عالمی جنگ عظیم دوئم کے بعد نوول کرونا وائرس کی موجودہ وباء اقتصادی ماہرین کی نظر میں معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب بنے گی۔ سوال یہ نہیں کہ معاشی بحران آئے گا یا نہیں ، سوال یہ ہے کہ اس کا دورانیہ کتنا ہو گا اور یہ کتنی گہرائی میں جا کر کسی بھی ملک کی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کرے گا۔
کرونا وائرس کی معاشی تباہ کاریوں کا آغاز جنوری 2020ء سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ دسمبر کے اواخر میں وُہان چائنہ سے پھوٹنے والی اس وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی مصنوعات اور خام مال کی فراہمی کو شدید دھچکا پہنچایا۔ انسان سے دوسرے انسانوں کو منتقل ہو جانے کے پیش نظر کئی عالمی کانفرنسز اور ایکسپو منسوخ یا ملتوی کرنے پڑے۔ موبائل ورلڈ کانگریس (MWC) موبائل کی دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ ہے جو کہ اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقد ہونا تھا۔ صرف اس ایک کانفرنس سے بارسلونا کا شہر 492 ملین پائونڈز کماتا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں اور چودہ ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ صرف ایک بندے کی کانفرنس رجسٹریشن 872 ڈالر میں ہوتی ہے۔
موبائل ورلڈ کانگریس کی منسوخی کے بعد تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔ فیس بک کی F8 کانفرنس ہو یا مائیکرو سافٹ کی Build، اپیل کی WWDC ہو یا گوگل ا/و ، دبئی ورلڈ ایکسپو ہو یا چار سال بعد منعقد ہونے والے ٹوکیو اولمپکس یا ٹیکنالوجی کی دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ سائوتھ ہائے سائوتھ ویسٹ (SXSW) سب منسوخ یا ملتوی کر دیئے گئے۔ صرف SXSW کی وجہ سے آسٹن شہر کو 330 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور اولمپکس کی صرف ٹکٹ کی واپسی کی ادائیگی کے لئے 850 ملین ڈالرز چاہئیں۔ اشتہاروں سے ملنے والے 1.2 بلین ڈالر کا نقصان لگ اور برانڈز کے 700 گھنٹوں سے زائد کے اشتہارات کی پروگرامنگ بے کار۔
گزشتہ 3 ماہ میں صرف ان ایونٹس کے منسوخ ہو جانے کی وجہ سے تقریباً 2 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ ایئر لائنز کی 95% بکنگ کم ہو گئی ہیں۔ ڈزنی ورلڈ اور تھیم پارکس بند پڑے ہیں۔ ہالی وڈ اور فلم انڈسٹری میں اُلّو بول رہے ہیں۔ صحت اور میک اپ میں 25% زوال آیا ہے۔ انٹرٹینمنٹ میں 22% ، ریسٹورنٹ میں 30% ، ٹرانسپورٹ کے بزنس میں 45% ، شاپنگ میں 60% ، کرائے کی گاڑیوں میں 80% ، معدودے چند کاروبار کے ہر کاروبار پر بحران آ چکا ہے۔ کریوڈ آئل کی قیمتیں 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 18 ڈالر تک آ چکی ہیں، کیونکہ جہازوں اور گاڑیوں کے نہ چلنے کی وجہ سے کھپت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹیں نقصان کا شکار ہیں۔ ہر وہ کاروبار یا سروس جس میں گاہک سے بالمشافہ معاملہ ہوتا تھا وہ زوال کا شکار ہے، حجام کی دکان سے لے کر مووی تھیٹرز تک اور شاپنگ مالز سے لے کر پھول بیچنے تک۔ ایک جہاز جسے ہینگر میں کھڑا کرنا ہو تاکہ بوقت ضرورت اُڑ سکے پر کم از کم 400 انسانی گھنٹے لگتے ہیں۔ ایک ساتھ کوئی بھی معیشت اتنا زیادہ نقصان برداشت نہیں کر سکتی۔ کاروبار میں زوال آئے گا تو لوگ نوکریوں سے نکالے جائیں گے، نوکریاں نہیں ہوں گی تو لوگ بینکوں کی قسطیں نہیں بھر سکیں گے اور راشن اور دوسرے اخراجات، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی، گاڑی اور گھر کی قسطیں نہیں دے سکیں گے اور اس طرح ایک نہ ختم ہونے والا معاشی چکر چل جائے گا جس میں غربت، وباء سے زیادہ رفتار سے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہاں صرف امریکہ میں ایک ماہ میں ایک کروڑ لوگوں نے بے روزگاری کے وظیفے کے لئے فارم جمع کروائے ہیں جو 1987ء کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
کچھ کاروبار جن کا دارومدار آن لائن بزنس پر تھا اس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً آن لائن سکول اور کلاسز کہ اسکول کی بندش کے باعث تمام تر کلاسز آن لائن ہو رہی ہیں آن لائن خریداری، گروسری شاپنگ، وڈیو گیمز، ای بکس، فوڈ ڈیلیوری، بیکنگ کا سامان، بال کاٹنے کا سامان اور گھر میں ہوم آفس بنانے کے لئے کمپیوٹر ڈیسک ان سب کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آن لائن وڈیو کی Apps مثلاً Zoom، Skype گوگل وڈیو انٹرنیٹ اور کلائوڈ کا بزنس آسمان کو چھو رہا ہے۔ یہاں امریکہ میں ایمازون اور انسٹاکارٹ مسلسل لوگوں کو نوکریاں دے رہے ہیں مگر مانگ ختم ہی نہیں ہو رہی۔
مضبوط معاشی نظام اور بااصول معاشرے کسی بھی قوم کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور یہ بات ترقی یافتہ ممالک اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بہت بڑی معاشی آسانی کے پیکیجز کا اعلان کیا تاکہ عوام ایک خاص حد تک اپنی روزمرہ کی معمول کی زندگی گزار سکیں۔ گھر کا کرایہ، بینکوں کی اقساط، گروسری کی خریداری اور اسکول کی فیس دے سکیں۔
جاپان نے 1 ٹریلین ڈالر کا Stimulus پیکج نکالا تو امریکہ نے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج نکالا 2.2 ٹریلین ڈالرز کا جس میں ہر بالغ فرد کو جس نے ٹیکس دیا ہو تو 1200 ڈالر کیش ملیں گے اور ١٦ سال سے کم عمر بچوں کو ٥٠٠ ڈالر فی کس۔ اگر آپ کی کمپنی میں 500 سے کم ملازم ہیں تو آپ قرضہ کے لئے اپلائی کر سکتے ہیں اور اگر آپ اس ادھار سے صرف آنے والے مہینوں میں ملازمین کی تنخواہیں یا یوٹیلیٹی بلز بھریں گے تو یہ ادھار بھی مکمل طور پر معاف، پہلی قسط بھی ٦ ماہ بعد ادا کرنی ہے. آئر لینڈ ہر شہری کو 1600 یورو ماہانہ دے رہا ہے اور اسپین یونیورسل بیسک انکم UBI کا پلان بنا رہا ہے۔ ویت نام نے غرباء کے لئے چاولوں کی مفت ATM مشینیں لگا دی ہیں تو امریکہ کی کچھ ریاستوں نے میڈیکل پروفیشنلز کو پٹرول اور انٹرنیٹ مفت دینا شروع کر دیا ہے۔
آئرلینڈ کی حکومت کسی شہری سے ان تین ماہ کا یوٹیلیٹی بل بھی نہیں لے رہی۔ وہ اسے ایڈجسٹ کرکے آئندہ مہینوں میں دے سکتے ہیں تاکہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ کرونا وائرس سے بین الاقوامی معیشت کو کم از کم 6 ٹریلین ڈالرز کا نقصان پہنچے گا.
پاکستان کی صورتحال:
آپ نے وہ پیاز اور جوتوں کی کہانی تو سُنی ہوگی؟ ایک حاکم کسی مجرم کو سزا سناتا ہے کہ یا تو 100 جوتے کھائو یا پیاز۔ آدمی پیاز کھانا شروع کرتا ہے مگر 20,15 کھانے کے بعد کہتا ہے اس میں تو بہت جلن ہے آپ جوتے مار دیں۔ 20,15 جوتوں کے بعد پھر پیاز اور یوں وہ 100 جوتے بھی کھاتا ہے اور پیاز بھی۔
وباء کے پھیلنے کے درمیان معاشی استحکام کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے گھر میں نیا فرنیچر ڈالنے کا مشورہ دے۔ ہم بحیثیت قوم نہ تو مکمل لاک ڈائون برداشت کر سکتے ہیںاور نہ ہی ہمارا صحت کا نظام سارے مریضوں کو سنبھالنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اس پریشان کن صورتحال میں یا تو ہم سویڈن کا ماڈل اپنا لیتے اور کوئی لاک ڈائون نہیں کرتے، باشعور لوگ (جتنے بھی ہیں) اپنی حد تک اپنا بچاؤ خود کرتے اور معاشی سرگرمیاں جاری رہتیں یا ہم وہان کا ماڈل اپناتے اور متاثرہ علاقے اور لوگوں کو مکمل لاک ڈائون اور قرنطینہ میں بھیج دیتے اور انہیں اشیائے خوردونوش مہیا کرتے کہ ایک بار اس وباء کا پھیلنے کا عمل رک جاتا تو معیشت کو جلد سنبھالا دیا جا سکتا۔ مگر ہم نے پیاز اور جوتے دونوں کھانے ہیں۔ ہم نے نام نہاد لاک ڈائون کیا، شاید دعا و استغفار کام آ جاتے تو ہم نے مسجدیں بھی بند کر دیں، سیاسی پارٹیاں لوگوں کا میل جول سب چلتا رہا اور وائرس پھیلتا چلا گیا، کاروبار کے بند ہو جانے سے غربت اور معاشی بحران الگ۔
پاکستان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سالانہ 900 ملین ڈالر اور احساس پروگرام میں 200 ملین ڈالر ویسے ہی خرچ کر رہا ہے اور اب 12 ہزار فی کس الگ بانٹ رہا ہے جس کا فائدہ غریب لوگوں کو انشاء اللہ ضرور ہو گا مگر چھوٹے کاروبار اور کمپنیوں کے لئے کوئی خاطرخواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہم لوگ بحیثیت قوم کامیاب لوگوں اور کاروبار سے نفرت کرتے ہیں. ہر ساہوکار کرپٹ، ہر مالدار بے ایمان اور ہر کمپنی کا مالک بے دین ٹھہرا۔ ہم بے گھر و بے آسرا لوگوں کو روٹی ضرور کھلا دیں گے مگر اگر کوئی کمپنی انہیں لوگوں کو نوکری دینے کی بات کرے تو اس کی مدد کبھی نہیں کریں گے۔ حسد و بغض کے اس رویے اور محدود جذباتی سوچ نے ہمیں آج یہ دن دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔
معاشی بحران کے اندازے:
کسی بھی ناگہانی یا وباء کی صورت میں اس کے دورس نتائج کا تخمینہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہمیں ابھی تک کرونا وائرس کی ساخت اور کام کرنے کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک نہیں ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بظاہر صحت مند نظر آنے والے لوگ کس رفتار سے اور کیسے باقی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ وائرس بچوں پر اثرانداز کیوں نہیں ہوتا اور کس رفتار سے پھیل رہا ہے۔ مزید اس کی وجہ سے حکومتیں جو اقدامات اُٹھا رہی ہیں ان کا اثر کیا نکلے گا اور لوگ اور کاروبار کیا ردعمل دینگے۔
اقتصادی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کسی بھی ملک کی معیشت کو تین طرح سے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اول ان کا اثر براہ راست سرمایہ دار طبقہ کے اعتماد پر ہوتا ہے اور وہ ملکی معیشت میں سرمایہ لگانا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی نئے منصوبے شروع نہیں کرتے بلکہ پہلے سے موجودہ منصوبہ جات کو بھی مختصر کر دیتے ہیں۔ دوسرے طریقے میں اس کا بالواسطہ اثر عام آدمی کے اعتماد اور مزید کمانے کی امید پر پڑتا ہے اور وہ صرف انتہائی ضروریات زندگی کے سوا ہر قسم کے خرچ سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور تیسری طرح کا اثر براہ راست اشیاء اور افرادی قوت کی سپلائی پر پڑتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خام مال نہیں ہو گا یا اس سے بنائے جانے والی مصنوعات کے لئے افرادی قوت نہیں ہو گی تو مصنوعات مارکیٹ تک نہیں پہنچیں گی اور آپ گاہک کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر سکیں گے۔ چائنہ دنیا کی ایک تہائی مینو فیکچرنگ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بھی ہے۔
ان تینوں طریقوں سے ملکی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے شاک جیومیٹری کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اقتصادی شاک یا تو V کی شکل کا ہو گا یا U یا L
V-Shape کی صورت میں کاروباری سرگرمیاں ایک مختصر مدت (معاشی بحران) کے لئے بہت کم ہو جاتی ہیں مگر جیسے ہی بحران ختم ہو تا ہے (مثلاً وبا کا ختم ہو جانا یا ویکسین کی فراہمی) مارکیٹ پھر سے اپنی پہلی پوزیشن یا اس سے بھی مستحکم پوزیشن پر واپس لوٹ جاتی ہے۔ کرونا وائرس کے معاشی نقصان کی شکل بھی کچھ اس طرح کی بنتی نظر آ رہی ہے کہ لوگ اور سرمایہ دار کچھ مہینوں کے لئے اپنے منصوبے اور اخراجات کو روک لیں گے مگر اس سے کوئی اتنا زیادہ مستقل نقصان نہیں ہو گا۔ 1918ء کے ایشین فلو، 1968ء کے ہانگ کانگ فلو، 2003ء کے SARS اور 2008 کے معاشی بحران کے بعد بھی معیشت نے V-shape بنایا تھا۔ ہر ملک میں اس کا دورانیہ اور شدت مختلف ہو سکتی ہے مگر شکل اس سے ملتی جلتی ہی بنے گی۔
U-Shape بحران کی صورت میں معیشت کو بحران سے پہلے والی صورت میں آنے تک کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ وہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہلکے ہلکے بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ اقتصادی ماہرین ترقی پذیر ملکوں میں کرونا وائرس کے بعد کی معیشت کو ایسے ہی دیکھتے ہیں اس صورت میں کچھ معاشی آئوٹ پٹ کا مستقل نقصان ہو جاتا ہے۔
L-Shape سب سے بُرا Shape ہے جس میں ملکی معیشت ایک طویل عرصے تک بحران کا شکار رہتی ہے۔ معیشت میں کئی جگہ Structural damage آ جاتا ہے۔ سپلائی چین، افرادی قوت، سرمایہ کاری، لیبر مارکیٹ، پیداواری صلاحیت سب انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس کا دورانیہ کچھ ماہ سے بڑھ کر کئی سالوں تک چلا جاتا ہے اور یہ Recession سے ڈیپریشن بن جاتا ہے جسے کہ 1918 کے اسپینش فلو کے بعد کوئی 10 سال تک گریٹ ڈپریشن چلتا رہا۔
یہاں اس بات کو یاد رکھیں کہ ایک ہی مصیبت یا بحران کا نتیجہ مختلف ممالک میں مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 2008ء کے فنانشل کرائسس کے بعد کینیڈا میں معاشی صورتحال V-Shape بنی کہ وہاں کے بینک اس سے متاثر نہیں ہو سکے۔ امریکہ میں U-Shape سے نکلتے نکلتے 2 سال لگے تو یونان میں L-Shape کہ آج تک اس بحران کی سنگینی سے باہر نہیں آ سکا۔
اُمید کی کرن:
مصیبنیں، ناگہانی آفات اور وبائیں انسانوں کے لئے آزمائش ہوتی ہیں۔ کوئی ان سے کندن کی طرح سنور کے نکلتا ہے، کوئی بس گزارہ کرتا ہے تو کوئی اور مصیبتوں اور گمراہی میں گر جاتا ہے۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور اسے اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے۔ جو اللہ کیڑے کو پتھر میں رزق دے سکتا ہے وہ آپکو قرنطینہ میں بھی کھلا سکتا ہے، آپ تعمیری سوچ رکھیں۔ 1887ء کی امریکن سول وار کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو صیغہ واحد میں لکھا جانے لگا تو United States are سے United States is بن گیا، اس آفت نے پورے ملک کو ایک کر دیا۔ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد یورپ میں نیشنل ہیلتھ سروسروس NHS کی بنیاد پڑی۔ عالمی جنگ عظیم دوئم کے بعد سوشل ویلفیئر اسٹیٹ اور سوشل سیکورٹی جیسے اداروں کو تقویت ملی۔ کورونا وائرس کے بعد افغانستان نے طالبان کے قیدی رہا کر دیئے ۔ یمن میں جنگ بندی ہو گئی۔ ہمیں پوری اُمید ہے کہ دنیا اس وباء کے بعد پہلے سے بہتر ثابت ہو گی۔
1918ء کے فلو میں اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ متاثر ہوا۔ 5 کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے۔ اسوقت صرف ریل گاڑی کا نظام تھا یا بحری جہازوں کا، دو سال تک دنیا اس عفریت میں جکڑی رہی مگر اس کے باوجود شمالی الاسکا کے کچھ علاقوں اور ڈنمارک کے دارالحکومت کاین ہیگن تک یہ وائرس نہ پہنچ سکا۔ بہت ممکن ہے کے اسکے اثرات پاکستان میں باقی ملکوں سے قدرے مختلف رہیں.
VO Eugeno شمالی اٹلی کا ایک گاؤں ہے جہاں کرونا سے پہلی ہلاکت 21 فروری کو ہوئی مگر آج وہاں کوئی کیس نہیں ہے۔ کوئی 3 ماہ میں یہ وائرس ملک سے چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلا کیس 27 فروری کو سامنے آیا۔ اُمید ہے مئی کے آخر تک یہ وباء بھی ہمارے ملک سے چلی جائے گی۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے اس دورانیئے میں اس کی رفتار اندازوں سے کہیں زیادہ سست رہی۔ پاکستان میں روزانہ 4219 لوگ طبعی موت مرتے ہیں۔ اس وباء سے ڈیڑھ ماہ میں 100 لوگ ہلاک ہوئے۔
صدقہ و خیرات میں ہم دنیا کی سب سے سخی قوم ہیں۔ آگے رمضان و زکوٰة کا مہینہ ہے۔ امید ہے اس بار بھی ہم ایک قوم بن کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ ہر رات کے بعد ایک صبح ہے۔ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد بھی دنیا باقی رہی ہے۔ اللہ نے اپنے نیک بندوں کی مدد ہمیشہ کی ہے کبھی ابابیلوں سے تو کبھی جنود سے، کبھی ہواؤں سے تو کبھی پانی سے، وہ اس بار بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔
بس آپ توبہ استغفار کے ساتھ تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ پیسہ کو احتیاط سے استعمال کریں اور اپنے محلے دار و عزیزواقارب کا خیال رکھیں۔ پاکستانی قوم کا مقابلہ ایک ایسی قوم سے کرنا جن کا دین ہے نہ ایمان، نہ رشتوں کی لاج نہ معاشرتی مروت کوئی اچھا کام نہیں ہے۔
ہمارے ساتھ خدا ہے ہم لاوارث تھوڑی ہیں، ہم بہت جلد اس مصیبت سے نکل آئیں گے۔امین!