خلافِ توقع صبح عبداللہ اُٹھا تواس کا موڈ کافی خوشگوارتھا، جسم پرچوٹوں کے نشان مگرچہرے پروہی ازلی مسکراہٹ جواس کی شخصیت کاحصہ تھی۔ ماں نے جلدی سے گرم گرم پراٹھا سامنے رکھ دیا اورباپ کی قمیص سے بنائی گئی قمیص بھی رکھ دی ۔
عبداللہ ماں سے،اماں یہ روٹی کہاں سے آئی؟
توکھالے چپ کرکے، کل کا بھوکا ہے۔
سائیں کے ڈیرے سے آٹا لائی ہے نا؟
توکھاتا ہے کہ نہیں؟ ماں نے بڑی مشکل سے آنسوروکتے ہوئے کہا۔
عبداللہ کا دل تونہیں چاہ رہاتھا مگرماں کے غم کودیکھتے ہوئے روٹی کھائی اورقمیص پہن کر باہرنکل گیا۔
عبداللہ جلدازجلد چاچا دینوکے پاس پہنچ کر اپنے دل کاغم ہلکا کرنا چاہتا تھا چاچا دینو نے عبداللہ کی شکل دیکھی تومسکرانے لگا۔ عبداللہ کوتوجیسے آگ ہی لگ گئی۔
اوئے چاچا! کیسادوست ہے تُو؟ مجھے پھینٹی پڑی اور توہنس رہا ہے؟
عبداللہ یہ توسینک ہورہی ہے کُندن کی۔
چاچا یہ موٹی موٹی باتیں کرکے دل نہ جلا،مجھے کچھ پوچھنا ہے؟
ہاں پوچھ!
چاچامیں کیاکروں گا، میری جندگی توختم ہوگئی ،ڈیرے پہ جانے پرپابندی لگ گئی۔ تجھے پتہ ہے ناکل کیاہواہے؟
ہاں ،ہاں عبداللہ پورے گاؤں کوپتہ ہے۔
توکیااللہ کوبھی پتہ ہوگا؟
ہاں بیٹا!وہ تومالکِ کُل ہے سب دیکھتا،سب سنتاہے ۔
توپھروہ مجھے بچانے کیوں نہیںآیا؟
سائیں کے بندے آگئے تھے نامارنے ،تُوتوکہتاہے میں اللہ کابندہ ہوں تووہ کیوں نہیں آیابچانے کو؟
بیٹاہرکام میں اللہ کی مصلحت ہووے ہے شایدتیراڈیرے پہ کام کرنااسے منظورنہ ہو۔
چل توچھوڑاسے ،آنمازپڑھ لیں مسجدجاکرظہرہونے والی ہے۔ظہرپڑھ کے چاچادینوسبزی کی ریڑھی لے کرگاؤں کے بس اسٹینڈپرکھڑاہوگیااورعبداللہ اس کے ساتھ ساتھ۔
چاچاہم نمازکیوں پڑھتے ہیں؟
تاکہ اللہ پاک خوش ہوجاویں۔
اگرہمیں نمازپڑھ کرخوشی نہ ہووے توبھی اللہ پاک خوش ہوجاویں گے؟
چاچادینودیرتک عبداللہ کودیکھتارہامگرجواب کچھ نہ دیا۔
اسی طرح باتوں باتوں میں دن ڈھل گیا،چاندسامنے آیاتودونوں نے گھرکی راہ لی۔
چاچانے جاتے ہوئے کہاعبداللہ دیکھ چاند اوراس کی چاندنی کتنی پیاری ہے؟
چھوڑچاچاابھی توبھوک لگی ہے جب پیٹ خالی ہو نا توچاندنی واندنی کچھ اچھانہ لگے ہے۔
چاندسے پیاری ہیں مجھ کوبھوک میں دو روٹیاں
جب کوئی بچہ مرے گاکیاکرے گی چاندنی؟
*۔۔۔*۔۔۔*
فضلوکئی ہفتوں سے سوچ رہ اتھا کہ عبداللہ کامستقبل کیا ہوگا؟
کئی بارخیال آیاکہ سائیں سے پھرمعافی مانگ کر عبداللہ کوڈیرے پہ لے آؤں کہ غریب لوگوں کاواحدآسرایہ ڈیرہ ہی توتھا،مگرسائیں کے غصے اورعبداللہ کی سوال کرنے کی مستقل عادت کے ڈرسے چپ ہورہا۔
آج برابروالے گاؤں سے ڈیرے پرکچھ مہمان آئے ہوئے تھے ان میں کچھ بچے بھی تھے جنہوں نے پیلی شلوارقمیص کی اسکول یونیفارم پہنی ہوئی تھی یہ دیکھتے ہی فضلوکے دل میں بھی امیدجاگی کہ وہ عبداللہ کواسکول میں داخل کروادے۔اس طرح شایداسے زندگی میں کوئی کام بھی مل سکے اوراس کاوقت بھی بربادنہ ہو۔
اگلی صبح فضلونے عبداللہ کوتیارکیااورگاؤں کے واحداسکول کی طرف چل پڑا،اسکول پہنچا تو دیکھا کہ تین میں سے دوکمروں میں گائے اوربھینس بندھی ہوئی تھیں،عبداللہ سے پھرنہ رہاگیابول پڑا:
استادجی! کیاڈھورڈنگربھی پڑھنے آتے ہیں؟
ابے نہیں!یہ وڈیرہ سائیں کے ہیں۔پھراستادجی فضلوسے مخاطب ہوکرکہنے لگے کہ فضلو!وڈیرہ سائیں سے اجازت لے آ،ان کی اجازت کے بغیریہاں کوئی داخلہ نہیں لے سکتا۔
’’مگراسکول توسرکاری ہے‘‘ فضلونے احتجاجاًکہا ۔’’اورسرکارسائیں کی ہی توہے‘‘ ،استادجی نے لقمہ لگایا۔
عبداللہ نے پھرسے ٹانگ اڑائی ،تواستادجی !کتنے بچے پڑھ رہے ہیں اسکول میں؟
صرف دو،وہ دونوں میرے بیٹے ہیں ،باقی سائیں نے کسی کواجازت نہیں دی۔
توسائیں کے بچے؟
ابے پگلے! وہ شہرکے بڑے اسکولوں میں ہوں گے وہ کوئی غریبوں کے اسکولو ں میں تھوڑا ہی آئیں گے۔
کچھ دیرکی مزید بحثِ لاحاصل کے بعدفضلو اورعبداللہ واپس گھرکی طرف چلے گئے۔ فضلونے عبداللہ کادل بڑاکرتے ہوئے کہاتوفکرنہ کرپاس والے گاؤں میں داخلہ کرادوں گا۔ توروز گاڑی میں چلے جانابس اڈے سے ،ڈرائیورمیراجاننے والاہے وہ کرایہ نہیں لے گامیں شام کواس کی گاڑی دھودِیاکروں گا۔
کچھ دنوں کے بعدسائیں شہرگیاتو فضلوچپکے سے برابروالے گاؤں چلاگیااسکول پتہ کرنے کو۔
عبداللہ پورادن اسی کاانتظارکرتارہا،فضلوآیااورکہاکہ وہاں داخلہ نہیں ملااورسوگیا،عبداللہ کوکچھ سمجھ نہ آیاکہ کیاہوامگرپوچھے توپوچھے کیا؟
رات کے پچھلے پہرعبداللہ کی آنکھ کھلی توابا کواماں سے کہتے سنا،ارے نیک بخت !وہاں اسکول میں بچوں سے کام کرواتے ہیں، ان سے غلط حرکت وغیرہ بھی کرتے ہیں،پورے گاؤں میںیہ بات مشہورہے، ہماراعبداللہ توویسے بھی بڑاکمزورہے کہ شوربھی نہیں کر سکے گا۔
اس کے نصیب میں نہیں ہے اسکول توپریشان نہ ہو،اللہ کوئی سبیل کرے توکرے بظاہرتوکچھ سُجھائی نہیں دیتا۔پتہ نہیں کب کوئی آنسوعبداللہ کی آنکھ سے نکلااورتہہ خاک ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج فضلوپھرمسجد میں انہی مولوی صاحب کی منت سماجت کررہاتھاکہ عبداللہ کومسجد میں قرآن ونماز پڑھادیں اورمدرسے میں داخلہ دے دیں ۔
دیکھ فضلو!تیرے بچے کے کرتوت اورشہرت کوئی اچھی نہیں ہے گاؤں بھرمیں،اوپرسے وڈیرہ سائیں ناراض ہوگئے توچندہ بھی نہیں ملے گاتواگروعدہ کرکہ تیرالال سوال نہیں پوچھے گااورروزمسجداورمدرسے کی جھاڑوپونچھاکرے گاتوکل سے بھیج دے۔
اوریوں کچھ گھنٹوں کی غلامی اورسوال نہ کرنے کی شرط پرعبداللہ کاداخلہ ہوگیا۔
عبداللہ مسجد میں پڑھائی کی منازل بہت تیزی سے طے کرتاچلاگیا۔صبح فجرکے بعدہی آجاتااورمغرب کے بعد گھرجاتاجب کہ معمول کے اوقات صبح سورج نکلنے سے لیکر ظہر کی نماز تک تھے ۔
کھانابھی مدرسے میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا،نورانی قاعدہ،یَسَّرناالقرآن ،ناظرہ، تجویدسب کچھ عبداللہ نے 2سال کے عرصے میں مکمل کرلیا،لکھناپڑھنا بھی سیکھ لیا،حافظہ اس کمال کاکہ سال سال پہلے کی باتیں یوں از برہوتیں جیسے کل کی بات ہو۔
دوسال میں معمولی نوک جھونک کے علاوہ ابھی تک کوئی بڑامسئلہ نہ ہواتھا۔
ایک دن مولوی صاحب نے عبداللہ کو’’مولوی‘‘بننے کامشورہ دیا۔
مولوی صاحب ’’مولوی‘‘کسے کہتے ہیں؟
بھئی وہ شخص جوانسانوں کواللہ کاراستہ دکھائے وہ مولوی ہوتاہے۔
تومولوی کوراستہ کون دکھاتا ہے؟
اسے دین کاعلم راستہ دکھاتا ہے۔
تولوگ دین کاعلم حاصل کرلیں مولوی کی ضرورت کیا ہے؟
لوگوں میں اتنی عقل نہیں ہوتی ۔
تومولوی کے پاس کہاں سے آئی؟
مولوی کواللہ دیتا ہے۔
تولوگوں کوکیوں نہیں دیتا؟
اوراس گفتگوکے بعد مولوی صاحب نے عبداللہ کو’’مولوی‘‘بنانے اورعبداللہ نے ’’مولوی‘‘ بننے کاخیال دل سے نکال دیا۔
مدرسے وہ اب بھی جاتا تھاایک استادسے حدیث اورفقہ پڑھنے ،مگراب اس کے سوالوں کاسلسلہ دراز ہوتاجارہا تھا۔
(وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنَ)
[سورۃ الذاریٰت۱۵:۶۵]
’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔‘‘
آج کی کلاس مولوی صاحب نے اس جملے سے شروع کی ،پوری جماعت نے اقرارمیں سرہلایامگرعبداللہ کوبھلا’’آسان باتیں‘‘کب سمجھ آتی تھیں مولوی صاحب سمجھ نہیں آیا۔
مولوی صاحب نے غصے میں عبداللہ کودیکھا اورعربی اوراردومیں آیت اوراس کاترجمہ پھربیان کردیا۔
مولوی صاحب بات نہیں بنی، عبداللہ پھرگویاہوا۔
اب مولوی صاحب کے صبرکا پیمانہ لبریزہوچکاتھاانہوں نے چیخ کے کہابدبخت سب بچوں کوسمجھ آگیا، تیرادماغ ہے یابھوساتجھے کیامسئلہ ہے جواتنی آسان بات پلے نہیں پڑتی۔
مولوی صاحب، فرشتے موجودہیں نا،کوئی چوبیس گھنٹے رکوع میں توکوئی سجدے میں،کوئی حمدوثناکے لیے توکوئی طواف میں مگن ،تواللہ کومیری ’’عبادت‘‘کیوں چاہئے؟
آخر’’میری عبادت‘‘ فرشتوں کی عبادت سے کیسے مختلف ہوئی؟
چپ کر،بدبخت ہربات پہ سوال نہ پوچھا کر۔ اللہ کا کلام ہے اورتومسجدمیں بیٹھا ہے۔
مگراللہ سائیں نے یہ کلام ہمارے واسطے بھیجاہے اگرمیں سمجھوں گانہیں توعمل کیسے کروں گا،مجھے فرق سمجھا دیں ورنہ میں تونہیں پڑھتا نماز۔
کیا ضروری ہے کہ فتنۂ محشر بھی بنوں۔
وجہِ تخلیقِ جہاں ہوں یہ سزا کافی ہے
عبداللہ کے یہ الفاظ پوری کلاس میں بجلی بن کے گرے۔ مولوی صاحب نے اس ’’کفر‘‘کی پاداش میں ارتدادکافتویٰ لگایااورخبرگاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
فضلو بھاگتا ہوا آیا، ایک خلقت جمع ہوگئی ،چاچا دینوکوبھی خبرکردی کسی نے ،سمجھابجھاکے عبداللہ سے کہامعافی مانگ مگرعبداللہ نہ تومعافی مانگے نہ نمازپڑھے۔
خیرلوگوں کے سمجھانے پرمولوی صاحب نے عبداللہ کو کلمۂ توحیدپڑھاکے پھرسے مسلمان کیااورفضلوسے مٹھائی کامطالبہ ۔
’’مسلمان‘‘ ہونے کے بعدعبداللہ نے مولوی صاحب سے کہا،مولوی صاحب! وہ سوال کاجواب تودے دیں۔
ابے عقل کے دشمن ،اسی سوال کی وجہ سے توساراجھگڑاہواہے۔ تجھے ایمان عزیزہے کہ نہیں؟
پروہ سوال تووہیں کاوہی رہانہ؟
لے جافضلواسے ،آجائیں وڈیرہ سائیں شہرسے واپس ،اس گاؤں میںیہ ’’کافر‘‘ رہے گایا میں۔
عبداللہ پہ تومولوی صاحب کی بات کاکچھ اثرنہ ہوامگرفضلوکی جان نکلی جارہی تھی ،عبداللہ بمشکل 11سال کاہوگامگراس کے مسئلے پورے گاؤں کے برابرتھے گھرپہنچتے ہی فضلو نے کہا!
عبداللہ ،آج تومولوی بھی تیرادشمن ہوگیاسائیں پہلے ہی تجھ سے خارکھاتاہے ،نہ دنیاسے یاری نہ دین سے ،دونوں ہی دشمن ہوگئے ،تیراکیاہوگا؟
اباتومجھے زہرلادے تیری بھی جان چھوٹے اورمیری بھی ۔
اتنے میں دروازے کے باہرکسی نے آواز لگائی ۔آنے والاچاچا دینو تھا چاچا دینو نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بات کارخ موڑا۔
عبداللہ تجھے بلی پسند ہے ؟ہاں!چاچابہت پسند ہے اُچھلتی کودتی قلابازیاں کھاتی، قلقاریاں بھرتی، اپنی دنیا میں مگن۔
کیا وہ اپنے کسی بھی کام میں اللہ کی نافرمانی کرتی ہے؟
نہیں چاچا،وہ کرہی نہیں سکتی، اس کے پاس اتنا دماغ تھوڑا ہی ہوتاہے ۔
اورفرشتے ،کیاوہ گناہ کرسکتے ہیں؟
اُم م م م،نہیں چاچا ان کے پاس گناہ کا جذبہ نہیں ہوتا۔
توعبداللہ یہی تووہ من مرضی ہے جس کی وجہ سے اِنسان ممتازٹھہرااوراسی من مرضی کی وجہ سے پکڑہوگی۔
عبداللہ کواپنے سوال کاجواب مل گیامگرفضلوکی پریشانی توکچھ اورتھی ۔
آخرکار فضلونے عبداللہ کی ماں کے ساتھ مل کرایک فیصلہ کرہی لیااوروہ تھاعبداللہ کواپنی بہن کے پاس پنجاب بھیجنے کا۔
فضلوکی بہن کی شادی پنجاب کے ایک دیہاتی گھرانے میں ہوئی تھی ،امیرتووہ بھی نہ تھے مگرکم ازکم ہاری نہ تھے ،زمین کاایک چھوٹاساٹکڑاتھااس کے شوہرکااِس پہ کام کرتے تھے اور اولاد کوئی تھی نہیں۔
اوریوں صبح سویرے پَوپھٹنے سے پہلے عبداللہ دکھی دل اورروتی آنکھوں کے ساتھ اپنے ماں ،باپ اوردینوچاچاکوخداحافظ کہہ کرروانہ ہوگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ اپنی پھوپھی سے مل کربہت خوش ہوا،صرف دوبندے ہی توتھے گھرمیں،اورعبداللہ یوں بھی تنہائی پسندتھا۔
کچھ ہی دنوں میں پھوپھی نے عبداللہ کا’’نئی روشنی‘‘نامی سرکاری اسکول میں داخلہ کرادیا۔پیلی یونیفارم عبداللہ کوبہت پسندآئی۔
عمرکے اعتبارسے یوں توعبداللہ کوپانچویں کلاس میں ہوناتھامگراسے A,B,C,Dنہیں آتی تھی لہٰذا 11سال کی عمر میں اسے پہلی جماعت میں اپنی سے آدھی عمرکے بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔
پورے اسکول میں ہیڈماسٹرکوچھوڑکے فقط تین استاداورتھے ،نہ مکمل فرنیچر،نہ بجلی اورپانی بھی وہ جوگھوڑے گدھے سب ہی پیتے تھے۔
مگرعبداللہ کی پیاس توعلم سے ٹھیک ٹھاک بُجھ رہی تھی وہ جماعتیں تین، تین ماہ میں پھلانگتا چلا گیااورصرف چودہ سال کی عمرمیں نویں تک پہنچ گیا۔اب بورڈکے امتحانات ہونے والے تھے لہٰذاپوراسال پڑھناتھا۔
سال کے شروع کے ہفتے میں ایک استاد نے عبداللہ کوبلایااورنصیحت کی :
’’بیٹاتومجھے بڑاپسندہے ،توذہین ہے ،اچھے سوال پوچھتاہے اورہمیں معلوم ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس تیرے سارے سوالوں کے جواب بھی نہیں ہوتے ،مگردیکھ یہ بورڈکے امتحان ہیں،یہاں پوزیشن کے لیے زبردست مقابلہ ہوتاہے توکوشش کراگرکوئی پوزیشن تونے اٹھالی بورڈمیں تواس بہانے شایدہمارے اسکول کے بھاگ کھل جائیں اورسرکاریہاں پرکوئی مناسب عمارت اورانتظامات کروادے۔ہمیں بڑی امیدیں ہیں تجھ سے ،اللہ تیراحامی وناصرہو!۔‘‘
عبداللہ ایک نئے عزم ،ایک نئے جوش،ایک ولولے کے ساتھ اٹھااوراس نے سوچ لیاکہ کوئی فائدہ نہیں زندگی کااگرپوزیشن نہ آئی تو۔
گھرجاکے پھوپھی سے ذکرکیاتووہ کچھ پریشان ہوگئیں،ایک تواضافی کتابوں کاخرچ اوردوسراوہ عبداللہ کی جذباتی طبیعت کوجانتی تھیں،انہیں لگاکہ اس لڑکے کی اگرپوزیشن نہ آئی توکہیں کچھ کرنہ گزرے۔
اوریوں وہ بھی دن رات عبداللہ کے ساتھ لگ گئیں اس کی تیاری میں۔
ان چارسالوں میں عبداللہ صرف ایک بارہی گاؤں جاسکااپنے والدین سے ملنے ،ماں ملاقات پہ اتناروئی کہ آئندہ عبداللہ نے جانے کاذکرہی نہ کیا۔وہ اکثرکہتامیں ایک دن ماں باپ کواس دلدل سے نکال لاؤں گا۔
پھوپھی کو شاعری اوراردوسے بڑالگاؤتھا،انہوں نے عبداللہ کی اردواورشاعری پربڑی توجہ کی ۔اس کی پڑھائی کی رفتاربڑھانے کے لیے اسے روز کوئی نہ کوئی کتاب دے دیتیں[جواکثروہ ردّی والے سے کوڑیوں کے مول خریدلیتی تھیں]۔ پھوپھی اسے کہتی آج رات کاکھاناجب ملے گاجب یہ کتاب ختم ہوگی۔
پروین شاکر،فیض احمدفیض،اکبرالہٰ آبادی ،چودھری فضلِ حق ،نسیم حِجازی سے لے کرعمران سِریز،مظہرکلیم ،ابوالاثرحفیظ جالندھری ،علامہ اقبال ،سعدی ورومی ،کوئی مصنف بچانہیں تھاجس کی کتا ب عبداللہ نے پڑھی نہ ہو۔اورحافظے کاکمال یہ کہ چھ ہزارسے اوپر شعر یاد کر چکا تھا۔
اسی سال ڈویژن میں ہونے والے تقریری اوربیت بازی کے مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کی۔
پوزیشن کے بعدعبداللہ اوراس کی پھوپھی کی خوشی دیدنی تھی۔
خیرپڑھتے پڑھتے عبداللہ کی نظر کمزورہوگئی اورعینک لگ گئی مگرکتابوں کاجوشوق چڑھاوہ اُترنے کانام ہی نہ لیتاتھا۔عبداللہ کے دوستوں کی تعدادصفرتھی کبھی کبھارچاچادینوبہت یادآتے تواداس ہوجاتا اورانہیں خط لکھ دیتا جس کاوہ باقاعدگی سے جواب دیتے تھے ۔
خیروقت اپنی مقررہ رفتارسے گزرتاچلاگیا۔آج اخبارمیں میٹرک کے امتحان کارزلٹ تھا عبداللہ نہ توخودرات بھرسویانہ کسی کوسونے دیا۔شایدہی کوئی گھرایساہوپورے محلے میں جوعبداللہ کے لیے دعانہ کررہاہو۔ پھوپھی توسرتاپادعاہی بن گئی تھیں۔
ہاتھ اٹھتے ہیں نہ ہوتی ہے لبوں کو جنبش
ہم تجھے اتنے سلیقے سے دعا دیتے ہیں
عبداللہ بھی رات بھرمُصلّے پہ بیٹھاروتارہا۔
’’اللہ سائیں!ساڈی وِی سن لے ساڈی لاج رکھ لے۔
مینوپوزیشن دے دے ۔فِرتے نوکری لگ جاوے گی،تیراوڈاشکرہووے گا،دیکھ میراباپ اورماں خوش ہوجائیں گے اورپھوپھی توشایدخوشی کے مارے جھومنے لگیں ۔تجھے تیری شانِ کریمی کاواسطہ ،شانِ حبیبی کاواسطہ ،توتوقریب ہے نامجھ سے ،شہ رگ سے بھی قریب ،توسن لے نا،نہ سننی ہوتوبھی سن ،تجھے ہی توسجدہ کرتاہوں ،تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے توجاؤں کہاں؟بس سن لے میرے اللہ۔اللہ سائیں میں تجھ ہی سے مانگتا ہوں ،میراباپ بھی تجھ سے مانگتا ہے ، دادا بھی تجھ سے ہی مانگتا تھا ، ہم تو نسلوں سے بھکاری چلے آرہے ہیں تیر ے در کے ، تو خالی ہاتھ واپس نہ بھیجنامیرے اللہ میاں
مجھے یقین ہے تونے سن لی ،دیکھ مجھے جھوٹانہ کروایو!
اس رات کے اندھیرے میں توجانتاہے کہ میں نے جندگی میں صرف تجھ سے ہی تومانگاہے سن لے میرے مولا!۔
تجھے اس بات کاواسطہ کہ تواللہ ہے ،میرااللہ ہے ،اومیرے اللہ سن۔‘‘
پتہ نہیں کب عبداللہ کی آنکھ لگی ،پھوپھی نے بھی نہ اٹھایاکہ رات بھرکاجاگاہواتھا۔آنکھ کھلی جب گھرکے باہرشوراٹھاپورااسکول ہی توگھرمیںآیاہواتھااخبارہاتھ میں لیئے ۔
عبداللہ نے پورے ڈویژن میں سب سے زیادہ مارکس لئے تھے، ہرآنکھ خوشی میں اشکبارتھی۔ عبداللہ کوآج اپنی ماں باپ اورچاچا دینوبہت زیادہ یاد آرہے تھے ۔اوروہ یک دم ہی اُداس ہوگیا۔
عبداللہ اسی شام اخبارکی کاپی ہاتھ میں لیئے گاؤں روانہ ہوگیااورپورے راستے سوچتارہاکہ اباکوکیسے بتائے گا۔مولوی صاحب کوچڑائے گاجواسے کوڑھ مغزکہتے تھے ،گاؤں والوں کودکھائے گاجوسمجھتے تھے کہ اس کے دماغ میں بھوسابھراہواہے۔
عبداللہ نے صبح سویرے گھرمیں قدم رکھاتوابا چارپائی پرپڑاکچھ سوچ رہاتھااورماں دیگچی میں چائے بنارہی تھی ۔
دیکھ ابادیکھ ۔تیرے بیٹے نے کیاکیاہے ،پورے نمبر،سب سے زیادہ مارکس پورے ڈویژن میں،دیکھ اخبارمیں بھی آیاہے،اب میں بھی صاحب بن جاؤں گابلے بلے ۔شاواشاوا۔
باپ اورماں اپنے بیٹے کے بوسے لیتے رہے اورروتے رہے ۔جذبات کاسمندرجب ٹھنڈاہواتوفضلونے کہا۔
چل عبداللہ ،سائیں کودکھاتے ہیں اسے بھی توپتہ چلے کہ میرے بیٹے نے کیاکیاہے ۔اس نے تجھے گالی دے کے نکالاتھانہ ؟چل آج اسے بتاتے ہیں۔
عبداللہ گویاہوا:
چھوڑدے ابا،مجھے پسند نہیں تیراوڈیرہ ،پھرکوئی ہنگامہ کرے گامجھے ڈرلگتاہے۔
ابے کچھ نہیں ہوگا،نوکروں کی خوشی میں مالک خوش ہوتے ہیں توچل،آج میں سینہ تان کے کوئی بات کرسکوں گا۔زندگی میں پہلی بارآج میں اس گاؤں کی زمین پرفخرسے چل سکوں گا۔آج میں کپڑاکندھے پہ رکھ کے نہیں پگڑی بناکے پہنوں گاتوچل۔
اوریوں عبداللہ چاروناچارڈیرے کی طرف روانہ ہوا۔
ٖڈیرے پرپہنچے توسائیں موجودتھامگرموڈکچھ خراب ہی معلوم ہورہاتھامگرفضلوتواپنی ہی دھن میں مست تھاکہنے لگا:
’’سائیں!یہ میرالونڈہ آیاہے آج پنجاب سے ،اس کاآج میٹرک کارزلٹ نکلاہے۔‘‘
اچھاکتنے پرچوں میں فیل ہواہے؟سائیں نے مضحکہ خیز لہجے میں پوچھا۔نہ سائیں ٹاپ کیاہے پورے ضلع میں،یہ دیکھ اخبارمیں نام آیاہے سائیں آپ کابیٹابھی توتھاشہرمیں میٹرک کے امتحان میں،چھوٹے سائیں نے توکمال ہی کردیاہوگا۔
یہ سنتے ہی سائیں کی آنکھ انگارہ ہوگئیں،ان کابچہ 4پرچوں میں فیل ہوگیاتھاکہنے لگاحرامخورمجاق اڑاتاہے، سن لیاہوگاکسی سے ،یہ تیرے پلے نے بتایاہوگااخبارپڑھ کے۔ ٹھہر ذرا میں نکالتا ہوں تیرا گھمنڈ۔
فضلوکی توجیسے روح ہی نکل گئی ،اس نے توسوچابھی نہ تھاایساہوگاکہنے لگا’’نہ سائیں،ہم توتیری ملکیت ہیں،مجھے نہ پتہ تھاپیپرزمیں غلطی ہوگئی ہوگی ،چھوٹاسائیں توملک میں سب سے ہشیارہے۔ مگرجوتیرکمان سے نکل گیاوہ واپس کہاں آتاہے؟
سائیں نے اخبارپھاڑکے فضلوکے منہ پرمارااورلاتوں گھونسوں کی بارش شروع کردی۔
اب عبداللہ سے نہ رہاگیا،اس نے بھا گ کے سائیں کاہاتھ پکڑلیا،اورکہاسائیں معاف کردے ہمیں کیاپتہ تھاتوچھوڑدے میرے اباکو۔سائیں غصے میں آپے سے باہرہوگیااورہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا،نہیں چھوڑتاحرامی کی اولاد،کیاکرے گا۔
عبداللہ کیاکہتاصرف اتناکہاکہ ’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
بس پھرکیاتھافضلو کی پٹائی ختم اورعبداللہ کی شروع۔
جب سائیں اوراس کے نوکروں نے مارمارکے باپ بیٹاکوادھ مواکردیاتونجانے کیوں سائیں کوایک خیال آیا۔
کہنے لگاہاںیہ ٹھیک ہے ،یہ میری ملکیت ہی توہیں فضلونے ٹھیک کہا،مگربھینسیں بھی ملکیت ہیں اورمیں نشانی کے طورپرانہیں گرم سلاخوں سے داغ دیتاہوں ،جو میرا نشان ہے ۔
مجبورعبداللہ کے کپڑے اتروائے گئے اورکمرپہ کھولتی ہوئی سلاخ سے نشان لگادیاگیا۔چیخوں سے آسمان ہل گیامگرزمینوں کے جومالک ہوتے ہیں ان کادل کب کوئی چیزخاطرمیں لاتاہے ۔سائیں نے نخوت بھرے لہجے میں کہااب سالاساری جندگی پگڑی پہن کے نہیںآئے گا۔ہاری پیداہواہے ہاری مرے گا۔اس کاباپ بھی ہاری تھاتوبیٹابھی ہاری مرے گااگرآج کی پٹائی سے بے غیرت بچ گیاتو۔اورپھرسائیں کے بندوں نے اللہ کے بندوں کواٹھاکے انکے گھرکے سامنے پھینک دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
گاؤں میں خبرپھیل گئی ،کوئی حکیم کوبلالایاتوکوئی گورکن کوکہ عبداللہ کے بچنے کی امیدکسی کونہ تھی، ہونٹ پھٹ گئے تھے،آنکھیں سوج گئی تھیں،چھ دانت باہرنکل گئے تھے اورجوجلنے کانشان تھااس میں خون رس رہاتھا۔
چاچادینونے بڑی جان ماری،کوئی سات دنوں بعد عبداللہ بسترسے اٹھنے کے قابل ہوا۔
ننگ دھڑنگ زخموں سے چورپورے گاؤں کے سامنے پڑارہنے سے جوٹھیس خوداعتمادی کوپہنچتی ہے اس کااندازہ کوئی اورکیسے لگاسکتاہے؟
عبداللہ کچھ ہفتوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا،تب تک فضلونے گاؤں چھوڑنے کی ٹھان لی تھی۔ قریبی شہرمیں چاچا دینوکاکوئی جاننے والاتھااس نے مزدوری دلانے کاوعدہ کر لیا تھا کچھ پیسے بھی چاچادینواورکچھ اوردوستوں نے دے دیئے تھے جس سے کچھ روزکھانے کاگزارہ ہو سکتاتھا۔فضلونے اگلے دن صبح سویرے اپناگھراورتھوڑابہت جوکچھ بھی اس میں تھااسے چھوڑا اور شہر روانہ ہوگیاکبھی واپس نہ آنے کے لیے۔