اللہ بخش چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، کچھ کُند ذہن تھا اور کچھ کام سے جِی چُراتا تھا تو والدین نے سوچا کہ دنیا کے تو کسی کام کا ہونے سے رہا تو کیوں نہ راہِ خُدا میں لگا کر آخرت کا کچھ سامان کر لیا جائے۔ اور یوں اللہ بخش کو مدرسے میں ‘‘جمع’’ کروا دیا گیا کہ بوقت ضرورت کیش کیا جا سکے۔
گاؤں کے سارے لوگ اللہ بخش کو ‘‘اللہ بخشے’’ پُکارنے لگے کہ نام کا نام اور ساتھ میں دعا بھی دی جا سکے۔ کبھی کبھی نادانیوں کی جِست اُس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ اہلِ خِرد تمنّا ہی کر سکیں۔ بھولے بادشاہوں کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ جب پُکار دعا بن جائے یا دعا پکار کا روپ دھارلے تو آدمی مستجاب الداعوات ہو جاتا ہے۔
اللہ بخشے کو مولوی صاحب بنتے دیر نہ لگی۔ گاؤں کے وڈیروں کو جب اپنی رنگینیوں کی سنگینی کا احساس ہوتا تو وہ پچھتاوے میں خُدا کے نام پر بہت سا چندہ دے دیتے اور یوں گاہے بگاہے مدرسہ چلتا رہتا۔ پتہ نہیں مخلوقِ خدا کا خانہ برباد کرکے خانہ خدا آباد کرنے سے کیا ملتا ہے؟ اور گانے والی راتوں کا خمیازہ گانے والی نیکیوں سے (جنہیں گا گا کر لوگوں میں بیان کیا جا سکے) کیونکر پورا ہو؟
ایک دِن اللہ بخشے مولوی صاحب نے فحاشی اور ناچ گانے کے خلاف ایک خطبہ دے دیا تو اس کی پاداش میں گائوں بدر قرار پائے۔
ایک بیوی، دو کم سن بچے اور بیروزگار مولوی صاحب وہ بھی ایک اجنبی شہر میں۔ کچھ دنوں کی فاقہ مستیوں کے بعد ایک پوش علاقے میں زیرِتعمیر مسجد میں اِمامت کی جگہ پائی اور محلہ کی مسجد کمیٹی نے تنخواہ مقرر کی چھ ہزار سات سو روپے اور مسجد سے متصل ایک کمرہ نما گھر۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
امیروں کا علاقہ، امیروں کے بچے، امیر نمازی اور امیر ماحول میں مولوی صاحب واحد ٹاٹ کا پیوند تھے۔ ہر شخص مسجد کے آرائش و تزئین کا خواہاں اور کھلے دِل سے پیسہ لگانے کو تیار، مسجد کمیٹی کے ممبر (جو کہ ایک ریٹائرڈ میجر صاحب تھے) نے تو اپنا مستقل ٹھکانہ ہی جیسے مسجد کو بنا لیا تھا، ہر وقت مسجد کے کاموں میں جیسے زندگی تِیاگ دی تھی، پتہ نہیں جوانی کے کارنامے تھے جِن کی گونج سے قرار مسجد میں ملتا تھا یا شاید عمر کے ساتھ ساتھ ہر طلب ڈھل جاتی ہے، سوائے اللہ کی طلب کے اور یہ آگ ان کوئلوں میں بھی سلگتی ہے جو جلنے کے قابل بھی نہ رہیں۔
جہاں مسجد میں پیسوں اور عطیات کی ریل پیل ہو رہی تھی وہاں مولوی صاحب کو کھانے کے لالے پڑے رہتے۔ تنخواہ تھی ہی کتنی؟ غریب کی تنخواہ تو سوچنے میں ہی خرچ ہو جاتی ہے، خرچ کرنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے۔ مولوی صاحب دِن رات مالی پریشانیوں میں گھِرے رہتے اور نمازیوں کا فرمائشی پروگرام ختم نہیں ہوتا۔ میجر صاحب چاہتے کہ وہ ان کی ‘‘معرکۃ الآرا’’ تفسیر میں عربی کے کچھ جملے ڈال دیں، تو وِلایت پلٹ نمازی صاحب انہیں غاروں کے دور سے نکل کر انگزیزی پڑھنے کا مشورہ دیتے، بیکری والے منیجر صاحب دورانِ نماز بچوں کے رونے کی آواز پر ٹوکتے، تو بینکر صاحب ظہر کی نماز مختصر کرنے پر زور دیتے۔
ایک آدھ بار مولوی صاحب نے مسجد کمیٹی میں تنخواہ کا مسئلہ اُٹھایا تو لوگوں نے صبر، قناعت اور آخرت پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا۔ ایک صاحب نے خدا ترسی کے ناطے اپنے گھر پر بچوں کو قرآن پڑھانے رکھ لیا مگر یہ سلسلہ بھی چل نہ سکا، کہ کبھی بچوں کے امتحان ہوتے تو کبھی فیلڈ ٹِرپ ، کبھی گھر میں ایسے مہمان ہوتے کہ مولوی صاحب کا داخلہ ممنوع ہو جاتا تو کبھی بچے کھیل کھیل کر تھک گئے ہوتے۔ ہزار روپے ماہوار پہ نورانی قاعدہ پڑھانے والوں کی نظر میں لاکھ روپے ماہانہ اسکول فیس اور انگزیزی لٹریچر کی وقعت اور موازنہ تو صاف ظاہر تھا۔
ایک صاحب جن کا فلم کی ڈی وی ڈیز کا کاروبار تھا ایک عرصے سے مولوی صاحب سے کہہ رہے تھے کہ آپ دو وقت کا کھانا ہمارے گھر سے لے جایا کریں مگر مولوی صاحب کو تو حلال و حرام کے فلسفوں سے فرصت ملے تو کچھ سوچیں نا۔ ایک دن پیٹ کا پتھر دِل پر رکھ کر ہاتھ میں جِست کا ٹفن اٹھائے وہ مووی والی دکان کی اُپری منزل میں گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے۔
دروازہ کھُلتے ہی ایک فحش گانے کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
مولوی صاحب نے کانپتے ہاتھوں سے ٹِفن دروازہ کھولنے والی خاتون کے ہاتھ میں دِیا۔ جب تک وہ خدا کے نام پر کھانا ڈال کر واپس لاتیں خُدا کا بندہ جا چُکا تھا۔
اُس دن کے بعد سے مولوی صاحب یا اُن کے بیوی بچوں کو کسی نے نہیں دیکھا۔
اگلے روز مووی والے کی دُکان میں مسجد کا اشتہار لگا ہوا تھا۔
اِمام مسجد کی آسامی خالی ہے، شاندار تنخواہ اور دو وقت کا کھانا مفت۔
ضرورت مند حضرات نیچے دیئے گئے نمبر پر رابطہ کریں۔