اگلے دن صبح عبداﷲ پھر ٹریننگ روم میں تھا۔ رات والے واقعہ کا اثر سب لوگوں کے چہروں پر تھا اُس نے باری باری سب کے پاس جا کے معافی مانگی۔ تھوڑی ہی دیر میں سیشن واپسی شروع ہوا۔
امین بھائی کے لب و لہجے میں بلاکی فراست اور چا بکد ستی تھی۔ عبداﷲ سوچ رہا تھا کہ انھوں نے اُس جیسے ہزاروں بھگتا ئیں ہونگے۔
“ہاں! تو ہم کل بات کر رہے تھے زندگی کے مقصد کی، یہ تو ہم سب کو واضح ہو چکا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد اﷲ کو راضی کرنا ہے۔ جب ہم اِس مسئلے کو حل کر لیتے ہیں تو اگلا سوال آتا ہے خواب کا، Vision کا۔ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اس زندگی میں؟ بہت سے لوگوں نے کئی طرح سے اِسکو بیان کیا ہے۔ جو تعریف ہمیں پسند آئی ہے وہ ہے پیٹرسِنگر کی “وژن سے مراد مستقبل کی وہ تصویر ہے جو آپ دیکھنا چاہیں ” The picture of future you to want see. مثال کے طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بڑا ہوکے ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا۔ تو ہم اگر 10،20سالوں میں (مستقبل میں( اُسے ڈاکٹر یا انجینئر کے روپ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ہماری اس خواہش اِس چاہ کا نام visionہے۔
مثال کے طور پر علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ تو کوئی پاکستا ن سچ مچ میں انکے dreams میں تھوڑ ا ہی آیا تھا بلکہ ایک سوچ تھی کہ مسلمان کس طرح مل جُل کے ایک آزاد ریاست میں رہیں گے۔
تو ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی وژن ضرور ہونا چاہئے اپنے بارے میں، اپنی اولاد کے بارے میں، ماں باپ کے بارے میں، اپنے ادارے کے بارے میں کوئی نہ کوئی منزل تو ہویا کوئی ٹارگٹ تا کہ آدمی پھر اُس تک پہنچنے کی جستجو کرے۔ اور ہاں! ایک کوشش یہ بھی کرنی ہو گی کہ وژن اورpurpose آپس میں ٹکرائیں نہیں۔ مثال کے طور پر purpose تو اﷲ کو راضی کرنا ہے اور وژن میں سینما کا مالک لکھ دیں تو بات کچھ بنی نہیں۔ purpose اﷲ کو راضی کرنا ہو اور وژن میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر ہی پیسہ کمانا ہو تو بھی کوئی اچھی بات نہ ہوئی۔
عبداﷲ کو یہ ساری سیدھی سادھی باتیں بغیر کسی مفکرانہ بحث کے بڑی اچھی لگ رہیں تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی بڑا سوچتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ ہم نے تو خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں۔ جب منزل ہی نہ ہو گی تو سفر کس سمت شروع کریں؟ اور بَفرضِ محال منزل نہ بھی ملی تو بھی اِس سفر کی وجہ سے اچھے انسان تو بن ہی جائیں گے۔
یہ وژن دراصل چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے چراغ ہیں جو پورے ملک میں جل گئے تو ہر طرف روشنی ہو جائے گی۔ اگر سب لوگوں تک امین بھائی کی یہ ٹریننگ پہنچ جائے تو ملک بدل جائے گا۔ میرا بھی ایک وژن ہونا چاہیے اور باقی ماندہ تمام عمر اُس میں لگا دوں گا۔
میں بھی بڑا خواب دیکھوں گا، ایک نئیTDL خود بخود عبداﷲ کے دل میں جنم لے رہی تھی۔ میں لوگوں کو پڑھاؤں گا۔ اچھا کمپیوٹرسائنٹسٹ بناؤں گا تا کہ ملک کے لیے زرِ مبادلہ لا سکیں وغیرہ وغیرہ ۔عبداﷲ اپنی دنیا میں ہی مگن تھا اور وقفے کاٹائم ختم ہو گیا۔
امین بھائی نے موضوع بدلا۔ آپ لوگوں نے کبھی پونی کی کہانی سُنی ہے؟
سب کا جواب نفی میں تھا۔ تو بھائی ایک تھا پونی )ایک چھوٹا سا کتا) اسے گاؤں دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ایک دن دوستوں سے مشورہ کر کے وہ گاؤں چلا جاتا ہے۔ گاؤں میں کنویں پہ پانی پینے کے لیئے رکتا ہے مگر پھسل کے گر جاتا ہے اورڈوب کے مر جاتا ہے ۔
اب گاؤں والے مولوی صاحب کے پاس آتے ہیں اور ماجرا سناتے ہیں کہ پونی گر گیا کنویں میں اور پانی ناپاک ہو گیا۔
مولوی صاحب کہتے ہیں کوئی بات نہیں 40بالٹی پانی نکال لو ‘پانی پاک ہو جائیگا۔ لوگ واپس آ جاتے ہیں کہ 40بالٹی پانی نکا لا مگر بد بو ابھی بھی باقی ہے۔ مولوی صاحب 40بالٹی اور نکالنے کا کہہ دیتے ہیں۔ لوگ پھر واپس آ جاتے ہیں، مولوی صاحب کہتے ہیں بھائی آپ لوگ بڑے شکی مزاج ہو 40 اور نکا ل دو۔ مگر لوگ پھر واپس کہ 20 1بالٹیاں نکال چکے ہیں پانی جوں کا توں ہے اب مولوی صاحب کی برداشت سے باہر ہو گیا اور وہ ایک جِمِّ غفِیر کے ساتھ کنویں پر پہنچ گئے۔ جھانک کے دیکھا تو پونی کی لاش تیر رہی تھی۔
بھائی اسکو کیوں نہیں نکالا ؟ مولوی صاحب نے گاؤں والوں سے تعجب سے پوچھا۔
آپ نے پونی نکالنے کا کب کہا تھا؟ گاؤں والوں نے استفسار کیا۔
امین بھائی نے اپنی بات جاری رکھی۔ تو آپ بتایئے اگر ہم کنواں خالی کر دیں اور پونی نہ نکالیں تو کیا کنواں پاک ہو جائے گا؟
عبداﷲ نے ہنستے ہوئے نفی میں جواب دیا۔
بالکل اسی طرح ہمارا معاشرہ، ہمارے لوگ، ہمارے دوست، ہمارے احباب، ہمارے کولیگزہزاروں کی تعداد میں پونی ہمارے دماغ میں بھر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا پڑھتے ہیں۔ کہاں سے تجربہ لیتے ہیں، کیا تعلیم حاصل کرتے ہیں نتیجہ وہی صفر۔
جب ہم وِژن کی بات کرتے ہیں تو کئی ایک پونی ہمارے وژن کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ اور ہمارے خوابوں کو گندے پانی کے کنویں سے باہر نہیں آنے دیتے۔
یہ کہہ کر سب لوگ لنچ کے وقفے پر چلے گئے۔ مگر عبداﷲ بھاری دل کے ساتھ اپنی زندگی کے پونی گنتا رہا۔ اسکی گذشتہ TDL میں موجود ہر چیزاُسے ایک پونی ہی نظر آئی اور وہ خاموش بیٹھا آسمان کو تکتا رہا اور آنسو ٹپ ٹپ کر کے یکے بعد دیگر ے آنکھوں سے گرتے رہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
امین بھائی نے سیشن کو پھر سے شروع کیا۔
چارپونی ہیں جو سب سے پہلے وژن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
1۔ زندگی Life
2۔ خاندان Family
3۔ وقت Time
4۔ جگہ Space
ہم کوئی وژن سو چ لیں وہ ہماری اپنی زندگی، خاندان اور جگہ کے اِرد گرد گھومتا ہے اور ہم اسے کسی نہ کسی وقت کے ساتھ قید بھی کر دیتے ہیں۔
مثلاََ : میں چاہتا ہوں کہ میں کراچی کا سب سے بڑا تاجر بنوں
اب بذات خود اِ سی وژن میں کوئی برائی نہیں مگر یہ کراچی کی حدود میں قید ہے۔
مثلاََ: میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیوی بچوں کو تمام خوشیاں دوں
اس میں بھی کوئی بُرائی کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ اپنے خاندان سے باہر نہیں آرہا۔
اگر بڑ ا کام کرنا ہو تو ان چاروں سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ مثال کے طور پر ہمارے پیارے نبیﷺ کا وژن کہ لوگوں کو اﷲ کا پیغام پہنچانا ہے ان چاروں سے آزاد تھا۔
انہوں نے اپنے خاندان والوں پہ بھی کا م کیا اور غیر خاندان والوں پر بھی، مکّتہ المکرمہ میں بھی کام کیا اور دنیا بھر میں بھی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہا کو بھیجا اور یہ کام ا نکی زندگی کے بعد بھی چودہ سو سالوں سے چل رہا ہے۔
اس جیسی مثالوں اور حوالوں سے آج کا دن ختم ہواا ور عبداﷲ آج پھر جانماز پہ اپنے اﷲ سائیں سے دعا مانگ رہا تھا۔
اپنی رحمت کے خزانوں سے عطا کر مالک
خواب اوقات میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے
“اﷲ سائیں! آپس کی بات ہے، ابھی تک کی زندگی تو ضائع ہو ئی، آگے کی کسی کام لگ جاوے یہی بِنتی ہے۔ آج تک صرف اور صرف اپنی ذات کا سوچا، کوئی کام کرنا چاہتا ہوں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ عمر بھر نفع خور رہا اب نفع بخش بننا چاہتا ہوں۔ امین بھائی کہتے ہیں کہ وژن چاہ کا نام ہے۔ پیشین گوئی نہیں، میری چاہ ہے کہ ایسے لوگ تیار کروں جنھیں کمپیوٹر سائنس میں مہارت ہو تاکہ و ہ اپنے پروگرامزکے ذریعے انسانیت کی خدمت کر سکیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی بڑا ادارہ بناؤں اس کام کے لیے۔ نہ عقل ہے نہ پیسہ نہ تجربہ، تو مدد کر میرے مالک!
تیرے لیے کیا مُشکل ،تجھے کوئی اسمبلی سے بل تھوڑا ہی پاس کرانا ہوتا ہے۔
میری مدد کر میرے مالک ! میرا ہاتھ پکڑ اور دیکھ پلیز اس بار صحیح لائن پر چلا دے آمین!”
آج ٹریننگ کا آخری دن تھا اور امین بھائی کا جوشِ خطابت عروج پہ۔ انھوں نے ٹریننگ کو آگے بڑھایا، آدمی زندگی میں مختلف کردار نبھاتاہے جنھیں ہم rolesکہہ لیتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں لازمی یا mandatedرولز اور اختیاری یا electives۔ لازمی کردار وہ ہیں جو آپ چاہتے ہوئے بھی نہ چھوڑ سکیں مثلاً باپ کا رول۔ اب آپ اپنے بیٹے سے جاکے اگر کہیں کہ آج کے بعد تم میرے بیٹے نہیں تو آپکے صرف کہنے سے کچھ بھی نہ ہو گا، رشتے جو ں کے توں قائم رہیں گے۔ اختیاری وہ رولز جو آپکی صوا بدید پر ہوں مثلاً دوست۔ آپ جب چاہیں جیسے چاہیں دوست بدل سکتے ہیں۔ مثلاً جاب۔ آپ چاہیں تو استعفیٰ دے دیں اور کسی اور جگہ نوکری کر لیں۔ تو آپ سب لوگ اپنے تمام رولز کی ایک فہرست بنائیں۔ عبداﷲ نے قلم نکالا اور کچھ ایسی فہرست تیار کر لی:
لازمی Mandated اختیاری Electives
باپ نوکر
بیٹا دوست
بھائی اُستاد
اپنی ذات شاگرد
داماد کھلاڑی
کفیل تیراک
امتی شوہر
عبداﷲ انٹرنیٹ سرفر
محلہ کمیٹی
مسجد کمیٹی
لائبریری ممبر
وغیرہ وغیرہ
امین بھائی پھر گویا ہوئے۔ تقریبا وہ تمام کام جو آپ24 گھنٹوں میں کسی نہ کسی roles کے تحت کرتے ہیں وہ یہاں آئیں گے ۔اب لازمی کرداروں کو تو آپ کچھ کہہ نہیں سکتے تو اختیاری رولز میں سے ہر وہ رول جو آپکے وژن کا حصہ نہیں یا اُسے کسی نہ کسی طور support نہیں کر رہا ‘ آپ اسے اُڑا دیں۔ ہر جنگ لڑنے والی نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی کاوژن شاہد آفریدی بننا ہے تو اُسے 4 گھنٹے روز گانا گانے کی کیا ضرورت ہے وہ کرکٹ کھیلے۔ آپ خود ہی منصف بن جائیں اپنے اختیاری رولز اور اپنے وژن کے بیچ۔ اس طرح کرنے سے آپکی زندگی میں Focus یکسانیت بھی آئے گی اور وقت بھی بچے گا۔
وقفے میں عبداﷲ معلومات کے ا س طوفان کو ڈائی سیکٹ کر رہا تھا۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں اتنی سی زندگی میں کیا کیا کروں۔ بیواؤں کی خدمت کروں یتیموں کا خیال رکھوں، کتا بیں لکھوں، پڑھاؤں، کمپنی کھولوں، ایدھی کے لیے ایمبولینس چلاؤں، پڑھوں یا ملکی سیاست میں حصہ لوں!
عبداﷲ نے کا غذ پہ لکھنا شروع کر دیا۔ پاکستان میں مرد کی اوسط عمر 62سال اور عورت کی 65 سال۔ اب یہ کہتے ہیں کہ عمر پڑی ہے وہ ہے کہاں۔ شروع کے 12سال تو بچپنے کینذر ہو جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی 70سال بھی جیے تو 58باقی بچے۔ ہم دن میں کم از کم 8گھنٹے سوتے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں سے یہ ایک تہائی بنتا ہے تو کوئی 23سال 4ماہ ہم سو رہے ہیں۔ 8 ہی گھنٹے کم از کم آفس میں جاتے ہیں ہر روز، 23سال 4ماہ وہاں گئے۔ پاکستانی او سطاََ4گھنٹے TV دیکھتے ہیں دن میں، یہ کوئی ساڑھے گیا رہ سال بنتے ہیں، 4 گھنٹے ہم اوسطاََانٹر نیٹ کو دیتے ہیں ساڑھے گیارہ سال اِدھر گئے ۔ایک سال زندگی میں ہم طبعی ضروریات میں باتھ روم میں گزارتے ہیں۔
12 سال کی عمر میں اگر نماز فرض ہو تو اگر ہم 5 وقت روزانہ نما زپڑھیں اور دن میں ایک گھنٹہ بھی لگا دیں تو 70سال کی عمر میں کوئی ڈھائی سال اﷲ کو دینگے جس نے پیدا کیا اپنی عبادت کے لیے۔613,000 گھنٹوں کی زندگی میں سے صرف 20ہزار گھنٹے؟
کوئی بات بنی نہیں۔ پوری زندگی جب تک عبادت کے مفہوم کے تحت نہیں آجاتی تب تک حق تو ادا نہ ہو سکے گا۔ کیا آپ کوئی ایسا نوکر رکھو گے جو اپنے اصل کام کو صرف 3.5% وقت دے اور باقی بے کار بیٹھا رہے؟ اور یہ 3.5% وقت بھی ہم کب دیتے ہیں۔مہینوں گزر جاتے ہیں مسجد کا منہ دیکھے ہوئے۔
جتنی تیزی سے عبداﷲ کا قلم چل رہا تھا اس سے کہیں زیادہ رفتارسے اُس کا دماغ اور دل۔
ٹھیک ہے امین بھائی! آج پھر رت جگا اور electives کا مذبح خانہ
وقفے سے آتے ہی امین بھائی نے ایک اور کاری وار کیا۔
آپ لوگوں کو مائیکروسافٹ ایکسل تو آتی ہو گی؟
تو ایک بار چارٹ بنائیں اور نیچے لکھ دیں تمام رولز جو باقی بچ گئے ہیں۔
باپ بیٹا اُمتی عبداﷲ پڑوسی
ہمیں ان تمام رولز کو کسی نہ کسی، کم از کم معیارپر نبھانا چاہئے۔ جیسے کہ اسکول میں 33% نمبروں پہ پاس ہوتا ہے یا یونیورسٹی میں 2.2 GPA پر۔ اسی طرح ہر رول کا ایک MPL) ( Minimum Perfomance Level ہوتا ہے۔ اگر اس سے نیچے آئے تو ظلم میں شمار ہو گا، اُوپر گئے تو احسان۔ ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو اسکی جگہ سے ہٹا دینا۔ مثلاً ماں باپ کے لیے MPL ہے کہ انہیں اُف بھی نہ کی جائے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ بار چارٹ میں آپ کہاں ہیں ؟ احسان کا مطلب ہے وہ چیز جو موجودہ ریسور سز میں اُس سے بہتر ممکن نہ ہو۔ غرض آپ کی سب سے بہتر کا و ش۔
کسی آدمی کے پاس 10روپے ہیں اور وہ 10 روپے صدقہ کر دیتا ہے تو اُس آدمی سے بہتر ہو گا جو لاکھ روپے دے 10کروڑ میں سے۔ اب آپ کو تمام رولز کےMPL معلوم کرنے ہیں۔ اور انMPLsکو پورا کرتے ہوئے مر گئے تو کامیاب ورنہ ناکام ۔اس کے بعد امین بھائی نے مولانا تقی عثمانی صاحب کا شعر بھی سنا دیا۔
قدم ہوں راہِ الفت میں تو منزل کی ہو س کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
امین بھائی نے ٹریننگ کا اختتام کیا۔
تو آپ لوگ گھر جائیں۔ رولز لکھیں MPL ڈھونڈیں اور وژن بنا ئیں کہ 100سال بعد آپ اپنے آپکو کس رول میں کس جگہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی ذات کے رول میں تو بزنس مین بن جائیں مگر باپ، بھائی عبداﷲ کے سارے رولز متاثر ہو جائیں۔ پھر سوچیں کہ 50سال والا وژن کیا ہو گا۔ 25میں کہاں ہو نگے۔ اور 5,10, اور 1 سال کا پلان بنالیں حتی کہ مہینوں ہفتوں اور دنوں کی کوشش کریں تا کہ آج آپ جو کام کر ہے ہیں وہ آپکے 100سال والے وژن سے connectہو سکے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس ٹریننگ سے عبداﷲ کو اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے۔ وہ کسی حد تک مطمئن تھا کہ چلو زندہ رہنے کا کوئی بہانہ تو مِلا، کوئی راستہ تو نظر آیا، میرا کوئی مقصد حیات تو ہے۔ زندگی کے اندھیروں میں یہ چھوٹی سی کرن عبداﷲ کے لیے ڈوبتے کا سہارا تھی۔
آج رات اس نے احمد صاحب کو فون کر کے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ انکی باقی ٹریننگز بھی کرنا چاہتا ہے۔ مگر فی الحال پیسے نہیں ہیں۔ احمد صاحب نے آفردی کہ آپ کورسز کر لیں پیسے جب ہو ں تب دے دینا ۔
یوں عبداﷲ کی زندگی میں ایک باب اور شروع ہوا۔ ٹر یننگز اور وژن کا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ یونیورسٹی میں واپس آیا اور دن رات پڑھانے میں لگ گیا۔ بچوں کو پڑھانا اور اچھا کمپیوٹر سائنٹسٹ بنانا اس کے وژن کا حصہ تھا۔ اس نے اپنی ریسرچ لیب بنائی اور ریسرچ پر بہت زور دینے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی عبداﷲ کی گروید ہ ہو گئی۔ پروفیسر عبداﷲ کی کلاس میں پڑھنا طالب علموں کے لیے وجہِ افتخار سمجھا جانے لگا۔ بیچلرز کی ایک کلاس میں سے 13 انٹر نیشنل پبلی کیشنز آگئیں اور عبداﷲ کے اسٹوڈنٹ دنیا بھر میں اسکالر شپ پر جانے لگے۔ 4طالب علموں کو وہی سینیٹر اسکالر شپ ملی جس پہ عبداﷲ خود گیا تھا۔ عبداﷲ نے ڈیپارٹمنٹ کا curriculumتبدیل کر دیا اور دنیا کے بہترین کورسز متعارف کروائے۔ اس شہرت اور کام کی وجہ سے عبداﷲ جلد ہی نظروں میں آ گیا اور اسے ہراُس کمیٹی کا ممبر بنا دیا جاتا جس کا اس سے دور دور تک کا واسطہ نہ ہوتا۔ اُسے سزا کے طور پر ڈرائیورز کمیٹی، گارڈن کمیٹی، اوپن ہاؤس کمیٹی اور اِس جیسی ہی نجانے کون کون سی کمیٹیا ں جس میں سوائے وقت ضائع ہونے کے کچھ نہ ہوتا کی ذمہ داری سونپ دی جاتی۔
عبداﷲ جلدہی اِس علم دشمن ماحول سے بیزار ہونے لگا،اس بیزاریت سے نجات پانے کے لیے اس نے دن ر ات وژن پڑھنا شروع کر دیا ہم کس طرح وژن بنائیں کیسے عمل کریں۔ یہ اس موضوع پر بھی چیمپین بننا چاہتاتھا۔ شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو اس موضوع یا اس سے متعلقہ موضوع پہ جو عبداﷲ نے نہ پڑھ ڈالی ہو۔اور شامت آئی ہمیشہ کی طرح بے چاری بلّوکی جسے گھر اور بچوں کے تمام معاملات کے ساتھ ساتھ عبداﷲ کو بھی manageکرنا پڑتا۔ اُس نے عبداﷲ کو مزید ٹریننگز کروانے کے لیے اور اس کی کتابوں کا خرچہ برداشت کرنے کے لیے اپنا زیور تک بیچ دیا اور پارٹ ٹائم کام بھی شروع کر دیا کہ عبداﷲ میں زندگی کی رمق ہی اُس کا اثاثہ تھا۔ عبداﷲ نے بار ہا کوشش کی کہ بلّو بھی یہ ٹریننگز کر لے، وہ گئی بھی، مگر اُس کا دل نہ لگنا تھا نہ لگا۔ وہ ہمیشہ سے اپنے آپکو ایک کمزور سی گنا ہگار انسان کہتی جس سے کچھ نہ بن پڑتا ہو۔
عبداﷲ نے یونیورسٹی میں ہونے والی ہر زیادتی کے بدلے میں مزید پڑھنا شروع کر دیا جس دن یونیور سٹی میں کوئی تلخ کلامی ہوتی اور اس دن کچھ اور نئی کتایں وہ بلّو سے کہا کرتا کہ اس ملک میں ہونے والے مظالم کا واحد انتقام علم ہے۔
عبداﷲ جب بھی پالو آلٹو، روبن شرما، اسٹیفن کوی، جمِ کو لنز یا سیم والٹن کی کتا بیں پڑ ھتا تو آکے بلّو سے ڈسکس کرتا۔ وہ ہمیشہ ہنس کے خاموش ہو جاتی مگر کوئی نہ کوئی جملہ ایسا بول دیتی کہ عبداﷲ ہفتوں سرپیٹتا رہتا۔ ایک دن کہنے لگی۔ عبداﷲ تم اپنی ذہانت ‘اپنی باتوں اور لفّاظی سے کسی شخص کی زبان چپ کرو ا سکتے ہو مگر دل نہیں جیت سکتے۔
دل جیتنا ہوتو surrender کرنا سیکھو۔
ایک دن کہنے لگی عبداﷲ میرا دل ہراُس چیز کو کرنے کا چاہتا ہے جو اﷲ کو نا پسند ہے۔ دل کی سنوں تو اﷲ ناراض ،اﷲ کی سنوں تو دل ناخوش، یہ چکی تمام عمر یونہی چلتی رہے گی۔
وہ اکثر عبداﷲ سے کہتی، عبداﷲ آرام کر لیا کرو، کچھ دنوں کے لیے چھوڑ دو اس وژن کے چکر کو۔ خیرو شر کی ازلی لڑائی میں بندہ تھک بھی تو جاتا ہے۔ کچھ دیر آرام کرلے تو کیامضائقہ۔
مگر عبداﷲ کو تو جو ایک دھن سوار ہو جائے وہ ہو جائے۔ اسی علم و شوق میں زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی کہ ایک دن صبح صبح عبداﷲ کوریکٹر آفس سے کال ملی۔ وہ ملنے پہنچا توریکٹرصاحب نے خوشخبری سنائی کہ آپکی تنخواہ میں 25 ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
عبداﷲ اس غیر متوقع خبر پر پریشان ہوا کہنے لگا آخر کیوں؟
جی وہ ہمارے سٹم ایڈ منسٹریٹر system administrator نے استعفیٰ دے دیا ہے تو آج سے آپ کے پاس system administrator کا ایڈیشنل چارج بھی ہے۔
مجھے قبول نہیں ریکٹرصاحب۔
مگر ڈاکٹر عبداﷲآپ کو یہ کام آتا ہے۔
جی مجھے کھانا پکا نا بھی آتا ہے تو جس دن آپ کا باورچی چلا جائے اُس کا ایڈیشنل چارج بھی فدوی کو عطا کر دیجئے گا۔
دیکھیے ریکٹر صاحب میں نے PHD کیا ہے کوشش ہے کچھ ریسرچ ورک کر لوں۔
ازراہِ کرم میرے کیرئیر سے مذاق نہ کریں۔
ہم نے آپکو مطلع کرنے کے لیے بلایا تھا مشور ے کے لیے نہیں۔ آپ جا سکتے ہیں،
ریکٹر نے گویا حتمی فیصلہ سنا دیا۔
عبداﷲ نے کاغذ قلم نکالا، وہیں استعفیٰ لکھا اور گھر واپس۔
بلو نظر آئی تو عبداﷲ نے زبردستی مسکراتے ہوئے عنایت علی خاں کا شعر پڑھ دیا۔
جو سرکٹنے پہ راضی ہوں، انھیں جھکنا نہیں آتا
وہی منزل کو پاتے ہیں جنھیں رکنا نہیں آتا
بلّو ایک شعر میں سب کچھ سمجھ گئی اور گھر کی پیکنگ میں لگ گی کہ یونیورسٹی کا دیا ہوا مکان خالی کرنا ہے۔
رات کھانے پہ عبداﷲ سے پوچھا اب کیا کرو گے عبداﷲ؟
اﷲ کی زمین وسیع ہے بلّو، کچھ کرتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں گاؤں جا کے بر تنوں کی ریڑھی لگا لوں۔ یونیورسٹی کا اچھا خاصہ تجربہ تھا وہاں یہ ہوا، کارپوریٹ سیکٹر کا تو تجربہ ہی نہیں ہے وہاں کیا ہو گا۔ آج جو اباََ بلّونے بھی شعر سنا دیا۔
تو نے جو کچھ بھی کہا، میں نے وہی مان لیا
حکمِ حواّ کی قسم، جذبہِ آدم کی قسم
عبداﷲ آج ایک بار پھر روڈ پہ تھا۔ جگہ جگہ نوکری کی درخواست دے رہا تھا۔ مگر انٹر ویوز میں ہر جگہ فیل۔ کچھ لوگ اسکی ذہانت سے خو فزدہ ہو جاتے، تو کچھ کو اسکے لہجے کی کاٹ پسندنہ آتی، ایک HR مینجرتو پھٹ ہی پڑے۔
ڈاکٹر عبداﷲ آپ بہت خطرناک انسان ہیں۔ آپکو کوئی کیسے قبول کر ے۔ اپنے مضمون میں آپ خود اتھا رٹی ہیں تو کوئی آپکو Technically چیلنج نہیں کر سکتا۔ روپے پیسوں کی قدر آپ نہیں کرتے تو یہ طریقہ بھی بے کار مرنے سے آپکو ڈر نہیں لگتا۔ تو جو آپ چاہیں گے وہ کریں گے۔
ہم آپکو جاب نہیں دیں گے۔
اور عبداﷲ گھر آکے پھر سے بِلّو کو روداد سنا دیتا ۔اس اثناء میں وہ ایک 200صفحات کا وژن ڈاکو منٹ لکھ چکا تھا اپنا اور اپنی فیملی کا کہ زندگی میں کرنا کیا ہے جسے وہ ماسٹر پلان کہتا تھا۔
بلّو روز اسکی تیاری کرواتی۔ اُسے زیاددہ بولنے سے منع کرتی اور روانہ کر دیتی۔
آج ایک ڈیفنس آرگنائزیشن میں اس کا بہت اہم انٹرویو تھا۔
جب عبداﷲ اپنے سافٹ وئیر اورمہارت کیpresentation دے چکا تو CEO نے کہا کہ آپ یہیں جوائن کر لیں، آپ صرف مجھے رپورٹ کر یں گے۔ آپکو اُن ٹیکنا لو جیز پر کام کرنا ہو گا جن میں بحیثیت قوم ہم دوسرے ممالک کے محتاج ہوں۔ کب سے شروع کر یں؟
عبداﷲ کی خوشی انتہاؤں کو چھُورہی تھی۔ اچھی تنخواہ گھر اور گاڑی اور کام بھی 100فی صد اسکے اپنے وژن سے متعلق۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا سبھی خوش تھے‘ سوائے بلّو کے۔
بلّو نے کہا، عبداﷲ اتنے خوش نہ ہو، خوشی تمہیں کم ہی راس آتی ہے۔
یہ دیکھو تم نے کیا کرنا ہے ،تمھیں اپنے آپ سے کیا چاہیے ؟یہ بھول جاؤ دنیا تم سے کیا چاہتی ہے۔ ورنہ ہمیشہ اُداس ہی رہو گے۔
عبداﷲ نے جواب میں لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی کہ وہ کسی طرح اس وژن سے پاکستا ن کو تبدیل کر دے گا اور بلو ہمیشہ کی طرح ہنستے ہوئے کھانا لگانے چلی گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*