ہمارے معاشرے میں جو ایک چیز سب سے زیادہ نمایاں اور منفرد ہے اور جس کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے وہ ہے یک طرفہ اخلاقیات۔ اس کا مطالبہ، اس پر حق اور اس کا ملنا معاشرے کا وہ اولین فرض بن چکا ہے جس کا متمنّی ہر شخص ہے۔ اس بلائے ناگہانی کا مظاہرہ آپ کو ہر روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ کسی یونیورسٹی میں پڑھانے چلے جائیں، کسی سے مالی لین دین کر لیں، کسی کو گھر کرایے پر دے دیں، کسی کا انٹرویو کرلیں، کسی کو نوکری دے دیں، کسی سے رشتہ داری یا دوستی کا تعلق قائم کر لیں یا بزنس پارٹنرشپ کر لیں۔
۲۱ کروڑ آبادی والے اس ملک میں ۱۴ کروڑ لوگ ۳۰ سال سے کم عمر کے ہیں اور ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے لوگوں کی تعداد تقریباً سوا چھ کڑور ہے۔ یہ سوا چھ کروڑ لوگ آپ سے روز اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جو کمی ان کی پرورش میں والدین کی غفلت، تعلیمی نظام کے انحطاط، استادوں کی لاپرواہی، یا وقت برباد کرنے کی قومی عادت نے رکھ چھوڑی ہے اس کا خمیازہ آپ بھگتیں۔ آپ کیوںکہ غلطی سے یا اتفاقاً “کامیاب” ہو گئے ہیں تو اب آپ انتہائی صلہ رحمی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی تمام باتیں، طعنے اور ناشائستگی برداشت کرتے ہوئے بس انہیں گائیڈ کرتے چلے جائیں۔ نہ صلے کی توقع، نہ مال و دولت کی حرص، نہ لائک اور کمنٹ کا مطالبہ، اور نہ ہی دعا کی امید۔
یہ سب گوارہ ہے مگر بدتمیزی وبداخلاقی کے بدلے “فائدہ” دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ آپ ماں بہن کی گالی بھی دیں، وقت بے وقت میسج اور کال بھی کر لیں اور سامنے والا بس آپ کے لئے حاضر رہے! یہ کہاں کا انصاف ہے؟
جتنی شائستگی، ادب و اخلاق آپ معاشرے سے اپنے لئے چاہتے ہیں اس کا نصف بھی معاشرے کو دے دیں تو کام بن جائے۔ اور اخلاقیات ہی کیا، ہر شعبے میں یہی حال ہے۔ لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں میں ۱۰ ہزار کا نوکر رکھنے کا ظرف نہیں ہوتا۔ باقی لوگوں سے گھنٹوں مانگنے والوں کے پاس کسی اور کو دینے کے لئے چند منٹ بھی نہیں ہوتے۔
قدرت کے اپنے اصول ہیں۔ یاد رکھئیے، جو شخص خرچ نہ کرے اس کے پاس جمع بھی نہیں ہوتا۔ دینا سیکھیں، پلٹ کر بہت آئے گا۔ وقت، مال، عزت، معافی، دعا، آنسو، التجاء، چپ، برداشت، صبر، حوصلہ، امید، گمان، سوچ، خواب، وارفتگی، اضطراب، کھوج، دید، اور تعلق یہ سب دینے والی ہی تو چیزیں ہیں۔ دیئے جائیں، واپس نہ آئیں تو مجھ سے رابطہ کر لیجیئے گا۔
اللہ بہت قدردان ہیں۔ آپ سورہ ابراہیم کی ۵۱ آیت دیکھیں: اللہ حساب میں بہت جلدی کرنے والے ہیں۔ آپ کی پر نیکی کا کریڈٹ آپکو ضرور ملے گا۔ کہیں سے بھی آپ کے پاس پہنچے گا ضرور۔
یہ دنیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہہ جیسے دل اور اولیاء کرام رحمتہ اللہ علیہ جیسے جگر اب نہیں ملتے۔ عزت دیں، علم حاصل کریں۔ ادب کے راستے کی واحد منزل عشق ہے اور علم وہ سواری ہے جس سے راستہ تیزی سے طے ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کے اخلاق درست فرمائیں۔ آمین!