ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے خود نہ لوٹے تو لوٹا دی جاتی ہے۔ عقلمندی یہی ہے کہ خود ہی لوٹ جائے۔ جو جو اپنی اصل پہ رہا اس نے ترقی و فلاح پائی۔ جو جو اس سے منحرف ہوا وہ خسارے میں رہا۔ ہر جیز کی ایک اصل ہوتی سے۔ ایک بنیاد، ایک خمیر جو اِسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مٹی کے خمیر والی اشیاء مٹی کی طرف لوٹتی ہیں، آگ والی آگ کی طرف۔ دیکھنا یہ چاہئیے کہ کسی شئے کی اصل کیا ہے؟
کچھوے کی اصل خول میں چلا جانا ہے۔ وہ جب رات پڑتی ہے، جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے، جب خوف در آتا ہے، جب اپنے آپ سے بات کرنے کو جی چاہے، اپنا منہ خول کے اندر لے جا کر اپنے آپ کو دنیا سے کاٹ لیتا ہے
مچھلی کی اصل پانی ہے۔ گہرا پانی۔ وہ پانی کی اُپری سطح پر آکر رزق تلاش کرتی ہے۔ بسا اوقات اِسی تلاش میں شِکاری کے ہاتھوں موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے۔ اور اگر نہیں تو کام پورا ہوتے ہی گہرے پانی میں جا کر جائے پناہ پاتی ہے
پرندوں کی پناہگاہ، ان کا خیمہ ان کا گھونسلہ ہے اور اصل ہے اُڑان. اڑنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ جب کچھ نہ بھی کر رہے ہوں تو بھی اڑتے ہیں، کوئی کام سے باہر جائیں، رزق تلاش کریں یا نیا مسکن، تو بھی اڑ رہے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں پنجروں میں قید کر دیں، سالہاسال تک، اغواء برائے تاوان کے قیدیوں کی طرح جرمانہ لے کر آزاد کریں مگر جیسے ہی دروازہ کھلا وہ اپنی اصل پر لوٹیں گے اور آڑ جائیں گے۔
کائنات کی ہر شئے اپنی اصل، اپنی محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ چلیں حقیقت چھوڑیں اور افسانوی کردارہی لے لیں۔
ڈریکولا اور ویمپائر کی اصل خون پینا ہے۔ جیسے ہی سورج غروب ہوا وہ اپنی جون، اپنی حالت پر پلٹتے ہیں اور لوگوں کا خون پینا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انسان کی اصل کیا ہے؟ اِس کا خمیر کہاں سے اٹھا؟ اِس کی حقیقت کیسے بیاں ہو؟
عبادت کا اصل معرفت ہے اور معرفت اللہ سے قرب کو کہتے ہیں۔ نیکی معرفت کی اِکائی ہے اور گناہ اِس کی نفی۔ انسان کی اصل بندگی ہے۔ اپنے رب سے قربت ہے مگر پتہ نہیں کیوں یہ نہیں لوٹتا اپنی جون کی طرف، اپنے خمیر کی طرف، یہ نہیں کہتا لبیک اپنی اصل کی آواز پر۔ ڈریکولا سے بھی گیا گزرا ہے۔ نہ دن میں اپنی اصل پر آتا ہے نہ رات میں، نہ صبح میں نہ شام میں، نہ جاگتے میں نہ سوتے، نہ غمی میں نہ خوشی میں۔ نہ مستی میں نہ ہستی میں۔ نہ کامیابی پہ نہ ہی ناکامی پہ۔ آخر ایک دن جانا ادھر ہی ہے۔
آپ کبھی کوئی پرانی کتاب پڑہیں، فلم دیکھیں یا کوئی ٹی وی ڈرامہ، تو ذرا دیر کو سوچیں کہ یہ ورلڈ وار کے ہیروز، یہ خوبصورت کردار، یہ دنیا کو پاؤں کی چوٹ پر رکھنے والے فنکار، یہ سب کہاں گئے؟ فرق صرف اِس بات کا ہے کہ کتنے اصل شکل و صورت میں گئے تو کتنے بہروپئیے ٹھہرے۔
اللہ کا ذکر وہ ریل گاڑی ہے جس کا آخری اسٹیشن اصل کے سِوا کچھ بھی نہیں۔