لال بتی، سفید بتی، ہری بتی، پیلی بتی، پھر لال بتی اورمسلسل لال بتی۔ پھر لمبی خاموشی۔ پھر سب کی بتی اُن کے اپنے سر۔
انسانی زندگی میں رنگ برنگی بتیوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ٹریفک کے سگنل کی طرح کبھی کبھی زندگی لال بتی پر رک سی جاتی ہے۔ پیلی پر پھر سے انگڑائی لیتی ہے اور گرین پر چل پڑتی ہے۔ کوئی تو ہے جو سگنل چلا رہا ہے۔ سارے جذبات، سارے احساسات لگتا ہے کہ اپنا ایک رنگ رکھتے ہیں۔ لال بتی گناہ کی، ہری نیکی کی، پیلی توبہ کی، نیلی سوال کی، تو سفید زندگی ہے، کالی موت ہے۔ آسمانی آسمان کی۔ سُرمئی زمین کی اور ان دیکھی لوح و قلم کی۔
عبدللہ سوچا کرتا کہ کیسا لگتا اگر ہر گناہ پر انسانی سر میں ایک لال بتی جل جایا کرتی، اور ہری بتی نیکی پر۔ پورا دن چلتے پھرتے لال، ہرا، لال، ہرا ہوتا رہتا۔ کچھ ایسے بھی کہ ہرے بھرے رہتے تو کئی لعل ایسے کہ زندگی لال کر جائیں۔
نیکی اللہ سے قرب کی نشانی تو گناہ اس سے دوری کا نام۔ چھوٹے گناہ برقی لال قمقمے جو قطار کی شکل میں ہوں تو بڑوں کو مات کریں اور بڑے گناہ ہیلوجن کے ہزار وولٹ کے بلب جو گھر سمیت پورے محلے کو لال کر دیں۔
اورایک اللہ، کیا کہنے، وہ اِس بات سے بھی بےنیاز کہ کتنے لال اور کتنے ہرے، بخشنے پر آئے تو لال کو ہروں میں شمار کرلے، نہ دیکھے تو ہرے لال رہ جائیں۔ چاہے تو بغیر توبہ کے کبیرہ گناہ بخش دے چاہے تو بلاوجہ ثواب دے دے۔ چاہے تو قبول کر کے جلادے، چاہے تو بجھادے۔ بندوں کی ہدایت کے اتنے راستے جتنے ہم سانسیں لیتے ہیں ، کچھ نہیں پتہ بندا سوۓ کیا تو اٹھے کیا ، اور اٹھے کیا تو سوۓ کیا ، کوئی کیسے کسی کو جانچنے کی ہمّت کرے . اور کچھ پر ایسا کرم کے خواب میں سوال بھیج کر نیند سے اٹھادے ، اور پھر کسی کو ذریعہ بنا کر خواب میں ہی رہنمانی کردے .
کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی گناہ کا مصمم اِرادہ کرے، لال بتی جل جائے، پھر اس پر پوری قدرت رکھنے کا باوجود سوچے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ چھوڑ دیتے ہیں اور گناہ کا ارادہ ترک کر دے۔ تو اصولاً تو لال بتی بجھ جانی چاہئے تھی مگر عملاً ہری جل اٹھتی ہے۔ ہے کوئی کرم کا حساب۔ پہلے گناہ کا سوچا اور ارادہ کر لیا۔ پھر اسی گناہ کا سوچا اور ارادہ بدل دیا۔ نیکی تو بےچاری بیچ میں کہیں سے آئی ہی نہیں اور بلب ہرا جل گیا۔ واہ بھئی واہ۔
اور لال بتی ٹرک کے پیچھے بھی تو ہوتی ہے جس کے پیچھے ہم بھاگتے ہیں۔ اِس ٹرک کا نام دُنیا ہے۔ فرشتے دنیا کو دیکھتے ہونگے تو کتنی ساری لال بتیاں نظر آتی ہونگی۔ کہتے ہیں جو چیز اللہ کی یاد دلائے وہ بھی نیکی ہے [ہری بتی]، کوئی ایسے بھی خوش نصیب کہ آئینہ دیکھیں اور نیکی پا جائیں۔ کہ اپنا چہرہ نظر آئے تو سارے گناہ یاد
آجائیں۔ پھر اللہ سائیں سے ڈر جایئں اور اللہ کا ڈر بھی تو ہری بتی ہے۔
اور جو غیر مسلم ہوتے ہیں یہ بھی تو اللہ کے ہی بندے ہیں بس اِنھیں پتہ نہیں ہوتا۔ اتنی سی بات ہے. اگر خالی پلاٹ کو پتہ نہ ہو کہ مالک کون ہے تو اِس سے مالک کی ملکیت تبدیل تھوڑا ہی ہو جاتی ہے۔ جس کا ہے اُسی کا رہے گا۔
اگر قبر میں بھی یہ بتیاں جل جائیں تو؟ لال بتی، ہری بتی؟
“ریڈ لائٹ” ایریاز میں جانے والوں کو سوچنا ہی چاہیئے کہ اگر ایک ریڈ لائٹ [لال بتی] اُن کی قبر میں بھی جل گئی تو کیا ہو گا؟ جہنم کی آگ کی لال بتی۔ اور جسم بیچنا بھی بڑی خیانت کی بات ہے ، کبھی کوئی ادھار لی ہوئی چیز بھی بیچی جاتی ہے، اور جو بیچ رہا ہے اسکی تو چلو شاید کوئی مجبوری ہو ، جو خرید رہا ہے اسکی کونسی بتی جل گئی ہے ؟ عجیب معاشرہ ہے، جو بک جائے، اپنے آپکو انسانیت کے اس میعار پر روند ڈالے، اسکی تضحیق اور جو خریدار ہے اسکی بتیاں کسی کو نظر نہیں آتیں ؟ اور یوں تو ریڈ لائٹ ایریا والوں کے سر پر ایک لال بتی ہو گی۔ باقی تو شاید دو دو اٹھائے پھریں ایک گناہ کی، دوسری منافقت کی۔
عبدللہ ریڈ لائٹ ایریا کے بیچ بنی واحد مسجد میں (جسکی لائٹ بھی اتفاقاً لال ہی تھیں) بیٹھا سوچ رہا تھا کے ان دونوں عمارتوں کے لوگ صحیح کام نہیں کر رہے ، ورنہ کسی ایک کا تو وجود ختم ہوتا ، یا شاید یہ معاملہ یونہی چلتا ہوگا . پتہ نہیں کون سے اندھے ہوتے ہے جنہیں جسم بکتے نظر آتے ہیں ، عبدللہ کو تو ہر جگہ روح ہی بکتی نظر آتی ہے ، ڈھیر ساری لال بتیوں کے بیچ .
عبدللہ نے دعا کو ہاتھ اٹھاۓ ، اے مالک کل ، انہیں معاف کردے ، اے روشنیوں کے مالک اللہ، بخش دے ان کو جن کی بتیاں لال ہو گئیں اور ان کو بھی جنہوں نے لال بتیوں پر ہرا پلاسٹک چڑھا رکھا تھا ریاکاری کا، اور اُن کا خیال رکھ جو ہری بتیاں ہیں، جن پر دنیا نے لال رنگ پھینک دیا ہے تہمت کا، بہتان کا۔ حشر میں ڈھانپ لینا اِن بتّیوں کو اُن کے صدقے جو تیرے نام پر خاک ہوئے اور اپنا رنگ کھو بیٹھے۔ جو جلتے بھی تیرے لئے ہیں، بجھتے بھی تیرے لئے ہیں۔ اپنے حبیب رسالت پناہ حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے نور کے صدقے ہماری بتیاں ہری کر دے۔
آمین