آج کل مینٹرز رکھنے اور بننے کا شوق اپنے عروج پر ہے، ہر طالب علم چاہتا ہے کہ کوئی دس بارہ آدمی اس کی زندگی میں ایسے ہوں جنہیں وہ فخریہ طور پر اپنا مینٹربتا سکے اور لوگوں پر رعب جھاڑ سکے کہ اتنے بڑے بڑے لوگ اس کے مینٹرزہیں، چاہے وہ مینٹرزحضرات زندگی میں کبھی اس کے لیئے پندرہ منٹ کا وقت تک نہ نکال سکیں، چلیں طالب علموں اور کچّی عمروں کے بچوں کا یہ شوق و ذوق تو سمجھ میں آتا ہے مگر جو دوسری قسم پروان چڑھ رہی ہے جسے مینٹربننے کا شوق ہے اُس سے اللہ بچائے۔
لاحول ولا قوۃ ، عمر میں اتنے سال نہیں جتنے طالب علموں کے مینٹربننے کی ذمّہ داری لے رکھی ہے، گیڈر کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، آدمی کی ترقّی و عروج کی جب موت آئی ہو تو اسے مینٹرنگ کا شوق چڑھ جاتا ہے۔ انسانی اخلاق میں رذیل ترین صفت کسی کا مینٹربننے کا شوق ہے۔
آپ نے زندگی میں کبھی لاکھ روپے نہیں کمائے بزنس سے اور آپ بیس سے زائد اسٹارٹ اپس کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں ہیں، آپ کی داڑھی نکلے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور آپ لوگوں کو اللہ سے ملوانے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں، آپ کو گناہ کی الف ب بھی نہیں پتہ اور اعلان ا س بات کا کہ گناہوں سے بچے ہوئے ہیں۔ صالح بننے سے پہلے مصلح بننے کا شوق ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص بیٹا بننے سے پہلے باپ بننا چاہے اور کسی کومینٹربنانے کے بھی آداب ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ ملاقات پر درجنوں سوال پوچھ لیں اور دو دن بات جواب تو درکنار سوال تک یاد نہ ہوں کہ وہ کیا پوچھے تھے۔
مینٹرایک اچھا استاد ہوتا ہے، جس کو آپ کی زندگی، سوچ، ذہنی تغیّرات کا پتہ ہوتا ہے اور وہ آپ کی سچوئیشن کو دیکھتے ہوئے، اپنے علم ، تجربے اور اللہ سے دعا کی بنیاد پر آپ کو کچھ مشورہ دے دیتا ہے، جو علم بغیر ذکر کے پروان چڑھاوہ بھی اندھیرا ہے اور جو ذکر بغیر علم کے فروغ پایا وہ بھی۔
ایک اچھا استاد نلکے کی مانند ہوتا ہے، مثال کے طور پر شدید گرمی میں، تپتی دھوپ میں آپ ایک نلکا کھولیں اور ٹھنڈا پانی پینے کو میسّر آجائے تو آپ کے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ بھلا کرے، اگر نلکے کی زبان ہوتی تو آپ کا شکریہ ادا کرتی کہ آپ نے اس گرمی میں اسے کھولا، ورنہ وہ یونہی تپتا رہتا، حتیٰ کہ کائی جم جاتی اور کاٹ کر پھینک دیا جاتا، وہ تو آپ کی برکت سے اس میں سے بھی کوئی پانی گزر گیا۔
اسی طرح ہر طالب علم اپنا رزق لے کر آتا ہے، یہ اس کی طلب ہے جو پانی کھینچتی ہے ٹنکی میں سے، نلکے کو اترانا نہیں چاہیے، اگر مانگنے والے ہاتھ نہ رہیں تو دینے والے کا مصرف نہیں بچتا۔بس اللہ سے مانگتا رہے، جیسے پیٹرول، پیسہ خرچ ہوجاتا ہے اسی طرح روحانیّت بھی خرچ ہوجایا کرتی ہے. آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ آپ کو کنزیوم کر لیتے ہیں، بندے کو چاہیے کہ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے کنیکٹ ہو کر چارج ہوجایا کرے۔
کسی شخص کومینٹربنانے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں:۔
۱۔ تربیّت کہاں سے ہوئی ہے؟ اس کے پیچھے کون سا ٹیچر ہے؟ خود سے اس فیلڈ میں پختگی نہیں آتی، پڑھا کہاں سے ہے، شاہ ولیّ اللہؒ ؒ کہتے ہیں کہ دلّی کے مردوں کا فیض، دلّی کے زندوں سے زیادہ ہے مگر کیا کریں تربیّت کے لیئے زندوں سے کنیکٹ ہونا ہی پڑتا ہے۔
۲۔ تقویٰ اور ذکر سے واسطہ ہو۔
۳۔ علم دوست آدمی ہو، کتابیں پڑھتا ہو، آس پاس میں موجود معاشرے کا اِدراک ہو۔
ایسے لوگ اب نایاب ہو گئے ہیں، تلاش جاری رکھیں۔ باقی بچے آپ اور میں تو ہمیں تومینٹرزبننے سے یونہی ڈرنا چاہیے جیسے بکری بھیڑیے سے