محبت ایک فطری جزبہ ہے جو انسان اور معاشرے کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شاید وہ واحد نعمت ہے جو انسان کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ملنی شروع ہو جاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد تک ملتی رہتی ہے۔ ماں باپ اپنے ہونے والے بچے کے لیئے کیا کچھ نہیں کرتے اور اولاد اپنے گزر جانے والے والدین کے لیئے کیسے کیسے ایصال و ثواب کراتی ہے، صحیح راہ پہ چلتے ہیں کہ کوئی طعنہ نہ دے کہ فلاں کے بچے کیا کر رہے ہیں۔
محبت نام ہے وفا کا، نبھانے کا، مان جانے کا، اطاعت کا، سر تسلیم خم کر دینے کا، سن لینے کا، آج کل کے دور میں تحفے تحائف کی اّڑ میں ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا جو دھندہ چل رہا ہے، اللہ ایسی محبت سے سب کو بچائے۔
محبت مبالغہ آرائی کے بغیر نہی رہ سکتی، ہوتی بھی ہمیشہ مادری زبان میں ہی ہے، جس زبان میں آپ دل کے حال کا اظہار نہ کر پائیں، دل لگی کا احساس نہ سمجھ پائیں اس زبان میں محبت اور اس زبان سے محبت بھلا کیسے ممکن ہے۔
عشق، محبت، الفت، پیار، دل لگی، پسند، جھیل، جھرنا، چاند، تارے اور نہ جانے کتنے ہی استعارے ایجاد ہو گئے مگر محبت والوں کو آج تک کسر محسوس ہوتی ہے کہ محبوب کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوا۔
بقول شاعر:-
ابھرا نہ تیرا نقش و خدوخال ابھی تک
تصویر تیری قرض ہے تصویر گروں پر
محبت وفا ہے، یہ دعوی کرتی ہے اور یہ دلیل چاہتی ہے، بے وفائی سے بڑا گناہ شاید کوئی نہیں، شرک بے وفائی ہی تو ہے کہ زبان سے معبود کسی اور کو مانا اور دل کی امیدیں کسی اور سے وابستہ ہیں۔
دل کے معبود جبینوں کے خداوں سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے
محبت ہر معراج پر پہنچ کر پیاسی رہ جاتی ہے، تھوڑی اور کی طلب اسے اعتدال کی ساری بندشوں سے آزاد کردیتی ہے، کتنا ہی اونچا مقام مل جائے۔ چاہنے والا ناچیز ہی رہتا ہے، اگر آپ کی محبت اصولوں، ضابطوں اور وقت کی پابندیوں کے ساتھ منسلک ہے تو ہزار بار سوچئیے کہ آیا محبت ہے بھی کہ نہیں۔
کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعوی انہیں بھی ہے
جو حّد اعتدال سے آگے نہ جا سکے
پتہ نہیں اللہ کے عزاب کی یہ کون سی شکل ہے کہ ہمارے معاشرے سے محبت ختم ہوتی جا رہی ہے، نہ باپ کو بچوں سے، نہ شوہر کو بیوی سے، نہ بندے کو اپنے رب سے، نہ شاگرد کو استاد سے، نہ مالک کو نوکر سے، نہ دکاندار کو گاہک سے، نہ پرندوں اور جانوروں سے، نہ پنچھی اور پھولوں سے، نہ موسم سے نہ بارش سے، حتی کہ اپنے آپ سے بھی نہیں۔ ہر شخص بس ٹائم پاس کر رہا ہے۔
ہم گھر میں بہت سارے بچے تھے اور محلے میں اس سے بھی زیادہ مگر ہماری ماں ہمیں ہمارے ہنسنے، رونے، حتی کہ کھانسنے کی آواز سے بھی پہچان جاتی تھی۔
ایک شخص ملا، برا حلیہ، گندہ حال، بوسیدہ کپڑے، بکھرے بال، حالانکہ آئی ٹی کمپنی میں اچھی جاب کر رہا تھا، تھوڑی جانکاری کے بعد احساس ہوا کہ اس کا باپ ہمیشہ اسے “لعنتی” کہہ کر بلاتا تھا۔ یہ بات اس کی گٹھی میں بیٹھ گئی اور اب وہ اپنے آپ سے بھی محبت نہیں کرتا۔ گھر جا کر اپنے بچوں کو گلے سے لگائیں آپ دیکھیں گے کہ وہ کتنی زور سے آپ کو بھینچتیں ہیں، اپنے آپ سے محبت کریں اپنی صحت اور حلیے پر توجہ دیں، اپنے کام سے محبت کریں، اپنی پڑھائی سے محبت کریں، رشتہ داروں، محلے والوں، دوستوں اور آفس کولیگ سے محبت کریں، جو لوگ ہر وقت نیگیٹیوسوچتے اور بولتے رہتے ہیں انہیں نہ صرف کہ طرح طرح کی بیماریاں ہو جاتی ہیں بلکہ ان کا کیرئیر بھی رک جاتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کریں، محبت میں آدمی زیادہ سے زیادہ محبوب کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے، محبوب کی معرفت اسے ہر روز ایک نیا رنگ دیتی ہے، میرا دوست عبداللہ کہتا ہے کہ اس نے گن کر 23 عشق کیئے ہیں، ہر بار پہلے سے اچھا محبوب نظر آتا تو اسے چھوڑ کر اگلی منزل کی طرف چل پڑتا ہے، وہ کہتا ہے کہ محبوب کے سامنے نظر ہٹا لینا، کسی اور کی طرف دیکھنا، گھڑی میں ٹائم دیکھنا اور فوکس نہ رہنا اس بات کی نشانی ہے کہ دل اکھڑ گیا ہے۔
حیران ہوں کہ لوگ مسجد میں موبائل سے کیسے کھیل لیتے ہیں، گھڑی کیسے دیکھ لیتے ہیں۔
حقوق العباد کی فکر کرو، حقوق اللہ تو معاف ہوجائیں گے.” ایسا جملہ صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے کہ جس نے کبھی محبت نہ کی ہو۔
جن لوگوں کا خمیر محبت سے اٹھا ہو آپ انہیں واضح طور پر زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرتا دیکھیں گے اور جن کی مٹی حسد اور شک پر مبنی ہے وہ اپنی صلاحیتوں پر بھی شک ہی کرتے ہیں۔
کچھ گناہ بس ہوجاتے ہیں، بغیر کسی دلیل و سبب کے، دل چاہا، مزہ آیا، لذّت ملی، اچھا لگا، انا کو تسکین پہنچی، کر لیا۔ یہ چھوٹے گناہ ہیں یہ ہمیشہ ہوتے رہیں گے، بس معافی مانگیں اور آگے چلیں۔ کچھ گناہ ہم پلاننگ کرکے کرتے ہیں، اس طرح فلاں شہر، فلاں ہوٹل جائیں گے فلاں ملک کی سیر کریں گے، وہاں یہ یہ گل کھلائیں گے، یہ ہوتے ہیں بے وفائی والے گناہ، یہ محبت کے ساتھ نہیں چلتے، یا گناہ چھوڑیں یا محبت کو خدا حافظ کہہ لیں، چھوٹے موٹے افئیر پر بیوی چھوڑ کر چلی جاتی ہے، اللہ کی ذات تو بے نیاز ہے، کچھ تو وفا کا بھرم رکھیں۔
محبوب کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے، اس کا نمبر، اس کا نام، اس کی چوڑیاں، اس کا روٹھنا، اس کی ادا، پھر پتہ نہیں آذان کی آواز سے اتنی چڑ کیوں ہے، مسجد میں لڑنا کیوں گوارا ہے، مولوی صاحب کی تضحیک سے کیا سکون ملتا ہے، اگر اولاد اس بات پر ناراض ہونے لگے کہ ماں باپ نے ساتھ فلم نہیں دیکھی تو یقین جانیئے ہاتھ ہو گیا ہے پھر سے شروع کریں۔
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں۔
محبت میں ہجرت ممکن ہے، محبت سے ہجرت ممکن نہیں، نہیں بھاگ سکتے، اگر سچا عشق کیا ہے، چاہے کچھ عرصے کے لیئے ہی، وہ رنگ دکھائے گا۔ بہت ہی بلیک اینڈ وائٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی محبت نہ کی ہو ، ورنہ ہر شخص کے موبائل میں کوئی نہ کوئی ایسا نمبر تو ہوتا ہی ہے کے جو نہ ڈائل کر سکے نہ ڈیلیٹ کر سکے
آئیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری زندگیوں میں محبت واپس لے آئے اور ہمیں سب سے محبت کرنے والا بنائے۔
آمین!
اگر آپکو اس جیسی اور تحریریں اور مضامین پڑھنے ہوں تو اس لنک سے آپ میری کتابیں آرڈر کر سکتے ہیں