آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) یا عرفِ عام میں اے۔آئی A.I کمپیوٹر سائنس کی سب سے دلچسپ برانچ ہے۔ A.I. میں آپ کمپیوٹرسائنس کے علاوہ نیورولوجی، ہیومن Behavior، سماعت، بصارت، حرکت، سائیکلوجی اور ایسی ہی دیگر شاخوں کے متعلق بھی پڑھتے ہیں۔
کیا کمپیوٹر خود سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے؟
کیا انھیں معلوم ہوگا کہ وہ کیا کررہے ہیں (Self-Awareness)؟
کیا وہ نئے اور پیچیدہ حالات میں خود سے فیصلہ کرسکیں گے؟
کیا کمپیوٹر اپنے آپکو خود ٹھیک کرسکیں گے؟
ایسے میں کیا وہ احکامات کی پابندی کریں گے، اخلاقیات اور معاشرتی ضابطوں کی پاسداری کریں گے؟
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات A.I. جاننے میں سرگرداں ہے۔
کمپیوٹر کا آواز کو سن کر لکھنا، Speech Recognition، تصویروں کو Match کرنا، شطرنج میں عالمی چیمپیئن کو شکست دینا، خودکار گاڑیاں چلانا، لوگوں کی آواز اور ویڈیو کی نقل بنانا، آیندہ ہونے والی خریداری اور گھاہک کے بارے میں پشین گوئی کرنا اور سیارہ مریخ پر زندگی کی تلاش جیسے کام کرنے کے بارے میں آپ رپورٹس پڑھ ہی چکیں ہونگے۔
امریکی فضائیہ میں شامل ‘ALTUS’ نامی طیارہ، ایک بار کمانڈ ملنے کے بعد hanger سے نکل کر خود بخود ٹیک آف کرتا ہے، مخصوص بنائی گئی جگہ کی وڈیو بناتا ہے اور پھر واپس اتر کر اپنے ہینگر میں چلا جاتا ہے اور یہ سارا کام بغیر کسی انسانی مدد کے کرتا ہے۔
نیو کلیئر پلانٹس، کیمیکل فیکٹریز اور اسے جیسے بہت سے کام جہاں انسانی زندگی کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے آج جدید ملکوں میں کمپیوٹر نے سر لئے ہوئے ہیں۔
آرٹی فیشل انٹیلیجنس A.I. کا نام امریکی کمپیوٹر سائنسدان جان منکار تھی نے ۱۹۵۶ میں متعارف کروایا۔ ان کے مطابق انسانی دماغ ایک پیچیدہ کمپیوٹر ہے، جو کہ اپنے Input devices کی ہواس خمسہ سے ہدایات اور ڈیٹا لے کر انھیں Process کرتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ اگر ہم انسان کے ہر ہر behavior کو اتنی باریکی سے سمجھ لیں کہ اسے کوڈ کیا جا سکے تو ہم مشینی دماغ بنا سکتے ہیں۔
یہاں Emerson Pugh کا ۱۹۷۷ کا مشہور زمانہ قول لکھنا چاہتا ہوں کہ
’’اگر انسانی دماغ اتنا سادہ ہوتا کہ اسے آسانی سے سمجھا جاسکے۔ تو ہم خود اتنے سادہ ہوتے کہ اسے نہ سمجھ سکتے۔‘‘
Intelligence:
یوں تو Intelligence یا ذہانت کی کوئی با ضابطہ تعریف نہیں ہے مگر کچھ behaviors ہیں جن کے لئے Intelligence چاہیے ہوتی ہے مثلاً منطق، دلیل، پیشن گوئی، ہمدردی اور نئے حالات میں فیصلہ کرنا۔
ٹیورنگ Test:
اب مثال کے طور پر کل کوئی پروگرامر دعوی کردے کہ اس نے ’’ذہین کمپیوٹر‘‘ بنا لیا ہے تو اس کے دعوے کو کیسے پرکھا جائے گا؟
اس سوال کا جواب ALAN Turing نے ۱۹۵۰ میں اپنی Turing Test تھیوری سے دیا۔
’’ایک آدمی سوالات پوچھے اور دیوار کے دوسری طرف سے ایک اور آدمی یا کمپیوٹر اسے جواب دیں اگر آدمی نہ بتا سکے کہ جواب دینے والاانسان یا کمپیوٹر ہے تو اسکا مطلب ہے کہ جواب دینے والا کمپیوٹر ’’ذہین‘‘ ہے۔‘‘
ٹیورنگ نے سن ۲۰۰۰ کی پیشن گوئی کی تھی کہ کمپیوٹر یہ Test پاس کر جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اسی Test کو پاس کرنے کی غرض سے ہر سال Loebner Prize مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ ۱۹۹۱ سے شروع ہوا ہے اور اسکا انعام ایک لاکھ ڈالر ہے۔ A.I. کا ایک مشہور سالانہ مقابلہ Robo Cup ہے جس میں کمپیوٹر Robots ایک دوسرے کے مخالف فٹ بال کھیلتے ہیں بغیر کسی انسان کے۔ RoboCup مقابلے کامقصد سن ۲۰۵۰ تک ایسے روبوٹس تیار کرنا ہیں جو Robo Cup 2050 میں امریکن ٹیم کو ہرا سکیں۔ یہ دونوں Challenges کافی مشکل ہیں مگر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بعد بھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکے گا کہ کیا واقعی کمپیوٹر ’’سوچنے‘‘ کے قابل ہوگیا ہے۔
چائینز روم:
۱۹۷۰ء میں A.I. کی شاخ نیچرل لینگویج پراسینگ کو استعمال کرتے ہوئے پروگرامز بنائے گئے جو کہ زبان کے اصول ، گرامر اور معنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے عام فہم سوالوں کے جوابات دے سکتے تھے مثلاََ: کمپیوٹر کو یہ کہانی دی جائے
’’اسلم ہوٹل میں گیا اور بریانی اور زردہ آرڈر کیا، بیرے نے بتایا کہ زردہ نہیں ہے تو اس نے ربڑی منگوالی، کھانے کے بعد اس کاموڈ بہت خراب تھا۔‘‘
اس اسٹوری کے بعد کمپیوٹر ان سوالات کے جوابات دے سکتا ہے:
• اسلم نے کیا کھایا؟
• اسلم نے زردہ کھایا یا نہیں؟
• اسلم نے ربڑی کیوں منگوائی؟
• اسلم کو کھانا پسند آیا یا نہیں؟
• وغیرہ وغیرہ
جہاں بہت سے سائنس دان ان پروگرامز کو ’’زہین کمپیوٹر‘‘ کی طرف ایک بڑی پیش رفت خیال کرتے ہیں وہیں امریکن فلسفی جان سیر لے John Searle اس سے انکاری ہیں۔
۱۹۸۰ میں اپنے ایک آرٹیکل ’’Mind, Brains and Programs‘‘ میں جان کا کہنا ہے کہ انسان زبان کو Syntax اور Semantics دو طرح سے Process کرنا ہے جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں تو ہم زبان کی گرامر کے علاوہ ہرہر واقعہ کو مختلف احساسات سے جوڑتے بھی چلے جاتے ہیں۔
جبکہ کمپیوٹر صرف Syntax سمجھتا ہے وہ بھی دیئے گئے کوڈ کے مطابق۔ اپنے اسی نظرئیے کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے چائینز روم کی تھیوری پیش کی۔
’’فرض کریں کہ آپ ایک کمرے میں بند ہیں جس میں ہر طرف الماریوں میں مختلف کارڈز پڑے ہوئے ہیں اور سب چائینز زبان میں لکھے ہوئے ہیں، یہ سب سوال و جواب ہیں۔ روم میں صرف ایک کھڑکی ہے، جس سے باہر لوگ جو کہ چائینز زبان جانتے ہیں، اپنے سوالات ایک کاڈ پر لکھ کر کھڑکی سے اندر ڈالتے ہیں، آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ملنے والے سوال کے Symbolsکو دیکھ کر ویسے ہی Symbols والا کارذ انھیں واپس کر دیں۔ یہ انکے سوال کا جواب ہوگا۔ اب باہر موجود لوگ سمجھ رہے ہونگے کہ آپکو Chinese آتی ہے جبکہ آپکو Chinese نہیں آتی۔‘‘
اسی طرح کمپیوٹر کے جوابات دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آپکی بات سمجھ رہا ہے، اور Turing ٹیسٹ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کمپیوٹر ذہین ہے۔ چائینز روم کی مخالفت میں بہت سی دلیلیں اور تصویریں دی گئیں، مثلاََ ایک تھیوری جو کہ Systems Reply کہلائی میں کہا گیا کہ روم، کارڈ، اور کارڈز کو پڑھنے اور جواب دینے کا طریقہ کار اجتماعی طور پر ’’ذہانت‘‘ کہلائے گا۔
دوسری مشہور تھیوری Connectionist Reply کہلائی جس میں کہا گیا کہ فرض کریں کمرے میں بہت سے آدمی اور ہر کوئی چائینز کے کچھ الفاظ یا جملے جانتا ہے، اب ہرہر شخص تو ذہین نہ ہوا مگر اجتماعی طور پر ’روم‘ کو چائینز آتی ہے۔
یہ بحث آج تک جاری ہے اور دونوں اطراف سے دلیلیں آتی رہتی ہیں، بہرحال اس تھیوری نے ۱۹۸۰ کی دہائی میں A.I. اور اس سے متعلق پراجیکٹس کو ملنے والی فنڈنگ تقریباََ ختم کرکے رکھ دی تھی۔
مارون منسکی Marvin Minsky کے بقول،
ــڈیجیٹل کمپیوٹر ہر چیز کی نقل کر سکتا ہے، اور سوچنے کی نقل ’سوچنا‘ ہوا۔‘‘
کیا انسانوں کی behavior کی نقل ہی ذہانت ہے جیسا کہ ٹیورنگ نے کہا یا اس کے لئے احساسات و جذبات کا ہونا ضروری ہے کہ جان سیرلے کا کہنا ہے۔ آرٹی فیشل انٹلی جینس کو سمجھنے کے لئے لفظ ’’آرٹی فیشل‘‘ (مصنوعی) پر غور کریں۔ مثلاً (Artificial Flavor)
’’مصنوعی ذائقہ‘‘۔
اب اگر ہم ایسی ہی ذہانت Intelligence بنا کر کمپیوٹر کو دے سکیں اور کمپیوٹر انسانوں کی طرح کام کرنے لگے تو یہ ذہین کمپیوٹر کہلائے گا۔
جان سیرلے کے مطابق یہ Strong A.I. ہے اور اسکا حصول ناممکن ہے، یہ آپکو صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی ملے گی۔
ہاں! اگر کمپیوٹر انسانوں کے کچھ behaviors کی نقل کر سکیں تو یہ ممکن ہے اور جان سیرلے اسے Weak A.I. کہتے ہیں۔
Weak A.I. کا مقصد کارآمد کمپیوٹر پروگرامز ہیں اور Strong A.I.کا مقصد ’خودکار دماغ‘ ہے اور پوری A.I. کمیونٹی ان دو گروپس میںبٹی ہوئی ہے۔
ـ
’’ـسوچنے‘‘ پہ سوچنا:
انسان بہت سی خصوخصیات کا حامل ہے اور اسکے ذہین ہونے میں مندرجہ ذیل خصوصیات اہم ہیں: سیکھنا، پرکھنا، یادداشت، جذبات و احساسات، اپنے بارے میں اور اردگرد موجود چیزوں کا شعور،consciousness، ارادہ اور سمجھنا۔
M.I.T. کے سائنسدانوں نے ایک انتہائی مہنگا کمپیوٹر ’’قسمت‘‘ بنایا ہے جو کہ مسکرانے، ناراض ہونے، خوشی اور غم کی عکاسی کرسکتا ہے یہ ایک آنکھوں اور ہونٹ والا روبوٹک چہرہ ہے۔
بہت سے یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ذہنMind کی وجہ سے ہوتاہے اور Mind انسانی دل میں ہوتا ہے مگر کچھ نے اسے دماغ Brain میں بتایا۔ پلاٹو اس میں سے ایک تھا۔ پلاٹو کا خیال تھا MindکاPhysical World سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۱۶ ویں صدی کا عظیم فرانسیسی فلاسفر اور ریاضی دان Rene’ Descartes بھی اسی نظرئیے کا قائل تھا اور یہ نظریہ Dualism کہلایا۔
Descartes نے ایک بھیڑ کی مدد سے ثابت کیا کہ جو کچھ بھی بھیڑ کی آنکھ دیکھتی ہے اس کا Image، Mind کو جاتا ہے اور وہ اس Image کو دیکھنے کے بعد اس کی تشریح کرتا ہے۔
۱۹ ویں صدی کے اوائل میں آسٹریا کے سائیکلوجسٹ Sigmund Freud فریڈ نے Mind کی اسٹڈی پر سائیکلوجی کی نئی شاخ کی بنیاد رکھی اور Intelligent Quotient (IQ) اور غیر شعوری خیالات اور خوابون کا نظریہ دیا ۔ فریڈ کی ـ’Unconcious Drives‘ پر ریسرچ ایک قابلِ قدر کام ہے۔
۱۹۳۰ میں نیورنز پر کام کی داغ بیل پڑی اور سائنسدانوں نے کھوج لگانی شروع کی کہ دماغ میں موجود لاکھوں Neurons کس طرح یاداشت، لرننگ اور Perception جیسے امور سر انجام دیتے ہیں۔
آج کل مصنوعی ذہانت نے روزمرہ نوکریوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق AI سن ٢٠٣٠ تک ٨ کروڑ نوکریاں انسانوں سے چھین کر کمپیوٹرز کے حوالے کر دیگی. اگر آپکو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بنا کوئی چارہ نہیں.