“کاش تُو مر گئی ہوتی، تو نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا” یہ پہلی آواز تھی جو ننھے سے بچے کے کان میں پڑی اور یادداشت میں نقش ہوگئی ۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے ۔ وہ تو سات ماہ کا نامولود بچہ تھا جو ابھی تک اپنی ماں کے پیٹ میں تھا۔ اب آئے روز ایسے ہی جملے اور طعنے سننا اس کا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن تو حد ہی ہوگئی جب کسی نے لاتوں اور گھونسوں سے اس کی ماں کو مارنا شروع کر دیا۔ دو چار گھونسے اور لاتیں تو اسے بھی لگیں اور درد کا وہ طوفان اٹھا جو تھمتے نہ تھمے۔ ماں نے رات کی تاریکی میں نجانے کون سی دوا پی لی کہ اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ وہ جگہ جو کسی نا مولود کیلئے محفوظ ترین پناہ گاہ تھی وہ آگ بن گئی اور کسی سیلابی ریلے کی طرح اس کی پناہ گاہ نے اسے ظالموں کی دنیا میں اگل دیا۔ بمشکل تمام اس کو پہلی سانس نصیب ہوئی۔
اس کی ماں بہت خوبصورت تھی۔ بڑی بڑی دلکش آنکھیں، بھر ابھرا جسم، ننھے نومولود نے ابھی رونے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ کچھ غذا طلب کرسکے کہ اسے اخبار میں لپیٹ کر باہر لے جایا گیا۔ سردی کی ایک برف کردینے والی ہوا نے اس کی ریڑھ کی ہڈی تک سن کر دی۔ فجر کا وقت ہونے والا تھا۔ اذان کی آواز کانوں میں پڑی مگر وہ ننھا وجود خدا اور خدائی کے رحم و کرم پر گاڑی میں جھولتا چلا جا رہا تھا۔ ایک دم گاڑی کو بریک لگے، نہایت بدبودار جگہ تھی، اس کا کلیجہ باہر آنے لگا مگر اس کی ماں نے اسے جلد ہی ایک بڑےسے ٹریش کین کے اندر کھ دیا۔
ننھا وجود پہلے تو حیران و پریشان سوچتا ہی رہا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے مگر سوچنے کی طاقت تو تجربے سے آتی ہے اور ابھی اس کا تجربہ تھا ہی کتنا ۔ اسے شدید نیند آرہی تھی مگر بھوک ، بدبو اور ٹھنڈ سب اسے موت کی طرف دھکیل رہے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں اسے اپنے بدن پر کیڑے رینگتے نظر آئے اس نے رونے کیلئے منہ کھولا مگر اس میں اتنی طاقت ہی کہاں تھی کہ وہ رو سکے ۔ ویسے بھی دکھ کی ایک منزل ایسی ہوتی ہے جہاں آنکھیں خشک ، چہرہ ویران اور سوچ ساکت ہوجاتی ہے، وہ بھی کسی ایسی ہی منزل سے گزر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کے پاؤں، ننھے منے ہاتھ، ناف کی نالی، جو کہ ابھی تک نہ کاٹے جانے کے سبب باہر لٹک رہی تھی اور آنکھیں سب چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں کی لپیٹ میں تھیں ۔ زندہ درگور ہونا اسے ایک دن کی ہی عمر میں سمجھ آگیا تھا۔
اس نے شدت سے آنکھیں بند کر لیں ، اسے آنکھ بند کرتے ہی اپنی پیاری سی ماں نظر آئی، پھر چبھن ، پھر درد، پھر خوف، اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ موت کیا ہوتی ہے۔ ہاں، وہ یہ ضرور سوچ رہا تھا کہ جو بھی ہو، اس زندگی سے تو بہتر ہی ہوگی۔
یوں پڑے پڑے کوئی چار گھنٹے گزر گئے، دن چڑھ آیا تھا اور سانس رک رہی تھی۔ دل کی دھڑکن نہ ہونے کے برابر ہوچکی تھی موت مدھم مدھم شبنم کے قطروں کی طرح نازل ہورہی تھی ننھے سے بچے نے ہمت کر کے آخری بار آنکھ کھولنی چاہی مگر وہ مکمل نہ کھل سکی ، کھلی ادھ کھلی آنکھ سے اس نے ایک سایہ سا اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔
اس کی ماں اسے چھوڑ آئی تھی مگر اسے کوئی پچھتاوا، کوئی صدمہ، کوئی دکھ نہ تھا۔ دوستوں کے ساتھ گزاری چھٹیاں، تھوڑ ا سا نشہ، ایک ایڈونچر، 4 منٹ اور 32 سیکنڈز ۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کا یہ خوف ناک نتیجہ نکلے گا۔ اسے تو اس کے باپ کی شکل تک یاد نہ تھی ۔ اس کا معاشرے میں ایک مقام تھا ، ایک بڑے پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھی اور آگے مستقبل میں لندن میں پڑھنے اور شفٹ ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ اب اس “غلطی” کو کون اٹھائے پھرتا ؟
عبد اللہ کی نظر بچے پر پڑی تو اس کی روح تک کانپ گئی ۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے اسے اٹھایا اور قریبی گورنمنٹ ہاسپٹل لے گیا مگر انہوں نے پولیس کیس کا کہہ کر اسے ایڈمٹ کرنے سے منع کردیا ۔ اب عبد اللہ جتنی دیر میں پولیس لاتا، بچہ تو مر ہی جاتا ۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا ۔ اتنے بڑے شہر میں لاوارث کا کوئی نہیں ۔ بڑی مشکل سے ایک نجی ہسپتال نے بچے کو ایڈمٹ کیا ۔ ڈاکٹرز نے 3لاکھ کا خرچہ بتایا کہ بچے کی ایمبیکل کورڈ کاٹنی پڑے گی اور انفیکشن کی وجہ سے پوری ناف ہی نکالنی پڑے گی۔ڈاکٹرز نے بہتیرا سمجھایا کہ کچھ دیر کی با ت ہے ۔ کسی کی “غلطی “پر کیوں اتنے پیسے پرباد کرتے ہیں مگر عبد اللہ ایسے موقع کب ہاتھ سے جانے دیتا ہے ۔
اگلے تین ماہ میں بچہ صحت یاب ہوگیا ۔ کورٹ سے زندگی بھر کی لیگل کسٹڈی بھی مل گئی مگر جو کچھ ان 90دنوں میں گزری، اس نے عبد اللہ کی روح تک چھلنی کر دی۔
ڈاکٹروں کی فیس، ایک ظالم منسٹر کی بچہ اٹھا کر لےجانے کی کوشش، رشہ داروں کے طعنے، “ناجائز” کے اعلانات، وکیل اور ججز کے سوالات، مچلکے اور ایک ختم نہ ہونے والی ڈاکیومنٹیشن{کاغذی کاروائی}۔ عبد اللہ سوچنے لگا کہ ملک عزیز میں ملنے والے ایسے ہزاروں بچے کس امریکہ یا اسرائیل کی سازش ہے ؟ یہ تو اسی ملک کی پیداوار ہے نا ؟ جن لوگوں نے جعلی فیس بک پیجز بنا کر بچے کے نام پر پیسے جمع کئے ، وہ سارے پاکستانی ہی تھے نا؟
کورٹ میں عبد اللہ کی ملاقات 2درجن سے اوپر بچوں سے ہوئی جنہیں کچرہ چنتے یاایسے ہی کوئی کام کرتے چائلڈ پروٹیکشن والے اٹھالائے تھے۔ ان بچوں سے مکالمہ دکھ کی ایسی داستان ہے جو لکھنے کیلئے پتھر کا کلیجہ چاہئے۔ ایک 6سالہ سلمان کا کہنا تھا ” صاحب جی، یہ گو ر نمنٹ والے اب اغوا برائے تاوان کی طرح ہمارے ماں باپ سے کورٹ کی ضمانت کے نام پر پیسے لیں گے اور پھر ہمیں وہ پیسے کما کر اپنے والدین کو واپس دینے ہوں گے “. 9 سالہ امجد کا کہنا تھا “ہمارے لوگ جان نکال کر زندہ رہنے کو چھوڑ دیتے ہیں “. 11 سالہ انیسہ ہر وقت مسکراتی رہتی ، کہتی تھی کہ بابولوگ کے بچے ہاتھوں میں بستہ اٹھاتے ہیں ان میں علم ہوتا ہے۔ہم ہاتھوں میں بوری اٹھاتے ہیں ، ان میں کچرہ اور کچرہ ہماری جندگی ہے ۔ان کی اُترن ہمارا پہناوا ، ان کا جھوٹ ہمارا سچ، ان کا صدقہ ہمارا ایمان ، یہ سب یونہی چلتا ہے۔ عبد اللہ کو ملنے والا بچہ خوش نصیب نظر آنے لگا کہ اسےیہ دن تو نہ دیکھنے پڑے۔
آج وہ ننھے سے منے کو گود میں کھلاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ قیامت میں نامہ اعمال میں کون زیادہ بھاری ہو گا، یہ “غلطی “یاہمارے “کارنامے”۔
آپ بھی سوچئے