امیر ہونا اور رہنا سیکھنا پڑتا ہے، غریب ہونا تو سب کو آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو چیزیں بچوں کو بالکل بھی نہیں سکھائی جاتیں ان میں سے ایک فنانشل لٹریسی ہے۔ یہ نہ تو آپ کو اسکول یا مدرسے کی تعلیم میں ملتی ہے نہ ہی گھر پر والدین سکھاتے ہیں نہ ہی دوستوں اور رشتہ داروں سے اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح یہ تربیت کا حصہ ہے۔
آس پاس دیکھیں، آپ کو کتنے گھرانے ایسے ملیں گے جن میں بچوں کو ماں باپ کی تنخواہ یا آمدنی معلوم ہو۔ ہم ہر چیز پرووائیڈ کرنے کے رعب میں اور اپنی اولاد کو دنیا جہان کی خوشیاں دینے کے زعم میں ان سے کبھی ڈسکس ہی نہیں کرتے کہ ان کی خواہشوں کے پیچھے کتنی محنت لگتی ہے۔ ان کے گھومنے کے ایک ٹرپ کے پیچھے سال بھر کا بونس چلا جاتا ہے اور ان کی ٹیوشن کی فیس کے لئے دوسری جاب یا اوورٹائم کرنا پڑتا ہے۔
یہی حال ہمارے اپنے ہمسفر کے لئے ہوتا ہے، چاند ستارے توڑ کے لانے کے وعدے تو سب کرتے ہیں مگر اُس کی قیمت کیا چکانی پڑتی ہے اِس سے سب بے خبر ہیں۔ والدین کے قدموں تلے جنت، مگر جس معاشی دوزخ سے گزر کر یہاں تک پہنچنا پڑتا ہے اس سے سب بے نیاز کہ بچپن سے جوانی، اور جوانی سے بڑھاپے تک ہم اپنی معاشی حالت سب سے چھپاتے چلے آئے ہیں۔
جو مانگا وہ مل گیا، اب کیسے بھی ملا، میری بلا ہے۔ یہ تربیت ہمارے بچوں میں استحقاق (Entitlement) کا احساس پیدا کرتی ہے۔ لڑکے جوان بھی ہو جائیں تو والدین پر انحصار کرتے ہیں اور اوپر سے احسان بھی نہیں مانتے کہ دنیا کے ہر والدین ایسا ہی کرتے ہیں اور یہ تو بچوں کا حق ہے۔ لڑکیاں اِسی ”حق” کے ساتھ شادی کرکے کسی اور کہ ذمہ چلی جاتی ہیں اور پھر انہیں اپنی ہر فرمائش پوری چاہئے یہ جانے بِنا کہ وہ کیسے پوری ہو گی۔
ابھی بچے ہیں، ایسی باتیں ان کے سامنے نہ کرو، ہم فنانشل ڈسکشن بچوں کے سامنے نہیں کرتے اور اس جیسے درجنوں جملے آپ نے ضروری سنیں ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ”بچہ” گریجویشن کر لیتا ہے، ماسٹرز کر لیتا ہے اور اس کا اپنا کریڈٹ کارڈ تو درکنار بینک اکائونٹ تک نہیں ہوتا۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ NTN کیا بلا ہے، اکائونٹ مینٹیننس سرٹیفکیٹ کسے کہتے ہیں، کریڈٹ اسکور کس چڑیا کا نام ہے۔
اصل زندگی، جو شاید ان بچوں کے لئے 25 سال کی عمر کے بعد شروع ہوتی ہے وہاں اسی پیسوں کا مقام سب سے زیادہ ہے۔ کاروباری دنیا تو الگ سگا بھائی اور رشتہ دار بھی ایک ایک روپے کا حساب رکھتے ہیں۔ آپ نے گھروں میں شادیوں میں ملنے والے تحائف کے ریکارڈ کی کاپیاں تو دیکھی ہی ہوں گی۔ آپ پوری زندگی جس شخص کو ”میلا پپو، میلا بچہ” کہہ کر پال رہے تھے، اب آپ نے اُسے اِس معاشرے میں جھونک دیا جہاں پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ یہ سکھائے بغیر کہ اسے کمانا کیسے ہے؟ خرچ کیسے کرنا ہے؟ جمع کیسے کرنا ہے؟ اس کی حفاظت کیسے کی جائے؟ فنانشل کریڈیبلٹی کیا چیز ہے؟ اور مالی معاملات کے پیج و خم کیا ہیں۔
بچوں میں فنانشل لٹریسی (مالی سوجھ بوجھ) کے لئے میں آپ کو چند باتیں سکھا دیتا ہوں اس پر عمل کریں، انشاء اللہ ضرور افاقہ ہو گا۔
کسی بڑے سے پوچھ لیں کہ اس کے اگر کوئی غلط نتائج نکلیں تو سارا دوش مجھ پر ہی نہ آئے، اپنے طور پر پر کیجئے۔ میں نے ذاتی طور پر اپنے بچوں کے ساتھ اِسے پرکھا ہے اور خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
-1 بچوں کو پاکٹ منی ایکسل شیٹ کے ساتھ دیں۔ مثلاً آپ بچوں کو 500 روپے ماہانہ دیتے ہیں تو اپنے لیپ ٹاپ میں یا کسی کاپی میں اس کے نام کے سامنے ہر پہلی تاریخ کو 500 روپے لکھ لیں۔ اب آپ سے وہ جو بھی خرچہ کروائے، مثلاً روز کچھ پیسے اسکول لے کر جائے یا آئس کریم کھا لے تو اسے سامنے بٹھا کر ان پیسوں کو 500 یا بیلنس میں سے نفی کر دیں۔ اسی طرح اگر آپ اسے خوش ہو کر ہوم ورک کرنے، گھر کے کام کرنے یا اچھا رزلٹ لانے پر کوئی انعام دینا چاہیں تو اسے اس کے کھاتے میں جمع کر دیں۔ بچے کو سالگرہ پر پیسے ملیں، عید پر عیدی یا نانا نانی، دادا دادی کچھ دیں سب ایکسل شیٹ میں جمع تفریق ہو جائے گا۔
بچہ آپ سے جب بھی کوئی فرمائش کرے آپ اسی سے پوچھیں کہ تمہارے اکائونٹ میں کتنے پیسے ہیں، کیا ہم یہ چیز خرید سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا تم کسی کام میں میرا یا کسی کا ہاتھ بٹا کر کچھ پیسے مزید کما سکتے ہو۔
آپ کو بچے کو دو چیزیں باور کرانی ہیں۔ پہلی یہ کہ ”کھاتا جھوٹ نہیں بولتا” یعنی جو پیسے کاپی یا ایکسل شیٹ میں لکھ دیئے گئے ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ دائم یہ کہ جس چیز کے پیسے آپ کے پاس نہیں ہیں وہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔
آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی عرصے میں آپ فنانس کے بہت سے ایڈوانس مضامین اسی سادہ سی ایکسل شیٹ سے اپنے بچوں کو سکھا رہے ہوں گے مثلاً اُدھار کیسے مل سکتا ہے، انویسمنٹ کیسے کی جائے، زکوٰة کیسے نکالیں اور سود کتنی بری چیز ہے۔
یہی بچہ جب 12 سال کا ہو جائے تو آپ اس کا چائلڈ اکائونٹ کھلوا دیںگ اور ڈیبٹ کارڈ اور چیک بک کا استعمال سکھا دیں اور جب 18 کا ہو جائے تو اس کا اپنا اکائونٹ کھلوا دیں۔
-2 سفر کا حساب بچوں کے ذمہ لگا دیں۔ جب بھی آپ بچوں کو شہر یا ملک سے باہر لے جائیں تو جانے سے پہلے انہیں بتا دیں کہ آپ کے پاس اس سفر کا کتنا بجٹ ہے جس میں آپ نے آنا جانا بھی ہے، ہوٹل اور سواری کا بندوبست بھی کرنا ہے، کھانا پینا بھی ہے اور گھومنا بھی ہے۔ آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ بچے کیسے کیسے کریٹیو طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ وہی بچے جو 5 اسٹار ہوٹلوں میں بھی خوش نہ ہوتے تھے اب آپ کو خود ہی ٹینٹ میں رات گزارنے کے مشورے دیں گے۔
-3 گھر کے ماہانہ بجٹ میں شامل کریں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ہر روز مرغی نہیں کھائی جا سکتی، آٹا دال کیا بھائو ہے، بجلی کا بل کتنا آتا ہے، ادھار کی قسطیں کہاں سے جاتی ہیں وغیرہ۔
ایسا کرنے سے وہ آپ کی مالی پریشانیوں کو بھی سمجھیں گے اور آپ کے ساتھ تعاون بھی کریں گے۔
-4 پیسہ کمانا سکھائیں۔ آپ بچوں سے کہہ دیں کہ 18 سال کی عمر سے پہلے وہ جو بھی پیسے کمائیں گے آپ اسے ڈبل کر دیں گے۔ اب چاہے وہ کسی کی گاڑی دھوئیں، فائیور پر لوگو بنائیں، ویڈیو گیم میں کوئی مقابلہ جیتیں، پروگرامنگ یا اسٹارٹ اپ مقابلے میں جائیں یا آن لائن بزنس یا انویسٹمنٹ کریں، آپ بچوں کی قابلیت، سوچ اور جدت پر حیران رہ جائیں گے۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مستقبل میں انہیں ایک کامیاب بزنس مین اور ذمہ دار انسان بننے میں بہت مدد کریں گی۔
اُمید ہے آپ اِن پر ضرور عمل کریں گے۔