عقلمند لوگ اور قومیں برے حالات، حادثات اور وبائی امراض کے حملوں سے بھی کوئی نہ کوئی خیر کی بات اور انسانی فلاح و بہبود کا منصوبہ نکال لیتی ہیں۔ وہ ہر مشکل، ہر امتحان کو اپنے لئے موقع سمجھتی ہیں اور اسے قدرت کی وارننگ سمجھتے ہوئے اپنے حالات و اعمال کا جائزہ لیتی ہیں۔ کھوج لگاتی ہیں کہ کیا غلط ہو رہا تھا اور اب مستقبل میں وہ کیا اقدامات کریں کہ سمت درست ہو سکے اور ملک و قوم پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
بہت سے لوگ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ جاتے ہیں کچھ اپنی غلطی کرکے سیکھتے ہیں اور کچھ کسی بھی طرح سے عبرت نہیں پکڑتے۔ 1887ء کی امریکن سول وار نے امریکہ کو متحد کردیا۔ 1918ء کے ایشین فلو نے نیشنل ہیلتھ سروسز اور یورپ میں سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد رکھی۔ عالمی جنگ عظیم دوئم نے امریکہ میں سوشل سیکورٹی اور دنیا بھر میں سابق فوجیوں کی پینشن کو تقویت دی۔ اگر آنکھ و کان کھلے رکھے جائیں تو آپ حالیہ کرونا وائرس کی وبا سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
آئیے روز مرہ زندگی گزارنے کے اطوار و مراحل میں دیکھتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم کیا سیکھ سکتے ہیں اور اور ہمیں کن مقامات پر اپنی توجہ مبذول کروانی چاہیے۔
1- عقیدے کی مضبوطی
محفوظ شدہ تاریخ میں یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی حادثے نے دنیا داروں کے ساتھ ساتھ دین داروں کو بھی نہ چھوڑا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی صفت بے نیازی جیسے پوری دنیا پر برس رہی ہو۔ اسے کسی کی کھاج نہیں، اس کا کسی سے لگا یا رشتے داری نہیں، وہ مالک ہے، جب چاہے سب کچھ لپیٹ دے۔ وہ بڑی سے بڑی طاقت کو ادنی ترین مخلوق سے شکست دینے پر قادر ہے۔ ساری مسجدیں بند، باجماعت نماز پر پابندی، طواف و عمرہ بند، مہینہ گزر گیا کسی نے حجر اسود کو بوسہ نہیں دیا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بند، حتیٰ کہ سعودی عرب میں تراویح و اعتکاف پر بھی پابندی۔ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم عبادت کرتے تھے تو رزق ملتا تھا۔ اللہ نے سب کو روک دیا۔ کیا گنہگار اور کیا یہ نیک باز، کیا رندوکیا شیخ، کون سے ولی اور کہاں کے گدی نشین، کس کی کشف و کرامات اور کہاں کے پیرزادے، سب رل گئے۔ اللہ کی قدرت و شان اور اس کی پکڑ کی اس سے واضح نشانی اپنی زندگی میں آج تک نہ دیکھی۔ وہ جب چاہے، جو چاہے، جیسے چاہے کرے، اس نے کونسا اسمبلی سے بل پاس کروانا ہے۔ کیا ترقی پذیر اور کیا ترقی یافتہ، کون سے ریسرچ، اور کیا میزائل۔ سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانک دیا۔
دیکھنے والوں کیلئے نشان عبرت تو اندھوں کے لیے مزید گمراہی کا سامان۔ جو ایمان لایا وہ بھی دلیل سے جو گمراہ ہوا وہ بھی دلیل پر۔ جو اللہ پتھر میں کیڑے کو رزق دے سکتا ہے وہ کیا ہمیں قرنطینہ میں نہیں کھلا سکتا ؟ یہ وبا تو دعووں اور اندازوں کا بھرم نکالنے کے لیے آئی ہے۔ اللہ کی جانب رجوع کریں، سوچیں کہ آپ کی دولت، شہرت، علم، اثرورسوخ آپ کے کسی کام کے نہیں۔ آج جیتے جی لوگ دور بھاگ رہے ہیں تو حشر میں کیا ہوگا؟
اللہ سے جڑیں، استغفار کرے اور اپنی کم مائیگی کو پہچانیں، عاجزی انعام کو اور تکبر سزا کو کھینچ ہی لیتا ہے۔ اللہ ضرور کرم کرےگا۔ اصل اور کھوٹ الگ ہو رہا ہے۔ بھٹی کی حدت بڑھ رہی ہے، ہزاروں سال کی کھوٹ ہے، آہستہ آہستہ اترے گی، آپ دعا کا دامن تھام لیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
2- منافقوں کی پہچان
اس وباء کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ منافقوں کی پہچان ہوگئی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ وائرس چائنہ میں نکلا، اگر خدانخواستہ پاکستان میں نکلتا تو اقوام متحدہ ہم پر پابندیاں لگا چکا ہوتا، امریکہ مدد تو درکنار، ہمیں اچھوت قوم کرار دے چکا ہوتا اور بھارت نے تو شور مچا مچا کر دنیا سے کہنا تھا تا کہ ہم پر بموں کی بارش کر دے۔ بھارت نے مسلمان دشمن اور لسانیت کا یہ موقع بھی ضائع نہ کیا۔ ہر ملک کا اندرونی چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ اس نے وائرس اور اس کے پھیلاؤ کو آڑ بناکر پہلا حملہ مسجدوں اور تبلیغی جماعتوں پر کیا کہ ان کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ ہندوستان تو خیر مذہب دشمن ہے ہی ہم نے پاکستان میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نہ ہی کسی کو عورت مارچ نظر آیا اور نہ ہی PSL کے کرکٹ میچ، اور نہ ہی یوم پاکستان کی پریڈ ، نہ ہی ڈیفنس کی دعوتیں، اور نہ ہی سرکاری دوروں میں درجنوں افراد کی شرکت، اور نہ ہی احساس پروگرام میں کیش کی تقسیم کے لیے آنے والی سینکڑوں عورتوں کا مسئلہ اور نہ ہی پولیس ہیڈ کوارٹرز میں سینکڑوں افراد کی اسمبلی۔ ہاں مگر مسجد میں بیس لوگ جمع ہو جائیں تو ملک تباہی کے دہانے پر۔ سماجی دوری، احتیاطی تدابیر سر آنکھوں پر مگر اس کو بہانا بنا کر جتنا زہر ہماری پڑھی لکھی اشرافیہ نے اگلا ہے اس کا دکھ کرونا سے زیادہ ہے، انکا بس چلے تو میتوں کو بھی دفنانے کی بجاۓ جلانے کا مشورہ دینے لگیں.
اس چھوٹے سے نظر نہ والے جینیاتی پیغام سے اس قوم کا یہ حال ہوا ہے تو دجال کے ظہور پر کیا کرے گی۔ اس نے ایسی کسی بیماری کا حل تجویز کر دیا تو شاید ہم اس کا ہر اول دستہ ثابت ہوں۔ یقین جانیے کہ عقیدہ آپ کی جان ومال سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ سے ماں باپ کی گالی برداشت نہیں ہوتی، ملک کے خلاف کچھ نہیں سن سکتے تو پھر اسلام اور اس سے جڑی چیزوں کی توہین کیسے برداشت ہوتی ہے۔ اس وباء کا ڈر اگر آپ کو کفر تک لے جائے تو یہ مرنے سے زیادہ تشویش ناک حالت ہے۔
3- روزگار کے بدلتے رجحانات
ہم کہہ سن کر تھک گئے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنٹس (مصنوعی ذہانت) اور خور کار روبوٹس آپ کی نوکریوں کے درپے ہیں اور آپ نئے رجحانات اور ملازمتوں کے مواقع کے حساب سے خود کو بدلیں مگر کسی نے نہ سنی۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ آخر گھر سے باہر نکلے بغیر پیسہ کمانے کی کیا سبیل ہو۔ بھلا دکان بند کر کے بھی کوئی پیسہ کما سکتا ہے؟ کیا گھر میں بھی آفیس ہوسکتا ہے؟ اس وباء نے ان تمام اعتراضات کی کی قلعی کھول دی۔ میرے جیسے گھر بیٹھے فری لانس سے پیسے کمانے والے فائدے میں رہے اور روایتی طور طریقے سے ملازمت یا کاروبار کرنے والے نقصان میں۔
اب بھی وقت ہے بدلتی دنیا کو دیکھیں، قرنطینہ کے ان دنوں کو کام میں لاتے ہوئے مستقبل کی ٹیکنالوجی کو سیکھیں۔ تجربہ کریں کہ گھر بیٹھے گروسری کیسے منگوا سکتے ہیں، ڈاکٹر کو کیسے دکھا سکتے ہیں، نئی ٹیکنالوجی کیسے سیکھ سکتے ہیں، یوٹیلٹی بلز اور آن لائن بینکنگ کیسے کرسکتے ہیں، موبائل والٹ کا استعمال سیکھیں، جانئے کہ بچے ہوم اسکولنگ کیسے کرسکتے ہیں، ان کی مدد کریں کہ وہ خان اکیڈمی، سبق اور تختی آن لائن جیسی ویب سائٹس اور یوٹیوب سے سیکھ سکیں۔
کوشش کریں اور جانیے کہ آپ فری لانس،اپ ورک، اوڈیسک، فیور اور فیس بک سے پیسے کیسے کما سکتے ہیں۔ وقت کا نظم و ضبط کیسے کریں کہ اسے زیادہ سے زیادہ کار آمد بنا سکیں۔ اور آنے والے مستقبل، ملازمت اور کاروبار کی حکمت عملی تیار کریں۔ کسی بھی ملک کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کتنے دنوں تک مسلسل جنگ کرنے کی کی سکت ہے اور اس کے اسٹریٹجک اسٹاک پائل میں کتنا سامان ہے، کتنا پیٹرول اور پانی ہے۔
مثلاً امریکا کے اسٹرٹیجک اسٹاک میں 850 ملین بیرل تیل ہے جو کہ پورے ملک کو 4 ماہ تک چلا سکتا ہے، چائنہ کے پاس بھی اتنا ہے۔ ابھی تیل سستا ہوا تو چائنہ نے خوب خریداری کی۔ ہمارے ملک میں ایسی باتیں کوئی نہیں سوچتا۔
4- ملک کی تیاری
ہم نے دیکھا کہ ہمارا ملک اس وباء یا اس جیسی کسی مشکل سے نپٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ان مصیبتوں میں بھی آٹا اور چینی کی فراہمی کو ممکن بنا دیں تو کمال ہو جائے۔ ہم نے ہر گلی، محلہ، شہر، اور فلاحی اداروں کی سطح پر وینٹی لیٹر کا بندوبست کرنا ہے تاکہ آئندہ ایسی صورت حال سے بہتر طور پر نپٹا جا سکے۔ سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ 2003 میں SARS کے بعد CDC کے تعاون سے ایپیدمولوجی فیلو شپ کے کورسز کی شروعات کی جس میں سالانہ سینکڑوں کے حساب سے سعودی شہری اس فیلڈ میں ٹریننگ لیتے ہیں۔ ہمیں بھی کسی ایسے ہی پروگرام کی ضرورت ہے۔ حکومتی کردار کے بارے میں تفصیلی بات میں اپنے گزشتہ مضمون کرونا وائرس پاکستان کیا کرے میں تفصیلی طور پر کر چکا ہوں۔
5- گھر کی تیاری:
کیا آپ کے گھر میں اتنا راشن موجود ہے کہ آپ اپنا اور اپنے ہمسائے کا ایک ماہ تک خیال رکھ سکیں؟ کیا بینک میں اتنی رقم جمع ہے کہ آپ نوکری یا کاروبار نہ ہونے کی صورت میں 3 ماہ یا 6 ماہ سروائیو کر سکیں؟ آپ کا اپنا خاندانی اسٹرٹیجک اسٹاک پائل کتنا ہے؟ اور اگر نہیں تو آج ہی تہیہ کرلیں کہ اس پر کام کرنا ہے۔ اس بات تفصیلی بات اپنے گزشتہ مضمون کورونا وائرس اور معاشی نظام میں کر چکا ہوں.
کیا آپ کا گھر ایسی جگہ ہے جہاں گندگی بہت ہے؟ قریب میں دکانیں اور ہسپتال نہیں؟ کیا آپ کسی اور جگہ کرائے پر گھر لے سکتے ہیں یا اسے بیچ کر کسی اور جگہ شہر میں منتقل ہو سکتے ہیں؟ اور کچھ نہیں تو صرف تیز رفتار انٹرنیٹ کی دستیابی ہی ایک مکمل وجہ ہے کہ آپ کو اپنا گھر شفٹ کر دینا چاہیے۔
6- دوسری انکم
کیا آپ کوئی دوسرا کام یا کاروبار جانتے ہیں جو ایسے میں کیا جاسکے؟ کیا آپ بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں؟ کوئی آن لائن کورس، ویب سائٹ یا لوگو ڈیزائن یا کچھ اور۔ کیا آپ دعا مانگ سکتے ہیں؟ سوچیے کہ اگر یہ مصیبت پھر لوٹ آئے تو آج اور آئندہ میں کیا فرق ہوگا اور آپ کیا کرسکتے ہیں کہ اس کا بہتر مقابلہ کر سکیں؟
آئیے، اس مشکل گھڑی میں میں چند مشکل فیصلے کرتے ہیں۔ کٹھن ارادے باندھتے ہیں کہ آنے والی زندگی آسان ہو جائے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر!