آج امریکہ میں ہیلووین کا تہوار تھا۔ مذہبی حیثیت تو اسکی بالکل ہی ختم ہو گئی تھی اگر کبھی کوئی تھی بھی سہی۔ فی الحال تو یہ صرف بچوں کا ایک کھیل بن کر رہ گیا تھا جس میں وہ گھر گھر جا کر ٹافیاں جمع کرتے تھے اور ڈراؤنے کرداروں مثلاً ڈریکولا کے کپڑے پہن کر میک اپ کرتے تھے۔
عبداللہ نے سوچا اچھا موقع ہے پڑوسیوں سے ملنے کا، ویسے بھی عبداللہ کی فیملی اس پورے محلے میں واحد مسلمان اور پاکستانی فیملی تھی کہ یہ بہت امیروں کا علاقہ تھا اور کوئی کوئی ہی یہاں رہنا افورڈ کر سکتا تھا۔ مگر یو ٹیوب اور فیس بک بھرے پڑے تھے ان بیانات سے کہ ہیلووین منانا شیطان کو ماننے کے مترادف ہے اور کفروالحاد کے فتوے الگ۔
عبداللہ نے بہت سوچا کہ گھر پہ بچے آئیں گے، پہلی بار کسی مسلمان سے سابقہ پڑے گا، خالی ہاتھ بھیجنا مناسب نہیں، وہ بہت ساری ٹافیاں لے آیا، اس کے اپنے بیوی بچے ٹافیاں لینے چلے گئے اور وہ لگا ٹافیاں بانٹنے۔ جو بھی گھر آیا وہ ٹافیوں کے سائز اور مقدار پر حیران ہوا کہ عبداللہ دل کھول کر بانٹ رہا تھا، کچھ نے تو کہہ بھی دیا کہ انہیں اس گھر سے کچھ ملنے کی اُمید ہی نہیں تھی، عبداللہ نے بچوں کے ساتھ آئے والدین کو بھی سلام کیا اور خیریت پوچھی۔ اس بہانے اس کا پورے محلے سے تعارف ہو گیا اور محلے والوں پر بھی مسلمانوں کا شاید کوئی نیوٹرل امیج بن سکا ہو۔ عبداللہ کو سمجھ نہ آتی تھی کہ صرف کفروالحاد کے فتوے لگا کر اور غیرمسلموں کی ہر ہر چیز کو برا بھلا کہہ کر آپ کیونکر تبلیغ کر سکتے ہیں۔ داعی کی نظر میں وسعت ہونی چاہئے اور دل بڑا جو ان چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرکے منزل کو دیکھ سکے۔
عبداللہ آج کی رات سونے لیٹا تو اسے ایک خیال آیا، اس نے جمع ہونے والی ساری ٹافیاں نکال کر بستر پر ڈھیر کر دیں اور لکھنے لگا کہ کس گھر والے نے کون سی اور کس قسم کی ٹافیاں دی ہیں۔ جلد ہی وہ ایک پروگرام لکھنے کے قابل ہوگیا، کمپیوٹر میں جس سے وہ ملنے والی ٹافیوں کو ان کے گھروں سے لنک کر سکتا تھا، پھر اس نے درجنوں کے حساب سے آن لائن پبلک ڈیٹا سیٹس کو کھنگالہ اور وہ ٹافیوں کی مدد سے یہاں تک معلوم کر سکا کہ دینے والوں کی سالانہ تنخواہ/ آمدنی کتنی ہے، گھر میں کوئی بچی / بیٹی بھی ہے یا نہیں اور گزشتہ الیکشن میں انہوں نے ووٹ کس کو دیا تھا۔ عبداللہ نے صبح ہونے سے پہلے پہلے ایک مفصل مضمون لکھ کے انٹرنیٹ پر ڈال دیا، اور اس کے بعد زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس کے شہر میں اس کا چرچا ہونے لگا، بہت سے دوست بنے، بہت سے ملنے کے لئے آئے اور عبداللہ خندہ پیشانی سے ان کے سوالات کے جوابات دیتا رہا۔ عبداللہ کو اس اجنبی ماحول میں یہ مانوسیت بڑی بھلی لگی۔
ابھی اس تہوار کو گزرے کچھ ہی دن ہوئے ہوں گے کہ عبداللہ کو اپنے ملک سے ایک دوست کی بڑی کڑاکے دار ای میل موصول ہوئی۔
ڈاکٹر عبداللہ!
آپ کے لئے دل میں بڑا احترام تھا اور ایک باطل خیال تھا کہ آپ مسلمان ہیں، مگر آپ کی ہیلووین کی حالیہ ’’عیاشیاں ‘‘ دیکھ کر اور آپ کے اس تہوار میں جوش و خروش کو دیکھ کر آپ کی دینی بے غیرتی کا احساس ہوا۔ تمہیں پتہ ہے عبداللہ کہ تم اتنے ذلیل و خوار کیوں ہو؟ اس لئے کہ تم سوچتے بہت ہو، لعنت ہو تم پر کہ بھگوڑے کی طرح بھاگ کر منہ چھپائے امریکہ میں بیٹھے ہو، تمہارے ان منحوس سوالات کی وجہ سے تم عبدالستار ایدھی نہ بن سکے، نہ ہی ٹاٹا کی طرح کوئی کمپنی ہی بنا سکے۔ جس دینی بے غیرتی کا مظاہرہ آپ نے کیا ہے اس کی اُمید تو مجھے غیرمسلموں سے بھی نہ تھی، خیر ملکی غدار اور غیرملک کے ٹکڑوں پر پلنے والے ایجنٹس کیسے ہوتے ہیں، آج پتہ لگا۔
خدا آپ کو جہنم واصل کرے
عبداللہ کے لئے اس قسم کی ای میلز نئی تھیں نہ طنز و طعنے میں ڈوبی تحریریں نہ ہی کوئی اچنبھے کی بات تھی کہ ملک کے طبقہ اشرافیہ سے اس زبان میں گفتگو ہوگی نہ ہی ملال اس بات کا کہ جہنم کا ایک پروانہ اور ملا۔
عبداللہ پریشان اس بات پر تھا کہ یہ آخر دینی غیرت کہتے کسے ہیں؟
یہ دینی غیرت ہوتی کیا ہے؟ اور اس غیرت کے ہونے نا ہونے سے فرق کیا پڑتا ہے؟
کیا دینی غیرت صرف اس بات کا نام ہے کہ آدمی شلوار قمیض پہن لے؟
سر پر ٹوپی رکھ لے؟
اور دنیا کی ہر ہر چیز کا بائیکاٹ کر دے؟
یا اس بات کا کہ غیرمسلموں سے بات چیت ختم کرے؟ اُن سے اُن کے ملکوں سے، انکی ہر چیز سے نفرت کرے؟
اور پھر بھی دینی غیرت کے الاؤ کی آگ ٹھنڈی نہ پڑے تو چھری اپنے مسلمان بھائیوں پر چلائے، فرقوں میں بانٹے کفروالحاد کے فتوے جاری کرے، یہ دھارا یونہی بہتی رہی تو ایک دن دنیا میں کوئی بھی غیرت مند نہ بچے گا۔
یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب پوری قوم کشکول لئے آئی ایم ایف کے سامنے بھیک مانگتی ہے، یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب ورلڈ بینک قسط روک لیتا ہے اور ملک میں بجلی سے لے کر پٹرول تک، اور چینی سے لے کر آٹے تک کا قحط پڑ جاتا ہے۔ یہ دینی غیرت اس قوم میں نظر کیوں نہیں آتی جو اپنے ایک انچ رقبے کے لئے تو ملک سے لڑ جاتی ہے مگر پورے مستقبل کی پلاننگ کسی اور سے کرواتی ہے۔ یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب عقلیں گروی رکھوا دی جاتی ہیں۔ ملکی باشندوں کو بیچ دیا جاتا ہے۔ غیرملکی ملک میں گھس کر میزائل داغ کر چلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، یہ دینی غیرت کہاں سو رہی ہوتی ہے جب بارہ ہزار لوگ سالانہ ملک میں بھوک سے مر جاتے ہیں۔ پںرہ سو سے اجتماعی زیادتی ہو جاتی ہے سینکڑوں کا ریپ ہو جاتا ہے چرچوں اور مسجدوں میں دھماکے ہو جاتے ہیں۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ ان دینی غیرت کے دعویداروں کا گریبان نہیں دامن پکڑنا چاہئے۔ پاؤں پکڑنے چاہئیں کہ حضرت خدا کے واسطے رحم کریں۔ خود بھی کام کریں دوسروں کو بھی کرنے دیں۔ جتنی زندگی میں آپ نے گالیاں اور طعنے دیئے ہیں اتنی دعائیں ہی دے دی ہوتیں تو شاید ایک آدھ دینی غیرت مند آپ کے خاندان سے ہی نکل گیا ہوتا۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ جب شخصیت پختہ ہو تو آدمی بھوک اور افلاس کی پرواہ کئے بغیر نظریئے پر کام کرتا ہے۔ نظریہ تمام فطری تقاضوں کی طرح ایک ازلی بھوک اور طلب ہے۔ جب شخصیت پختہ نہ ہو تو آدمی کو چاہئے کہ آرام و سکون سے ضروریات زندگی پر توّجہ دے۔ اور جب معاشی بے فکری ہو جائے تو وژن کی بات کرے۔ تحریکوں پر پلی ہوئی قوم جس کا حافظہ آدھے گھنٹے کا نہ ہو سوائے تنقید کے کر بھی کیا سکتی ہے۔