زندگی پھر سے مکمل رفتار سے دوڑ ی چلی جا رہی تھی۔ کام کے سلسلے میں عبداﷲ اکثر ملک سے باہر چلا جاتا اور ساتھ میں کوئی نہ کوئی کورسز بھی کر آتا ۔
اب تو احمد صاحب نے اُسے اپنے لیکچرز میں بھی بلانا شروع کر دیا تھا جہاں وہ کلاس سے کچھ باتیں کرلیتا اور یوں عبداﷲ کی شہرت دور دور تک جانے لگی ۔
بِلّوہر رات کو صرف یہ دعا مانگتی کہ اے اﷲ میرے عبدﷲ کا خیال رکھنا۔
اسکی رفتار مجھے ہمیشہ پریشان کرتی ہے اس میں ٹھہر اؤلا، یہ پارہ کی طرح اچھلتا پھرتا ہے اور لوگوں کے حسد اورر نظر کا شکار ہو جاتاہے
اسکی طبیعت بہت تھردیلی ہے اُس پہ رحم کر۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایک دن عبداﷲ کے ایک دوست ڈاکٹر رمضان اسے ایک مفتی صاحب کے پاس لے گئے۔ عبداﷲ جانا نہیں چاہتا تھااُ سے اب مولوی حضرات اور مفتیانِ کرام سے ڈر سا لگنے لگا تھا مگر اس دن وہ اپنے دوست کے اصرار پر چلا گیا۔ جب تک عبداﷲ پہنچتا مفتی صاحب اپنا لیکچر ختم کر کے جا رہے تھے۔ عبداﷲ نے ان سے ملاقات کی اجازت مانگی اور دو ہفتوں کے بعد کا وقت مقرر ہوا۔ عبداﷲ دو ہفتوں بعد ٹھیک وقت پر مفتی صاحب کے گھر پہنچ گیا یہ سوچتا ہوا کہ انہیں وقت اور دن دونوں بھول چکے ہونگے مگر مفتی صاحب موجود بھی تھے اور منتظر بھی ۔
مفتی صاحب کے گھر میں لگ بھگ 40ہزار کتابیں تھیں جنہیں دیکھ کر ہی عبداﷲ کا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔ اُس نے بے ساختہ کہا ۔
صرف اِتنا ہے واقعہ دِل کا
ہم نے کھویا ہے تم نے پایا ہے
یہ مفتی صاحب عبداﷲ کو بہت پسند آئے۔ پڑھے لکھے۔ انگریزی بھی جانتے تھے اور کئی ممالک کا سفر بھی کیا تھا۔ نہ سیکرٹر ی، نہ دائیں بائیں مر یدوں کا جمگھٹّا نہ تضنّع ، نہ بناوٹ اور نہ ہی لفّاظی ‘دو چار باتیں سیدھے سادھے الفاظ میں کر دیں اور بس۔
عبداﷲ کا دل انکی جانب کھنچتا چلا گیا۔ عبداﷲ کو ان کی شخصیت اپنے مولانا عبدالرحمن صاحب جیسی لگی۔ اوپر سے انکی زبان اور اُردو میں بہت چاشنی تھی۔
بقول شاعر
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
کچھ ہی عرصے میں اس جاب میں بھی وہی مسائل آنا شروع ہو گئے۔ اس بار قصور عبداﷲ کا ہی تھا۔ اس کے رویے میں لچک نہ تھی۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی کا ایک فکسڈ ڈاکو منٹ بنا چکا تھا۔
لہٰذا کسی کے کہنے پر اس میں کوئی ردو بدل نہ کرنا چاہتا تھا۔
مزید یہ کہ حاسدودں کی حسد کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ صبح شام کوئی نہ کوئی مسئلہ کوئی نہ کوئی جھوٹ جسے برداشت کرنے اور اپنی صفائی میں عبداﷲ کا پورا دن نکل جاتا۔ دراصل جھوٹ بولنا بھی ایک صلاحیت ہے جسے خدا کسی کسی کو نہیں بھی دیتا۔ مگر عموماََ عبداﷲ کا واسطہ ” باصلاحیت ” لوگوں سے ہی پڑا ۔
عبداﷲ کا اب تک مصمّم یقین ہو گیا تھا کہ پاکستان میں کسی بچے کو نفسیاتی مریض بنانا ہو تو کسی کمپنی میں جاب کروا دو۔ ایک ہی سال میں جھوٹ، مکاری، غیبت، حسد اور ظلم اسکی فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ باہر ممالک میں کام میں ایمانداری ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں مذہبیت۔ اﷲ کے اور رسول ﷺ کے نام پر گردنیں کاٹ دیں گے مگر اسلام پر عمل نہیں کریں گے۔ ہم اسلام کو کام نہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاشق رسول ﷺ سارے ہیں، اُمتی کوئی نہیں۔
ذوقِ جنوں ستم کی حدوں سے گزر گیا
کم ظرف زندہ رہ گئے اِنسان مر گیا
تجربات کی یہ اذیتیں اب تلخیاں بن کر عبداﷲ کی زبان پرآ چکی تھیں۔
وہ جتنا زیادہ کام کرنا چاہتا اُسے اتنی پریشانیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پرتا۔
اور جواب میں وہ سب کو وژن اورMPL کی چھڑی سے ہانک دیتا۔ وہ ہر ایک سے اُمید لگاتا کہ وہ احسان excellenceکے درجے پہ کام کرے گا۔ جواب ظلم میں آتا تو عبداﷲ تلخ ہو جاتا۔
عبداﷲ باقا عدگی سے مفتی صاحب کے پاس جانے گا، کبھی کچھ پوچھ لیتا، کبھی صرف جو بھی بات چیت چل رہی ہوتی وہ سن کے آ جاتا اور ڈائری میں لکھ لیتا۔ ایک دن مفتی صاحب کہنے لگے۔ ’’ ڈاکٹر صاحب زندگی کامقصد اﷲ کی رضا ہے۔ اور اگرحشر کے روز ہم اﷲ کو دیکھ کے مُسکرائے اور وہ ہمیں دیکھ کے مسکرائے تو یہ ہو گی کامیابی، اور یہ ہے وہ اصل کامیابی کہ جس پر فخر کیا جا سکے ۔”
عبداﷲ نے بات لکھ لی مگر سوچنے لگا کہ وہ ایسا کیا کر ے کہ یہ نتیجہ نکلے۔
ایک دن مفتی صاحب سے پوچھا کہ انسان اور بندے میں کیا فرق ہے؟
اور بندگی کسے کہتے ہیں؟
“انسان وہ ہے جو کسی کو دکھ نہ پہنچائے۔ جو آدمی غصے، عقل اور جنس کو کنڑول میں رکھ سکے وہ ہے انسان۔”
“اور بندگی نام ہے اپنے آپ کو معبود کے حوالے کر دینے کا، اب یہ الگ بات ہے کہ اس نے معبود کس کو چنا ہوا ہے۔”
آج عبداﷲ پھر سے بجھ گیا آج بِلّو کو پھر پتہ تھا کہ رت جگا ہو گا۔
“یا اﷲ ! میں تو آج تک انسان بھی نہ بن سکا۔ نہ ہی عقل پہ کنٹرول ہے، نہ ہی جنس پر نہ غصے پر، یہ کیا ہو گیا! میں تو بڑا خوش تھا کہ بڑے بڑے کام کر رہا ہوں۔ وژن ہے مگر میں تو بندہ بھی نہ بن سکا۔ میں نے تو اپنے آپ کو میں کے حوالے کر دیا ہے اور دن رات اسی میں مگن ہوں۔ مجھ سے زیادہ چالاک تو بلّو نکلی جو پہلے دن سے ہی اپنے آپ کی نفی کرتی آئی ہے۔
میرے اﷲ! پھر کوئی طوفان واپس ہے خیال رکھنا۔
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
اب عبداﷲ کے سوالوں میں تیزی آ گئی تھی اور وہ ہر ملاقات پہ مفتی صاحب پر سوالو ں کی بوچھاڑ کر دیتا۔
زندگی کسے کہتے ہیں مفتی صاحب۔
“زندگی جل اٹھنے یابجھ جانے کا نام نہیں ہے، یہ نام ہے سُلگتے رہنے کا۔ ”
مفتی صاحب کیسے پتہ لگے کہ بندے کا اﷲ کے پاس کیا مقام ہے؟
’’بڑا آسان ہے، بندہ یہی دیکھ لے کہ اﷲ کا اس کے پاس کیا مقام ہے ‘‘
اگر اﷲ کو ہر شے پہ فو قیت دیتا ہے کہ پہلے اﷲ پھر بیوی پہلے اﷲ پھر جاب تو اﷲ کے یہاں بھی مقدم ہے۔ اور اگر اﷲ کی پرواہ نہیں کرتا تو عین ممکن ہے کہ وہاں بھی اشرافیہ میں سے تو نہ ہو گا۔”
اور پھر رت جگا۔
“یا اﷲ، میں نے تو آج تک کوئی کام تیرے لیے کیا ہی نہیں آج تک تیرا خیال ہی نہ آیا، تیرا نام لے کے کام اپنے لئے کرتا رہا، کمپیوٹر سائنس آتی ہے وہی پڑھائی اور طرہّ یہ کہ وژن کا لفافہ لپیٹ کر یہ سمجھ لیا کہ سب کچھ تیرے لیے ہے۔ اورجب کہ ایسا نہیں ہے، بڑی خیانت ہوگئی میرے اﷲ، معافی دے دے۔سوال دینے والے اﷲ جواب بھی دے دے آمین!
عبداﷲ نے بھر پور کوشش کی کہ جاب چلتی رہے اور وہ بہت دل لگا کے کام کرنے لگا، وژن کی بات اس نے تقریباً کرنی چھوڑہی دی۔ احمد صاحب اور امین صاحب سے تعلق بھی بس واجبی سارہ گیا۔
عبداﷲ کی تیز طبیعت مفتی صاحب کی دھیمیطبیعت سے موافق نہیں تھی، وہ چاہتا تھا کہُ اسکے سارے سوالوں کے جواب ایک نشست میں مل جائیں، مفتی صاحب کہتے تھے کہ اُمتّو ں کا مزاج صدیوں میں بنتا ہے۔ تقویٰ اِ ختیار کرو۔ یہ 4 چیزیں دیتا ہے۔
تقویٰ سوال سکھاتا ہے
تقویٰ جواب دیتا ہے
تقویٰ علم دیتا ہے اور
پھر اس علم سے ملنے والے غرور کا سدِّ باب بھی کرتا ہے۔
نوکری کے معاملات ٹھیک ہوئے تو عبداﷲ کو پھر سے جوابات کی تلاش ہوئی
جھوٹ کیا ہے؟
MPLکیسے پورے ہوں؟
vision پہ کام کیسے ہو؟
جن لوگوں کا vision نہ ہو اُن سے کیا معاملہ ہو؟
میری بِلّوجو پڑھائی کی ازلی دشمن ہے اُس سے ساتھ کیسے چلے؟
اب میری نئی TDL کیا ہو ؟
عبداﷲ ان سوالوں کے جواب چاہتا تھا مگر مفتی صاحب سے نہیں۔ اُ ن کے پا س جانے سے نفس پر چوٹ پڑتی تھی اور یہ بات عبداﷲ جیسے پڑھے لکھے آدمی کو قبول نہیں تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کھو نٹے سے بندھے بغیر سب کچھ سیکھ جائے اور سالوں کی منزلیں، دنوں میں طے کر لے۔
عبداﷲ کے ایک پروفیسر دوست اسے اپنے ساتھ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں لے گئے ایک شیخ کے پاس جن کے دنیا بھر میں لاکھوں مرید تھے۔ عبداﷲ نے وہاں پہنچ کر ملاقات کی کوشش کی مگر اُن کے کلا شنکوف بردار محافظین کی جماعت نے اسے ملنے نہ دیا اور کہا کہ مسجد میں جا کے بیٹھو۔
کوئی دو گھنٹوں بعد وہ حضرت تشریف لائے، نماز پڑھائی، ابھی عبداﷲ سنتیں پڑھ ہی رہا تھا کہ مجمع میں سے ایک شخص اس کے اوپر ٹانگ رکھتا ہوا گزر گیا۔ عبداﷲ نے سلام پھیرتے ہی اسے جا لیا۔
اُوبھائی! کدھر بھاگ رہے ہو، انسان نظر نہیں آتاکیا؟
میں حضرت کے دِیدار کو جا رہا ہوں۔ آؤ لائن میں لگ جاؤ، ہاتھ ملالو، کئی روز سے رورو کے اس دن کی دعا مانگی ہے۔
اﷲ کی مسجدمیں ،اﷲکی نما ز میں ،رورو کے کسی اور کو مانگتے ہو شر م نہیں آتی۔
عبداﷲ کی آنکھوں میں انگارے بھرگئے تھے۔
حضرت سے مل لو، دو جہاں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ شخص تڑپا ۔
بھاڑ میں گئے تمھارے حضرت، نہیں ملاتا ہاتھ۔ ساتھ جاینوالے دوستوں کے بڑے اصرار پر عبداﷲ نے ہاتھ تو ملا لیامگر یہ اس کی حضرت کے ساتھ آخری ملاقات تھی ۔
واپسی پر وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اب کس کے پا س جائے۔
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیّاری
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ روز میں عبداﷲ کا کراچی میں جانا ہوا، ایک دوست اپنے ایک شیخ کے پاس لے گئے۔ عبداﷲ کمرے میں داخل ہو ا تو درجنوں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ شیخ صاحب ایک نئے بندے کو ’’مریدنے‘‘ مرید بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے ہونیوالے مرید سے پوچھا۔ یہ نیک لوگوں کی مجلس ہے۔ تم شراب تو نہیں پیتے؟ جی نہیں، جھوٹ،، بالکل نہیں، غیبت ! توبہ کریں جی !
کوئی لڑکی وڑکی؟ اب مرید صاحب خاموش۔
عبداﷲ سے پھر صبر نہ ہو سکا اور پہنچ گیا ان دونوں کے سر پر، ارے مولوی صاحب، کیو ں ڈھنڈورہ پیٹتے ہو اُن چیزوں کا جنھیں خدا چھپا لیتا ہے، اور مریدسے کہا کے بھاگ جا یہاں سے، کیوں زندگی برباد کرنے آیا ہے۔ اور مولوی صاحب میری دعا ہے کہ اﷲ آپ سے یہ تمام گنا ہ کروائے جن کی کنفر میشن آپ اس بچے سے چاہ رہے تھے۔
اور اس کے بعد ظا ہرہے نہ شیخ صاحب نے کچھ’’عنایت‘‘کرنا تھا ،اور تو اور ساتھ لے جانے والے “دوست” بھی زندگی بھر کو کنار ہ کش ہو گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداﷲ کافی عرصے بعد مفتی صاحب کے پاس آیا وہ کسی سے بات کر رہے تھے۔
کہنے لگے، ” اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ فلاں شخص اپنے اختیار، اثرو رسوخ یا دولت کی وجہ سے میرے حلقے میں آ جائے یا میرا مرید بن جائے تویہ بات طریقت میں شرک ہے۔”
عبداﷲ تو گویا انتظار میں تھا، اس نے سوالوں کی پوٹلی پھر کھول دی۔
مفتی صاحب، جھوٹ کیا ہے؟
کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ’’میں‘‘ ہے۔ آدمی سارے بت توڑ دیتا ہے۔ علم کا دولت کا، شہرت کا، امارت کا، عہدے کا، شرک کا، مگر اپنی ذات کا بت بنا لیتا ہے اوراِسے پوجنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس کاٹیسٹ یہ ہے کہ خلافِ معمول کوئی کام ہو جائے، کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کل سے کسی کو اﷲ کی طرف نہیں بلاؤں گا، دعوت نہیں دوں گا پڑھاؤں گا نہیں، اپنے کر توت ایسے اور نام اﷲ کا۔ یہ ہوا یوں کہ وہ پہلے روز سے ہی اپنا پیٹ بھر رہا تھا اور اپنے لئے ہی کام کر رہا تھا اﷲ کے لئے تو تھا ہی نہیں۔
عبداﷲ کو دنیا گھو متی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ اُٹھ کے واپس چلا آیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ نے اپنے آپکو کچھ دنوں کے لیے کمرے میں قید کیا اور شروع سے ہر بات کا جائزہ لینے لگا کہ ہوا کیا ہے ؟
اِسے احساس ہوا کہ اُس نے وژن بنا کے تمام ان لوگوں کی گردنیں اُتارنی شروع کر دی تھیں جن کا وژن بظاہرکچھ نہ ہو۔ اور وہ خود پرستی کے ایسے گرداب میں پھنستاچلا گیا جس کا اندازہ اِسے خود بھی نہ ہو سکا۔ مفتی صاحب کے دو جملے اس کے کانوں میں زہر گھول رہے تھے۔
’’مے کا نشہ ایک رات میں اُتر جاتا ہے’’میں‘‘ کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔‘‘
اور
’’مرنے کے بعد سب سے پہلے جو چیز چھن جاتی ہے وہ اختیار ہے۔‘‘
ساری اَکڑ،فوں فاں، ٹاں ٹاں سب گئی، اب کر لو بات۔
جیسے جیسے عبداﷲ سوچتا گیا ویسے ویسے اس کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور بلّو اندر آئی۔
عبداﷲ کی حالت دیکھتے ہی بلّو نے پوچھا اب کیاہے عبداﷲ ،اب کیوں پریشان ہو؟ کس ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگ کر آئے ہو؟
اور عبدا ﷲبچوں کی طرح بلک بلک کے رونے لگا۔
جذبات کا جوار بھاٹا تھما تو بِلّو نے کہا۔
دیکھو عبداﷲ، سب سے پہلے تو دھیمے ہو جاؤ، تربیت نیستی کوکہتے ہیں۔ ’’میں کچھ نہیں‘‘ سے بہتری کا آغاز ہوتا ہے۔ اپنے آپ پہ کام کرو۔ جب بچہ جو ان ہو جاتا ہے یا تو اُسے آکے ماں باپ کو بتانا نہیں پڑتا بلکہ محلے والے آکے بتا جا تے ہیں۔
میرے خیال میں جب تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ کام لیا جائے تو اﷲ کے یہاں سے بلاوا خود ہی آجائے گا اتنی بھی کیا جلدی ہے؟
لوگوں کوحقیرمت جانو، گنا ہگاروں کی عزت کرو، گناہ بھی تو ایک تعلق ہی ہے۔ اپنے رب سے جس اﷲ نے تمہیں یہ مقام دیا ہے اسی اﷲ نے کسی کو کہیں اور رکھ چھوڑا ہے۔ خدائی کاموں میں علّت نہ ڈھونڈا کرو، اُس کا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں ہوتا۔
عبداﷲ !کبھی کبھی کوئی شخص کچھ نہ کر کے بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہے، اس کی مثال میچ کے اُس کھلاڑی کی سی ہوتی ہے جو پورا میچ کچھ نہیں کرتا جسے تمہارے جیسے لوگ visionless مخلوق کہتے ہیں، مگر پھر آخری بال پہ لگنے والا باؤ نڈری کا چھکا اس کے ہاتھو ں میں آکے گرتا ہے اور وہ سرخروہو جاتا ہے ۔
عبداﷲ، گناہ بھی اﷲ کی نعمت ہوتے ہیں، یہ بندے کو بندہ بنا کے رکھتے ہیں۔ گناہ ہو ہی نہ تو بندہ او تار بن جائے۔ میں تو گناہگار بندی ہوں مگر پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ پر سکون قلب والوں کی تہجد سے ندامت میں تڑ پنے والوں کی راتیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔
عبداﷲ کان کھول کے سن لو، منزل تو بے وقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند آدمی ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔
عبداﷲ کو بلو سے اس قسم کی گفتگو کی قطعاََ امید نہ تھی۔ وہ حیرت کے جھٹکے سے باہر نکلا تو کہنے لگا، اﷲ کی ولی تجھے یہ سب کس نے سکھایا، بلو نے ہنستے ہوئے کہا، کیوں کیا اﷲ صرف تمھارا ہے۔ کیا کسی اور کو مانگنا نہیں آتا ؟ کیا کوئی کنواں دیکھا ہے جس میں پانی باہر سے ڈالتے ہوں؟ علم ہمیشہ اندر سے آتا ہے باہر سے تو معلومات ملتی ہیں۔ اور مفتی صاحب بھی صرف تمہارے تھوڑا ہی ہیں ان کے لیکچرز میں نے تم سے زیادہ سنے ہیں۔
عبداﷲ! ایک کام کرو عمرے پہ چلے جاؤ، شاید تمہارا دل کچھ ہلکا ہو۔
عبداﷲ کو آج پہلی بار احساس ہوا کہ ہنستی مسکراتی شرارتیں کرتی بِلّو اندر سے کتنی گہری ہے اور اپنے آپ کی جستجو میں اس نے آج تک بِلّوکو دیکھا ہی نہیں ۔
کتنے سلجھے ہوئے طریقے سے
ہمیں اُلجھن میں ڈال جاتے ہو
آج عبداﷲ کا دن آفس میں اچھا نہیں گزرا، واپسی پر وہ سیدھا مفتی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور پوچھنے لگا۔
مفتی صاحب یہ لوگ اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں؟ نہ کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔
عبداﷲ جیسے پیسوں کی زکوٰ ۃ ہوتی ہے بالکل اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کے فضل کی یا success کی بھی ایک زکوٰۃ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کا ظلم جھوٹ اور حسد برداشت کیا جائے۔ اور یہ ایسے نہیں کہ سال دو سال میں کوئی واقعہ پیش آجائے ۔یہ ایسے برستا ہے جیسے کہ مون سون میں بارش، تم زکوٰۃ دئیے جاؤ اﷲ کا فضل بھی مینہ بن کے برسے گا۔
ہاں! مفتی صاحب مگر جو تن بیتے وہ تن جانے
یہ تو ہے عبداﷲ پاکستان میں 3چیزیں حرام ہیں۔سؤر کا گوشت، پڑھنا اور سچ بولنا۔ ان تمام باتوں سے واسطہ تو پڑنا ہی ہے۔
اچھا ایک بات بتائیں یہ کیسے پتہ لگے کہ بندہ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ صحیح راستے پر ہے بھی یا نہیں؟
جب کوئی بندہ صحیح راستے پر ہوتا ہے تو 3میں سے ایک کام ہوتا ہے۔
1۔ اﷲ اُس کا دل کسی کام کے لیے کھول دیتا ہے اور پھر دنیا ایک طرف اور وہ ایک طرف۔ وہ صرف وہی کام کر تا رہتا ہے۔
2۔ اُس کا جس بندے سے تعلق ہوتا ہے وہ اُس سے جا کے پوچھتا ہے کہ کیا کروں تو اﷲ اس کے ٹیچر /شیخ کے دل میں کوئی بات ڈال دیتے ہیں۔ وہ اُسے وہی مشورہ دے دیتا ہے اور بندہ کام سے لگ جاتا ہے۔
3۔ تیسراcase بڑا interesting ہے بندہ بڑاکمزور ہوتا ہے۔ اﷲ کو پتہ ہوتا ہے کہ کسی کام میں ڈال دیا تو بہک جائے گا۔ اب یہ بندہ تمام عمر ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے اور کوئی بڑا کام نہیں کر پاتا مگر جب مر تا ہے تو فلاح پا جاتا ہے۔
اچھا ہے ،یہ بتائیے ٹیچر/ اُستاد کون ہوتا ہے؟
نلکا دیکھا ہے کبھی آپ نے، دھوپ میں گرمی کی شدت سے تپ رہا ہوتا ہے۔
اب کوئی آدمی آئے اور اس میں سے ٹھنڈا پانی نکلے تو بندہ کتنا خوش ہو گا۔
مگر اگرنلکے کی زبان ہو تی تو بندے کا شکریہ ادا کرتا کہ تو آیا تو میرے میں سے بھی پانی گزر گیا۔ اسی طرح ہر طالب علم اپنا رزق لے کے آتا ہے۔ یہ اس کی طلب ہے جو پانی کھنچتی ہے ٹنکی میں سے۔ نلکے کو اترانا نہیں چاہیے۔ اگر مانگنے والے ہاتھ نہ رہیں تو دینے والے کا مصرف نہیں بچتا۔ بس اﷲ سے مانگتا رہے۔ جیسے پیٹرول، پیسہ خرچ ہو جاتا ہے، اسی طرح روحانیت بھی خرچ ہو جایا کرتی ہے، پھرآپ لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ آپکو consumeکر لیتے ہیں۔ بندے کو چاہیے کہ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے connect ہو کے چارج ہو جایا کرے۔
اچھا تو یہ بتائیں کہ راہبرmentorکا انتخاب کیسے کیا جائے؟
چند باتیں دیکھ لیں؛
1۔ تربیت کہاں سے ہوئی ہے ؟ کس سے کہاں پڑھا ہے۔ تربیت کے لیے زندوں کے پاس جانا ہیپڑتا ہے۔
2۔ تقویٰ اور ذکر سے واسطہ ہو۔
3۔ کتابیں پڑھتا ہو، آس پاس موجود معاشرے کے اتار چڑھاؤ کا علم ہو۔
4۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹیچر ضرور ہو۔ خود سے اس فیلڈ میں پختگی نہیں آتی۔
عبداﷲ، مفتی صاحب نے بات جاری رکھی، صالح سے پہلے مصلح بننے کا شوق ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اُسے بیٹے سے پہلے باپ بننا ہے۔ ایسا آدمی ایک پورے حلقے کو برباد کر جاتا ہے۔
مفتی صاحب کیسے یقین آئے کہ بندہ جو کچھ کر رہا ہے بس ٹھیک ہے اور دل ایک طرف ہو جائے؟
’’یقین کا نہ آنا ہی بہترہے۔ یہ ڈر و خوف رہے کہ جو کچھ بھی کر رہا ہے پتہ نہیں قبول ہو گا بھی کہ نہیں بڑی اچھی چیز ہے۔ اسی امید و خوف کے بیچ زندگی گزر جائے، جو انی میں خوف غالب رہے تو بڑھاپے میں اُمید۔ یقین کا نہ ملنا ہی اچھی بات ہے۔ ‘‘
اچھا اب آخری سوال‘ جی فرمائیے (مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا)
میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں میں کیا کروں؟
’’کمرہ بند کر کے کنڈی لگا کے بیٹھ جائیں۔ اپنے آپ پہ کام کریں۔ جس فیلڈ میں آپ ہیں اُس میں کمال حاصل کریں اور فی الحال باقی ساری فکر یں چھوڑ دیں۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲکی زندگی میں اب کافی ٹھہر اؤ، کافی دھیما پن آگیا تھا۔ اب اس نے گھر اور بچو ں پر توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ کچھ دنوں میں بڑے بیٹے کا رزلٹ آگیا۔
انگریرزی اور ریاضی میں % 90 سے زائد مارکس جبکہ اُردو میں صرف 40%۔
بلّو نے عبداﷲ سے کہا کہ کوئی tutor لا دو۔ عبداﷲ انگریزی اور ریاضی پڑھانے کے لیے tutorلے آیا۔ بلو نے خوب سنائی کہ مارکس تو اردو میں کم ہیں۔ عبداﷲنے جواب دیا کہ ہم عمومی طورپر ایک well-rounded پرسنلٹی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ پڑھائی میں بھی ٹاپ کرے اور کھیل میں بھی۔ ڈرامہ بھی کرے اور بیت بازی بھی۔ بچوں پہ رحم کھانا چاہئے۔ اِ نسان کے بچے ہیں فیکٹری میں تھوڑا ہی بنے ہیں مجھے عبدالرحمن کو غالب یا اقبال نہیں بنانا۔ مگر انگلش میں شیکسپئر ضرور بنے، ریاضی میں پال آرڈش بن جائے۔ جو strengthہے اس پہ فوکس کرتے ہیں، weaknessکو فی ا لحال چھوڑ دیتے ہیں۔ بلّوکو اِس بار بھی عبداﷲ کی منطق سمجھ نہ آئی مگر وہ ‘ہنس کے خاموش ہوگئی کہ چلو اِسی بہانے یہ بچوں میں دلچسپی تو لے رہا ہے۔ عبداﷲ نے اب تینوں بچوں کو گھر میں خود بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا اور وہ ساتھ ساتھ انھیں قرآن پاک کی تعلیم بھی دلوارہا تھا ۔مگر وہ اِسلامی تعلیم سے کچھ مطمئن نہ تھا۔
ایک دن اپنے ایک دوست سے ذکر کیا جو کسی یونیورسٹی میں بڑے پروفیسر تھے۔ عبداﷲنے کہا۔ پروفیسر صاحب میں بچوں کی دنیا وی تعلیم سے تو مطمئن ہوں مگر دینی تعلیم سے نہیں۔ مولوی صاحب صحیح نہیں پڑھاتے ،میں کیا کروں۔
عبداﷲ تم بچوں کی اَسکول فیس بھرتے ہو!
جی 50ہزار فی بچہ تو ایڈمیشن کے دیئے ہیں۔ 9 ہزار ماہانہ الگ۔
تو27ہزار فیس ہے3بچوں کی، اسٹیشنری اور trip کا خرچہ الگ اور آنے جانے کی transportation۔ کل کتنا ہوا۔ پروفیسر صاحب نے سوال کیا۔ عبداﷲ کچھ نہ سمجھتے ہوئے متعجب لہجے میں بولا ‘کوئی 35 سے 40ہزارہو نگے۔
اچھا اور مولوی صاحب جو گھر پڑھانے آتے ہیں انھیں کیا دیتے ہو؟
جی 1500روپے مہینہ تینوں بچوں کے۔ عبداﷲ نے شرمندگی سے جواب دیا۔
تو بھئی سیدھی سی بات ہے۔ کوئی ایسا مولوی ڈھونڈو جو ایڈمیشن کے ڈیڑھ لاکھ لے پھر کم از کم 15 ہزار مہینہ۔ پھر دیکھو دینی تعلیم کیسی جاتی ہے۔
عبداﷲ شرمندہ گھر لوٹاا ور مولوی صاحب تبدیل کر دیئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداﷲ بہت خوش تھا، اُسے آج آفس سے عمرے کی چھٹی مل گئی تھی۔ کچھ ہی روز بعد عبداﷲبلّوکے ساتھ عمرے پہ جارہا تھا۔ عجیب سی کیفیت تھی شرمندگی بھی،یاسیت بھی، اُمید بھی اور ڈر بھی۔
راستے بھر سوچتا رہا کہ کیا دعائیں مانگے گا اور کعبتہ اﷲ پر نظر پڑتے ہی کیا کہے گا۔ سنا تھا لوگوں کو رونا آتا ہے،غشی طاری ہو جاتی ہے۔ مگر عبداﷲ کو ایسا کچھ نہ ہوا، ایک عجیب سا سرور تھا جو اُسے محسوس ہورہا تھا، اُس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
’’ مَن جا میرے ر با، مَن جا میرے ر با،
ہاتھ جوڑ کے تجھ سے تجھی کو مانگنے آیا ہوں، نامراد نہ لوٹانا
سخی کی شان ہوتی ہے کہ پکڑلے تو چھوڑ دیا کرتا ہے، پوچھیو نہیں میرے اﷲ، پوچھنا مت، حساب مت لینا اﷲایسے ہی چھوڑ دینا۔
طواف میں عبداﷲ طرح طرح کی دعائیں مانگتارہا۔ اﷲ مجھے گھر دے دے، اﷲمجھے گاڑی دے دے،اﷲعلم دے، اﷲلکھنا سکھا، اﷲبولنا سکھا، اﷲ تقویٰ دے، اﷲہاتھ پکڑ، اﷲ راستہ دکھا، اﷲ رسوانہ کرنا، اور پتہ نہیں کیا کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عمرے سے فارغ ہو کے عبداﷲ مدینۃ المنوّرہ گیا۔ وہاں روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلّم پر دل کو بڑا سکون ملا۔ یوں بھی رمضان کی طاق راتیں تھیں۔ عبداﷲ نے پوری کو شش کی کہ زیادہ سے زیادہ عبادت ہو سکے۔
عبداﷲنے اپنی پہلی نعت بھی یہیں کہی ‘ اور دن رات زیارتِ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی دعا کرتا رہا مگر وہ نہ ہو ئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عمرے سے واپس آکر عبداﷲ نے اپنے آپ اور گھر والوں پہ کام شروع کردیا اور دنیا سے تقریباًلا تعلق ہو گیا۔ دوست احباب کم ہوتے چلے گئے۔ امین بھائی اور احمد صاحب سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی۔ ایک درد کا احساس تھا جوعبداﷲ کو ہوتا اور وہ اُن سے بھی دور ہوتا چلاگیا۔ بات یہ نہیں تھی کہ وہ جو کچھ پڑھا رہے تھے وہ غلط تھا۔ خود عبداﷲکو اس نے بڑا فائدہ پہنچایا، سوگ اس بات کا تھا کے ایسے بڑے لوگوں سے سیکھ کر بھی عبداﷲ کورارہ گیا، وہ کنویں سے بھی پیاساآگیا۔ اس نیصحیح لوگوں سے بھی غلط چیز سیکھ لی اور جو علم اسے ملا وہ اُسے برتنا نہ آیا۔
جب بھی اِن کو رسز کا خیال آتا، عبداﷲ کو اپنے اندر موجود “میں”یاد آجاتی اور وہ تکلیف سے آنکھیں بند کر لیتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*