کچھ دن بعد لڑکھڑاتے ہوئے عبداللہ ہسپتال سے اپنے گھرمیں داخل ہورہا تھا۔
ابا! تونے معافی کس بات کی مانگی؟ مارا توانہوں نے تھا، تواتنا غریب اورڈرپوک کیوں ہے؟
دیکھ اباّ، آپ میرے ماں باپ ہو،مجھے عزیز ہو، مگرجس طرح زندگی آپ گزاررہے ہواورمجھے دے رہے
ہومجھے یہ زندگی نہیں چاہئے۔
اسی کا نام زندگی ہے تومیں آج اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کردوں گا۔
نہ آپ ڈھنگ سے روٹی دے سکتے ہونہ کپڑے نہ چھت، نہ ہی میری حفاظت کرسکتے ہواورنہ ہی ان
لوگوں کے خلاف پرچہ کرسکتے ہوجنہوں نے ساری یونیورسٹی کے سامنے مجھے مارا۔
میںآج دریائے سندھ پہ جاکے خودکشی کروں گااورجب خدا کے پاس پہنچوں گا توخوداپنے اللہ سے بات
کروں گا۔
یہ گفتگوسن کے فضلواورعبداللہ کی ماں رونے لگی اورروتے روتے کہنے لگی نہ میرے لعل ہمیں معلوم
ہے قصورتیرانہیں ہے ،یہ توتیری قسمت ہی ایسی ہے۔
تومحنتی توہے نا،توبس محنت کئے جااورایک دن توضرورکامیاب ہوجائے گا،سکس
پھول[Successful]بن جاؤے گا۔
اس جملے نے عبداللہ کی سوچ کادھاراکہیں اوربدل دیا۔ ابا کیامطلب، کامیابی [Success] کسے کہتے
ہیں؟ میں ایساکیاکروں کہ توفخرسے کہے کہ میرابیٹاکامیاب ہوگیا۔
بتانااورمیں بالکل ویساہی کروں گا۔
دیکھ عبداللہ!پاکستان میں 99 فیصد مسائل پیسے سے حل ہوجاتے ہیں تواگرلاکھ روپے مہینہ کمالے تومیں
سمجھوں گا توکامیاب انسان ہے۔
ابادماغ خرا ب ہوگیاہے کیا،لاکھ کبھی خواب میں بھی دیکھے ہیں؟
خیرعبداللہ نے کاغذ پنسل نکالااورزخمی انگلیوں سے کسی نہ کسی طرح لکھ ہی ڈال اکہ لاکھ روپے مہینہ
کمانا ہے۔
اچھا اماں، توبتا، توکسے کامیابی کہتی ہے،تیرے لیے کیا کروں۔
بیٹامجھے پیسہ ویسہ نہیں چاہئے ،تیری خوب صورت سی دلہن ہواورمیرے خوب صورت سے
پوتے،مجھے اس دنیا سے اورکچھ نہیں چاہئے۔
عبداللہ نے یہ بھی لکھ دیاکہ خوب صورت لڑکی سے شادی کرنی ہے اوربچے پیدا کرنے ہیں۔
پھراس کے بعد تو جیسے عبداللہ کے ہاتھ میں مشغلہ آگیا، وہ جگہ جگہ جاتا اورسب سے پوچھتا کہ
کامیابی[Success]کیاہے میں ایسا کیا کروں کہ آپ سب لوگ کہنے پرمجبورجائیں کہ میں کامیاب ہوں؟
محلے والے،مسجد والے،چوھدری صاحب ،اساتذہ ،جنہوں نے ماراتھا،پیرصاحب الغرض ہروہ بندہ جس
سے عبداللہ بات کرسکتا اس سے وہ یہی ایک سوال پوچھتا رہا۔
پیرصاحب نے کہا جس دن تویہاں گاڑی میں بیٹھ کرآئے گا میں سمجھوں گا توکامیاب ہے۔
کسی نے راڈوکی گھڑی بتائی توکسی نے کوئی گاڑی، کسی نے ملک کی مشہوریونیورسٹی میں جانے
کانام لیا توکسی نے کتاب لکھنے کوکامیابی ٹھہرایا، کسی نے امریکہ اورکینڈامیں جانے کوکامیابی
کہا توکسی نے M.I.Tسے پڑھنے کو، کسی نے ناسامیں کام کوکامیابی بتایاتوکسی نے کوئی بڑی اسکالرشِپ
کانام لیا، کسی نے سعودی عرب کانام لیا توکسی نے جزیرہ ہوائی کا، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
عبداللہ کے پاس کوئی لگ بھگ 200کے قریب وضاحتیں جمع ہوگئیں اس ایک لفظ ’’کامیابی‘‘ کی جسے آس
پاس کے لوگ اورہمارامعاشرہ ’’کامیابی‘‘گردانتا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ نے آج رات اللہ کوپھرخط لکھا
’’میرے پیارے اللہ سائیں!
اللہ سائیں،توجانتاہے کہ کیاہوا،کس نے کب کب مارا،کیوں کیوں مارا،کس لیے مارا،توتوہے میں میں ہوں۔
میرے مالک!میں نے توکہاتھاکہ مجھے اپنی قدرت کامظہربنادے،یہ کیا کیا تونے کہ عذاب کوبھی شرم آئے
،میرے مالک یہ اگرمیرے گناہوں کی سزاہے تومعاف کردے،سخی کی شان ہوتی ہے کہ وہ پکڑے
توچھوڑدیاکرتاہے۔
اگرتوآزمائش ہے تویا الٰہی مجھے کب دعویٰ ہے طاقت کا، میں تو ایک غریب ، کمزور اور مفلوک الحال
شخص ہوں،کچھ اگرہے عمربھرکے سرمائے میں توتجھ پریقین، تیری محبت،تیرا نام۔
تواگرچاہے توذلیل کروادے،چاہے توعزت دے دے،میں شکایت نہیں کروں گا ، مگر التجاہے دوجہاں ،کل
کائنات کے سرکار،میری سن ،مجھے عزت دے دے ،تیرے لیے کیامشکل کہ توکم ترچیزوں میں سے
عزت دے دے،حقیرکوتاج پہنادے اورلوگ اسے بادشاہ سمجھتے ہوئے تالیاں بجائیں۔
یاالٰہی ،اب زندگی کامقصد198 چیزیں ہیں جودنیاوالوں نے لسٹ میں لکھوائی ہیں۔یہ میری زندگی
کامقصد،یہی ترجیحات اوریہی To Do List [TDL]ہے۔
بظاہریہ سب ناممکنات میں سے ہیں،ہزارروپے ماہانہ سے لاکھ روپے ماہانہ پر جمپ، پیدل سے گاڑی
،اورایسے شخص کاامریکہ جاناجسے آج تک ٹرین میں بیٹھنا نصیب نہ ہواہو،ایک دیوانے کی بڑہی توہے۔
کون مانے گاکہ یہ لسٹ یاان میں سے 10 فیصد بھی پوری ہوسکتی ہیں اے میرے مالک! اپنے آپ کو
دیکھتا ہوں توسانسیں بھی اُدھار لگتی ہیں ، تجھ پہ نظرکرتا ہوں تویہ لسٹ ہیچ نظرآتی ہے ۔
توکروادے پوری ،اپنی شان سے ،بلاوجہ کروادے،توبول دے کُن،فیکون ہوجاوے گا،تودینے والابن میں
لینے کوبے تاب بیٹھاہوں۔
اے میرے مالک!میں تیرانام لے کے شرط لگانے جارہاہوں دنیاسے،دیکھ رسوانہ کروائیویہ بے نام تیرے
نام پہ اِتراتاہے،لاج رکھ لے ۔اگرتونے لسٹ پوری کروادی اورمجھے [Successful]بنادیاتومیراوعدہ
جوتوکہے گاوہ کروں گااوراس کے خلاف کچھ بھی نہ کروں گا،میراوعدہ ہے میرے مولا۔
یہ عبداللہ کاوعدہ ہے اپنے اللہ سے۔
میرے اللہ میں یہ لسٹ اس خط کے ساتھ منسلک کررہاہوں۔
تووفاکیجیؤمیرے رب۔بس تجھ سے ہی وفا کی اُمید ہے آمین !ثم آمین!
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ ہی روز بعدنتیجے کااعلان ہوا،عبداللہ کی یونیورسٹی میں سکینڈپوزیشن آئی ۔اس نے یہ جاننے کی
زحمت ہی نہ کی کہ فرسٹ کون،کیونکراورکیسے آیا۔
اباسے 300روپے لیئے،اورشہرروانہ ہوگیا۔
اب ماسٹرزمیں داخلہ بھی لیناتھااورجاب بھی ڈھونڈنی تھی اوررہنے کاانتظام بھی کرناتھا۔300میں سے
60روپے کرائے میں چلے گئے تھے بس کے۔
جس یونیورسٹی نے بیِ فارمیسی میں داخلہ نہیں دیاتھاوہاں جانے کامن نہیں ہوا،پرائیویٹ یونیورسٹیزکی
فیس اتنی زیادہ کہ داخلے کاسوچ بھی نہ سکتاتھا،ایسے میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کااشتہارنظرآیاجسے
کمپیوٹرلیب میں اسٹنٹ درکارتھا،پیسے بچانے کی غرض سے کوئی چارمیل پیدل چل کے پہنچاتوحلیہ بہت
خراب تھا۔
پاؤں میں گردآلودچپل،شلوارقمیص اورسادگی ،پرائیویٹ یونیورسٹی کے انفارمیشن ڈیسک پہ بیٹھی خاتون
نے ایسے بات کی کہ جیسے وہ کوئی فقیرہو۔
میم،داخلہ فارم دے دیںM.Scمیں ایڈمشن کا۔
ہزارروپے کاہے ،آپ کے پاس پیسے ہیں۔
جی نہیں۔
توبیٹافارم خریدنے کے پیسے توہے نہیں توفیس کہاں سے دوگے؟
پتہ نہیں۔اچھاآپ کے پاس لیب اسٹنٹ کی جاب آئی ہے؟
ہاں!مگرتمہاری جاب کے کوئی آثارنظرنہیںآتے ۔
کیوں؟
اپناحلیہ دیکھاہے؟
وہ تومیں سفرسے آرہاہوں نا،میں ٹھیک کرلوں گا۔
اچھابیٹھو،ابھی لیب انچارج آتے ہیں تومیں بات کراتی ہوں تمہاری۔
آپ کے پاس واش روم ہے،عبداللہ نے تھوڑی دیربعدکہاتومیم نے اسٹاف واش روم کی طرف اشارہ
کردیااورعبداللہ جھٹ گھس گیاکہ انٹرویوسے پہلے ہاتھ منہ دھولے۔
واش روم میں بھی وہ دعاہی مانگ رہاتھا۔
’’یااللہ!ان جلاّدوں کے دل میں رحم ڈال،جاب دلادے توبعدمیں پڑھائی کی بھی کوئی صورت نکلے،تورحم
کرمیرے اللہ،وعدہ یادہے نا!مجھے بھی یادہے۔‘‘
عبداللہ ا پنی دھن میں مگن مانگے جارہاتھااوراسے خبربھی نہ ہوئی کہ کب کون ساتھ والے واش روم
میںآیااورچلابھی گیا۔
عبداللہ باہرنکلاتووہ میم صاحب گرم ہوگئیں۔
تمہارے باپ کاگھرہے ،جاکربیٹھ ہی گئے ۔رفیع صاحب آئے تھے انہوں نے تمہیں دیکھ لیاہوگاتوکیاکہیں
گے،وہ یونیورسٹی کے ریکٹرہیں،اورغصے کے بہت تیز۔دفع ہوجاؤاب یہاں سے۔
عبداللہ کی توجیسے جان ہی نکل گئی،اس نے ابھی مین گیٹ سے باہرقدم ہی رکھے تھے کہ سکیورٹی
گارڈبھاگتاہواس کی طرف آیا۔
عبداللہ کے ہاتھ اورپاؤں منجمدہوگئے،صرف دل سے اتنانکل سکا،اللہ اب نہ پٹوائیو، زبان توگنگ ہوگئی
تھی۔
چلو،تم کوبڑے صاحب نے بُلوایاہے۔
ک ک کس کو؟
تمہیں لڑکے اورکسے؟
اوریہ کہہ کرگارڈتقریباًعبداللہ کوپکڑکرریکٹرآفس میں لے گیا۔
سامنے کوئی پچاس برس کے انتہائی حلیم پرسنلٹی والے صاحب بیٹھے ہوئے تھے ،انہوں نے
مسکراکردیکھااورکہابچے کیانام ہے آپ کا؟
عبداللہ اتناپریشان ہواکہ اس کے منہ سے ریکٹرکانام نکل گیا۔
رفیع،جی رفیع،اوہ میرامطلب ہے عبداللہ۔
آج زندگی میں پہلی بارعبداللہ کوکسی نے’’آپ‘‘کہہ کرمخاطب کیاتھا۔
بیٹھ جاؤ،چائے پیؤگے؟
نن نن نہیں،میں ٹھیک ہوں۔
مگرریکٹرصاحب نے چائے اوربسکٹ لانے کاکہہ دیا۔
جب تک عبداللہ چائے اوراس میں بسکٹ ڈبوڈبوکر کھاتارہاوہ چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔
جب عبداللہ فارغ ہواتوکہنے لگے ۔کیوں آئے ہوآج یونیورسٹی میں۔
اورعبداللہ نے ایک سانس میں جاب اورپڑھائی دونوں کی کتھاسنادی۔
کام توہم تمہیں دے دیں گے مگرکیاکربھی لوگے؟
عبداللہ نے اپنی تعلیمی اسنادسامنے رکھ دیں اورکہاکہ سرکمپیوٹرپروگرامنگ جیسے مجھے آتی ہے
شایدہی دنیامیں کسی کوآتی ہو۔
ٹھیک ہے ،کل سے کام پرآجاؤ،صبح نوسے چاربجے تک کام اورشام 4:30 بجے سے8بجے تک شام کی
کلاسوں میں ماسٹرزکرلو۔
فیس میں نے معاف کردی ہے ،تنخواہ چھ ہزارروپے مہینہ بولو!منظورہے؟
آپ مذاق تونہیں کررہے؟
نہیں،میرے پاس اتناٹائم نہیں ہوتا۔
جی،میں حاضرہوجاؤں گا،اب اجازت۔
اچھاسنو!رہتے کہاہو؟
جی،اباکے دوست ہیں فلاں جگہ پران کے پاس کچھ دن گزاروں گا۔
اوہو،وہ جگہ تویہاں سے کوئی60میل دورہے۔
تم لائبریری میں سوسکتے ہو؟
جی بالکل۔میں جھاڑولگاکے صاف بھی کردیاکروں گا۔
نہیں جھاڑولگانے والے بہت ہیں،ٹھیک ہے کل آؤپھرکچھ سوچتے ہیں۔
عبداللہ پھولانہیں سمارہاتھا،شہرمیں پہلادن،جاب اورپڑھائی اوررہائش سب مل گئے۔
آج اسے رَبَّ اِ نِّی والی دعاکااِدراک ہوا۔ پوری رات مسجد میں بیٹھااپنے اللہ سائیں کا شکر اداکرتارہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ روز بعدریکٹرصاحب آئے توعبداللہ لائبریری میں رات کے وقت کتابیں سرکے نیچے رکھ کے
لیٹاہواتھا۔ریکٹرصاحب نے بلایااپنی گاڑی میں بٹھایااوربازارلے گئے۔
پینٹ شرٹس،ٹوپی،بنیان،بیلٹ جوتے،پرفیوم اورپین کیانہیں تھاجوانہوں نے نہ دلایا ہو۔
عبداللہ کی توباچھیں ہی کھِل گئیں،Crossکاپین،Mark & Spencerکی شرٹس اور Levis کی جینز۔
اوریوں عبداللہ کی نوکری اورپڑھائی چلتی رہی۔
تین سالوں کے عرصے میں عبداللہ نے ماسٹرزبھی کرلیاامتیازی نمبروں کے ساتھ، اور نوکری میں ترقی
کرتاہوالیکچراربھی بن گیااسی یونیورسٹی میں۔
مگران تین سالوں میں وہ یونیورسٹی سے سوائے جمعہ یاعیدپڑھنے کے کبھی باہر نہیں گیا۔ ماں، باپ
اورسرعبدالرحمن سے فون پربات ہوجاتی اورپھوپھی اورچاچادینوسے خط کے ذریعے۔
کچھ سالوں سے چاچادینو،ہرسال حج پرجارہے تھے ،پورے سال پیسے جمع کرتے ،کم پڑجاتے توعین
موقع پرکوئی پیسے دے دیتااورچاچادینویہ جاوہ جا۔
ایک دن عبداللہ نے خط میں ان سے پوچھا۔
چاچا،گورنمنٹ کاکوٹہ ہوتاہے ،تم ہرسال ایک آدمی کی سیٹ مارتے ہو،فرض توایک بارہوتاہے ناتم
باربارکیوں جاتے ہو؟
اگرکوئی آدمی نہ جاسکااورمرگیااگلے سال سے پہلے توگناہ تمہاری گردن پرہوگا۔
چاچا دینوکاجواب ملا:
’’بیٹامیں توفارم جمع کروادیتاہوں،ہرسال قرعہ اندازی میں میرانام ہی کیوں نکلے ہے؟وہ بلاوے ہے
توجاوں نا؟
خودسے تھوڑاہی جاتاہوں!۔‘‘
اس سال عبداللہ نے چاچا دینوکے ساتھ اپنے باپ کوبھی حج پہ بھیج دیا،اب اس کی تنخواہ لگ بھگ
20ہزارکے قریب ہوچکی تھی،اباحج سے آیاتواعلان کیاکہ اس کے گروپ میں شہرکے کوئی صاحب تھے
اوران کی لڑکی سے عبداللہ کی شادی پکی کرآئے ہیں۔
عبداللہ نے جھٹ اپنی TDLکھولی۔’’خوب صورتی‘‘کی کنفرمیشن کرائی اپنی ماں سے اورشادی کرلی
بِنالڑکی کودیکھے بِنانام پوچھے۔
بیناعبداللہ کی دلہن کانام تھاجسے وہ پیارسے بلّوبلاتاتھا۔
شبِ عروسی میں گھونگھٹ کھول کے عبداللہ نے یہ شعرپڑھا
تو نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد میری آنکھ میں آنسو آئے
بلّونے عبداللہ کواِک نئی زندگی سے روشناس کرایا،وہ اچھے گھرسے آئی تھی اورعمربھی صرف سولہ
سال کی تھی،عبداللہ اس وقت بمشکل اکیس،بائیس کاہی تھا۔ بلّونے عبداللہ کوبڑے ہوٹلوں میں
کھانا،اچھاپہننااورانگریزی سِکھائی۔اورعبداللہ کچھ ہی روز میں مریضِ عشق بن گیا۔
کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے
تمہارے دل میں گھر کرنا پڑے گا
ہنی مون کے لیے وہ بیوی کولے کرکشمیرچلاگیا،زندگی میں پہلی باراتنی ساری خوشیاں اتنے تواترسے
ملی تھیں کہ عبداللہ کوسمجھ نہیںآرہاتھاکہ انہیں ہینڈل کیسے کرے۔
وہ ہر بات پہ بلّوکوایک شعرسناتااوروہ شرماکے دہری ہوجاتی ۔
بیٹھے رہو ایسی بھی مصور سے حیا کیا
کاہے کو کھنچے جاتے ہو تصویر سے پہلے
کچھ ہی عرصے بعدعبداللہ ایک پیارے بیٹے کاباپ بن گیا،جس کانام اس نے اپنے استادکے نام
پرعبدالرحمن رکھ دیا،اوریوںTDLسے ایک کام اورکٹ گیا۔
عبداللہ نے اب دنیابھرکی اسکالرشِپ اورملک کی مایۂ ناز یونیورسٹیزمیں داخلے کے لئے
Applyکرناشروع کردیا۔
روزاخبارمیں سے تراشے نکالتااوررات بھرآفس سے ملنے والے لیپ ٹاپ پہ کام کرتارہتا۔اسی اثنامیں اس
نے مختلف رسائل میں کمپیوٹرسائنس پرلکھنابھی شروع کردیا۔
پڑھانے کی کوئی فکراسے تھی نہیں کہ کمپیوٹرکے دس سے اوپرمضامین کی کتابیں اسے منہ زبانی
یادتھیں،صرف ایک مارکراوربورڈچاہئے اورعبداللہ شروع۔
یونیورسٹی میں اس کی پہچان بہترین ٹیچرکے طورپرہوتی جوطالب علموں کے تمام سوالات کے جواب
دیتا۔
اب آہستہ آہستہ عبداللہ یونیورسٹی کی سینئرمینجمنٹ میں مقام بنانے لگاتھا۔
آج عبداللہ کوملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے فون کال آئی۔
جیِ آپ نے ہمارےMs leading to Phdپروگرام میں اپلائی کیاہے،مگرآپ کے 40کریڈٹ ہاورزکم
ہیں۔گورنمنٹ نے کچھ عرصہ پہلے بیچلرزپروگرام چارسال کاکردیاہے جب کہ آپ نے دوسال کاکیاہے۔
توآپ کے ماسٹرزکے کورسزملانے کے باوجودآ پ کی 40کریڈٹ ہاورزکم ہیںآپ انہیں مکمل کرکے اگلے
سال پھراپلائی کیجئے گا۔
ہماری یونیورسٹی کے انتخاب کاشکریہ!
یااللہ!یہ کیامصیبت ہے؟دوسال میںیہ حال ہواتھااگرچارسال لگاتاتوجنازہ ہی نکل جاتا۔اب یہ یونیورسٹی
TDLلسٹ پربھی تھی،چھوڑتوسکتانہیں تھا۔توعبداللہ نے اسی یونیورسٹی میں جہاں کام کرتاتھاویک
اینڈزپرایگزیکٹوپروگرام میں داخلہ لے لیا۔
ایک سال میں ایک ماسٹرزاورکرلیا،یہ بھی کمپیوٹرسائنس میں۔
اگلے سال پھرایڈمیشن نہ ملا،آٹھ کریڈٹ ہاورزکافرق رہ گیا،اب عبداللہ نے شہرکی ایک اوریونیورسٹی میں
شام میں ماسٹرزپروگرام میں داخلہ لے لیا،کمپیوٹرسائنس پہ اتناعبورتھاکہ کلاس لے یانہ لے کوئی فرق نہ
پڑتاتھا۔اس بات کونئی یونیورسٹی کے وائس پریزیڈنٹ نے فوراًنوٹ کرلیاان کانام تھاڈاکٹرحیدر۔
ایک دن عبداللہ کواپنے آفس میں بلایااورکہاکہ’’میاں،کیوں ٹائم ضائع کررہے ہو ، عبداللہ نے ساراماجراکہہ
سنایا،کہنے لگے اس سال اپلائی کروتوRecommendation لیٹرمجھ سے لکھوالینا۔
پتہ نہیں انہوں نے ایساکیا لکھاکہ بڑی یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہوگیا اور 100% اسکالرشپ بھی مل
گئی اورساتھ میںTeaching Assistantکی جاب اور15ہزارتنخواہ بھی۔
اب ایک طرف TDLکاایک ٹاسک تودوسری طرف لگی لگائی جاب،بیوی ،بچہ ،یہاں تنخواہ لگ بھگ
کوئی 60ہزارروپے ہوچکی تھی۔مگرعبداللہ نے جوٹھان لی سوٹھان لی۔اپنی بلّوسے مشورہ کیا،اس نے
کیاکہناتھاہاں میں ہاں ملادی اوریوں عبداللہ نے استعفیٰ جمع کروادیا۔
ڈرتھاتوصرف ایک کہ رفیع صاحب کاسامناکیسے کرے گاکہ وہ احسان کرنے والے تھے، انہوں نے منع
کردیاتوکیاہوگا۔آج عبداللہ جوکچھ بھی تھاوہ اوپراللہ اورنیچے رفیع صاحب کی ہی بدولت تو تھا۔
آج وہ رفیع صاحب کے سامنے بیٹھاہواتھا۔
انہوں نے کہا:
دیکھوعبداللہ تم جانتے ہوکہ تم مجھے کتنے عزیزہو،میں صرف یہ چاہتاہوں کہ تم جذباتی کوئی فیصلہ نہ
لو،تمہاری عمرکیاہے؟
سر23سال۔
اورتنخواہ؟
سر60ہزارکے لگ بھگ۔
اللہ کے بندے،اس عمرمیںیہ تنخواہ،خوبصورت بیوی اوربچہ،لائف سیٹ ہے اورتم استعفیٰ دے کرپھرسے
طالب علم بننے کاسوچ رہے ہو۔This is Financial Suicide
جی سربالکل ،کسی سے شرط لگابیٹھاہوں جاناہوگا۔
کسی سے شرط لگائی ہے،میں بات کرتاہوں اس سے۔
نہیں سررہنے دیں،بس اجازت مرحمت فرمادیں،اللہ آپ کابھلاکرے گا۔
چلومیں تمہیں ایک آفردیتاہوں،تم مجھ سے پانچ سال کاContractسائن کرلو،میں تمہاری تنخواہ بڑھاکے
ایک لاکھ کردیتاہوں ،مگرپانچ سال تک پھرجانے کانام نہیں لینا۔
عبداللہ کے سامنے اپنے باپ کے الفاظ گونج اٹھے۔
مگراس نے دل پرپتھررکھ کے کہا۔
سرایک بات بتائیں۔
ایک آدمی کتنے فی صدبچت کرسکتاہے؟کیونکہ Economicsکاکلیہ ہے:
Expenses are raised to meet the Income.
آپ جتنازیادہ کماتے ہیںآپ کے خرچے اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔
کم کمانے والے بسوں میں سفرکرتے ہیں اوران کے بچے نئی روشنی میں جاتے ہیں،زیادہ کمانے والے
جہازوں میں اڑتے ہیں اوران کے بچے پرائیوٹ اسکولوں میں مہنگی تعلیم حاصل کرتے ہیں،بچتاکچھ نہیں
ہے دونوں کے پاس۔
یورپ والے مشہورہیں بچت کے لیے وہ بھی صرف پانچ فی صدبچاپاتے ہیں۔
دیکھواگردھیان سے خرچ کروتوشایدپچاس فی صدتک بھی بچالو،رفیع صاحب نے کہا۔
سریہ بتائیں،آپ کے پاس جوامپورٹڈ گاڑی ہے وہ کتنے کی ہے؟
88لاکھ۔
اچھااورڈیفنس کاگھر؟
6کروڑ
توسراگرمیںیہ ’’شاندار‘‘جاب پوری زندگی کرتارہوں اورمیری آنے والی سات نسلیں بھی کرتی رہیں تومیں
نہ آپ کے جیساگھرلے سکتاہوں نہ کار۔بھاڑمیں جائے ایسی جاب۔
میری منزل کچھ اورہے سرمجھے جاناہوگا۔
اورآخرکارریکٹرصاحب نے استعفیٰ پہ دکھی دل کے ساتھ دستخط کردیئے۔وہ پوداجوانہوں نے پانچ سال
پہلے لگایاتھاآج ایک تناوردرخت تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*