ایک منٹ مسٹر عبداللہ آپ کی بکواس سے سر میں درد شروع ہو گیا ہے، پڑھانا نہیں آتا تو کہیں جا کر گھاس بیچیں، عبداللہ کی پروگرامنگ لینگویج کی کلاس میں دئیے جانے واے لیکچر کو ایک امریکہ پلٹ طالب علم نے ا نتہائی بدتمیزی سے روکا۔
اُس کا نام تھا ۔۔۔۔ ۔خیر چھوڑیں، نام میں کیا رکھا ہے، لوگ انبیائے کرام ؑ ، صحابہ کرامؓ کے ناموں پر نام رکھ لیتے ہیں ، اب آدمی کو حیاءَ آتی ہے نام کے ساتھ کوئی شکایت کرتے ہوئے۔ عبداللہ کے کیرئیر کا نیا نیا آغاز تھا، اس کی انگریزی پر مہارت اورلہجے میں روانگی بھی واجبی سی تھی، اس بے داغ اور امریکن لب و لہجے کی انگریزی میں بے عزّتی پر اس کے اوسان ہی خطا ہو گئے، تکنیکی اعتبار سے وہ جو کچھ پڑھا رہا تھا وہ ٹھیک تھا مگرجب طالب علم استاد کو بے عزّت کرنے کی ٹھان لے تو اس میں اور خودکش حملہ آور میں کوئی فرق نہیں رہتا، کوئی طریقہ نہیں کہ بندہ زد سے بچ جائے، عبداللہ لیکچر جاری نہ رکھ پایا، حتیٰ کہ اس نے وہ کلاس ہی چھوڑ دی اور ایک ساتھی استاد سے کلاس بدل لی۔
وہ طالب علم عبداللہ کو ہمیشہ یاد رہا، اس نے اسے نمبر 1 کا خطاب دیا، عبداللہ نے جان لیا کہ زندگی میں ایسے لوگ آتے رہیں گے جو سب کچھ سیکھ کر ، علم حاصل کر کے، کسی مقام پر پہنچ کر، آپ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ دیں گے، احسان ماننا تو دور کی بات، یہ بات بھی گوارہ نہیں کریں گے کہ کوئی ان سے آپ کی نسبت ہی بیان کرے.
عبداللہ نے اس تجربے سے دو باتیں سیکھیں، پہلی یہ کہ کچھ لوگ پیتل ہوتے ہیں، ہر آنے والے طالب علم کو سونا سمجھتے ہوئے اس کی تربیّت کرنی چاہیئے مگر جب وہ مدّمقابل آجائے تو خاموشی سے اسے سونے کی کیٹیگری سے نکال کر پیتل کے خانے میں رکھ دینا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے کہ زندگی پڑی ہے۔
دوسری بات یہ کہ استاد کا ادب کرنا چاہیے ، احسان ماننا چاہیے ، خواہ آپ نے کتنی چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ سیکھی ہو، شکر اداکرنا چاہیے، غرور کی نشانی ہے کہ بندہ اپنی شخصیّت کی تعمیر میں کسی کا کردار نہ مانے، کبھی بھی استاد کے سامنے نہ بولے، اپنی رائے تک پیش نہ کرے، جب تک پوچھی نہ جائے، یہ ایسا رشتہ ہے جس میں احترام زبان پر کیا، آنکھوں اور سوچ تک پر واجب ہے.
کنویں میں تھوکنے والے کی پیاس چھن جایا کرتی ہے اور جس کی پیاس چھن جائے اس کی زندگی بے معنی ٰ رہ جاتی ہے، استاد کی بد دعا پڑھا لکھا سب غارت کر دیتی ہے، استاد کا احترام علم کی ایکسپائری ڈیٹ ہے، جس دن گیا علم زہر بن جاتا ہے۔
زندگی گزرتی رہی اور عبداللہ کے یہ نمبرز بڑھتے چلے گئے، کوئی طالب علم کچھ ہفتوں میں پیتل ہواتو کوئی کچھ سالوں میں کھلا ۔بڑھتے ہوئے ہر نمبرز کے ساتھ عبداللہ محتاط ہوتا چلا گیا ۔صبر و برداشت تو ویسے ہی معاشرے سے عنقاء ہیں ، ادب اور تمیز بھی گئے۔ طالب علم آتے گئے اور جاتے گئے، ان کی تمام تر تعظیم، محبتّ اور تشکّر ، سمسٹر کے گریڈ آنے تک رہا، یہاں نتائج کا اعلان ہوا، یہاں طالب علموں نے آنکھ پھیری، ایک نیا رواج چل نکلا کہ سالانہ اختتامی فنکشن میں گریجویٹ ہونے والے یہہی شاگرد اپنے استادوں کی پیروڈی کریں اور داد پائیں۔ عبداللہ ان فنکشنز کو اٹینڈ کرنے کی ہمّت کبھی نہ جوڑ سکا۔
عبداللہ کو ہمیشہ سے تلاش رہی کہ کوئی آئے جسے عبداللہ وہ سب کچھ سکھا سکے جو اسے آتا ہے تاکہ جب وہ دنیا میں نہ رہے تو کوئی اس کے پیغام اس کی کوششوں کو آگے پہنچا سکے، آگے پھیلا سکے۔ فیس بک پر بننے والے شاگرد تو پانی کے بلبلے سے بھی گئے گزرے کہ اسے بھی کچھ دیر کو ثبات ہے۔ ’’یا حضرت ‘‘ اور ’’ شیخ جی‘‘ سے ’’حرامزادے‘‘ تک پہنچنے کا دورانیہ فیس بک پر 18منٹ ہے۔ ان جزوقتی و خود غرض لوگوں کو تو وہ سرے سے شاگرد گنتا ہی نہ تھا۔
32
نمبر پر تو عبداللہ نے خوب محنت کی، سال سے زائد عرصے تک پڑھاتا رہا اور اس کی ہر جگہ مدد کی، تعلیم کے میدان سے لے کر معاشی و خانگی مسائل تک، زندگی کو جینے سے لے کر لوگوں میں اعتماد کی بحالی تک، عبداللہ ہر ہفتے اسے کوئی کتاب بھیجتا اور کوشش کرتا کہ اس کے ساتھ کوئی کتاب ، کوئی ریسرچ پیپر لکھا جا سکے، مگر جب کتاب کی کوئی شکل نکلنی شروع ہوئی تو اسے شہرت اور کریڈٹ کا جنوں چڑھ گیا، عبداللہ نے یہاں تک کہہ دیا کے بھلے اپنے نام سے چھاپ دو، میرا نام تک نہ لکھو مگر حسد کی آگ کو انتقام کی آگ بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
سال بھر کی محنت ایک ای میل پر ختم اور اب ڈاکٹر عبداللہ انسان کہلائے جانے کے بھی لائق نہیں، نہ ہی اسے لکھنا آتا ہے، نہ بولنا، اس کی پی ایچ ڈی بھی جعلی اور گھر بھی دھوکے میں مارا ہوا، آمدنی بھی حرام اور دنیا کی ہر دوسری برائی بھی اس کے سر۔
عبداللہ کو ایک عرصہ لگا اس صدمے سے نکلتے ہوئے، وہ آج تک 32 نمبر کے لیئے دعا مانگتا ہے کہ زندگی کا سال اس کی نظر ہوا، اس میں ایک اچھا ریسرچر بننے کی تمام تر خصوصیّات موجود ہیں مگر کاش وہ دوسروں کی فکر چھوڑ کر اپنے پر توجّہ دے۔
عبداللہ کو کچھ عرصے قبل فیس بک پر ایک میسج ملا، لکھنے کا انداز و بیان کیا خوب، ایک نوجوان عبداللہ کو جوائن کرنا چاہتا تھا، ادب اس قدر کے جھوٹ کا گمان ہو، عبداللہ کو نہ جانے کیوں بے وفائی کی بُو آئی مگر اس نے ایک بار پھر حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے خندہ پیشانی سے اسے قبول کیا، عبداللہ کو آج تک حسنِ ظن اور بے وقوفی کا فرق سمجھ نہ آیا تھا مگر وہ ہر بار اچھے کی امید پر پھر سے لگ جاتا کہ کچے ذہنوں پر کام ہو سکے۔ایک سال گزر گیا عبداللہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی، اس کی تربیت میں، اس کو اپنی فیلڈ کو داؤ پیچ سکھانے میں اور اس نے بھی بہتریں شاگرد ہونے کا حق ادا کر دیا۔مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، بات بات پر اختلاف، کمپنی میں گروہ بندی اور عبداللہ کی ہر بات پر اختلاف اور ہر عمل کی علّت ڈھونڈنے کی بیماری اسے بھی لگ گئی۔
عبداللہ کو اپنی بے مائیگی کا خوب احساس ہوا کہ جسے اپنا بہترین وقت، دماغ اور صلاحیتیں خرچ کرکے پروان چڑھایا ، اللہ جب چاہے اس کا دل بدل دے اور وہ آپ کے کسی کام کا تو درکنار ، آپ کا دشمن ہو جائے۔
عبداللہ 33 نمبر الاٹ کرنے کے لیئے تیار نہ تھا، سو اس نے اسے کمپنی سے نکال دیاکہ کچھ عرصے میں کسی اور جگہ رکھوادے گا اور یوں عبداللہ سے سرد جنگ ختم ہوجائے گی تو وہ اپنی صلاحیتوں سے کام لے سکے گا، بھلے عبداللہ کا نام نہ آئے کم از کم معاشرے کو تو ایک بہترین شخص مل جائے گا۔
مگر نہ جانے رات کی تاریکی میں نکلے کس آنسو کا مان قدرت کو منظور تھا کہ اس شاگرد نے بھی انتقام کی راہ اپنائی اور اپنی تمام تر توانائیاں عبداللہ کو ذہنی مریض اور ٹیکنیکل فراڈ ثابت کرنے میں جھونک دیں۔
عبداللہ نے اسے پورے خلوص سے دعا دی کہ آج کے بعد اسے کوئی ٹیچر نصیب نہ ہو، کئی ہفتوں کی بحران کے بعد زندگی نارمل ہوئی تو آج صبح صبح عبداللہ کو ای میل ملی، ’’سر میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں، آپ مجھے ڈیٹا سائنس سکھا دیں میں زندگی بھر آپ کا ممنون رہوں گا‘‘
عبداللہ نے بات کا وقت طے کیا اور جائے نماز پر بیٹھ گیا کہ آگے گنتی کی ہمتّ باقی نہیں بچی، اے اللہ ، ظالموں کے اس معاشرے میں کوئی ایسا لا دے، جو راہبری کے تعلق کی لاج رکھ لے، جس کا علم خرچ نہ ہو اس کا جمع بھی نہیں ہوتا، عبداللہ نے بسم اللہ پڑھی اور
Skype
پر لاگ اِن ہو گیا۔