نئی یونیورسٹی ،نئے لوگ،کم پیسے ،عبداللہ ہرچیزکوانجوائے کررہاتھا،کچھ پیسے بنک میں پسِ پشت ڈال رکھے تھے جن سے گزارہ بڑااچھاہورہاتھا،عبداللہ ہوسٹل میں رہتاتھااوربیوی بچے ایک کمرے میں پاس ہی ایک گھرمیں Paying Guest کے طورپر۔عبداللہ کوجب بھی ٹائم ملتاوہ یاتوانہیںیونیورسٹی بلالیتایاان کے پاس چلاجاتا۔بیوی بچے والاوہ شاید ایک ہی طالب علم تھااپنی کلاس میں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اخبارسے عبداللہ کایارانہ بہت پراناتھا۔آج اخبارمیں ا س کی نظرامریکہ کی مشہورِزمانہ سنیٹر اسکالر شپ [Senator Scholarship]پرپڑی۔
Eligibility CriteriaمیںTOFELاورGREشرط تھے اور Subjective GREکے اضافی مارکس۔
عبداللہ نے تمام اساتذہ اوردوستوں کے منع کرنے کے باوجوداپلائی کردیااور TOFEL اور GRE کی تیاری میں لگ گیا۔ سب کاخیال تھاکہ اس اسکالرشپ کے حصول کے لیے بلامبالغہ ہزاروں لوگ اپلائی کرتے ہیں اورسیٹیں صرف چار۔
عبداللہ نے بڑی محنت سے اسکالرشپ کے مضمون لکھے، ایپلی کیشن لکھی اور Recommendation لیٹرزجمع کروائے ۔ایک اس نئی یونیورسٹی سے ،ایک رفیع صاحب سے اورایک عبدالرحمن صاحب سے [اردومیں]۔
نجانے ان لوگوں نے کیالکھا،یاایپلی کیشن کے مضامین کاکرشمہ یاکوئی دعاکانتیجہ کہ عبداللہ شارٹ لسٹ ہوگیا۔صرف 22بندوں کوانٹرویوکال آئی پاکستان بھرمیں سیٹوں کے لیے اورعبداللہ ان میں سے ایک تھا،عبداللہ دن رات TOFELاورGREکی تیاری میں لگ گیا،ایک ہی دن میں دونوں پرچے شیڈول کروالیئے مگرقدرت کوشایدکچھ اورمنظورتھا۔TOFELسے تین دن پہلے عبداللہ کی ماں کوہارٹ اٹیک آگیا۔
عبداللہ بھاگ کے گاؤں پہنچا،جوجمع پونجی تھی وہ علاج پہ لگ گئی۔
اورماں کی کچھ حالت بہترہوئی توعبداللہ نے جیسے تیسے پیپرزدئیے۔
اس گہماگہمی اورپریشانی میں نہ تویونیورسٹی کارزلٹ کچھ بہتر آیا، یونیورسٹی نے Probation پہ ڈال دیااوراسکالرشپ کینسل کردی تودوسری طر ف TOFEL میں واجبی سے مارکس، ہاںGRE میں عبداللہ نے 90%مارکس حاصل کرلئے۔
آج عبداللہ اپنی بِلّوکے ساتھ ملک کے دارالحکومت کی طرف سینٹراسکالرشِپ کے آفس کی طرف جارہاتھا، بس میں سفرکرتے ہوئے اپنی بیوی سے کہنے لگا :
دیکھ بِلُو، یہ توغلطی سے شاید انہوں نے مجھے کال کرلیاہے ،یہ اسکالرشپ وغیرہ میرے نصیب میں کہاں؟
اس بہانے ہم دونوں امریکن ایمبسی دیکھ لیں گے ورنہ ہمیں وہاں کون گھسنے دے۔
خیرجب تمام Candidatesاس بات کی پریکٹس کررہے تھے کہ کیا پوچھیں گے توکیا بولیں گے اوراپنی ہی جمع کروائی ہوئی درخواستوں کوباربارپڑھ رہے تھے۔ ایسے میں عبداللہ اوربلّوسارے آفس میں گھوم گھوم کرتصویریں دیکھ رہے تھے اورہرگورے یا کالے امریکی سے ہاتھ ملا ملا کرفخرمحسوس کررہے تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنے سارے امریکی ایک ساتھ پہلے کبھی نہ دیکھے تھے ،عبداللہ کی پروفائل سب سے کمزور تھی۔
سب لوگ بڑے شہروں کے تھے،انگلش میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ،ان کی انگریزی اورشاندارتلفظ دیکھ کے ہی عبداللہ کویقین ہوچلاتھاکہ اس کی دال یہاں نہ گلے گی۔
خیرآخراس کا نمبرآہی گیا۔
کانپتے قدموں، لرزتے ہاتھوں، دھڑکتے دل، لڑکھڑاتی زبان مگرشوخ آنکھوں کے ساتھ دبلے پتلے عبداللہ نے آفس میں قدم رکھا۔
ابھی بمشکل کرسی پربیٹھاہی تھاکہ سوال ہوا:
توآپ امریکہ جاناچاہتے ہیں؟
جیِ آپ کو کس نے کہا؟
اسی لیے توآپ یہاں موجودہیں؟
دیکھئے جناب،PhDکرنی ہے کیونکہ وہ میری TDLپرہے ،پیسے میرے پاس ہیں نہیں،آپ جہاں چاہیں بھیج دیں بس فیس بھردیں۔
امریکہ سے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟
جیِ جنگوں کا شوق ہے یا بندے مارنے کا عراق ہویا افغانستان ۔
کیاآپ کی باتوں سے میں یہ سمجھوں کہ آپ کوامریکہ سے نفرت ہے؟
جناب نفرت تو بڑا بھاری لفظ ہے، مگرمجھے محبت بھی کیسے ہو؟
آپ جانیں دیں، شاید دیکھوں تومحبت ہوجاوے۔
نیشنل ایمرجنسی کی صورت حال میں کس کا ساتھ دوگے؟
جی پاکستان کا، ملک ماں ہوتا ہے اورماں کا ساتھ کون چھوڑتا ہے۔
ہمیں نہیں لگتا کہ آپ امریکہ جاکرواپس آئیں گے؟
نہیں،ایسا نہیں ہے م جھے واپس آنا ہے۔
ہم کیوں مان لیں کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں۔
کیونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
آپ جھوٹ کیوں نہیں بولتے؟
’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
اورانٹرویو ختم۔ واپسی پربلّو نے خوب صلوٰتیں سنائیں کہ یہ کیسا انٹرویودے کرآئے ہو،جھوٹی موٹی تعریف نہیں کرسکتے تھے، عبداللہ نے کہا، میں سچ بولتا تھوڑا ہی ہوں، خودبخود زبان سے نکل جاتا ہے۔
نکل جاتی ہوسچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بین سے وہ رندِبادہ خوار اچھا
کچھ ہفتوں بعدعبداللہ کی کمپیوٹر سائنس پرلکھی ہوئی پہلی کتاب منظرِعام پرآئی [اوریوںTDLسے ایک آئٹم اورکم ہوا]،اسی روز سینٹراسکالرشپ میں Selection کا لیٹر ملا، عبداللہ کے پاؤں زمین پرنہیں ٹِک رہے تھے ،مگراسی شام اس کی ماں کاانتقال ہوگیا۔عبداللہ کئی روزروتارہا،نہیں اللہ سائیں،یہ توTDLمیں تھانہیں،یہ کیسے ہوگیا،یہ کیوں ہوا،مگرجذبات کاجواربھاٹاچندہی دنوں میں معدوم ہوگیا۔اوریوں عبداللہ امریکہ روانہ ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
امریکہ میں عبداللہ اپنے بیوی بچے کے ہمراہ بڑاخوش تھا، عجیب دنیا تھی وہ تمام برائیاں جوملکی معاشرے میں اس کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھیں وہ تمام خوبیاں بن گئیں۔
سوال پوچھنے پراستاد خوش ہوتے ،سچ کومعاشرے میں سراہا جاتا، جھوٹ سے نفرت کی جاتی،ہربندے کواسکے حصے کی عزت ملتی،آپ لائن میں کھڑے ہیں توہربندہ لائن میں کھڑا ہے بھلے معاشرے میں اس کا مقام کیا ہی ہو۔
عبداللہ کواحساس ہواکہ ہم معاشرے میں کسی شخص کی عزتِ نفس کواتنی بارمجروح کرتے ہیں کہ اس میں خوداعتمادی ہی نہیں رہتی اوروہ پھرجوچاہے وہ کرگزرتا ہے۔
یہاں آکرعبداللہ کی صحت بہت اچھی ہوگئی ۔اس نے ایک اورماسٹرزکیا۔
کچھ عرصہ جاب کی ،پھرجزیرہ ہوائی میں ایک اسکالرشپ مل گئی وہاں چلاگیا،وہاں سے آیا توسینٹراسکالرشپ والوں نے اس کاشانداراکیڈمک ریکارڈ دیکھتے ہوئے دوسری باراسکالرشپ دے دیPhDکے لیے ۔
اوربالآخرپانچ سال کی دن رات محنت کے بعدعبداللہ کوPhD ڈگری مل گئی۔اس نے آج پھرچارمیں سے چارGPA لے کریونیورسٹی کے بہترین طالب علم کااعزازپایا۔
اس عرصے میں عبداللہ متعددملکوں میں گھوما،درجن بھرسے زائدکتابیں لکھیں،مقالہ جات اورریسرچ پیپرزکی تعدادپچاس سے تجاوز کرگئی،سات Patentاپنے نام کرالیئے اورملنے والے Awardsکی ایک لمبی لائن تھی جوعبداللہ کے C.Vمیں ہراس شخص کامنہ چڑارہی تھی جواسے کوڑھ مغزکہتاتھا۔
عبداللہ کواللہ سائیں نے دواوربیٹوں سے نوازا۔اسکالرشپ کی روسے ابھی عبداللہ کے واپس جانے میں چارماہ تھے ۔اسے M.I.T.سے ایک آفرآئی توکام کرنے وہاں چلاگیااوروہاں سے اسے سافٹ وئیرٹیسٹنگ کا ایک پراجیکٹ ناسا میں مل گیا۔ تنخواہ تھی 240 ڈالرزفی گھنٹہ۔
کام کرتے ہوئے اچانک ایک دن عبداللہ بھاگتا ہوا گھرپہنچا اوراپنی TDL لسٹ نکالی جواس نے ایک عرصے سے نہیں دیکھی تھی۔
عبداللہ جوں جوں لسٹ پڑھتاگیااس کے چہرے کا رنگ اڑتا چلا گیا، یاخدایا، کوئی آئیٹم ایسا بچا ہی نہیں تھا جو ٹِک ہونے سے رہ گیا ہو،آخری چند آئٹم اس نے آج ٹِک کردئیے۔
عبداللہ گھنٹوں بیٹھاخلاؤں میں گھورتارہااورپھراس کے رونے کی آوازنے اس کی بیوی بچوں کوگہری نیندسے جگادیا۔
بیوی ،جوگواہ تھی اس کے پچھلے دس سالوں کی لگاتاراورانتھک محنت کی،بے قراری سے بولی،کیاہوا،کیاہوگیاہے عبداللہ ،سب خیریت توہے،تم کیوں رورہے ہو، بتاؤ توسہی ہوا کیا ہے، تم توایسے کبھی بھی نہ روئے۔
بِلّو وہ لسٹ تھی نہTDLوالی،ہاں ہاں کیاہوااس کو۔
بِلّووہ مکمل ہوگئی۔
Every Damn Thing got ticked off.
wow توچلوجشن مناتے ہیں، تم کیاناشکروں کی طرح رو رہے ہو، چلو اُٹھو باہرجا کے کھانا کھاتے ہیں۔
نہیں بِلّو،ہاتھ ہوگیا ہے، کیامطلب؟
بِلّوآدمی کسی چیزکے پیچھے بھاگ رہا ہواوربھاگتا ہی چلا جارہا ہواوروہ چیز اسے مل جاوے توسکون آتا ہے ،قرارملتا ہے، دِل کا خلا بھرجاتا ہے۔
مگرمیرے ساتھ توایسا کچھ نہیں ہوا۔
وہ دل کاخلا تھا نہ وہ بڑھ کے گزبھرکا ہوگیا ہے ۔یااللہ میں کیا کروں۔ میں شرط ہار گیا، اور اب مجھے وہ کرناہے جوتوکہے ،مگراللہ سائیں تیری TDL تومجھے پتہ ہی نہیں ہے ،میں نے کبھی اس پردھیان ہی نہ دیا۔
اوراگردنیایہی چاہتی تھی مجھ سے تومیں نے وہ سب کچھ کردکھایاجودنیانے ،ماں باپ نے، رشتہ داروں نے ،عزیزواقارب نے، دوستوں اوردشمنوں نے مجھ سے چاہا، اب کیاکروں میرے ربا،میں اب مزید زندہ کیوں رہوں؟
آخرمیں ہوں کیوں؟
تونے مجھے پیدا کیوں کیا؟
میری زندگی کا مقصد ہے کیا؟
یارب ! دس سال ضائع ہوگئے، توجانتاہے اٹھارہ گھنٹے روز کام کیاہے ، عید، بقرعید، رمضان کچھ بھی ہو، بارش یاطوفان میں کام کرتارہا، نہ ماں باپ پردھیان ،نہ بیوی بچوں کوٹائم، میں کام کرتارہا،کتنے آلام ومصائب آئے میں لگارہا،کتنی خوشیاں آئیں جومیں نے لمحہ بھر کو رُک کے نہیں دیکھیں،میں کام کرتا رہا۔
مگرآج، آج میں پھرخالی ہوں، سب کچھ ملنے کے باوجود میرے اللہ سائیں میں پھرو ہیں پہنچ گیا جہاں سے شروع ہوا تھا۔
میں کیاکروں اب؟
میرے اللہ جواب دے۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا! کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں؟
اوریہ کہتے کہتے عبداللہ کوAnxietyکادورہ پڑااوراسے ہسپتال میں ایڈمٹ کرناپڑا۔
وہ تمام تررعنائیاں،شوخیاں اورامارت کی چیزیں جوکبھی چاہی جاتی تھیںآج عبداللہ کی نظروں میں بے معنٰی ہوگئیں۔وہ توشکرہے کہ لسٹ دس سالوں میں پوری ہوگئی وگرنہ شایدزندگی بھراسی میں لگارہتااورجب فرشتے قبرمیںآکے پوچھتے :فِیْمَ کُنتُم
( إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْ قَالُواْ فِیْمَ کُنتُمْ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُواْ فِیْہَا فَأُوْلَءِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَاءَ تْ مَصِیْرا) [سورۃ النساء۴:۷۹]
’’ جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں توان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ کیا اللہ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ ‘‘
توکیا جوا ب دیتا۔
عبداللہ کی حالت اس جُواری کی سی تھی جواپناسب کچھ ہارگیا ہو، ایسے شخص کی جِسے منزل پہ پہنچ کے پتہ لگاہوکہ یہ منزل اس کی تھی ہی نہیں۔
وہ تمام لوگ جو عبداللہ سے پیارکرتے تھے ، اس سے مخلص تھے ،جن کی عبداللہ قدر کرتا تھا ، ماں باپ،رشتہ دار،دوست واحباب ،سب نے مل کے جھوٹ بولا اوراپنے ایجنڈے پہ لگا دیا۔
اب کس پہ یقین کرے،کس سے رجوع کرے،کس کی بات مانے ،کس کو دُہائی دے،آج عبداللہ کاکوئی نہیں رہاتھا،وہ بالکل اکیلا ہوگیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ نے گھرپہنچ کے جاب سے استعفیٰ دیااورسوالوں کی ایک لمبی لسٹ بنائی کہ جن لوگوں کووہ عقلمندسمجھتا ہے ان سے جاکے پوچھے گا۔ اگرتوجواب مل گئے تومسئلہ ختم ورنہ وہ بھی اپنی لسٹوں میں کہیں گم ہیں۔اورپھران کانام عقل مندلوگوں کی لسٹ سے خارج کردے گا۔
سوال کچھ اس طرح کے تھے۔
* میں کون ہوں؟
* انسان کسے کہتے ہیں؟
* بندہ کسے کہتے ہیں؟
* ہمارامقصدِ حیات کیا ہے؟
* زندگی کاVisionکیا ہونا چاہئے؟
* ہروہ چیزجس کی آپ خواہش کرسکیں وہ آپ کو مل جائے توآپ کس کی خواہش کریں گے؟
* وہ زندگی جوایک خواہش سے دوسری خواہش کی طرف سفر کرتی ہواسے کیا نام دیں گے؟
* جانوراورانسان میں کیا فرق ہے؟
* آپ کوکیسے معلوم ہوکہ اللہ کے پاس آپ کا کیا مقام ہے؟
* اللہ آپ سے کیاچاہتاہے؟
* میری TDLمیں سے کتنی چیزوں سے متعلق سوال ہوگا؟
* ہم پراللہ کا کیا حق ہے؟
* ہم پراللہ کے نبی محمدمصطفی ا کا کیا حق ہے؟
* کیا ہمارا معاشرہ ہمیں اپنے رب سے دورکرتاہے؟
* ترقی وعلم سے ملنے والے غرورکا خاتمہ کیونکرممکن ہو؟
* زندگی کس چیز کا نام ہے؟
* اللہ کیسے راضی ہوتا ہے؟
* میںیہ کیسے مان لوں کہ جوکچھ بھی آپ کہہ رہے ہیں میرااللہ مجھ سے یہی چاہتا ہے؟
* کیسے پتہ چلے کہ زندگی کاVision[خواب] زندگی کے مقصدسے جڑتا ہے؟
* یہ خوف کیسے نکلے کہ جوکچھ میں کررہاہوں وہ ٹھیک ہے Soundہے،یاکہ پھردس سال بعداسی جگہ پرآجاؤں گا؟
* اللہ سے معافی کیسے مانگیں؟
* دعامانگنے کاطریقہ کیا ہو؟
* کامیابی کسے کہتے ہیں؟
ان سوالوں کولے کرعبداللہ شہربہ شہر،کُوبہ کُوپھرتارہا،دنیاکے دس ممالک پھرلیئے،امریکہ کی 48ریاستوں کی خاک چھان ماری اورجب کچھ نہ بن پڑاتوواپس پاکستان چلا آیا۔ یہاں بھی کوئی تین درجن سے اوپرشہراورگاؤں گھوم ڈالے ،جوکچھ کمایا اوربچایا تھاوہ اس صحرانوردی کی نذرہوگیا، مگردل کا قرارایسا اُجڑا کہ آنکھیں ویران اوردل بنجرہوگیا۔
کتنے ہی لوگ تھے اس کے ذہن میں جنہیں وہ اپنا آئیڈیل اوراوررول ماڈل سمجھتا تھا ، بڑی بڑی سافٹ وئیرکمپنیوں کے مالک، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بے تاج بادشاہ، مفکّر، اسکالرز، ریسرچرز، پروفیسرز،گاؤں کے بوڑھے سنیاسی ،شہرکے بزنس مین،مفتی صاحبان،مولوی حضرات،الغرض کوئی عبداللہ کومطمئن نہ کرسکا،اورایک ایک کرکے تمام نام لسٹ سے خارج ہوگئے۔
ہرکوئی اپنی دنیامیں مگن خوش وخُرم،کوئی پلاٹ خریدنے کامشورہ دے توکوئی گھربنانے کا،کوئی’’روحانی منزلیں‘‘طے کرنے یاکروانے کی’’گارنٹی‘‘ دے توکوئی انسانیت کی خدمت میں سکون پانے کا مشورہ دے۔
مگرایک عبداللہ تھاجس کے دل کی ویرانی ،روزبروزبڑھتی ہی جارہی تھی،وہ اکثر لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا:
اپنی خوشی کے ساتھ میرا غم بھی مِلا دو
اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑیں
اس ادھیڑبُن میں اچانک اسے خبرملی کہ چاچا دینوکاانتقال ہوگیا ہے،یہ خبربجلی بن کے گری پہلے سے بوسیدہ حال عبداللہ پر۔
چاچا دینوہی توایکٹمٹماتاہواروشنی کاچراغ تھااس کی اندھیری دنیامیں،وہ بھی گیا۔
یااللہ !یہ توسارے راستے ہی مسدود ہو رہے ہیں، تو چاہتا کیا ہے؟
نجانے کس طرح عبداللہ نے چاچ ادینو کا جنازہ پڑھا اور انہیں قبرمیں اتارتے وقت وہ یہ شعرپڑھ رہاتھا:
رشک آزادی پہ ہے ایسے اسیروں کی مجھے
چُھٹ گئے جو جان دے کر پنجۂ صیّاد سے
عبداللہ کی حالت دن بدن گرتی جارہی تھی، داڑھی الجھ گئی تھی، کبھی بال بڑ ھ جاتے توکبھی وہ گنجاہوجاتا، گھروالے، سسرال والے سب پریشان تھے۔
آج عبداللہ نے سرعبدالرحمن سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ عبداللہ دل ہی دل میں سب سے ہی ناراض تھا کہ کسی نے بھی اس راستے پہ چلتے ہوئے خبردارنہ کیا۔ جیسے ہی عبدالرحمن صاحب نے عبداللہ کی حالت دیکھی ان کے منہ سے بے اختیارنکلا:
بتا رہی ہے یہ آنکھوں کی منجمد لالی
کڑے دنوں، کٹھن رتجگوں سے گزرے ہو
خزاں خزاں سایہ چہرہ، دھواں دھواں آنکھیں
خوشی کی کھوج میں کتنے غموں سے گزرے ہو؟
عبداللہ سے آنسوضبط نہ ہوسکے اوروہ ان سے گلے مل کے نجانے کتنی دیرروتارہا۔
آخرجب عبدالرحمن صاحب نے اس کے سوالوں کی کھوج میں اس کی مددکافیصلہ کیا توعبداللہ کوکچھ قرارآیا۔
عبدالرحمن صاحب نے عبداللہ سے کہاکہ جوابات توتمہیں بہت سے لوگ دے چکے ہیں،مسئلہ ہے تمہارے دل کے اطمینان کا، تمہارے دل کوکوئی بات لگتی ہی نہیں ہے،کوئی ایسا درد ، ایسی چبھن، ایسا خلا ہے جوتمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے،اب تمہیں کتنے ہی جواب کیوں نہ مل جائیں تمہارامسئلہ ایسے حل نہیں ہوگا۔
عبدالرحمن صاحب نے کچھ دوستوں سے مشورہ کرکے حل بتانے کا وعدہ کیااورعبداللہ ایک موہوم سی اُمید کے ساتھ گھر روانہ ہوا۔
کافی دن گزرگئے عبدالرحمن صاحب کاکوئی جواب نہیں آیا، عبداللہ پہلے تویہ سوچ کے انتظارکرتا رہا کہ وہ دوستوں سے مشورہ کررہے ہوں گے، مگرآج کافی دنوں بعد اس نے ان کے گھرپہ فون ملایا۔
بیٹے سے بات ہوئی،کہنے لگا، ابّو کو فالج اورلقوہ کا اٹیک ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں، عبداللہ کے ہاتھ سے رسیور گِر گیا۔
جاکے عیادت کی، ڈاکٹرز نے بتایا حالت بہترہوجائے گی مگرشاید دوبارہ بولنے اورچلنے پھرنے میں کئی سال لگ جائیں۔
عبداللہ سامنے جا کربیٹھ گیا مگرعبدالرحمن صاحب کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک تک نہ تھی کہ بیماری سے ذہن متاثرہوا تھا۔
عبداللہ نے آنکھ اُٹھا کے آسمان کی طرف دیکھا اورایک آنسواس کی داڑھی بھگوتا ہوا زمین پہ آ گرا ۔
*۔۔۔*۔۔۔*