”مجھے اللہ کا بڑا ڈر ہے۔” یہ سفید جھوٹ کی وہ مثال ہے جو ہمارے معاشرے میں روز نظر آتی ہے۔ ہم سب زبان سے اللہ سے ڈرنے کا ورد کرتے ہیں مگر عملی و خیالی زندگی میں اس نظریہ کا دور دور تک وجود نہیں ہے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، میرا یقین جانیئے، میں روزی پر بیٹھا ہوں، خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں اور اس جیسے جتنے سابقے ولاحقے ہیں وہ ایک جھوٹ اور مسلسل جھوٹ کی پہچان بن گئے ہیں۔
ہم ایک عملی زندگی جیتے ہیں جس میں افسر شاہی کا ڈر ہے، پولیس و فوج کا ڈر ہے، ایجنسی اور اُٹھائے جانے کا ڈر ہے، نیب اور ایف آئی اے کا ڈر ہے، گلی محلے کے بدمعاش اور بدزبان رشتے داروں کا ڈر ہے، پیسے والوں، اثرورسوخ والوں کا ڈر ہے، وکیل کا ڈر ہے، صحافی کا ڈر ہے، جانوروں کا ڈر ہے، سانپوں کا ڈر ہے، انسانوں کا ڈر ہے، جنات کا ڈر ہے، جادو کا ڈر ہے، مولوی صاحب کا ڈر ہے، ہاں اگر ایک ڈر نہیں تو وہ خدا کا ہے۔ ہماری عملی زندگی میں یہ ڈر کہیں نظر نہیں آتا تو پتہ نہیں کہہ کیوں نہیں دیتے کہ میں خدا سے نہیں ڈرتا۔ کم از کم منافقوں میں تو کھڑے نہیں ہوں گے نا۔
جس پر چاہو الزام لگا دو، بہتان، جھوٹ، لفظوں کی ملمع کاری اور چرب زبانی سے جس سچ کو چاہو جھوٹ میں بدل دو، جس جھوٹ کو چاہو سچ میں بدل دو، کس نے روکا ہے، کس کا ڈر۔ خدا سے ڈرنے والوں کی زندگی ایسی ہوتی ہے نہ موت۔ تو جانتا نہیں میں کون ہوں! مجھے ہلکا مت لے، میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا، اور اس جیسے کتنے ہی جملے ہم روز سنتے ہیں۔
ایک زندگی ہم خیال میں جیتے ہیں۔ وہاں بھی خدا یا اس کا ڈر نہیں ملتا۔ ہم روز سوچتے ہیں کہ اگر پیسہ ہوتا تو یہ کرتے، فلاں اداکارہ سے دوستی ہوتی، فلاں ملک میں کاروبار و رہائش ہوتی یا حکومت میں فلاں عہدہ تو میں یہ کرتا/ کرتی۔ اب اس کے آگے وہ جو بھی لکھیں، کہیں یا سوچیں اس میں خدا کا ڈر آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔
میرا ایک دوست ہے عبداللہ اس کی داڑھی اور بال عموماً اُلجھے رہتے ہیں، میں نے پوچھا تو سرگوشی میں کہنے لگا کہ ”مجھ سے شیشہ نہیں دیکھا جاتا، رو پڑتا ہوں، خدا سے ڈرنے والوں کی شکل میری جیسی نہیں ہوتی۔” ایک وفا ہی تو ہے جو خدا سے کرنی تھی وہ بھی نہ ہوئی، اپنے آپ سے ہوئی، اپنے بیوی بچوں سے ہوئی، شہرت و کام سے ہوئی، خدا سے نہ ہوئی، وہ محسن نقوی کہتے ہیں نا:
اگر تم آئینہ دیکھوتو اپنے آپ سے نظریں چُرا لیناکہ اکثر بے وفا لوگوں کوجب وہ آئینہ دیکھیں توآنکھیں چور لگتی ہیں
جیسے عمارت کا کوئی نقشہ ہوتا ہے نا کوئی معیار، جس کے بغیر عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی، بالکل اِسی طرح قرآن و حدیث شخصیت کی عمارت کا نقشہ ہے اور خدا کا ڈر وہ معیار جس پر ہر شئے پرکھی جائے گی۔
میرا دوست عبداللہ بڑی مشکل میں پھنس جاتا ہے جب اسے کوئی مینٹر بننے کا کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو ڈھانے کا کام کرتا ہوں، مینٹرز تو تعمیر کرتے ہیں۔ میرے پاس شخصیت کی جو عمارتیں آتی ہیں ان کے گارے میں خدا کا ڈر نہیں ہوتا تو میں ان کو ڈھانے میں ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہوں، تعمیر کا کام معمار کرتے ہیں۔ ٹوٹ کے بکھرنا ہے تو میرے پاس آ جاؤ، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اکیلا رہ گیا ہے۔
آئیے! آج مان ہی لیتے ہیں کہ ہم خدا سے نہیں ڈرتے، شاید زندگی میں کوئی آدمی دیکھ سکیں جو ڈرتا ہو۔ آپ کو ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ ہمیشہ احسان مند رہوں گا۔