کیا اور مسافر جہاز سے نکلے تو عبداللہ کو معلوم ہوا کہ ساتھ بیٹھا شخص ریاست ٹیکساس کا گورنر تھا۔ کافی لوگ ایئرپورٹ پر ان سے ہاتھ ملاتے رہے۔
عبداللہ نے جلد ہی اپنا دوسرا کنکشن پکڑا اور جہاز سان فرانسسکو کی طرف روانہ ہوا۔ مگر وہ راستے بھر سوچتا رہا کہ کیا اس کا رویہ ،سوالات و جوالات ایسے ہی ہوتے اگر اُسے پہلے سے پتہ ہوتا کہ ساتھ والا شخص کون ہے۔ جواب 100% نفی میں آیا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ کتنا ضروری ہے کہ آپ جس سے بات کر رہے ہیں جس سے سوال کر رہے ہیں اس کے بارے میں جانتے بھی ہوں۔ جتنی جانکاری زیادہ ہو گی گفتگو اتنی ہی بامعنیٰ ہو گی اور جتنی اس کے بارے میں جاننے کی طلب ہو گی اتنا ہی سوالوں پر نکھار آئے گا۔
وہ سوچنے لگا دعا کے لئے اللہ کو جاننا کتنا ضروری ہے۔ ہم نے تو بھلا ہی دیا ہے کہ دنیا کو بنانے والا اور دنیا کو چلانے والا ایک ہی ہے۔ وہ دنیا بنا کے بھول نہیں گیا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ Entrepreneurship کے ہر کورس میں سورۃ الضحیٰ لازمی پڑھانی چاہئے۔ اللہ سائیں بار بارکہتے ہیں تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں، بیزار نہیں ہوا، تیرا رب تجھے جلد ہی عطا کرے گا کہ تو خوش ہو جائے، کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پھر جگہ دی، بے خبر نہیں پایا پھر راہ دکھائی، تنگ دست نہیں پایا پھر بے نیاز کیا۔
بقیہ سفر دعا میں گزر گیا کہ اے اللہ مجھے آج تک اتنی فرصت نہ ملی کہ تجھے ہی جان سکتا، مجھے معاف کر دے میرے مالک ! مجھے معاف کر دے۔
کانفرنس میں پہنچتے ہی لوگ عبداللہ کے پاس آئے، کسی نے اُس سے حلال کھانے کے ریسٹورنٹ کے بارے میں پوچھا تو کسی نے قبلہ کا رُخ، کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ صرف شکل سے ہی گمان کر لیتے ہیں کہ کس کے پاس کونسی معلومات ہوں گی۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ رول ماڈل بننا یا نہ بننا کوئی چوائس نہیں ہوتی، آپ ہر وقت کسی نہ کسی کے تو رول ماڈل ہوتے ہی ہیں، کوئی طالب علم ، کوئی کولیگ، اور کچھ نہیں تو کوئی دوست، آن لائن فرینڈز، بیوی، بچے، سوال تو یہ ہے کہ آپ کس قسم کا رول ماڈل بننا چاہتے ہیں۔
دنیا کو بھی شاید کسی رول ماڈل کی تلاش ہے، کسی بھی شخص کو رول ماڈل بنائیں گے تو آخر میں Frustate ہو جائیں گے سوائے رسالت پناہ صلی اللہ علی وسلم کے مگر یہ بات انہیں ان کی زبان میں سمجھائے کون؟
عبداللہ کو کامیاب لوگوں کی بائیوگرافی پڑھنے کا بڑا شوق تھا، شاید ہی کوئی نوبل پرائز ونر ایسا ہوجِسے عبداللہ نے نہ پڑھا ہو، اس کے علاوہ اپنی فیلڈ کے لوگ مثلاً بل گیٹس، اسٹیو جابز اور ورلڈ لیڈرز مثلاً نیلسن منڈیلا، محمد علی جناح، مہاتما گاندھی۔
وہ کچھ باتوں پہ بڑا حیران ہوتا۔
پہلی تویہ کہ بظاہر نظر آنے والی صلاحیتوں کا لئے جانے والے کاموں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اس شخص کے پاس موجود وسائل کا۔
مثلاً تاریخ اُٹھاکے دیکھیں تو کتنے بڑے بڑے کام مفلوک الحال، لاغر اور کوئی بہت زیادہ صحت مند لوگوں نے انجام نہیں دیئے۔
مادام کیوری کو 2 بار نوبل پرائز ملا،ان کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے، سردی میں ٹھنڈ سے بچنے کے لئے کچھ میسر نہ تھا،فرنیچراوڑھ لیتی تھیں تو جسم پر نشان پڑ گئے تھے۔
اسٹیو جابز کو ان کا باپ حمل کے دوران ہی چھوڑگیا تھا اور وہ راستوں سے بوتلوں کے خالی ڈبے اُٹھاتا تھا۔
بل گیٹس کا بچپن ہو یا صدر اوباما کا، عبدالستار ایدھی ہوں یا صدرالدین ہاشوانی کوئی بھی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوا۔
آپ گاندھی جی اور جناح صاحب کو دیکھ لیں،کبھی کبھی ہنسی آتی ہے کہ قدرت نے 2 کمزور ترین آدمیوں کو پورے برصغیر میں چُنا۔
ایک حبشی غلام کو بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا درجہ دے دیا گیا تو چوروں کے سردار ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی ٹھہرے۔
نوبل پرائز ونرز کی سوانح حیات پاکستان کے ہر اسکول کی لائبریری اور کورس کا حصہ ہونی چاہئے۔
کوئی تو بات ہے، ذہانت، صلاحیتوں اور علم کے علاوہ جس کی وجہ سے بندہ چُن لیا جاتا ہے۔
دوسری کامن بات عبداللہ کو جو حیران کرتی وہ ان ہستیوں کی پرورش ہے۔ عرصے تک گمنام ہی رہتے ہیں، زمانے کے اونچ و نیچ سے گزرتے، مشکلات و آزمائشیں جھیلتے پروان چڑھتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن سورج کی طرح ایسے طلوع ہوتے ہیں کہ رہتی دنیا تک زوال نہ ہو۔
ایک اور بات کہ بہت سے کامیاب ومشہور لوگوں کی خانگی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں گزری، بہت سوں کی تو علیحدگی ہی ہو گئی۔ خواہ وہ امریکی صدر الگور ہوں یا اسٹیو جابز، مائیک ٹائی سن ہوں یا نیلسن منڈیلا۔ اِس زاویے سے دیکھا جائے تو رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت برداشت اور صبر دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اُمہات المومنینؓ کی دل کی وسعت بھی سب سے زیادہ، ایک کامیاب آدمی کے ساتھ زندگی گزارنا کہ دوجہاں ان کی تعریف کرے اور آپ کا ان سے کوئی موازنہ ہی نہ ہو، دل گردے کا کام ہے۔ جو مٹ جائے وہ نبھائے ورنہ تو دنیا بھری پڑی ہے ان مثالوں سے۔ وہ سوچتا کاش کوئی اس ٹاپک پر اس کے ساتھ کام کر سکے کہ اسے عربی نہیں آتی اور کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ جس سے اسے مدد مل سکے عربی میں ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ واپس اپنے شہر پہنچ کرکمپنی اور اس کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔
اُس نے ڈیٹا سائنٹسٹ کیسے بنتے ہیں پر ایک مضمون بھی لکھ دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کچھ تو اچھے ڈیٹا سائنٹسٹ تیار ہو پائیں تاکہ وہ کھل کے کام کرسکے۔
دن گزرتے چلے گئے اور عبداللہ اپنے کاموں میں مگن، کبھی فرصت مل جاتی تو مفتی صاحب سے بات کر لیتا یا کمرہ بند کرکے آنکھیں بند کرکے اپنی تسبیح پڑھتا رہتا، ایسا کرنے سے اُسے بہت سکون ملتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج جمعہ کا دن تھا، عبداللہ نے ہر جمعہ کی طرح سورۃ کہف مکمل کی اور مسجد چلا گیا۔ یہاں کی مسجد اسے بہت پسند تھی، امام صاحب بھی نپی تلی بات کرتے تھے اور بلاوجہ کی جذباتیت سے دور ہی رہتے تھے۔ نماز سے فارغ ہوا تو پچھلی صف میں دو آدمیوں کو لڑتے پایا۔ وہ بہت اونچا بول رہے تھے۔ غالباً کوئی پارکنگ کا مسئلہ تھا کہ ایک نے گاڑی لگا دی جب کہ دوسرا لگانا چاہتاتھا۔ اتنی سی بات مگر لہجوں اور جملوں سے یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ غیظ و غضب کا یہ عالم کہ شاید ایک دوسرے کو جان سے مار دیں تو بھی چین نہ آئے۔ خیر لوگوں نے آکے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ کسی اور کے دل میں غیظ و غضب رکھ کے آدمی دعا میں رحم کیسے مانگتا ہے۔ اُسے آپس میں لڑتے ہوئے مسلمان بالکل بھی پسند نہیں تھے۔
اس پر طرہ یہ کہ ہر شخص جج کا کردارادا کرنے آ پہنچتا ہے۔ مصلح بننے کا شوق انسان کی بدترین عادتوں میں سے ایک ہے۔
عبداللہ بھاری دل کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ دل بہلانے کو سوچا کہ یوٹیوب پر کوئی اسلامی بیان سن لیا جائے۔ تفسیر سننے سے وہ ڈرتا ہی تھا کہ جس تعداد میں مفسر قرآن انٹرنیٹ نے پچھلے 10 سالوں میں پیدا کئے اتنے تو اُمت مسلمہ 14 سو سالوں میں نہ کر سکی۔
خدا خدا کرکے کچھ لیکچرز ملے، عبداللہ نے سننا شروع کیا۔ بہت اچھے لیکچرز تھے۔ کوئی آئیڈیل مسلمان کا زائچہ کھینچ رہا تھا تو کوئی شرم و حیا کی باتیں بیان فرما رہا تھا، کوئی اسلاف کے کارناموں کی گنتی کر رہا تھا تو کوئی آج کل کے مسلمانوں کو ملائکہ سے افضل قرار دے رہا تھا۔ کسی نے زندگی بھر جھوٹ نہ بولنے کی قسم کھائی، توکسی نے صاحب ترتیب اور کئی عشروں کی تہجد نہ چھٹنے کا یقین دلایا۔
کوئی کہہ رہا تھا کہ سدھار اوپر سے آئے گا جب اہل و ایماندار حکمران آئیں گے تو کوئی ہر ہر شخص کو صحیح کرکے ان اکائیوں سے معاشرے کی ازسرنو تعمیر کا متمنی تھا۔
عبداللہ سب سنتا رہا اور پھر اور سنتا رہا اور پھر یہاں تک کے رات پڑ گئی۔
عبداللہ کبھی کبھی بہت پریشان ہو جاتا کہ اس کا دل و دماغ سیدھی سادھی بات قبول کیوں نہیں کرتا کیوں اسے ہر چیز پر کوئی نہ کوئی اعتراض ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہر جواب کی تلاش میں سوالوں کی ایک نئی فصل پک کے تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اُسے چین کیوں نہیں ملتا؟
اُس نے سوچا، آج رُت جگا کرتے ہیں، کیوں نہ اُسی سے پوچھیں ، جو سارے سوال و جواب کا مالک ہے۔
عبداللہ نے دو رکعت صلوۃ الحاجۃ دل کے قفل ٹوٹ جانے کے مانے اور نماز شروع کر دی۔ آج ہرممکن کوشش کے باوجود عبداللہ کے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔
وہ صرف رو رہا تھا۔ رکوع میں بھی، سجدوں میں بھی، قیام میں بھی، تشہد میں بھی، اس کے دل سے دھونکنی کی طرح آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ تنگ آ چکا تھا، ان سوالوں سے اور وہ آج جواب چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھاکہ خدا کی کائنات میں گھومے کہ دنیا میں رہ کر اب اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اللہ کی صناعی دیکھے کہ دنیا سے دل بھر چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ علم اب کہیں اور سے ملے کہ یوٹیوب اور کتابیں اسے بے معنی لگنے لگے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ محبت ملے جو اسے بھر دے۔ اُسے رنگ دے، اسے سیراب کر دے، وہ چاہتا تھا کہ ایسا نشہ کرے کے حشر میں ہی جا کے ہوش آئے۔
ساری دنیا سے نااُمید عبداللہ، ایسی دنیا میں جو آج تک اس کے سوال ہی ختم نہ کر پائی، ایسی دنیا جسے اس کے سوال سمجھ ہی نہیں آتے ہیں ان سب سے وہ ایک بار ہی چھٹکارا پاناچاہتا تھا۔ آج زبان گنگ ہو گئی تھی، آنکھیں بول رہی تھیں، نماز ختم کرکے عبداللہ نے اپنے ہاتھ بلند کئے۔
اے اللہ سائیں!
اے اللہ ! میرا کیا ہو گا؟ میرا کیا ہو گا میرے مالک؟ یہ میرے دل کا شور کب تھمے گا؟ کیا میں پاگل ہونے جا رہا ہوں؟ کیا مجھے فالج ہو جائے گا؟ کیا میں مرنے والا ہوں؟ وہ تمام باتیں جو سب کو سمجھ آ جاتی ہیں وہ مجھے کیوں نہیں آتیں؟ ہر جواب کا ایک وقت ہوتا ہے سوال کا کیوں نہیں ہوتا؟
یہ بیان دینے والے تیرے نیک بندے کیا کہتے ہیں؟ یہ معصوم لوگ ہیں اللہ، یہ کیا جانیں گناہ کسے کہتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم جب نفس ضد پر آ جائے تو کیا ہوتا ہے، انہیں خبر ہی نہیں کہ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے کہ کوئی بیان اثر نہیں کرتا، بندہ جہنم تک سے نہیں ڈرتا، انہیں کیا معلوم جذبات کے گلستان میں ایک دہکتا جملہ کیا آگ لگاتا ہے، جنس کی خاموش جھیل میں ایک کنکر کیا بھنور پیدا کرتا ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں میرے رب ، انسان ، انسانوں سے کتنی دور آ پڑا ہے۔ ستاروں کے جھمگٹوں میں رہنے والے یہ تیرے پاک بندے کیا جانیں ہم جذبات کے بیوپاری کن اندھیروں میں رہتے ہیں۔ نیکیوں کے گھڑسوار معصیتوں کے پیادوں کی رفتار کیا جانیں۔ کس سے جا کے کہوں میرے مالک، کس سے رونا رؤں، تیرے نیک و پاکیزہ بندوں کی دنیا میں، میں اکیلا سیاہ کار ہوں، اِن آنسوؤں کی لاج رکھ میرے مولا، یہ آنسو کبھی یتیم نہیں ہوتے، تو ہے نا ان کا مالک۔
اے یتیموں کے وارث اللہ، ٹوٹے ہوئے، اُجڑے ہوئے، بھوکے پیاسوں کے اللہ، اے ذوالجلال والاکرام، کسی گنہگارکو ولی بنادے کسی مبغوض کو مفتی کر دے، کسی بدکار کو داعی کا منصب دے دے، کسی سیاہ کار کو تبلیغ پر لگا دے کہ انہیں کم از کم ہمارے مسائل اور نافرمانیوں کا ادراک تو ہو، انہیں یہ تو پتہ ہو کہ جب نفس ضد پر آ جائے تو کچھ اثر نہیں کرتا، وہ شاید بتا سکیں کہ گناہ کی عادت اور توبہ کی تکرار میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے؟ اور شرمندگی و ندامت کی وہ کون سی انتہا ہے جو رحمت کو کھینچ لاتی ہے؟ او دلوں کو قرار بخشنے والے، ان بے قراروں ، ان گنہگارں کی بھی سن لے۔
اے اللہ، مجھے مجھ سے بچا لے۔ یہ دل تیرے ذکر سے خالی ہے۔ یہ نفس کا کمیشن ایجنٹ بن چکا ہے۔ اے اللہ ، نہ یہ تیرے ڈر سے رُکتا ہے نہ شکر کے احساس سے، میں اس کا ماتم نہ کروں تو کیا کروں۔
اے اللہ، اس سے بڑا المیہ کیا ہو کہ جسم موٹا ہو جائے اور روح بھوکی مر جائے، جسم کو رزق دینے والے رزاق، کچھ روح کی بھوک کا بھی سامان ہو۔
اے اللہ آدمی کبھی لوگوں کو دکھانے کے لئے کام کرتا ہے کبھی خود کو دکھانے کے لئے، عمر گزر جاتی ہے ریاکاری نہیں جاتی، مجھے ان فریبوں سے بچا، مجھے نفس کی چالاکیوں سے بچا۔
آسانی والا معاملہ کر دے۔
یہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے تھے میرے اللہ، یہ عاجزی کیا ہے؟ عاجزی کی بھی بریک ہونی چاہئے نا، اتنی عاجزی کہ بندہ کسی کام کا نہ رہے میرے مالک کس کام کی؟
اللہ مجھے بچالے، گناہوں کی سوچ سے، سوچ کے گناہوں سے، وسوسوں سے اور پلاننگ سے، اللہ بے شک تیری قدرت و رحمت میرے مسائل سے بڑھ کر ہے۔
اے اللہ وہ کہاں جا کے رہے جو کہیں کا نہ رہے؟
اے اللہ، ہمیشہ سے ہی معدودِ چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو وقت کی کلائی ہاتھ میں رکھتے ہیں، سارے کے سارے ملک تو کبھی بھی حق پر نہ چلے، نہ ہی سارے کے سارے حکمران، میرے مالک ان تھوڑوں میں سے کر دے جو تیرے پسندیدہ ہوں، جن سے تُو ایسا راضی ہو جائے کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو۔
میرے اللہ معاف کر دے، میرے سوالوں کے جواب بخش۔ میرے حال پہ رحم کر، اب تُو نہ ملا تو مارا جاؤں گا یہاں بھی وہاں بھی۔
یا تو مجھے اپنے پاس بلا لے یا مجھے چُن لے، اب تیرے بغیر نہیں جینا۔
بہت ہو گئی، میں تھک گیا اللہ، میں گر گیا اللہ، میری سانس اُکھڑ گئی، چاروں شانے چت پڑا ہوں،کون سی راہ ہے معلوم نہیں، نہ سمت کا پتہ ہے، نہ منزل کا، نہ ہم سفر کا، نہ راہبر کا، نظر صرف تیری رحمت پر ہے۔
مدد کر میرے مالک! مدد کر
اَنت مولانا ، اَنت مولانا، اَنت مولانا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ صبح دیر سے سو کر اُٹھا، موبائل پر کئی مس کالز تھیں۔ ای میل چیک کی تو پتہ لگا کہ اقوام متحدہ نے سافٹ ویئرکی ڈیل منظور کر لی ہے اور دو دن بعد اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں پریس کانفرنس کے لئے بلایا ہے، ساتھ میں انگلستان کے سابق وزیراعظم سے ملاقات بھی طے ہے۔
عبداللہ جلدی جلدی تیار ہو کر آفس پہنچا کہ کمپنی کے بورڈ اور ٹونی اور مارتھا سے ڈسکس کر سکے۔ عبداللہ بہت خوش تھا، نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ اس کا سافٹ ویئر اور سروسز ہائر کر رہی تھی بلکہ سافٹ ویئر کی پہلی اسائنمنٹ بھی پاکستان تھا۔ اس کا اپنا ملک جہاں پچھلے 5 سالوں میں 1000 سے زائد سکول دہشتگرد حملوں کی نظر ہو گئے۔
انگلستان کے سابق وزیراعظم نے خود فون پر بات کرکے مبارکباد دی اور کہا کہ وہ پاکستانی وزیراعظم سے بھی بات کریں گے۔
شام سے پہلے پہلے عبداللہ کو اپنے ملک کے وزیراعظم کی طرف سے ملاقات کا دعوت نامہ مل چکا تھا اور یہ کہ وہ بہت خوش ہیں کہ جو ٹیکنالوجی عبداللہ نے تیار کی ہے وہ اسے استعمال کر پائیں گے۔
عبداللہ مسکرانے لگا کہ کیا ہی عجیب دن دیکھنے کو ملا زندگی میں 5 سال ملک میں دھکے کھاتا رہا، کسی نے کمیشن مانگا، کسی نے گرانٹ روک لی، کسی نے بے کار پراڈکٹ کہہ کر ملنے تک سے انکار کر دیا تو کسی نے جھوٹے وعدوں پر ٹرخا دیا، کون سا در تھاجو اِس نے نہ کھٹکھٹایا ہو مگر جواب ندارد۔ اور آج جب وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس امریکہ آ گیا ہے تو وہی لوگ اسے واپس بلا رہے ہیں جو کہتے تھے کہ ڈاکٹر عبداللہ، اب اگر ایک دن بھی رہے تو زندگی کی ضمانت نہیں۔
کیا بات ہے میرے اللہ۔ تیرا اسکرپٹ سب پر بھاری۔
عبداللہ اگلے دو روز تک ایک ہی شعر گنگناتا رہا۔
تیرا رتبہ بہت بلند سہی
دیکھ میں بھی خدا کا بندہ ہوں
عبداللہ ہوٹل کے کمرے میں سوٹ پہنے تیار بیٹھا تھا، لیپ ٹاپ، ڈیمو، پریزنٹیشن سب ریڈی تھا، آج اس کی زندگی کا ایک بڑا دن تھا، آج اُسے چاچا دینو،سر عبدالرحمن، رفیع صاحب، ابو، امی ، پھوپھی، مفتی صاحب سب یاد آ رہے تھے، بِلّو واٹس اَپ پر ہر ہر لمحہ ساتھ تھی۔
عبداللہ نے دعا کو ہاتھ بلند کئے- :
کیا بات ہے میرے اللہ، کیا کہنے، کون یقین کر سکتا ہے کہ پیلے کپڑوں سے پڑھنے والوں کو تو یہاں لائے گا، اے کمزوروں کے وارث اللہ، تیری وہ تعریف کروں جو کسی نے بھی نہ کی ہو، اُمیدوں کے مالک اللہ، دلوں کے جاننے والے رب تیرا شکریہ، تُو مجھے بھولا نہیں، تُو نے کرم کیا، تو نے عزت بخشی، تو عنایت کر تاکہ میں بھی تجھے کبھی نہ بھولوں، آج سے ایک نیا دور شروع کر میرے اللہ، تو آگے راستے دِکھا۔ میں آنکھ بند کرکے پیچھے چلتا ہوں۔
میرے اللہ بچپن میں مجھے لگتا تھا شرک سب سے بڑا گناہ ہے بس آدمی اس سے بچ جائے باقی سب آسان باتیں ہیں۔ لڑکپن میں آیا تو اندازہ ہوا جھوٹ سے بڑا گناہ کوئی نہیں، جوانی میں جنس کے علاوہ کوئی گناہ ماننے کو دل تیار ہی نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جنس کے علاوہ کائنات میں کچھ ہے ہی نہیں۔ آج لگتا ہے کہ سب سے بڑا گناہ میں خود ہوں، میرا ہونا ہی گناہ ہے کہ اپنے وحدہٗ لاشریک مالک کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ تو واحد ہے ، تو باقی ہے، ہر وہ چیز جو تیری سلطنت میں وجود رکھتی ہے بہ نفسہ گناہ ہے تو مجھے میرے ہونے پر بخش دے میرے مالک۔
مجھ سے خفا نہ ہونا، مجھے اپنے سے قریب رکھنا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ دیر بعد عبداللہ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھا ہوا تھا، وزیراعظم صاحب سے ملاقات اور پریس کانفرنس خوب رہی، انہوں نے جاتے جاتے عبداللہ کے ہاتھ پر پہنی تسبیح کو دیکھ کر کہا کہ یہ کیا ہے؟
عبداللہ نے اُن کے ہاتھ پر بندھے بینڈ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یہ کیا ہے وہ کہنے لگے دوست کا تحفہ ہے اس کی یاد دلاتا ہے۔
عبداللہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا
یہ بھی دوست کی نشانی ہے اس کی یاد دلاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی اناؤنسمنٹ کے بعد میڈیا انٹرویوز اور کسٹمرز کا جو تانتا بندھا تو رُکنے کا نام ہی نہیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبداللہ شدید اُکتاہٹ کا شکار ہو گیا۔
کچھ ہی دنوں بعد وہ ریاست ورجنیا جا رہا تھا ایک کانفرنس میں تقریر کرنے۔ اسکی Talk اس کی فیلڈ میں تھی جو کہ بہت اچھی گئی، اس کے سیشن کے بعد چائے پر اس کی گورنر سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ بہت سے ملٹری جرنلز اور قانونی اداروں کے لوگ تھے کہ یہ کانفرنس ڈیفنس کی ہی تھی اور پوری کانفرنس میں 800 بندوں میں عبداللہ واحد مسلمان۔
عبداللہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی شان ہے وہ اکیلا اپنے کام کی بناء پر 800 پر بھاری پڑ رہا ہے۔
وقفے کے دوران گورنر نے اس سے سوال پوچھا، ڈاکٹر عبداللہ ، آپ کو امریکہ کو دیکھ کے حیرت نہیں ہوتی، کیا بڑا طاقتور ملک ہے، کیسے کیسے سافٹ ویئر، جنگی سامان، Statue of Liberty ، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، وال اسٹریٹ ایک نیا ہی جہان ہے۔
جی بالکل، ہوئی ہے مگر صرف شروع میں ، ایک دو بار، پہلی بار Statue of Liberty کو دیکھا تو مبہوت ہی ہو گیا تھا۔ دوسری بار اچھی لگی، تیسری بار کے بعد سے حیرت ختم ہو گئی۔
کیا آپ نے کبھی کوئی چیز ایسی بھی دیکھی ہے کہ ہر بار حیرت میں اضافہ ہو جائے؟ عبداللہ نے سوال کیا۔
میں نے تو نہیں دیکھی، کیا آپ نے دیکھی ہے عبداللہ۔
جی بالکل، اللہ کی ذات اور اُس کی قدرت، آدمی جب سوچتا ہے، حیرت کے مارے بول بھی نہیں پاتا۔
گورنرنے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا، ارے آپ تو کوئی صوفی ٹائپ کے Meditation Master لگتے ہیں۔ یہ مراقبات کیا ہوتے ہیں۔
جی کچھ نہیں، مراقبات اور مربہّ جات میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، ایک روح کی غذا ہے ایک جسم کی۔
چلیں میں آپ کو حیرت انگیز مثال دیتا ہوں آسان سی۔
قرآن پاک کی غالباً آٹھویں سورۃ (Chapter) ہے۔ سورۃ الانفال۔ اس کی 73 ویں آیت بڑی حیرت انگیز ہے، سمجھ میں ہی نہیں آتی، جب پڑھتا ہوں سر دھنتا ہوں۔
اللہ فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْابَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍط اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌOط (آیت 73)
’’اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ تو (مومنو) اگر تم یہ (کام) نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔‘‘
آپ ملاحظہ کریں۔ مدینے سے ہجرت کرنے والے ڈھائی تین سو افراد ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کل ملا کے ڈھائی ہزار اور کیا۔ اللہ کہتے ہیں تم اپنی نئی وحدت قائم کرو۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں، رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرپرستی میں اور اگر ایسا نہ کیا تو بڑا فتنہ، فسادِ عظیم پیدا ہوگا۔
یا اللہ، کیا ماجرا ہے، کس سے کہا جا رہا ہے، کیا کہا جا رہا ہے، کب کہا جا رہا ہے، کہاں کہا رہا ہے۔
کچھ مفلوک الحال اجنبی سے لوگ اپنی وحدت قائم کریں۔
کس کے مقابلے میں، قیصروکسریٰ کے مقابلے میں، رومن ایمپائر کے مقابلے میں، پوری پوری فوجیں ہیں، تہذیب ہے، تمدن ہے، دنیا فیشن ان سے لیتی ہے، ہتھیار بنانا ان سے سیکھتی ہے، رومن لاء کا طوطی کُل جہان میں بولتا ہے، فن تعمیر وہاں سے آتا ہے اور اگر نہ کیا تو فساد عظیم پیدا ہو گا۔
یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی مجھ سے آکے کہے کہ تم یہ کرو ورنہ امریکہ میں فتنہ ہو گا۔ کہاں میں کہاں 320 ملین لوگ۔
مگر پھر ایسا ہوا، ایسا تاریخ نے دیکھا گورنر صاحب، مٹھی بھر چند لوگوں کی کاوش لے ڈوبی قیصروکسریٰ کو، رومن ایمپائر کو۔
ہے نا حیرت والی بات!
گورنر صاحب کچھ نہ سمجھتے ہوئے پھیکی سی ہنسی ہنس کے چلے گئے۔
عبداللہ یہ شعر گنگناتے ہوئے واپس چلا آیا۔
جو دِکھ رہا ہے اُسی کے اندر جو اَن دکھا ہے وہ شاعری ہے
جہ کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
دِلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے
عبداللہ گھر آ کے سو گیا، صبح اُٹھا تو طبیعت بہت خوش تھی، شاید کسی خواب کا اثر تھا جو اِسے یاد نہیں رہا مگر اس کا انگ انگ مسرت سے اُچھل رہا تھا۔ وہ آج دِن بھر ناز خیالوی کے یہ مصرعے دہراتا رہا-:
مرکزِ جستجو، عالمِ رنگ و بو
دم بہ دم جلوہ گر، تو ہی تو چار سُو
ہُو کے ماحول میں، کچھ نہیں اِلاھُو
تم بہت دلربا، تم بہت خُوبرو
عرش کی عظمتیں ، فرش کی آبرو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کر دو عطا دِید کا ایک سبو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو
چند لمحے مِلن، دو گھڑی گفتگو
ناز جپتا پھرے، جا بہ جا کو بہ کو
وحدہٗ وحدہٗ، لا شریک لہ،
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداللہ جہاز میں بیٹھا سِری لنکا کی طرف جا رہا تھا کہ کمپنی کا ایک آفس وہاں بھی کھول سکے اور اُس کا قلم پھر سے سوالات لکھ رہا تھا۔
*۔۔۔ یا اللہ ، دو سال سے ایک ہی ذکر پر ہوں۔ بہت کاہلی برتی، لگتا ہے تمام عمر اِسی پر رہوں گا۔ تُو قبول فرما لے۔ اے وہ اللہ جو زمان و مکان کی قید سے پاک ہے۔ میں منزلوں کا مسافر ہوں، تُو تو نہیں، تو آکے مِل جا۔
*۔۔۔ اے اللہ، جن کا موت سے پہلے دل دنیا سے اچاٹ ہو جائے، اُن کے لئے کوئی سرائے ہے کیا ؟
*۔۔۔ وہ کون سی نیکی ہے جو گارنٹی دے کہ بندہ چن لیا جائے گا؟
*۔۔۔ جن کے سوال گم ہو جائیں ، ان سے کوئی جواب مانگے تو وہ کیا کریں؟
*۔۔۔ اے اللہ کیا روحانیت کا بھی کوئی نصاب اور امتحان کا طریقۂ کار ہے۔ یا تیری مرضی جب چاہا ،جیسے چاہا ، جسے چاہا دے دیا؟
*۔۔۔یَامَنْیَّرَا (او دیکھنے والے) دیکھ کہ میں سوالوں کی مالا توڑ بیٹھا ہوں۔۔۔
میں تو اتنا بھی سمجھنے سے رہا ہوں قاصِر
راہ تکنے کے سِوا آنکھ کا مقصد کیا ہے