نیا سال مبارک
ذیشان الحسن عثمانی
سال 2020 کا اختتام ہے اور 2021 شروع ہونے والا ہے۔ اس سال نے انسانوں کو انسانیت سے بہت دور کر دیا۔ سوچا کہ نوحہ لکھوں یروشلم پر ظالموں کے ظلم کی حجت کا اور عالمِ اسلام کی بے بسی اور کسمپرسی کا۔ پھر سوچا کہ بربریت کی داستان رقم کردوں جو کچھ کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر گزر گئی۔سوچا کے بوسنیا میں سردی سے ٹھٹھرتے مسلمانوں کا بیان کروں، پھر سوچا کہ اربابِ اختیار کی قلم کے ذریعے کھال کھینچوں کہ جہاں ذاتی اختیارات، اَنا اور غصہ خدا کی تقدیر کو چیلنج کریں وہاں سکون کے سوتے نہیں پھوٹتے۔ پھر سوچا کہ ملکی درسگاہوں اور ان میں پروان چڑھنے والی نسل کا سِیاپا لکھوں۔ اشفاق احمد صاحب کہتے تھے کہ درسگاہ میں “س” اِضافی ہے، یہ تو درگاہ ہوتی ہے۔ پھر سوچا کے کورونا کا رونا روؤں.
ایک کے بعد ایک شخص، کاروبار، ملک، ادارہ اور نظریہ تنقید کی زد پر آتا چلا گیا مگر میں رک گیا، اور سوچا کہ کیوں نہ اپنے آپ پر ہی مرثیہ لکھ دوں؟ آدمی اپنی ذات کا بہترین شاہد اور بدترین ناقد ہوتا ہے۔ جتنی تنقید ہم ملک پر کرتے ہیں اس کا سوواں حصہ بھی اپنے آپ پر کر لیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔
تو آج کا یہ مضمون میرے اپنے ہی نام ہے۔ کاش میں انسان بن گیا ہوتا تو آج ملک و معاشرے کی ترقی و سُدھار میں کوئی تو کام کر رہا ہوتا۔
موٹی ویشنل سپیکنگ کا سارا بھوت میرے ایک استاد نے ایک جملے میں اُتار دیا۔
“صرف خُدا کی ذات واجب الوجود ہے۔ اس کے علاوہ ہر شئے ممکن الوجود ہے اور ہر ممکن الوجود معدوم الوجود ہے.”
اور یہاں میں نے اپنی ذات کو ہی مثال بنا بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ میرا وژن، میرا کام، میرے پراجیکٹس، میرا ناول، میرے بچے، میرا لکھنا، میرا پڑھنا، میرا بولنا۔۔۔
جس شخص کو دیکھ کر خُدا نہ یاد آئے وہ اِس قابل ہی کہاں ہوتا ہے کہ اُسے فَالو کیا جائے۔ آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ موٹی ویشنل سپکیرز کی ویڈیوز کو کچھ دیر میوٹ کرکے دیکھا کریں، اگر دل پر ضرب لگتی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر کوئی جوکر ناچتا نظر آۓ تو وہ دیکھنے کے قابل نہیں. ایک صاحب دل نے کیا خوب بات کہی، کے جس شخص کی خاموشی آپکو فائدہ نہ دے سکے اسکی گفتگو ابھی اس لائق نہیں کے آپ اسے سننا پسند کریں.
آدمی کی زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ اس کا عقیدہ ہے اور اس کے بعد اس کا وقت۔ اللہ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے پتہ نہیں کیا کچھ لکھ لکھ کے لوگوں کا وقت برباد کیا۔ دنیا سے گھبرا کر جو لوگ فیس بک اور ٹوئٹر پر پہنچے کہ شاید جِی ہلکا ہو میں نے انہیں وہاں بھی جا لیا۔ خدا کی پناہ کچھ یو ٹیوب اور ویڈیوز کو لاکھوں لوگوں نے دیکھ لیا، اگر حشر میں اللہ سے کہدیا کے اسکو فالو کرتے تھے تو میں کہاں جاؤنگا. اگر میرے ایک استاد نے تاکید نہ کی ہوتی تو کب کا اس سوشل میڈیا سے توبہ تائب کر چکا ہوتا
سچ بول بول کہ احساسِ برتری کا وہ جال بُنا کہ سارے بےزبانوں کا دَم گھٹ گیا۔ سچ کی بہت سی قسمیں ہیں، ان میں سے ایک پاکستانی سچ ہے۔ آپ بھرے مجمع میں مولوی صاحب سے ٹوپی اور پائنچوں کا حکم اس لئے نہیں پوچھتے کہ آپ کو معلوم نہیں۔ آپ نے تو پہلے ہی ٹوپی پہن کر، پنڈلیوں تک شلواریں چڑھا رکھی ہیں۔ آپ اس لئے پوچھتے ہیں کہ ہر بغیر ٹوپی والے شخص کی تذلیل ہو۔ وہ چھوٹا ہو جائے اور آپ کی برتری کا ثبوت مہیا ہو۔
آپ درسگاہوں سے کانفرنسز تک، مسجدوں سے لے کر بازاروں تک چلے جائیں ہر شخص آپ کو “سچ” ہی بولتا ملے گا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ سچ شرک ہے۔ ہم اپنی اَنا کو روز بھرتے ہیں۔ انا کھاتے ہیں، انا لکھتے ہیں، انا پڑھتے ہیں، انا جیتے ہیں، انا مرتے ہیں۔ “مئے” کا نشہ ایک رات میں اتر جاتا ہے، “میں” کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔ اَنا کے غلاموں کے اس ملک میں کوئی تو ہو جو دل لکھے۔ دل میں تو خُدا رہتا ہے اور اُسی کا حق ہے کہ اسے لکھا جائے، بولا جائے، پڑھا جائے، اسی کے نام پر جیا جائے اور مرا جائے۔
ہم بیرونِ ملک سے پڑھ کر آنے والے لوگ پتہ نہیں اپنے عقیدے کی چادر میں کتنے ہی شگاف کر لاتے ہیں۔ اخلاق کہیں سے سیکھ لیئے تو نظریات کسی اور سے مستعارلے لیئے۔ کوئی کام کتنا ہی اچھا ہو مگر ہم تب تک نہیں کرتے جب تک ہمارا نام اس سے جڑا ہوا نہ ہو۔
وطن کی محبت؟ سب بکواس۔ یہ تو شرمندگی و پشیمانی کا وہ جرمانہ ہے جو ہم صرف لفاظی سے اُتارتے رہتے ہیں۔ ایچ۔ایل۔ میںکن اٹھارویں صدی کا ایک بڑا فلاسفر تھا وہ کہتا تھا کہ جس ملک میں ہرشخص کے پاس اوریجنل آیئڈیا ہو وہ چل نہیں سکتا۔ یہ لیڈرشپ کا بھوت لگتا ہے مر کے ہی جان چھوڑے گا. جو شخص مرنے کے قابل نہ ہو وہ جینے کا قابل کیونکر ہوا؟
چونکہ آپ سب قارئین میری “میں” کے چشم دید گواہ ہیں اسی لئے آپ سب کے سامنے اعترافِ جرم کر رہا ہوں اور دست بستہ حق تعالٰی شانَہ سے دعا کرتا ہوں کہ ” اے اللہ! مجھے مجھ سے بچا لے۔ میں تھک گیا ہوں اپنی بڑائی کے تذکرے کر کر کے۔ اب چاہتا ہوں کہ تیری بات کروں۔ تو قبول کر لے۔
مجھے شرک سے بچا، مجھے ظلم سے بچا۔ مجھے کفر سے، نفاق سے اور اَنا سے بچا۔ میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ تیری رحمت کو متوجہ کر سکوں، ہاں گناہوں کا اور غفلت کا وہ شور ڈالا کہ صبح و شام تیرے عذاب کو دعوت دی۔ تیری رحمت سے پورا یقین ہے کہ جب تو مجھے اتنی بُری حالت میں دیکھے تو تُو بےنیاز ہے اور مجھے بخش دے گا۔
میرے اللہ مجھے حضوری دے۔ دیکھ نیا سال لگنے والا ہے، بیالیس سال برباد کرکے یہاں تک پہیچا ہوں۔ اے وقت کے مالک اللہ، میرا وقت بدل دے۔
اے صاحبِ قلم، اے صاحبِ سوال، اے لوح کے مالک، اے تقدیر کے لکھنے والے مجھے تقدیر اور وقت کے شر سے بچا۔ مجھے عاجزی کے تکبر سے بچا. مجھے عقل اور انا کے کفر سے بچا. تو مجھے مجھ سے بچا کر اپنے پاس رکھ لے، دور میں جاؤں ہی کیوں، تیری معیت، تیری حضوری میرے احوال کی گواہ بن جاۓ. جہاں تیری زمین پر پھل دار درخت ہیں وہیں میں سوکھا اور بوسیدہ بیج۔ تو ہرا بھرا کر دے۔ برکت دے میری زندگی اور موت میں۔
تجھے اُس عشق کا واسطہ جو ہجرووصال سے بڑھ کر ہے۔ تجھے اس رحمت کا واسطہ جو گناہگاروں کےلئے خاص ہے۔ پچھلے بخش دے اور اس نئے سال میں اپنا بنا لے۔ تجھے اپنے اس عزیز بندے کا واسطہ جس نے بستر مرگ پر مجھے دعائیں دی تھیں، تجھے ہر عبدللہ کا واسطہ مجھے عبدللہ کردے
تیری رہ گزر میں ہوں خیمہ زن، ہے بدن پہ ہجر کا پیرھن
جو گزر گئی سو گزر گئی، میری باقی عمر سنوار دے
آپ سب کو نیا سال مبارک