جب کبھی جاب یا کوئی اور مسئلہ پیش آتا عبداﷲ مفتی صاحب کے پاس پہنچ جاتا۔ اور وہ کوئی نہ کوئی تسلی بخش جواب دے دیتے۔ ایک دن عبداﷲ نے پوچھا کہ اُسے ہی کیوں اتنی پریشانیاں آتی ہیں۔ایک دنیا ہے جو مست ہے۔ خوش و خرم ہے، اِسی کے دل کو چین کیوں نہیں آتا، یہ سر پھٹول قسم کے لوگ اس کے ہی نصیب میں کیوں؟
مفتی صاحب نے دھیمے سے جواب دیا کہ عبداﷲ ہم مریضوں کے معاشرے میں زندہ ہیں۔حتی الامکان صبر کیا کرو۔ اس معاشرے میں سچ بولنے کی زکوٰۃ تنہائی ہے۔ کوئی جانور پال لو کہ کہنے سُننے کو کوئی تو ہوپاس میں۔
ابھی عبداﷲ کی زندگی میں کچھٹھہراؤ آہی رہا تھا کہ اُسے امریکہ سے ایک فیلوشپ اور مل گئی 2 ماہ کے لیے۔ وہ خوشی خوشی گیا اور درجنوں میٹنیگزکیں۔ اس بار اس نے امریکہ ایک نئے رنگ سے دیکھا وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ ورلڈ کلاس ادارے بنتے کیسے ہیں۔ وہ کون سی سوچ، کو ن سے لوگ ہوتے ہیں جو اِن کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہ درجنوں تِھنک ٹینکس میں گیا۔ بڑی بڑی یونیورسٹی کے سربراہان مِلا اور ایک سے بڑھ کے ایک وژ نری بندے سے مِلا۔ اسے احساس ہواکہ اگر بڑا کام کرنا ہے تو دنیا سے اچھائی یا تعریف کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور سر جھکا کے کام کرنا چاہئے ۔
عبداﷲ فیلوشپ سے واپس آیا اور جاب سے استعفیٰ دے دیا۔ اب کی بار تو بلّوبھی پریشان ہوگئی کہ کیا ہوگا۔ یونیورسٹی وہ چھوڑ چکا تھا اور کار پوریٹ ورلڈ سے بھی دِل اُچاٹ ہو گیا۔ عبداﷲ اب کیا کروگے؟ بچوں کی پڑھائی کا کیا ہو گا؟ گاڑی بھی نہیں رہے گی، گھر بھی۔ اور کوئی saving بھی نہیں ہیں۔ جتنا پیسہ کمایا تم نے سب لگا دیا پڑھائی، کتابوں اور صحرا نوردی ) دنیا گھومنے (میں۔
بِلّو، یہ 9سے 5والی جاب خوابوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ہم اپنی کمپنی کھولیں گے۔ اپنی مرضی کا کام کریں گے۔ اتنے تو پیسے مل ہی جاہیں گے کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ ہم دن رات کو مکس کر دیں گے۔ تو تیاری پکڑ ،آج رت جگا ہے۔
“اﷲ سائیں، تھک گیا ہوں لوگوں کی غلامی کرتے کرتے، کسی اور کے وژن پہ کام کرتے کرتے۔ آج سے تو میرا CEOبن جا اور کوئی اچھا سا کام لے لے، کہ میری دنیا اور دین دونوں سنور جائیں۔ آمین!”
عبداﷲ نے شہر میں کیلوریز کے مطابق برگرزکی دکان کھول لی۔بِلّونے بڑا سمجھا یا کہ دنیا ہنسے گیکہ Phd کر کے برگر بیچ رہے ہو مگر عبداﷲ نے ایک نہ سنی۔ کہنے لگا کہبِلّودل میں ایک بڑا قبر ستان بنا کے کُل جہاں کو ایک بار ہی دفنا دو اور فاتحہ پڑھ لو تا کہ آج کے بعد کسی کی تعریف سے کوئی فرق نہ پڑے نہ بُرائی سے۔
دُکان تو کھل گئی مگر گیس نہ لگ سکی۔ رشوت کے بغیراِس ملک میں کوئی کام مشکل سے ہی ہو تا ہے۔ کبھی سلنڈر دستیاب تو کبھی نہیں۔ کچھ ہی مہینو ں میں عبداﷲ کو دکان بند کرنی پڑی۔ نقصان الگ ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اب کی بار بِلّو نے سوچا کہ کپڑوں کا بوتیک کریں۔ یہ کام اچھا چل نکلا مگر کچھ ہی ماہ میں منیجرپیسے لے کے بھاگ گیا۔ اور عبداﷲ اوربِلّو پھر روڈ پر ۔۔۔ بِلّونے ہنستے ہوئے عبداﷲسے کہا کہ آپکے ابو ٹھیک ہی کہتے تھے، پتہ نہیں کس فقیر کی بددعا ہے۔ تمہارا کوئی کام نہیں چلتا۔ ایک مسلسل گرداب ہے جس میں پھنسے رہتے ہو۔
عبداﷲ نے ہنس کے جواب دیا کہ بلّو زندگی نام ہی ہمت اور محبت کا ہے۔ کم ہمت لوگوں کو مرجانا چاہیے تاکہ ہمت والے ریسورسز کا استعمال کرسکیں۔ تو غم نہ کر۔ بچوں کا اِسکول چھُٹ چکا تھا۔ گاڑی بِک چکی تھی اور کوئی راہ سُجھائی نہ دیتی تھی۔ آج عبداﷲ نے پھر رت جگا کرنا تھا۔
” یا اﷲ! پھر سے ناکام ہو گیا۔ اب تو نیاکام کر نے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اب تک بلّو نے بڑا ساتھ دیا ہے۔ وہ بھی پریشان ہے۔ بچوں کی پڑھائی بھی چھوٹ چکی ہے۔ تو ہی ہے تیرے سوا کسی سے نہ مانگوں گا۔ تو ہی مدد کر”۔
عبداﷲ نے اگلے ہفتے سافٹ ویئر ڈو یلپمنٹ کی کمپنی کھول لی۔ اِ س کام میں اُس کا نام بھی تھا اور وہ ماہر بھی تھا تو کچھ کام ملنا شروع ہو گیا۔ عبداﷲ نے ایک بار پھر دن و رات کا فرق باقی نہ رکھا اور کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کرتی چلی گئی۔
اُسے ایک سرمایہ کارسے Angel Funding بھی مل گئی اور صرف ایک سال کے عرصے میں عبداﷲکا اپنا گھر اپنی گاڑی بھی ہو گئی اور بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ معاشی فراغت نصیب ہو ئی تو عبداﷲ کی توجہ پھر ذکرواذکارکی طرف آئی۔ وہ رمضان میں مفتی صاحب کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ خوب گزرے گی مل بیٹھیں گے جو دیوانے دو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداﷲ کی ملاقات ملک کے ایک مایۂ ناز صحافی سے ہوئی۔ عبداﷲ نے اُن سے پوچھا کہ وہ لکھنا چاہتا ہے کوئی مدد کریں۔ انھوں نے جواب میں عبداﷲ کی عمر پوچھی۔ 35سال۔ آپ یہ خیال چھوڑدیں۔ صحافی نے فیصلہ سنایا۔
کیونکہ اگر آپ میں لکھنے کا ہنر ہوتا تو اب تک دنیا آ پ کا نام جان چکی ہوتی۔
دیکھئے، میں دنیا کے 200ممالک گھوما ہوں، میں نے آپ کا نام نہیں سنا۔ اس کا مطلب ہے کہ صحافت کیا آپ نے دنیا کی کسی فیلڈ میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی اور نہ آئندہ کر سکتے ہیں۔35سال ایک لمبی عمرہوتی ہے کچھ کر دِکھانے کے لیے، آپ کیا کرتے رہے ہیں۔ آپ کا وِژن کیا ہے؟ اگر کوئی ہے تو؟
عبداﷲ نے جواباََ کہا جی کوشش کررہا ہوں کہ انسان بن جاؤں،بندہ بن جاؤں بس اور کچھ نہیں۔
اِتنے میں صحا فی کے ساتھ موجود ایک پولیس اٖفسر نے سوال جھاڑدیا۔ ارے ! آپ وہی عبداﷲ تو نہیں جو سنیٹر سکالرشپ پر امریکہ گئے تھے اور ابھی حال بھی میں ایک اور فیلو شپ کرکے آئے ہیں!
جی ہاں! میں وہی ہوں؟
آپ تو غدار ہیں، امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔
یہ قطعاًغیر متو قع وار تھا۔ عبداﷲ نے بمشکل تمام اپنے غصے کو سنبھالااور دھیمی آواز سے کہا۔ ماشاء اﷲ۔ آپکی ان معلومات کاما خذ کیا ہے۔
فلاں مولوی صاحب نے ایک مجلس میں یہ بات کہی تھی۔
بات آئی گئی ہوگی۔ عبداﷲ مولوی صاحب سے نہ صرف مل چکا تھا بلکہ انھیں جانتا بھی تھا۔
اگلے دن عبداﷲ اُن کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔
سلام دعا کے بعد عبداﷲ نے عر ض کی، حضرت یہ واقعہ ہوا ہے، میں نے سوچا بجائے اس کے کوئی بد گمانی رکھوں ڈائر یکٹ آپ سے ہی پوچھ لوں۔
مولوی صاحب گویا ہوئے۔
’’نہیں بھئی۔ ہم نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ڈاکٹر عبداﷲکی پر سنلٹی پہ تشویش ہے۔‘‘
باقی باتیں دنیا نے خود ہی لگا لیں۔عمومی طور پر جینز جیکٹ پہننے والوں کو مذہبی طبقے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ وہ لڑکیوں وغیرہ کے چکر میں رہتے ہیں۔ جو بار بار امریکہ جائیں وہ شراب سیکہاں بچ پا تے ہیں؟
ارے حضرت تو زا نی ہو گیا، شرابی ہو گیا، غداراور امریکی ایجنٹ کیسے ہوا۔
جانے دو عبداﷲ بہت سی باتیں اگر نہ کہیں تو “اٹھالئے جائیں گے۔ ’’تمھیں اِن باریکیوں کا نہیں پتہ۔ وطن کی محبت کے ثبوت کی طورپر غیروں کی بُرائی لازم ہوتی ہے۔‘‘
جی حضرت سچ کہا۔ اُٹھائے تو ایک دن سب ہی جائیں گے اور بڑا ہی سخت دن ہوگا وہ۔ ٹھیک ہے وہیں ملتے ہیں۔
اور عبداﷲ دِل پہ ایک زخم اور سجائے واپس آگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ اِس رمضان کو بھر پورطریقے سے منا نا چاہتا تھا اور اُس نے اہتمام کی کوئی کسر اُٹھانہ رکھی تھی۔ روزے تراویح، ذکر اذکار، نمازیں، تلاوت و نوافل سب پورے جارہے تھے۔ زندگی میں پہلی بار ایسار مضان میسرآیا تھا کہ اُس پہ پڑھائی کا بوجھ نہیں تھا نہ ہی جاب کی جھنجھٹ۔ کمپنی کے سارے کام ایک ماہ کے لئے بِلّوکے حوالے کرکے عبداﷲ نیکیاں کرنے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ رمضان کی طرح اعتکاف بھی پرفیکٹ ہو جائے تو مزہ آجائے۔
اعتکاف میں بیٹھنے سے 2 دن پہلے عبداﷲکو ایک فون کال آئی ۔
ہیلو ۔سر عبداﷲ ؟
جی بول رہا ہوں۔
آپ کیسے ہیں؟ میں آپکو مِس کرتی ہوں، میں آپکے ساتھ یونیورسٹی میں تھی آپکی اسٹوڈنٹ۔
جی ہاں۔ یاد آیا میں ٹھیک ہوں۔ میں بھی آپکو یاد کرتا ہوں ۔
اور عبداﷲ نے کوئی 10منٹ بات کی۔
فون رکھا تو احساس ہوا کہ کئی جملے نا منا سب تھے اور اسے کسی بھی طرح اُسلڑکی کے جذبات کو سراہنا نہ چاہئے تھا۔
پرفیکٹ رمضان کا بُت دھڑام سے زمیں پر آگرا۔ ایسیندامت ہوئی کہ عبداﷲ کو بخار چڑھ گیا اور اگلے روز روزہ بھی نہ رکھ سکا۔ جس کا اُسے شدید افسوس رہا۔
آج اعتکاف کا دن تھا، عصر کے بعد مسجد پہنچناتھا مگر عبداﷲ ہسپتال میں 104بخار میں تپ رہا تھا۔ ظہر کے بعد عبداﷲ نے بمشکل تمام اپنے ہاتھ اُٹھائے اور دعا مانگی۔
“اے اﷲ! اے میر ے مالک۔ غلطی ہوگئی میں کسی کام کا نہیں ہوں معا ف کر دے۔ امریکہ میں Wedding Crashers بہت ہوتے ہیں۔ بن بلائے مہمان مجھے بھی Etkaf Crasher کے طور پرہی بلالے۔
میرا بخار اتار دے۔ جہا ں اتنے سارے نیک لوگ آئیں گے وہا ں اس بدکار کو بھی بلالے۔ مثال کے طور پر کہ لوگ مجھ کو دیکھ کے کہہ سکیں گے کہ ایسے لوگوں کو اﷲ نہیں بلاتا۔ میرے مالک شادی میں لوگ فقیروں کو بھی کھانا کھلادیتے ہیں۔ تو اس فقیر کو بھی بلالے۔ معاف کر دے میرے مولا ! اب نہیں کروں گا”۔
عصر سے کچھ پہلے عبداﷲکا بخار ٹوٹ گیا اور عبداﷲ آخری منٹ پر مسجد پہنچ گیا۔
مسجد میں ناموں کا اندراج ہورہا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں کسی سے Contact کیا جاسکے۔ عبداﷲ نے ڈر کے مارے اپنا جعلی نام لکھوا دیا کہ کہیں نام کی وجہ سے اعتکاف سے ہی نہ نکالا جائے۔ ویسے بھی وہ اعتکاف کریشرہی تو تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج رات بڑی بھاری گزری، گناہوں کی کسک بار بار ہچکولے لیتی اورعبداﷲ کو اپنی ذات سے نفرت ہورہی تھی۔ مفتی صاحب سے فجر کے بعد تنہائی میں بات کرنے کا موقع ملا تو عبداﷲ نے جاکے سب کچھ بیان کردیا۔
کہ کیا کالے کرتوت کرکے یہاں چلا آیا ہے۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں اُس کے اعمال کی نحوست کی سزا میں اﷲ تعالیٰ اُس سے مفتی صاحب کا ساتھ بھی نہ چھین لیں۔ وہ ایک بار پھر کنویں سے پیاسا نہیں لوٹنا چا ہتاتھا۔ مفتی صاحب نے تمام بات سنی اور کہا سو جاؤ عبداﷲ، کوئی بات نہیں، ہوتا ہے، چلتا ہے۔ اﷲ معاف کرنے والا ہے۔
عبداﷲ سونے لیٹ گیا مگر یہ دعا مانگتے مانگتے۔۔۔
’’اے میرے اﷲ! میں آج تیری حِس مزاح کا قائل ہو گیا ہوں، تو ہی نیکیاں کرواتا ہے۔ تو ہی گناہ کرواتا ہے۔ تاکہ شاید میں بندہ بن کے رہوں۔ تو مجھے آسانی والا راستہ دے۔ مجھ پہ کرم کر میر ے مالک!‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ سوکے اُٹھا تو کافی فریش تھا اور ایک عجیب سی خوشی کا احساس بھی۔ خوشی اِس بات کی اپنی ذات کا جو بت وہ پچھلے 35 سالوں سے اُٹھائے پھر رہا تھا وہ چکنا چُور ہو گیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ ’’میں‘‘ تو نکلتی نہیں زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر وہ آج اس بات کا قائل ہو گیا تھا کہ جو نیکی دعویٰ پیدا کرے اس سے وہ گنا ہ بہت بہتر ہے جو توڑکے رکھ دے اور آج بِلّوکی بات بھی سمجھ میں آگئی کہ گناہ بھی اﷲ کی نعمت ہوتے ہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
طبیعت سنبھلی تو وہ مفتی صاحب کے پاس جاکے بیٹھ گیا جو لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ
’’گناہ کرنے سے زندگی کم ہو جاتی ہے اور وقت سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ خصو صََا جس جگہ سے اﷲ رزق دیتا ہے وہاں گناہ کرے گا تو شاید روزی بڑھ جائے مگر برکت نہیں رہے گی۔‘‘
عبداﷲ کووہ تمام فلمیں گانے یا د آئے جو اُس نے اپنے لیپ ٹاپ پر دیکھے تھے۔ وہ لیپ ٹاپ کی ہی مدد سے تو رزق کماتا ہے۔ اُس کا سرندامت سے جھک گیا۔ اُس نے جھٹ سوال کر دیا۔
مفتی صاحب : ندامت کی انتہا کیا ہے؟
’’چھوڑدے اُس کام کو جس سے ندامت ہورہی ہے۔ ایک دن مرنا ہے، اﷲکا سامنا کرنا ہے کیا جواب دے گا۔ چاہئے کہ بندہ بن کر رہے۔‘‘
مفتی صاحب، ایک بات اور، میں عمرے پہ گیا، نہ مجھے رونا آیا نہ ہی کوئی کیفیت گزری تو کیا میرا دِل اِتنا سیاہ ہوگیا ہے۔
“ڈاکٹر صاحب، اصل عبادت ہے، کیفیت نہیں۔ اﷲ تک پہنچنے کی دو را ہیں ہیں ۔ ولایت کی ا ور نبوّت والی، ولایت والی راہ بڑی متاثر کن ہے۔
کمالات، معجرات، منزلیں سلوک مگر یہ خطر ناک بھی بہت ہے، بڑی گھاٹیاں ہیں۔ دوسری نبوت کی ہے سیدھی سادھی۔ بندے کو بندہ بن کے رہنا چاہیے۔”
مفتی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی
ایمان کی 4 stages ہیں۔
1۔ صحیح عقیدہ
2 ۔ صحیح علم
3۔ صحیح عمل
4۔ اخلاص
عبداﷲ کافی دیر تک اِن باتوں پر سوچتا رہا کہ ،نہ تو اُس کا عقیدہ ہی صحیح ہے ،علم پاس ہے نہیں، عمل وہ کرتا نہیں اور اخلاص میں اپنی ذات کو ہی پوجتا ہے۔
وہ اٹھ کر نماز پڑھنے چلا گیا کہ کچھ دل ہلکاہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نما ز پڑھ کے عبداﷲ نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔
“اے ا ﷲ، لوگ تجھ سے اپنی نیکیوں کا واسطہ دے کر معافی مانگتے ہیں۔ میرے پاس تو نیکیاں ہیں کوئی نہیں۔ میں تجھ سے اپنے گناہوں کے صدقے معافی مانگتا ہوں۔ اے اﷲ تو ہی تو وہ ذات ہے جو میرے اور میرے نفس کے درمیان حائل ہونے پر قادر ہے۔ اے میرے مالک تیری شان کی قسم میں تو آج تک کسی گناہ سے لطف تک نہ اُٹھا سکا۔ گناہ سے پہلے بھی تیرا خیال گناہ کے بیچ میں بھی تیرا ڈر اور گنا ہ کے بعد بھی تیرا خوف۔ اے میرے مالک تو کیا کرے گا مجھے عذاب دے کر، میں تیرا شکرادا کرتا ہوں اور صرف تجھی پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے ٹوٹے ہوئے بے لطف گناہوں کے صدقے مجھے معاف کر دے۔ اے میرے مالک صلاحیت اظہار کی طلبگار ہوتی ہے۔ تیری رحمت کی شان ہے تُو مجھ جیسے گناہ گارکو بخشش دے میں تمام عُمر تجھے یادر کھوں گا، اپنی بے قیمت نیکیوں میں، اپنے ادھورے گناہوں میں اور اپنی تڑپتی دعاؤں میں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج اعتکاف کا دوسرا روز تھا اور عبداﷲ پہلے روز کی نسبت کافی بہتر محسوس کررہا تھا۔ کئی ایک سوال تھے جو اس کے دِل و دماغ پہ چھائے ہوئے تھے۔
۔ یہ گناہوں کی عادت ختم کیو ں نہیں ہوتیِ؟
۔ کیا مال و دولت کمانا بُری بات ہے؟
۔ اخلاقیات کا حل کیا ہے؟
۔ کیا گارنٹی ہے اس بات کی کہ اﷲ دے گا؟
۔ اِس تلخ معاشرے میں گزار ہ کیسے ہو؟
۔ بندہ اﷲ کی راہ میں محنت کرتا رہے وہ بے نیاز ہے اس نے پروا ہ نہ کی اور ضائع کر دی تو؟
عبداﷲ مسجد میں بیٹھا لوگوں کو ذکر و اذ کار میں مصروف دیکھ کے، قرآن شریف پڑھتے دیکھ کے بڑا اداس ہورہا تھا کہ ایک یہ ہیں کہ مزے سے عبادت کررہے ہیں۔ جنت خرید رہے ہیں اور ایک میں کہ سوالوں کی ایک فصل کا ٹوں تو دوسری پک کے تیار۔
کچھ ہی دیر میں اسے مفتی صاحب ایک کونے میں بیٹھے نظر آگئے۔ وہ سیدھا ان کے پاس گیا اور ایک ہی سانس میں سارے سوالات کر ڈالے، مفتی صاحب نے ہمیشہ کی طرح عبداﷲ کو دیکھ کے مسکرائے اور گویا ہوئے۔
’’گناہوں کی خوا ہش کا ہونا بہت کام کی چیز ہے۔ یہ اُپلے ہوتے ہیں۔ گندگی ہوتی ہے، اُسے اﷲ کی خوف کی یاد میں جلاؤ اور ترقی کرو۔ گناہ سرکش گھوڑے ہوتے ہیں انھیں رام کرو اور آگے بڑھو، جب خلا میں راکٹ جاتا ہے تو اضافی چیزیں پھینک دیتا ہے بندہ جب معر فتِ الٰہی کے سفر پہ جاتا ہے تو اُسے بھی اضافی چیزیں پھینک دینی چاہئیں۔‘‘
آدمی کو استغفار کرتے رہنا چاہئے، استغفار بھی اﷲ تک پہنچنے کا ایک راستہ ہی توہے۔
اور پیسہ کمانے میں کیا عیب ہے۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا : پیسہ /دولت کیا ہی ا چھی چیز ہے جب کسی ایما ن والے کے ہاتھ میں ہو۔ اِس سے اِدارے بنائیں، لوگوں کو آسانیاں پہنچائیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے جو خرچ کرے گا اﷲ اس کا مال بڑھادے گا اور جو معاف کرے گا اﷲ اسکی عزت بڑھادے گا۔
اور اخلاقیات کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ بندہ جھوٹ نہ بولے۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ ٗکو نصیحت کی تھی کہ زندگی بھر سچ بولو انتہائی غصے میں بھی اور شدید خوشی میں بھی۔
اور اﷲ کی طلب کا ہونا بذاتِ خود گارنٹی ہے کہ اﷲ نے ملنا ہے۔ نیکی کا اجر 10گنا ہے کم از کم۔ اب طلب بھی تو نیکی ہوئی نا۔ اﷲ اپنے بندوں کو ضرور رزق دیتے ہیں۔
اوراﷲ اپنے نیک بندوں کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ تین میں سے ایک کام ہوتا ہے۔
یا تو زندگی میں ہی اﷲ ان کے جانشین تیار کردیتے ہیں جیسے رسول پاک صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ ہوا یا کوئی اور بندہ کہیں سے آجاتا ہے اس کے متبادل کے طور پر۔ وہ اِس عرصہ میں کہیں اور تیارہورہا ہوتا ہے۔ یا اﷲ اسکے کام کوبچاکے ر کھ لیتا ہے اور جب کوئی اہل آتا ہے تو وہ وراثت ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم ؑ کی نبی پاک ﷺ کو۔
اور معاشرے کو نہ دیکھیں۔ یہ دیکھیں آپ کیا کر رہے ہیں۔ مثبت سوچ سے کام کریں، منفی سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ آدمی مثبت کی طرف پیش قدمی سے رک جاتا ہے۔ شہد کی مکھی کی طر ح کام کرنا چاہئے جوکڑواپی کے لوگو ں کو میٹھا شہد دیتی ہے۔
عبداﷲکو اِ ن جوابات سے بڑی تسکین ملِی وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو نہ تو کوئی بڑا عہدہ رکھتے ہیں دنیاوی نظروں میں، نہ ہی مال، نہ ہی کوئی زیادہ لوگ انھیں جانتے ہیں۔ مگر دلوں کی بیماریوں کا کیسا شافی اور مکمل جواب ہوتا ہے اِن کے پاس۔
عبداﷲ کو اپنے آپ پہ بھی حیرت ہوئی کہ ایسا کیا کیا ہے کہ اِن جیسے لوگو ں کی صحبت نصیب ہوئی۔ نہ تو اس کے اعمال اس قابل ہیں نہ ہی کوئی مراقبہ، مجاہدہ یا رِیاضت۔ کوئی بھی تو میل نہیں۔ ہاں البتہ ایسے لوگو ں کا ملنا اس کی پریشانیوں، سوالات اور رونے پیٹنے کا نتیجہ ضرور ہوسکتا ہے۔ آج اسے ’’طلب‘‘ کی قدر وقیمت کا اندازہ ہوا اور معلوم ہوا کہ جب شاگرد تیار ہوتا ہے تو اُستاد خود بخود آ جاتا ہے۔
اظہارِ تشکّرمیں عبداﷲ کے ہاتھ پھر بلند ہوئے۔
“اے میرے رب۔ دھو ڈال میرے گناہ با لکل اِسی طرح جیسے میں نے دھو ڈالا ہے یہ خیال کہ میں نے کبھی تیری عبادت کی ہے۔ معاف کردے نفس کے غلام کو میرے آقا۔ محبت کو رسوا کروا دینے والے رب کہ صرف تیری محبت باقی بچتی ہے اور سب فنا ہو جاتی ہیں ،مجھ سے محبت کر۔ آمجھے اپنا بنا لے کہ میں خود کا بھی نہ رہوں۔ مجھے لکھ دے میرے مالک، مجھے رنگ دے میرے مالک۔ میں تیرا منتظر رہوں گا۔ کمزور لوگوں کی محبت بہت مضبوط ہوتی ہے میرے اﷲ کہ ان کو بچھڑ جانے کا ،پٹ جانے کا دھڑ کا سا لگا رہتاہے۔ مَن جا میرے ربا۔۔۔ مَن جا میرے ربا۔۔۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اعتکاف یوں ہی گزرتا چلاگیا۔ عبداﷲکے پاس روز سوالوں کی ایک لسٹ ہوتی اور مفتی صاحب روز جوابوں سے مطمئن کرتے رہے۔ سب لوگ عبداﷲ کی بحث و تکرار سے تنگ تھے سوائے ایک مفتی صاحب کے نہ کبھی ٹوکا، نہ کبھی جھٹکا، کتنا ہی واہیات اور چبھتا ہواسوال ہو انہوں نے ہمیشہ کی طرح خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج 27 ویں شب تھی اور عبداﷲ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ پریشان تھا کہ کہیں طاق راتوں میں بھی وہ بغیر بخشے نہ رہ جائے۔ سوالات کی فصل پھر تیار کھڑی تھی۔ تراویح سے فارغ ہو کر اس نے اﷲ سے دعا مانگی۔۔”اے اﷲ، اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے اﷲ ،اے آسمانوں اور زمینوں کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والے اﷲ، جن چیزوں میں لوگ بحِث کرتے ہیں ان میں مجھے صحیح راہ پہ چلا۔”
سب لوگ مفتی صاحب کے گرد گھیراڈالے بیٹھے تھے۔ عبداﷲ سب کو پھلانگتا ہوا ان کے سامنے جا بیٹھا۔ ویسے تو ہمیشہ اُسے بیعت سے الجھن ہی رہی مگر آج نجانے کیوں اس کا دل بہت چاہ رہا تھا کہ وہ مفتی صاحب سے بیعت ہو جائے۔ تقریباََ 3سال کا عرصہ ہو گیا تھا ان کے پاس آتے جاتے۔ عبداﷲ نے اِشارۃََ کئی بار مفتی صاحب سے اپنی خواہش ظاہر کی مگرانھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہ بے اعتنائی اور تجاہِلِ عارِ فانہ عبداﷲ کو بہت گراں گزرا۔
مفتی صاحب لوگوں کو ایما ن و یقین کی باتیں بتارہے تھے مگر عبداﷲ کا دل کہیں اور تھا۔
“یہ مفتی صاحب بات کیوں نہیں سمجھتے۔ اے اﷲ میاں، یہ مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ بیعت کریں کہ میں تیری راہ پہ چل سکوں کہ میں تجھے پاسکوں۔ کہ میں تجھے ڈھو نڈ سکوں، بلکہ یہ چاھتے ہی نہیں ہیں کہ تو مجھے ملے”۔ اور عبداﷲ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ جسے اس نے بڑی مشکل سے چھپایا۔
تمہارے بعد میرے زخم نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
محفل برخاست ہوئی، عبداﷲ ابھی اٹھ کے جانے ہی لگا تھاکہ مفتی صاحب نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ بولیں۔
“میں ایمان لایا”
عبداﷲ کی زبان گنگ ہوگئی۔ مفتی صاحب نے جملہ دہر ایا۔ عبداﷲ پھر خاموش، تیسری بارجملہ دہرایا تو عبداﷲ کی زبان سے بمشکل نکلا۔
“میں ایمان لایا” مفتی صاحب نے بات جاری رکھی،
“اﷲ تعالیٰ پر، اسکے رسولوں علھیم السلام پر، اس کی کتابوں پر، تقدیر پر کہ خیروشر دونوں اﷲ کی طرف سے ہے۔ قبر کا عذاب بر حق ہے اور قیامت میں اﷲ کے یہاں زندگی برحق ہے۔ میں اُن تمام عقائد پر ایمان لاتا ہوں جو عقیدہ اہلِ سنت وا لجماعت کا ہے۔ اور اِسی عقیدے کے مطابق ،میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اِن کی قبِر مبارک میں زندہ مانتا ہوں اور یزید کو فاسق جانتاہوں۔ یا اﷲ مجھے اہلِ سنت کے عقیدے پہ قائم کر۔ اِسی پہ موت دے اور قیامت میں اسی عقیدے کے بزرگوں کے ساتھ حشر فرما۔
توبہ کی میں نے ان تمام گناہوں سے جو زندگی میں مجھ سے سرزدہو ئے، وہ گناہ جو لوگوں کے سامنے ہوئے اور جو تنہا ئی میں ہوئے، بڑے اور چھوٹے،اور وہ گناہ جو میں نے جان بوجھ کر کیے اور وہ جو نادانستہ ہوئے۔
اﷲ میں تو بہ کرتا ہوں۔ جھوٹ سے، کِبرسے، تیری نافرمانی سے، غصے کی زیادتی سے،لوگوں کو دھوکا دینے سے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے سے، یا اﷲ میری توبہ قبول فرما، اے اﷲ میری توبہ کو قبول فرما اور اے اﷲ اس توبہ کو ایسا قبول فرما جو مجھے دھو دے۔
بیعت کی میں نے حضرت رسالت پناہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر، اُن کے تمام خلفاء کے ذریعے، اور بیعت کی میں نے تمام بزرگوں کے ہاتھ پر جن کا سلسلہ اور سندمفتی صاحب تک پہنچا۔ اور بیعت کی میں نے حضرت مولاناا بولحسن علی ندوی کے ہاتھ پہ مفتی صاحب کے واسطے سے۔ بیعت کی میں نے اولیاء اﷲ کے تمام سلا سل میں یا اﷲ۔
اس بیعت کو میرے تزکیے کا سبب بنا اور مجھے معرفت اور حقیقی مغفرت نصیب فرما ! ‘‘
عبداﷲ نے بڑی مشکل سے روروکر الفاظ دھرائے اور بیعت کے بعد سیدھا مسجد کی چھت پر چلاگیا۔ عبداﷲ دیر تک سجدے میں پڑا اپنے اﷲ کا شکرادا کرتا رہا جس نے اس کی وہ دعا بھی سن لی جو دل میں تو آئی مگر زبان سے ادا نہیں ہوئی تھی۔
عبداﷲ نے ڈاکٹر رمضان کے لئے بھی خوب دعا مانگی جنھوں نے مفتی صاحب سے ملوایا تھا اور اگلے روز جاکے مفتی صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اعتکاف کے دس دنوں میں جو ایک بات عبد اﷲکو اچھی طرح سمجھ میں آگئی وہ یہ تھی کہ اپنے آپ پہ کام کرناہے۔ مفتی صاحب نے بتایا تھا کہ بندہ 40دن تک عبادت کرے خلوص کے ساتھ تو اﷲ اسکی زبان سے حکمت کے چشمے جاری کرتا ہے۔ مفتی صاحب نے ایک ذکر بھی بتایا کرنے کو کہ صبح و شام کچھ وقت پابندی سے نکال کے سانس کے ساتھ لا اِ لٰہ اِلاّ ﷲ پڑھا کرو، سانس باہر جائے تو لا اِ لٰہ ۔ اندر آئے تواِلاّﷲ۔