جمشید کا دل بلیوں اُچھل رہا تھا۔ ایک پاؤں زمین پر تو دوسرا آسمان پر۔ آج اُس کی تین سالہ کاوشوں کا نتیجہ شہر کے بیچ و بیچ دنیا سے دادِ ستائش وصول کر رہا تھا۔
بیس کڑور کی لاگت سے بنبے والا نیو ورلڈ شاپنگ پلازہ آرکیٹکٹ اور ڈیزائن کا شاہکار تھا۔ جمشید نے آج جہاں ملک کی چیدہ چیدہ شخصیات کو تقریبِ رونمائی میں مدعو کیا تھا وہاں اپنے قریبی دوست عبداللہ کو بھی۔ اِس شرط کے ساتھ کہ وہ جب تک کچھ پوچھا نہ جائے بولے گا نہیں۔
جمشید اورعبداللہ کا ساتھ یوں تو 25 سال پرانا تھا۔ ساتھ پڑھے، ساتھ جوان ہوئے اور ہر ایک دکھ درد میں شریک۔ مگر دونوں کے مزاج اور طبیعت میں زمین آسمان کا فرق۔ جمشید جدی پشتی رئیس تھا اور عبداللہ نے اپنی دنیا آپ بنائی تھی۔
جب سارے مہمان چلے گئے تو جمشید نے مسکراتے ہوئے فاخرانہ لہجے میں عبداللہ سے پوچھا۔ تم تو صاحبِ رائے ہو، کہو کیسا لگا یہ پراجیکٹ؟ یہ اِس ملک کو نئی شناخت دے گا۔ لوگ اس شہر کو اس پلازہ کے نام سے جانیں گے۔ لوگوں کو روزگار ملے گا، اچھا وقت کٹے گا، پارٹی، ڈانس، سینما سب کچھ تو ہے۔
عبداللہ کی آنکھیں جواب ڈھونڈنے میں کہیں دور کھو گئیں۔ جمشید کو بھی جلدی نہ تھی سو وہ اطمینان سے بڑی دلچسپی سے اپنے دوست کی گمشدگی کا مزہ لیتا رہا۔ عبداللہ تھوڑی دیر بعد گویا ہوا۔ کتنا مصنوعی لگ رہا ہے نا سب کچھ، ایک طرف بھوک و افلاس کے مارے لوگ، روٹی کو ترستے انسان، جھگیوں میں سسکتی زندگی تو دوسری طرف امارت کا یہ شاہکار۔
جمشید اگر تم آج مر گئے تو قبر میں اس پلازے کی کون سی اینٹ ہو گی جو کام آ سکے؟ سینما، پارٹی ہال، شراب کی دکانیں؟
بس، بس مولوی صاحب، اپنے فتوے اپنے پاس رکھیں جو نہ کسی کو کاوربار دے سکیں، نہ معیارِ زندگی، نہ بھوک میں روٹی اور نہ ہی تن پہ کپڑا۔ میں ملازمت کے مواقع دے کر اپنے حصے کا اِسلام پورا کر رہا ہوں۔ جمشید نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
عبداللہ نے اپنی بات پھر سے جوڑی۔ کیا کوئی اِدارہ ایسا بنایا جا سکتا ہے جو نسلوں پر کام کرے؟ پڑھائی اور ہنر سکھائے؟ دھتکارے ہوؤں کی آبیاری کرے؟
عبداللہ چھوڑ ان باتوں کو، چل گھر چلتے ہیں۔ میں تجھے ڈراپ کر دیتا ہوں، یہ بکواس پھر کبھی سہی۔ آج تھک گیا ہوں۔ دونوں دوست ہنستے ہوئے اٹھے اور جمشید کی نئی نویلی امپورٹڈ سپورٹس کار میں بیٹھ گئے۔
جیسے ہی کار پارکنگ گیراج سے باہر نکلی جمشید کی نظر سیدھے ہاتھ پر کونے پر کھڑے ایک برہنہ بھکاری پر پڑی۔ کوئی پچاس سال کا آدمی ننگ دھڑنگ روڑ پر سب کے سامنے کھڑا کھانا مانگ رہا تھا۔
جمشید کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان نکل پڑا۔ کمبخت، چرسی، موالی، منحوس کو آج ہی یہاں آ کے مرنا تھا میرے پلازہ کے سامنے۔ اگر لوگوں کا ڈر نہ ہوتا تو اِس حرامخور کو اِسی گاڑی کے نیچے روند دیتا۔ چرسی کہیں کا۔
عبداللہ نے ایک تفصیلی نظر بھکاری پر ڈالی۔ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف، سر نیچے جھکا ہوا، آس پاس کے ہجوم سے بےنیاز، ننگ دھڑنگ ایک ہی صدا لگا رہا تھا۔ بھوکا ہوں، بھوکا ہوں، بھوکا ہوں۔
عبداللہ نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا۔ جمشید بھی بحث کے موڈ میں نہ تھا۔ عبداللہ کو اس بھکاری کے سامنے اتار کر وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔
ہجوم میں کھڑے لوگ بھکاری کو طرح طرح کے طعنے دے رہے تھے۔ کوئی فحاشی کے الزام میں گرفتار کروانے کے لئے پولیس کو فون ملا رہا تھا تو کوئی لعن طعن کرتا ہوا اپنی بیوی کی آنکھیں پر ہاتھ رکھتا گزر رہا تھا۔ نوجوانوں کا ایک جمّ غفیر تھا جو ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا تو کھلنڈروں کا ایک گروہ اپنے موبائل فونز سے اس بھکاری کی تصویریں کھینچ رہا تھا اور ویڈیوز بنا کر فیس بک پر شئیر کر رہا تھا۔
عبداللہ آگے بڑھا اپنی لمبی شرٹ اتاری اور اُس بھکاری کو پہنا دی۔ اب وہ خود پتلون اور بنیان میں اور بھکاری شرٹ میں جس نے اسے کسی نہ کسی طرح ڈھانپ ہی لیا تھا۔
لوگوں کی تصویروں کی تعداد دگنی ہوگئی۔ عبداللہ نے بھکاری کا ہاتھ پکڑا اور قریب ہی موجود ایک ہئیر سیلون کے حمام میں چلا گیا۔ تھوڑی سی نوک جھونک اور چار گنا ذیادہ پیسوں کی ادائیگی کے بعد بھکاری کو نہانے کی اجازت مل گئی تو عبداللہ برابر والے شاپنگ مال سے کچھ کپڑے اور جوتے لے آیا۔ نہلا دھلا کر، بالوں کی کٹنگ کروا کے، داڑھی کا خط بنوا کر ، نئے اجلے کپڑوں میں بھکاری خوشی کے مارے اپنے آپکو بھی پہچان نہیں پا رہا تھا۔
اب عبداللہ اسے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلا رہا تھا۔ وہ بھکاری کھانے پہ کچھ ایسا ٹوٹا پڑا تھا کہ جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔ لوگ رک رک کر دیکھتے، بھنویں چڑھاتے اور کچھ نہ کچھ بکتے ہوئے نکل جاتے۔ عبداللہ سب سے بےنیاز یہ سوچ رہا تھا کہ حشر کے دن بھی تو ہم سب یونہی کھڑے ہونگے رحم کی اُمید لگائے بیٹھے۔ آدمی کو غسل خانے میں سوچنا ہی چاہیے کہ جسم زیادہ ننگا ہے یا اعمال۔ اگر جسمانی برہنگی کا یہ احساس تو اعمال کی برہنگی کا کیوں نہیں؟
ان سوچوں کو بھکاری کی آواز نے توڑا۔ صاحب جی آپ کا شکریہ۔ دل خوش کر دیا آپ نے، اب میں جاؤں؟
نہیں کچھ سوال ہیں میرے پاس ، عبداللہ نے جواب دیا۔
کپڑے کہاں گئے؟
صاحب جی، ایک ہی جوڑا تھا۔ گھر بار تو ہے نہیں، نہر پر نہانے گیا تو کوئی پیچھے سے اٹھا لے گیا۔ درخت کے پیچھے گھنٹوں بیٹھا آنے جانے والوں کو آوازیں لگاتا رہا مگر سوائے طعنوں کے کچھ نہ ملا۔ اگر لعن و طعن کو سِی سکتا تو زندگی بھر کے کپڑے بن جاتے۔ آج تیسرا دن ہے، اِسی حال میں تھا۔ سوچتا تھا کہ شاید باری تعالٰی نے رکھ چھوڑا ہے کہ لوگوں کی آزمائش بنوں کہ کون کیا کرتا ہے۔
انٹر پاس ہوں مگر نشے کی عادت نے یہ دن دکھلایا۔ آپ اچھے آدمی ہو، مالک آپ کو بہت دے گا۔
مالک کسے کہتے ہیں؟ عبداللہ نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دوسرا سوال داغا۔
اجی، وہ جس کی ملکیت ہووے ہے۔ پھر وہ جیسا چا ہے برتے۔ بس قبول کر لے۔ چاہے تو کام لے، چاہے تو ززندگی بھر دیکھے بھی نہ۔ چاہے تو بادشاہ بنا دے، چاہے تو مخلوق کے سامنے ننگا رکھ چھوڑے۔ مالک وہ ہوتا ہے جس کی منشاء پر سوال نہیں ہوتا۔ آپ تو پڑھے لکھے ہوبابو، آپکو اتنا بھی نہیں پتہ؟
کون سا نشہ کرتے ہو؟ عبداللہ نے پوچھا۔
جی چرس پیتا ہوں پانچ سو کی آتی ہے۔
اور اچھی والی؟ عبداللہ نے اگلا سوال پوچھا
جی وہ تو امیر لوگوں کے امیر بچے پیتے ہیں۔ وہ تین ہزار کی ایک ڈبی۔
چلو آج تمہیں چرس پلاتا ہوں۔ عبداللہ نے بھکاری کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا۔
بھکاری کی تو بانچھیں کھل گئیں۔
جی وہ آپ شکل سے تو مولوی لگتے ہو مگر، چلیں مجھے کیا۔ آپ نے دل خوش کر دیا۔ کوئی دعا، کوئی آرزو، مالک کی قسم مرتے دم تک آپ کے لئے مانگتا رہوں گا۔
ایک شرط پر چرس ملے گی۔ عبداللہ نے چرس خریدنے کے بعد ڈبیا آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔
جی ہر شرط منظور ہے۔ بھکاری نے بغیر توقف کے جواب دیا۔
اِسے پینے کے بعد میں تمہیں ہسپتال میں داخل کروا دوں گا جہاں نشے کا علاج ہوتا ہے۔ سارا خرچہ میرے ذمہِ۔
جی ضرور۔ بھکاری نے اسے مذاق سمجھتے ہوئے چرس کی ڈبیا اچک لی۔ عبداللہ اسے ہوش سے مدہوش ہو جانے کے عمل سے گزرتے دیکھتا رہا۔ اور ساتھ میں روتا بھی رہا، آج اس کا وضو آنسووں سے ہی ہو گیا۔ اس نے دعا کو ہاتھ اٹھائے۔
“اے اللہ سائیں، چرس یہ پیئے اور نشہ مجھے چڑھے تیری محبت کا۔ میں نے حج کے لئے پیسے جمع کر رکھے تھے آج اس کے علاج پہ لگا رہا ہوں۔ تو اگلے سال ضرور بلا لینا۔ اس سال یہ چرس کی ڈبی بدلے میں قبول کر۔ حشر کے دن میرے اعمال کی برہنگی کو بھی چھپا دینا۔ اے میرے مالک، اپنی منشاء پر چلنے کا ظرف دے۔ قبول کر لے۔ آسانی و عزت والا معاملہ کر۔ تو اچھا ہے مجھے تجھ سے اچھے کی ہی امید ہے۔”
عبداللہ نے مدہوش بھکاری کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، چرس کو چوم کر ڈیش بورڈ میں رکھا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔
اگلے روز ملک بھر میں اخباروں میں بیس کڑور کے نیوورلڈ شاپنگ پلازہ کی تصویروں کے ساتھ ایک بے مایہ ننگے فقیر کی تصویر لوگوں کے اعمال کی دھجیاں اڑا رہی تھی۔
About Me
Freelance Data Sciences, Blockchain and AI Consultant.
Subscribe to My Newsletter
Categories
Tags
AI AI4Impact AI4K12 AI4Kids AI4Schools AIPakistan Ants Artificial Intelligence Association Best Books Blockchain Business Career Paths Cryptocurrency Crytoassets Data Science Data Sciences Data Scientist Dengue Fever Developers Dream Merchants Ethereum Future Jobs Grasshopper Great Man H2O Halloween Honey Bee Humility Intelligence Kaggle Machine Learning Mosquito NLP Pakistan Pakistan Democracy Social Swarm Talent Techonology Termite Top Talent Trick-or-Treat Weka Zeeshan UsmaniBrowse
About Me
Freelance Data Sciences, Blockchain and AI Consultant.
Subscribe to My Newsletter
Like Us On Facebook