میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کے جیسے ہم آج بادشاہ عالمگیر ، جنگ غدر ، اسپین اور غرناطہ ، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ پڑھتے ہیں ، ایسے ہی آنے والی نسلیں جب آج کے پاکستان کو پڑھیں گی تو کیا پڑھیں گی ؟ ہمارے ملک، ہمارے معاشرے کا اگر کوئی تجزیہ کرے یا تاریخ لکھے تو وہ کیالکھے گا، شاید وہ لکھے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا۔، جِس میں تیری باقی تھی، جس میں ایمان کی رمُق موجود تھی، جِس میں دین کی چنگاری پنہاں تھی۔ ایک ایسی قوم تھی جو روز مرتی تھی مگر جینا نہیں چھوڑتی تھی۔ جو لٹانے پر آئے تو سب کچھ لٹادیتی تھی جو جیتے تو بچوں کی طرح گلیوں میں آجاتی تھی۔ جو نا چتی تھی تو موسم بدل دیتی تھی اور جب روتی تھی تو آسمانوں کورُلا دیتی تھی۔
بغیر اعلیٰ تعلیم کے، بغیر زندگی کی بنیادی سہولتوں کے بھی اگر یہ قوم یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ نیو کلئیر پاور بن سکتی ہے، ہر چھٹے روزایک خودکش حملے اور ہر چھٹے روز ڈروان حملے میں مرنے کے باوجود زندہ رہ سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو یہ نہیں کر سکتی ۔
یہ ایک قوم تھی جس میں شدت تھی، محبت میں بھی اور نفرت میں بھی، جس کو کچھ دینے اور سب کچھ دینے کا فن آتا تھا، جس کے بچے کا نے اور تختی سے پڑھ کے نکلے اور ایٹم بم بنا ڈالا، جو بغیر چھت کے سو جاتی تھی، جو بنا پیئے بھی سیراب تھی، اور جو ایک بار ٹھان لے اس کو پورا کرنے میں پوری کائنات اس کا ساتھ دیتی تھی۔
مگر
اس قوم کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوا، اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ وہ کس خمیر کی مٹی سے بنی ہے، اس کو لوگوں نے، لیڈروں نے اپنی اپنی منشاء کے مطابق بانٹا اور تقسیم کیا۔ اس نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا۔ اور نجات دہندہ کو رد کر دیا۔ اس نے اپنے دین کو بھلا دیا، اپنے ایمان کو بیچ دیا اور اپنے اوپر پڑھنا لکھنا اور سچ بولنا حرام کرلیا۔
پاکستا نی بھی عجیب قوم ہے یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی. ہر شخص اپنے پہ ہونے والے مظالم کی داستان سُناتا ہے۔ مگر جب جہاں موقعہ ملتا ہے اپنے سے کمزور کو پیس دیتا ہے اور کوئی رعایت نہیں چھوڑ تا۔ پردے کے ہلنے سے ڈرنے والا مسلمان اﷲ سے نہیں ڈرتا۔ اور اس ملک میں لوڈشیڈنگ بھی بہت ہے۔ صرف بجلی کی ہی نہیں کہ بلب بجھ گئے ہیں۔ خانقاہوں میں چراغ بھی بجھ گئے ہیں، مسجدوں کی رونق بھی بجھ گئی ہے۔ بچوں کے چہرے بھی بجھ گئے ہیں اُمیدوں کی شمع بھی گل ہوگئی ہے، ستارون کی چمک بھی ماندپڑگئی ہے، چاند کا حسن بھی زائل ہو گیا ہے۔ منبرو محراب بھی خاموش ہیں۔ الغرض نصیبوں کی لوڈشیڈنگ ہوگئی ہے۔
یہ قوم علم سے ایسے متنفر ہوئی، ایسی بے تو فیق ہو ئی کہ کوئی مہینے میں پانچ ہزار صفحات بھی نہیں پڑھتا۔ صرف وہ علم حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے پیسہ کماسکے، معاشی حیوان بن جائے۔ مگر کاش پیسہ ہی کمالیا ہوتا۔ وہ بھی کہا ں کمایا؟ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں ، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں
مورخ لکھے گا کہ جس قوم کو اپنے پیچھے ادارے ،افراد، اور منصوبے چھوڑ کے جانے تھے وہ پلاٹس اور شاپنگ پلازے چھوڑ گئی۔ مورخ لکھے گا جس قوم نے روٹی اسلیئے کھانی تھی کہ رزاق کا شکر ادا کرسکے، روٹی اُس قوم کو کھا گئی۔ مورخ لکھے گا ایک ایسی قوم تھی۔ جو فطرت سے ٹکرا گئی اور پھر فطرت نے اُسے پچھاڑدیا۔ مورخ لکھے گا کہ جتنا چھپا کے گناہ کرتی تھی اتنا چھپا کے نیکیاں کر گئی ہو تی تو سُرخرو ہو جاتی۔ اور شاید یہ بھی لکھے کہ جس اسلام کے نام پر ملک لیا، اسی اسلام کو اسی ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا۔
ایک ایسی قوم جسے غلامی سے عشق تھا۔ جس نے پلاننگ کا سارا کام اپنے قاؤں کے سپرد کر دیا تھا کہ غلام پلاننگ تھوڑا ہی کرتا ہے۔ جس کا ریشہ ریشہ غلام تھا، جسے غلامی اچھی لگنے لگی تھی؛ جسے غلامی سے محبت ہوگئی تھی؛ جسکی رگ وپے میں غلامی سرایت کر گئی تھی۔ جس کا مزاج غلا ما نہ بن گیا تھا۔ جہاں غلامی کے بغیر جینا مشکل تھا، جہا ں آزاد بندوں کا سانس رک جاتا تھا یا روک دیا جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو نادیدنی زنجیروں میں جکڑ دِی گئی ۔جسے شک کی وادی میں ہانک دیا گیا۔ جس میں اعتماد نہ رہا اور جب اعتماد نہ رہے تو کیسے کوئی پہاڑوں کا سینہ چاک کرے اورکیسے کوئی کائنات کو مسخر کر ے۔
اگر بندہ ہمت کرے اُورر محنت کرے تو نبوت کے علاوہ وہ کو نسا ایسا مقام ہے جو حاصل نہ کیا جاسکے۔ سُپر پاور بننے سے خُدا کی ولایت اُور دوستی تک سب ہمت و اُمید کے ہی تو مرہونِ منّت ہیں۔ اُور سب سے بڑا ظلم جو اِس قوم پر ہوا وہ اُمید کی غربت ہے۔ نا اُمیدی کا یقین ہے۔ اندھیرے کی نو ید ہے جو ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے جوانوں کی رگوں میں ہر روز نشے کی طرح اُتار رہے ہیں۔ پہلے کوئی سوچتا تھا کہ ایسے بولیں گے تو کوئی کیا کہے گا، جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے وہ ‘کوئی’ بھی مر گئی۔ ہمارے ملک میں لوگ زندگی کے خواب دیکھتے ہیں باہر والے خوابوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ اُور اب تو خواب دیکھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں، دن اور رات ایک کرنے پڑتے ہیں، پّتہ ماری کی محنت ہوتی ہے۔ مگر جو لوگ ہِمت نہیں کرتے وہ پھر کرامات/معجزات کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کرتے کرتے فنا ہو جاتے ہیں۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے خود محنت نہ کی بلکہ بیاّ کا گھر بھی توڑ دیا، جس نے کم ظرفوں کو دین کی تعلیم دے دی اور بد عقلوں کو دنیا کی۔ یہاں بھنورے میں پلے ہوئے لوگوں کو حکومت ملی جنھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے ایک ایسا ملک تھا جہاں غریب، کسمپرسی کی حالت میں کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ جہاں ہرکام کے لیئے غریب کو دن میں ہزاروں سجدے کرنے پڑتے تھے، جہا ں سچ بولنے کی زکوۃ تنہائی تھی، جہاں ٹھنڈے مزاج لوگوں کو بے غیرت کہا جاتا تھا، جہا ں گنا ہ تکرار کے باعث عادت بن چکے تھے۔ جہاں علم بغیر تزکیئے کے پھیلا اور جہاں ذکر بغیر علم کے پروان چڑھا، ایک ایسی قوم جسے بے وقوفی اور حسِن ظن میں فرق ہی پتہ نہ چل سکا، اُور ایک ایسی قوم جو سواسو سالوں سے تصویر کے جائز یا نا جائز ہونے کا فیصلہ ہی نہ کر سکی، ایک ایسی قوم جسے اﷲ اڑسٹھ سالوں سے درگزر کرتا چلا آیا۔ جسکے ساتھ مالک کُل نِباہ کرتا چلا آیا مگر اس نے نباہ نہ کی۔
اور مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ جو قوم پولیو ویکسین پر فتویٰ لیتی تھی وہ اپنے مخالفوں کا قتل جائز سمجھتی تھی. ایک ایسی قوم جو، اسکولوں کوبموں سے اڑا دیا کرتی تھی اور جہا ں عالم پڑھائی کو بے غیرتی کی وجہ بتاتے تھے۔ ایک ایسی قوم جہاں جھوٹ کی بِسیوں قسمیں تھیں۔ یہاں تک کہ جس شخص پہ تھو کنے کو دل نہ چاہے اس کی بھی خو شامد کریں۔
ایک قوم جس کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا مگر عمل کا نہیں، جو سچی بات سے منہ پھیر لیتی تھی اور کبر کرتی تھی۔ جہاں حق گوئی قابل تعزیر جرم تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی جے جے کار، جہاں لوگوں نے بولنا اِسلیئے سیکھا کہ باقی لوگوں کوبیو قوف بنا سکیں اور حدیث کی روشنی میں ملعون ٹھرے۔
ایک ایسا ملک جہا ں پانچ ہزار بچے سالانہ نالیوں اور کچرے کی ڈبّوں میں پھینک دیئے جاتے ہوں، چھ ہزار قتل ہو جاتے ہوں ۔ دس لاکھ ایف آئی آرکٹتی ہوں، پندرہ سو بچیوں کے ساتھ زنا با لجبر ہوتا ہوں، اسی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو جاتی ہو،لوگ بچے بیچ کے پیٹ بھرتے ہوں اور ایمبولینس میں انتظار کرتا بیمار، صاحب کے گذر جانے تک لاش بن جاتا ہو۔ ایک ایسی قوم جو سال میں تین سو ارب بھتے میں دے دیتی ہو اور پھر بھی خوف کے سائے میں جیتی ہو .
اور آخر میں مورّخ شاید ایک نیا ترانہ بھی لکھے، اور یہ کہ یہ ترانہ آپ لیٹ کے سن سکتے ہیں کیونکہ اگر کھڑے ہونے کی قوت ہوتی تو اِس حال پہ پہنچتے ہی کیوں ؟