یوں تو ہمارے ملک میں بہت سی انوکھی باتیں ہیں جو دنیا کے کسی خطے میں شاید ہی پائی جاتی ہوں مگر میں ہمیشہ سے اِن باتوں کی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہوں۔ کبھی سارا دوش غربت کا نکلتا ہے تو کبھی دین سے دوری کا، کبھی تربیت و پرورش کا فقدان تو کبھی تعلیمی نظام، کبھی غیرمنصفانہ سوچ تو کبھی طبقاتی کشمکش۔
مگر ایک انوکھی بیماری ایسی بھی ہے جس کی وجہ میں آج تک نہ ڈھونڈ سکا یا کم از کم کوئی مفروضہ ہی قائم کر سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ روایت لکھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ شاید آپ اِس کو سمجھنے میں میری مدد کر سکیں۔ علم کا ہونا یا نہ ہونا ایک بات ہے تو علم کی جستجو اور طلب ایک الگ۔ مذہب اور سائنس کی چپقلش ایک بحث ہے تو علم کو صرف پیسہ کمانے کی غرض سے حاصل کرنا ایک الگ عنوان، مگر کیونکر یہ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ، ایک قوم، بظاہر پڑھے لگے لوگ کتاب سے دشمنی کریں۔ لکھنے والوں کی تذلیل کریں اور انہیں ”لکھنے” کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا کر دیں؟
ذہانت کسی کی میراث نہیں، علم کا بھی کوئی جغرافیہ نہیں، حکمت کی کوئی سرحد نہیں اور فنون لطیفہ کا کوئی ملک نہیں، مگر پھر بھی اچھے اساتذہ کی دستیابی، علم کا حصول اور ترقی کے مواقع یکساں نہیں، آپ کس رنگت کی جلد لے کر کہاں پیدا ہوئے ہیں، یہ امر اِس پورے نظام یا عمل کو کسی کے لئے آسان، کسی کے لئے مشکل اور کسی کے لئے ناممکن بنا دیتا ہے۔ بوسٹن کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہونے والا سفید فام بچہ، ہونڈوراس کی گلیوں میں پیدا ہونے والے سیاہ فام بچے سے کیسے مختلف ہیں جس کے باپ کو ڈرگ ڈیلرز نے مار دیا اور ماں جیسے تیسے زندگی گزار رہی ہے۔ ہم یہ کیسے مان لیں کہ اندرون سندھ اور دیہی پنجاب اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ میں تعلیم کا معیار کیمبرج اور آکسفورڈ تو چھوڑ لاہور اور کراچی کے ہی برابر ہے۔
ایسے میں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ ترقی پذیر معاشرے میں علم کی بھوک زیادہ ہوتی، روٹی اور کتاب کی مانگ برابر ہوتی، سیاستدان اور استاد کا درجہ برابر ہوتا، مٹھائی اور ورق یکساں دل پسند ہوتے اور عشق و سبق میں مساوی کشش ہوتی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی کہ جو سیکھوں کسی اور کو سیکھا دوں، اگر قدرت نے مجھے مہنگی کتابوں، اچھے اساتذہ، بہترین درس گاہوں اور جدید لیبارٹریز میں کام کا موقع دیا ہے تو میں اِسے ان لوگوں تک پہنچا دوں جن کی رسائی یہاں خوابوں میں بھی نہیں ہوتی۔ اگر میں دنیا گھوم سکتا ہوں، ایک سے بڑی ایک کمپنی میں جا سکتا ہوں، اگر اللہ سائیں نے دنیا میرے لئے کھول دی ہے تو جو دیکھوں، سنوں، سیکھوں وہ دوسروں تک ان کی زبان میں پہنچا دوں۔ ایسا کرنے سے میں کسی پر کوئی احسان نہیں کر رہا۔ بندہ جس سے محبت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ سب کچھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔ ملک تو ماں ہوتا ہے۔ اب ماں سے کون چُھپائے۔
انگریزی میں لکھنا اس لئے نہیں چاہتا کہ بہت لکھ رہے ہیں، بہت اچھا لکھ رہے ہیں اور جو انگریزی یا انگریز کو افورڈ کر سکتے ہیں ان کے لئے دنیا کھلی ہے۔ مسئلہ تو اُن کا ہے جو ری لوڈ بھی والدین کے پیسوں سے کرواتے ہیں۔
سنہ 1995ء میں کیمیا کے نوبل پرائز پر میرا پہلا مضمون شائع ہوا تھا۔ مجھے سائنس اور بالخصوص کمپیوٹر سائنس لکھتے ہوئے 25 سال ہو گئے۔ میری پہلی کتاب سی/سی ++ پروگرامنگ لینگویج 2003ء میں شائع ہوئی۔ مجھے اس سے آج تک ایک روپیہ رائلٹی نہیں ملی۔ میری سب سے مشہور کتاب جستجو کا سفر قرار پائی۔ سنگ میل سے شائع ہوئی اس پر بھی ایک روپیہ نہیں ملا۔ ہمارے ملک میں 60 فیصد تو صرف بک شاپ والے کتاب رکھنے کے لے لیتے ہیں۔ پبلشر کا خرچہ، مارکیٹنگ اور ڈاک کی ترسیل اور آن لائن بک کئے گے فیک آرڈرز کی واپسی۔ سب کچھ نکال کر اگر مصنف کو اپنی جیب سے کچھ نہ دینا پڑے تو یہ بڑی “کامیابی” ہے۔ مگر اِس کے باوجود آپ کو جواب میں صرف طعنے، طنز، بدعائیں اور گالیاں ملتی ہیں۔ میں نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت پر ایک کتاب لکھنے اور شائع کرانے کی جسارت کی ہے۔ ایک صاحب نے الزام لگایا کہ انٹرنیٹ سے چھاپی ہے جبکہ کتاب ابھی تک انہوں نے پڑھی ہی نہیں۔ ایک صاحب نے “غلیظ دھندہ” بتایا تو ایک محترمہ نے “بے روزگار” ہونے کا انکشاف کیا کہ بے چارہ تبھی تو کتابیں لکھ رہا ہے۔ ایک دل جلے نے تو پبلیشر کو ای میل کردی کے ڈاکٹر صاحب امریکہ میں پلے بڑھے ہیں تو انہیں تو اردو لکھنا ہی نہیں آتی ضرور چوری کی کتاب ہے. درجنوں لوگوں نے واٹس اپ پر کتاب بھیجنے کی فرمائش کی تو سینکڑوں نے پی ڈی ایف ڈائون لوڈ کا لنک مانگا۔ 48 لوگوں نے مفت کتاب مانگنا اپنا حق جانا تو 11 لوگوں نے بغیر پڑھے اِسے چربہ قرار دے دیا۔
کیا آپ نے کبھی ایمازون پر ایسے تبصرے یا درخواستیں دیکھی ہیں یا کبھی کسی مہذب قوم کو کسی کتاب یا مصنف کے بارے میں یوں کہتے سُنا ہے؟ میری گزشتہ کرپٹو کرنسی کی کتاب بھی درجنوں لوگوں نے اسکین کرکے ”فی سبیل اللہ” انٹرنیٹ پر شائع کر دی۔ یہ کارگزاری نہ ہی آپ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے لکھی ہے نہ ہی کسی کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی ناکام کوشش۔ میں جو کر رہا ہوں وہ کرتا رہوں گا آپ کی تعریف و تضحیک سے بے نیاز کہ تاریخ میں شاید وہ چڑیا لکھا جاؤں جو چونج میں پانی بھر کر لاتی تھی، مگر شاید آپکے اس روئیے سے اور لکھنے والوں کا حوصلہ نہ ہو، یا شاید میری طرح ڈھیٹ یا “بیوقوف” نہ ہوں۔
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ کنویں میں تھوکنے والے کی پیاس چھِن جاتی ہے۔
دیتے رہیئے گالیاں، ہم بے ضرر لوگ بددعا بھی نہیں دیتے۔ خوش رہیئے اور مست رہیئے۔
آپ سب کا قصوروار
ذِیشان اُلحسن عثمانی