روشنی کے اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کو “رنگ” کہتے ہیں۔ شادی بیاہ سے لے کر سوگ تک، دنیا سے لے کر دین تک، صوفیاء کرام سے لے کر فلم ساز تک، دوپٹے سے لے کر شامیانے تک، زندگی سے موت، ظاہر سے باطن، سوچ سے خیال، خواب سے حقیقت، نہ ہونے سے ہونے اور وجود کی گواہی سے گمنامی کے تاج تک، سب میں رنگوں کا بڑا عمل دخل ہے۔
برصغیر میں نومولود بچے کو نظرِبد سے بچانے کے لئے کالا ٹیکہ لگانا ہو یا مایوں میں پیلا رنگ پہننا، مہندی کا ہرا رنگ یا رخصتی کا لال، میت پر سفید یا سوگ پر سیاہ، احرام کی سفید چادریں ہوں یا بدھ بھکشوں کا گیروا لباس، رنگ کی تمیز اور اہتمام دنیا کے ہر مذہب وثقافت میں پایا جاتا ہے۔ روشنی کی سب سے کم فریکیونسی پر نظر آنے والا رنگ لال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جامنی۔
ڈاکٹر ٹیلر ہارٹ مین کی رنگوں کی ترتیب وحیثیت دیکھیں تو لال رنگ طاقت کی نشانی، نیلا رنگ قربت، سفید رنگ امن، اور پیلا رنگ مستی کی نشانی ہے۔ رنگوں کی درجہ بندی میں پہلا نمبر سیاہ کا، پھر سفید، سرخ، نیلا، پیلا، کتھئی، گلابی اور پھر ہرا آتا ہے۔ وٹامنز، ورزش وطاقت کی ادویات آپکو عموماً گہرے رنگوں یعنٰی سرخ اور زرد میں ملیں گی۔ نشہ، مدہوشی اور طاقت کی ادویات ہمیشہ نیلے یا آسمانی رنگ کی ہوتی ہیں اور ذہنی انتشار و ہیجان کی ادویات ہلکے رنگوں کی ہوتی ہیں۔ گہرے رنگ جیسے لال اور نیلا وغیرہ عموماً فوری ردِعمل یا جذباتی فیصلہ کروانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جیسے کہ ویب سائٹ پر آرڈر کا بٹن۔ ہلکے رنگ عموماً حس مزاح اور فائن آرٹس [فنونِ لطیفہ] کے اظہار کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ گلابی رنگ عموماً خواتین اور کم سِن بچیوں کے ملبوسات اور استعمال کی اشیاء کی نشاندہی کے لئے ہوتا ہے۔ اور زرد رنگ کمپنیوں کے آوٹ لیٹ کے لئے مخصوص ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رنگوں کا باضابطہ استعمال تقریباً ۴۰ ہزار سال پہلے مصوروں اور سنگ تراشوں نے کیا، جانوروں کی کھال، ریت اور کوئلے کے امتزاج سے۔ آپ ہیمر کی “آڈیسی” پڑھیں تو آپ کو کہیں بھی نیلے رنگ کا ذکر نہیں ملے گا۔ وہ سمندر کو بھی “شرابی رنگ” کا بتاتا ہے۔ یہاں سے ریسرچ چل نکلی کہ انسانوں کو نیلا رنگ ابھی کچھ صدیوں پہلے ہی دیکھنا شروع ہوا ہے۔
مختلف کمپنی کے لوگو logo بھی مختلف ہوتے ہیں مثلاً کینن اور نیٹ فلیکس کا رنگ لال ہے ایپل کا سفید، یو پی ایس کا کتھئی، شئیل اور نائیک کا نیلا ، ایمازون، ہارلے ڈیوڈسن، نیکولوڈین کا زرد، سنیپ جیٹ snapchat، فیراری، نیشنل جیوگرافک کا پیلا اور ہول فوڈز، لاکوستے کا ہرا۔ رنگوں میں سب سے ممتاز رنگ لال رنگ ہے۔ یہ رکنے stop کا بین الاقوامی رنگ ہے۔ ایمبولینس کی لائٹوں کا اور خطرے کے نشانات کا رنگ ہے۔ سپر مارکیٹ میں نرخوں کی کمی کی نشاندہی کے لئے بھی یہی رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ چائنا میں لال رنگ خوش قسمتی کی نشانی ہے اور چائینز نئے سال پر صرف لال رنگ کے تحائف دیتے ہیں۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں ۷۷ فیصد ممالک کے جھنڈوں میں لال رنگ پایا جاتا ہے۔ اگر ہم کھیل کی طرف دیکھیں تو فٹ بال کے کھیل میں گول کیپر نے لال ٹی شرٹ پہنی ہو تو پینلٹی ککس پر گول ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسٹاٹ اپ پیچ ڈیک startup pitch deck کے لئے زرد یا پیلے رنگ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ فنڈنگ مل سکے اور امریکی صدر عموماً لال کلر کی ٹائی پہنتے ہیں کہ طاقت ورعب قائم کیا جا سکے۔
انسانی زندگی بھی رنگوں سے مزین ہے۔ کوئی بلیک اینڈ وائٹ تو کوئی قوسِ قزح، کوئی سفید کینوس کی طرح انتظار میں کہ کوئی آئے اور رنگ بھی دے، تو کوئی کسی رنگ کاٹ بزرگ کی صحبت کی تلاز میں کہ زندگی بھی کے رنگ دھو دے۔ کوئی ایسا بےرنگ کے آرپار دیکھ لو، تو کوئی ایسا سیاہ کہ جس کو چھو جائے سیاہ کر دے۔ کیا ہی افسوس کا مقام ہے کہ سر اور داڑھی کے بال سفید ہو جاتے ہیں مگر دل کالا رہ جاتا ہے۔ ہماری زندگی پر جوانی کا رنگ چڑھتا ہے، پیسے کا، طاقت، منصب وعہدے کا، ضر و اَنا کا، خوبصورتی کا، “میں” کا۔ اللہ کا ذکر وہ رنگ کاٹ ہے جو ہلکے ہلکے سارے رنگ اتار دیتا ہے۔ جتنے جلدی ہو سکے اتنا ہی اچھا ہے۔ اللہ کا ذکر بےتوجہی سے بھی کیا جائے تو اپنا رنگ چھوڑتا ضرور ہے۔ اللہ کا ادب وہ رنگ ہے جو سب پہ بھاری ہے۔ آپ سے ایک بات عرض کروں؟ دعا بےرنگ ہوتے ہے مگر رنگ ضرور لاتی ہے۔ آئیے، گناہوں کی سیاہ زندگی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دعا مانگتے ہیں کہ نیتوں کی قوسِ قزح نصیب ہو اور کوئی ایسا رنگ کاٹ مل جائے کہ سب دھل جائے اور اللہ پاک کا رنگ ایسا چڑھے کہ پھر کبھی نہ اُترے۔
آمین!