آج میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک نوجوان گھومنے اور ایڈونچر کے شوق میں جنگل میں کافی اندر چلا جاتا ہے اور راستہ بھول بیٹھتا ہے۔ دن سے رات اور رات سے دن، بھوک کے مارے بُرا حال ہو جاتا ہے۔ کئی دن گزر گئے مگر کچھ کھانے کو نہ ملا، جنگلی درندوں کا خوف اور راستہ نہ ملنے کی پریشانی الگ، عین ممکن تھا کہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا کہ اچانک اُس کی نظر سیب سے لدے پھندے درخت پر پڑی۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس کی خوشی کی کیا انتہا تھی، بڑے بڑے سیب۔ اُس نے پہلا کھایا تو جیسے دنیا کا لذیذ ترین سیب تھا، دوسرے نے تو پیٹ ہی بھر دیا۔ اس نے احتیاطاً تیسرا بھی کھا لیا کہ آگے پتہ نہیں کچھ ملے یا نہیں مگر اس کا ذائقہ پہلے سیب جیسا محسوس نہ ہوا۔ چوتھے سیب کو آگے پیچھے سے جانج کر دیکھا اور اس کی شکل پسند نہ آئی، ذائقہ بھی اچھا نہ لگا تو پانچواں سیب ایک لقمہ لینے کے بعد ہی پھینک دیا۔
ماہرین ِ معاشیات اِسے Law of Diminishing Marginal Utility کہتے ہیں کہ کسی چیز کی فراوانی ہر ایک یونٹ کے استعمال کے ساتھ اس کی قدروقیمت کو کم کرتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کو ایک اچھا ویکیوم کلینر چاہئے تو آپ مختلف برانڈز دیکھ کر کوئی ایک خرید لیں گے مثال کے طور پر دو ہزار کا۔ اب اگر آپ کو کوئی اور دوسرا ویکیوم کلینر دکھائے گا تو آپ اِسے آدھی قیمت پر بھی نہیں لیں گے کیونکہ پہلے سے آپ کی طلب مکمل ہو گئی ہو گی۔ آپ نے کپڑوں اور کھانے پینے کی اشیاء مثلاً ڈونٹ اور پِزا پر اِس قسم کی رعایت دیکھی ہوگی کہ پہلا خریدنے پر دوسر 50 فیصد رعایت پر۔ یہاں اسی قانون کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
ہم زندگی میں بھی اِس نظریے پر عمل کرتے ہیں۔ جب بنیادی تمام چیزیں میسر ہو جائیں تو اس کے بعد رنگ و نسل، سائز، حسن، ذائقہ، کوالٹی ہر شئے پر اعتراض شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے ایک بار ایک بری فلائیٹ میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا، ایئر پاکٹ کی وجہ سے جہاز 32000 فٹ سے 21000 فٹ پر صرف 2 منٹ کے عرصے میں آ گیا، آکسیجن ماسک گر گئے، لائٹ جل بجھ کرنے لگی اور گھنٹیاں بجنے لگیں۔ لوگ دعائیں پڑھنے لگے، میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے شخص نے تو چیخ چیخ کر کان کے پردے پھاڑ دیئے۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ خوف سے ہی مر جائے گا۔ خیر جب جہاز پھر کنٹرول میں آیا اور کچھ سمے بعد ایئر ہوسٹس نے چائے سرو کی تو اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا ”مزا نہیں آیا” کچھ ٹھنڈی ہے، میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا کہ کچھ منٹ پہلے تک یہ شخص سو فیصدی اپنے مرنے پر یقین کر چکا تھا اور اب کچھ منٹ بعد ہی اِسے اعتراض سوجھ رہا ہے وہ بھی چائے جیسی چیز پر۔
آپ غور کریں کہ خدا کی کتنی نعمتیں ہیں جو ہمیں روز ملتی ہیں۔ سینکڑوں کیا لاکھوں لوگ اِس سے محروم ہیں مگر ہم اِن نعمتوں کے ساتھ پانچویں سیب جیسا سلوک کرتے ہیں۔ آپ آسمان سے گِر کر جس کھجور میں اٹکے ہیں نا، لوگوں کی نسلیں لگ جاتی ہیں اُس کھجور تک پہنچنے میں مگر وہ نہیں ملتا۔
ایمان اور صحت ہماری زندگی کا پہلا سیب ہے، تعلیم و روزگار دوسرا، خاندان اور دوست تیسرا، معاشرے میں مقام اور نام چوتھا اور اس کے بعد کی تمام نعمتوں کا حشر ہم اس جنگل میں کھو جانے والے نوجوان کے پانچویں سیب کی طرح کرتے ہیں۔ دنیا کے جنگل میں کھونے سے پہلے اللہ کی نعمتوں کا شکر کرنا سیکھیں۔ اِن کی قدر ان کے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
اللہ ہم سب کو شکر گزار بنائے۔ آمین!