جان ایف کینڈی ایئرپورٹ پر مسافروں کی ایک لمبی لائن میں لگا عبداللہ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا، بھات بھات کے لہجے اور طرح طرح کے لوگ۔ سُننا عبداللہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا، لوگوں کی سنے اور کوئی آس پاس نہ ہو تو اپنے دل کی سُنے۔ وہ خاموشی کو گفتگو کی تکمیل کہتا تھا۔ ہر شخص لائن میں اپنی پوزیشن پر جم کر کھڑا تھا کہ جیسے عمر اِسی اِسپاٹ پر بِتا دینی ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے قطار میں کھڑا ہونا ہی کامیابی ہے اور ایک عبداللہ جو منزل پر پہنچ کر بھی بے چین رہتا۔ کچھ مسافر منزل پر پہنچ کر کھو جاتے ہیں اور منزل انہیں ڈھونڈتی رہتی ہے تو کچھ راستے میں کھو جاتے ہیں اور منزل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں دونوں میں سے کامیاب کون ہوتا ہے۔ لوگوں کی طرح ہر ملک کی شہریت کی بھی ایک پرسنیلٹی ہوتی ہے جو وہاں کے کلچر، مذہب ، رسم و رواج اور معاشرتی اقدار کی ترجمان ہوتی ہے۔ آپ جیسے جیسے مشرق سے مغرب کا سفر کرتے ہیں انسانیت ریفائن ہوتی چلی جاتی ہے، دھکّم پیل کی جگہ مہذب لوگ، انتشار کی جگہ پٍُرسکون قطار اور چہروں پر کوفت اور ڈر کی جگہ مسکراہٹ، جیسے جیسے سفر مغرب سے مشرق کی طرف ہوتا ہے انسانیت واپس تنزلی کی راہ پکڑتی ہے۔
مسافروں کی لائن میں ایک 80 سالہ بوڑھے بابا بھی تھے جو نیویارک سے انڈیا واپس جا رہے تھے۔ رنگ برنگی پوشاکوں اور گورے گورے جسموں کے درمیان وہ گاڑھے میں کمخواب اور لٹھے میں ململ کا پیوند معلوم ہو رہے تھے۔ وہ خود آگے بڑھے اور عبداللہ کو اپنی کتھا سنانے لگے، آہ کتنا کال ہے ہماری دنیا میں سننے والوں کا، وہ بھی شاید عبداللہ کے پاس اس لئے آ گئے کہ وہ مجمع میں واحد شخص تھا جو آنکھیں بند کئے خاموش کھڑا تھا کہ باقی سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
بابا گویا ہوئے: ’’میں اپنے بیٹے سے ملنے آیا تھا حیدرآباد سے، وہ یہاں ڈاکٹر ہے، کچھ دن تو گھر میں رکھا پھر کہنے لگا کہ آپ کی کھانسی سے میری ولایتی بیگم کو اُلجھن ہوتی ہے، تو مجھے ایک ہوٹل میں شفٹ کر دیا، پہلے تو ہفتے میں 3,4 بار ملنے آتا تھا مگر آج 22 دن ہوئے ملنے نہ آیا، بے چارہ بہت کام کرتا ہے مصروف ہو گیا ہو گا، ٹیکسی بھیج دی تھی ایئرپورٹ ڈراپ کرنے کے لئے، بس ایک بار ملاقات ہو جاتی تو اچھا تھا، پھر زندگی رہے نہ رہے۔
عبداللہ نے درد کی چبھن اپنی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس کرتے ہوئے بات بدلی، اچھا بزرگوار آپ کے پاس کوئی سامان نہیں ہے؟ اس لدے پھندے ہجوم میں تعجب کی بات ہے۔ بس بیٹا، کیا بتاؤں ، بیوی نے کہا بیٹے کے پاس جا رہے ہو کچھ لے کر جانے کی ضرورت نہیں، وہ بڑا آدمی ہے خیال رکھے گا، یہ ماؤں میں بیٹوں کی سخاوت کا سودا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، جس سے سُنا، جو سُنا ایمان لے آئیں۔ بیٹا، جس کے ساتھ ہمیشہ سے سلوک کیا اس کے آگے ہاتھ پھیلانے کو دل نہیں چاہتا۔ مجھ سے کچھ مانگا نہ گیا، اُس نے کچھ دیا نہیں۔ ویسے بھی 80 سال کی عمر میں خدا کے سِوا کون سنتا ہے۔ نہ اولاد، نہ لوگ، نہ ہی اپنے جسم کے اعضاء، نفس بھی گناہ کا بولیں نا تو جسم کہتا ہے بڑے میاں چپ رہو، اب ہمت نہیں ہے۔ زندگی روز مارتی ہے بیٹا، موت تو ایک بار مارے گی۔
عبداللہ نے اپنی آنکھ صاف کرتے ہوئے منہ دوسری جانب موڑ لیا اور چپکے سے کچھ سو ڈالر نکال کر بابا کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ جائیں تو بڑی بی کو دے دینا کہنا کہ بیٹے نے بھیجے ہیں۔
لائن تھوڑی سی آگے کھسکی تو عبداللہ کے پیچھے ایک خاتون نے جگہ بنائی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹرالی میں رکھے بیگ زیادہ تھے یا ان کے بچوں کی تعداد۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دو چار دن کی آئی لگائی نہ تھی ، 15 برس کی گھریتن بریتن، بیاہی،تِہائی 7 بچوں کی ماں تھیں۔ امریکہ میں رہتی تھیں اور پاکستان اپنے میکے جا رہی تھیں۔
ابھی عبداللہ ان خاتون کے شکنجے سے نکل بھی نہ پایا تھا کہ یورپین لڑکیوں کا ایک گروپ برابر والی لائن میں آدھمکا۔ اس کی پوری لائن کے منہ اسی طرف ہو گئے، عورتوں نے منہ بنا کے رُخ بدل لیا تو مردوں نے عینک کے شیشے صاف کرکے بالوں پر ہاتھ لگا کے، بیوی بچوں سے نادانستہ کچھ قدم کا فاصلہ کر لیا۔
گروپ کیا تھا سفید ٹانگوں کا مجموعہ تھا اور گریبان کے چاک اتنے گہرے کہ سمجھ نہ آتی تھی کہ نمائش کس کی ہے کپڑوں کی یا جسموں کی۔ کسی نے بیوی کے ڈر سے نظریں نیچی کر لیں تو کسی نے لوگوں کے خوف سے، مگر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ بار بار ہر ایک سے اُٹھ رہی تھی، سفیدی اور گوشت سے بھرے جسم دل کو کچوکے لگا رہے تھے۔ خدائی جنت کے دعوے اُس شیطانی جنت کے مقابلے میں جو نظروں کے سامنے جلوہ گر تھی کچھ مؤثر ثابت نہ ہوئے۔
کیا عجب بات ہے کہ شیطانی ٹولہ انسانی نفس پرستی کے تمام اسباب نقد فراہم کر رہا ہو اور بندہ خدائی فوجداروں کی سن لے جو زندگی کے ہر لطف کی دستیابی موت سے شروع کرتے ہیں۔
صحرا کے پیاسے کو پانی کے پیالے سے یہ کہہ کر جدا کرنا کہ زہرآلود ہے اور منزلِ مقصود پر حوریں پانی کے چشموں پر انتظار کر رہی ہیں بڑا مشکل کام ہے۔ عبداللہ نے بھینچ کر آنکھیں بند کر لیں مگر آنکھ بند کرتے ہی نفس کی آنکھ کھل گئی تو اس نے گھبرا کر پھر آنکھیں کھول دیں۔ ابتک اس کی باری آ چکی تھی، بورڈنگ پاس لیا اور جہاز میں سوار ہوگیا۔ اسے اپنی پسندیدہ ونڈو سیٹ ملی تھی، رن وے پر بھاگتے جہاز کو دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ جہاز کا سفر زندگی سے کتنا قریب تر ہے۔ سب لوگوں کی منزل ایک ہی ہے لیکن اس کے باوجود سب کی اُمنگیں، احساسات، جذبات اور اِرادے الگ، جہاز آسمان کی طرف بلند ہوا، لوگ چھوٹے ہوتے چلے گئے، بلڈنگیں چھوٹی ہو گئیں، گاڑیاں چھوٹی ہو گئیں اور پھر بادل آ گئے اور شہر اور اسکی رونقیں سب سمٹ گئیں۔ ایسے کہ جیسے دریا کوزہ میں بند ہو جاتا ہے۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ عُجب کے ماروں کو جہاز کا سفر ضرور کرنا چاہئے، اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ جب اللہ سائیں کائنات کو دیکھتے ہوں گے تو اس میں دنیا ذرّہ کے برابر بھی نہیں ہوگی، اس میں ایک چھوٹا سا ملک، ایک اور چھوٹا سا دارالحکومت اور ایک نظر نہ آنے والا انسان کتنا مضحکہ خیز منظر ہوتا ہو گا جب وہ خدائی کا دعویٰ کرے، اِسلام کو مٹانے کے منصوبے بنائے، یا ظلم کرے اور سمجھے اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ عادی ظالموں کے اس ملک میں جہاز کا سفر لازمی قرار دے دینا چاہئے۔
عبداللہ کی سوچوں کو ایئرہوسٹس کی آواز نے توڑا، کھانا سرو کیا جا رہا تھا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ عزت و احترام کے ساتھ کھانا بھی بے شک اللہ کی بڑی نعمت ہے، کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کھانے پر روز ذلیل ہوتے ہیں، قطار میں لگتے ہیں، لنگر جاتے ہیں یا کھانے کے انتظار میں بھوکے ہی رہ جاتے ہیں اور کتنی عجیب بات ہے کہ بندہ آسمانوں میں رزق کھاتا ہے۔ ہوائی میزبان اتنے اچھے ہوتے ہیں تو وہ میزبان کتنے اچھے ہوں گے جو اللہ مقرر کرے گا۔ عبداللہ کی آنکھیں شکر میں نم ہوتی چلی گئیں اور گوری ٹانگیں دِیدوں سے دُھلتی گئیں۔
جہاز میں سب سو چکے تھے، انڈیا والے بابا، پاکستان والی بیگم صاحبہ اور یورپ کی لڑکیاں، سب سو رہے تھے، محمود و ایاز سب برابر تھے، اگر کچھ ہو جائے تو سب کا انجام ایک سا ہو گا، قبر میں بھی سب سوئے ہوں گے مگر سب کا انجام مختلف ہو گا، عبداللہ نے جھرجھری لی۔
اتنے میں ایک بچے کی رونے کی آواز نے ماحول میں صُور پھونکا۔ بہت سے لوگ نیند سے اُٹھ گئے اور دل ہی دل میں معصوم بچے اور اس کی ماں کو کوسنے لگے۔ عبداللہ نے بچے کے لئے دعا مانگی تو ایک ایک کر کے سارے رونے لگے، عبداللہ مسکراتے ہوئے سب کو دعا دیتا چلا گیا، بے شک دعا بھی ایک رزق ہے جو ہر بندے کو اس کے نصیب سے ملتا ہے۔
جہاز کی آخری سیٹوں پر ایک 30 سالہ نوجوان بیٹھا ہوا تھا، اُسے شاید کوئی بیماری تھی، رعشہ بھی تھا، وہ مسلسل ہل رہا تھا اور ہر 10 سیکنڈ بعد اس کے منہ سے ایک عجیب اور زوردار آواز نکلتی جس پر اس کا کنٹرول کوئی نہیں تھا، مسافروں نے لڑ لڑ کر ایئرہوسٹس سے اپنی سیٹیں آگے کروائیں کہ اس مصیبت سے جان چُھوٹے۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ اگر اللہ ہر انسان کو پروگرام کر دیتا کہ ہر 10 سیکنڈ میں اللہ بولنا ہے ورنہ اسی طرح مر جاؤ گے جیسے سانس نہ لینے سے مر جاتے ہو تو بندہ کیا کر لیتا، عبداللہ کو خون کی رفتار بڑھتی محسوس ہوتی جیسے دل کہہ رہا ہوں لاالہ الااللہ ۔الگ الگ اِسٹاپ آتے گئے اور مسافر بدلتے چلے گئے،انڈیا والے بابا، یورپ کی لڑکیاں سب اپنی اپنی منزل پر اُتر گئے۔
جہاز نے زمین کی طرف سفر شروع کیا، بے شک ہر شئے نے زمین میں ہی جانا ہے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر تمام مہذب لوگوں کی قلعی کھُل گئی، ہٹو بچو کا شور، سیکورٹی، پروٹوکول، عبداللہ کو لگا کہ لگیچ بیلٹ پر سامان نہیں شیطانی اقدار آ رہی ہوں جو ہر بندہ جھپٹ کر اُٹھا رہا ہو، تکبر کا بیگ، رعونت کا ہینڈ کیری، تعصب کا اسٹالر، نفرت کی پیٹی، دکھاوے کا بستہ، اور فریب کا بکسہ،
عبداللہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی، وہ سوچنے لگا کہ جو اِسلام رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے وہ شاید دنیا میں موجود ہے بھی یا نہیں، پتہ نہیں کہاں ملے گا۔ مسلمانوں میں تو نہیں ملتا، افریقہ کی کسی قبیلے میں ہو تو ہو۔ عبداللہ نے بندگی اور درگزر کا بیگ اُٹھایا اور نکل پڑا مسلمانوں کو ڈھونڈنے۔
اگر آپ اس جیسی اور کہانیاں پڑھنا چاہتے ہوں تو میری کتابیں پاکستان میں گفتگو پبلیکیشنز کی ویب سائٹ سے اور باقی دنیا بھر میں ایمیزون کی ویب سائٹ سے خرید سکتے ہیں