حج کا خوف
عبداللہ کی عمر کوئی 17 سال کی ہوگی جب اس کے ابو حج پر گئے۔ سن 1995 ء کی بات ہے۔ عبداللہ انٹرمیڈیٹ کے پرچوں کی تیاری میں مصروف تھا لہٰذا اسے گھر میں ہونے والی حج ڈسکشن کے بارے میں معلوم ہی نہ ہوا۔
ایک دن صبح صبح سارے بہن بھائی جمع ہوئے بابا سائیں کو الوداع کہنے کو۔ ان کی کراچی سے فلائٹ تھی اور گھر میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ابو جاتے جاتے جو آخری جملہ امّی کو بول کر گئے وہ یہ تھا۔
”دعا کرنا، واپسی نہ ہو۔“
امّی نے رونا شروع کیا اور ابّو چلے گئے۔ عبداللہ کے دل و دماغ میں بھونچال آگیا کہ یہ کیسا سفر ہے جو سب کو رُلا رہا ہے، آخر کیوں ابّو واپس نہیں آنا چاہتے، آخر کیوں آدمی ایسے سفر پر جائے کہ واپسی کا اِمکان نہ ہو؟ امی کو روتے اور روز ابو کی صحت کے ساتھ واپسی کی دعائیں کرتے دیکھ کے عبداللہ کے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی حج پر نہیں جائے گا۔ کچھ ہی عرصے بعد ابّو خیریت کے ساتھ واپس آگئے۔ ایئر پورٹ سے نکلتے ہو ئے انہوں نے کہاکہ حج جوانی میں کرنا چاہئے، میں تو مر ہی گیا تھا۔
رات کو تنہائی پا کر عبد اللہ اپنے ابو کے پاس چلا گیا اور ان سے پوچھا، بتایئے کیا ہوا؟
“عبد اللہ، اللہ کی شان کا ظہور دیکھا۔ اس کی قوت کا مشاہدہ کیا۔ ایک خلقت جمع تھی، لوگ ہی لوگ، سر ہی سر، حج ایک ایسا تجربہ ہے جو الفاظ میں قید ہو ہی نہیں سکتا۔ تم ضرور جانا، جوانی میں جانا کہ حج مشقت کا نام ہے۔ اللہ کے اسماء الحسنیٰ کو سمجھنا ہو اور اللہ سے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کی نوعیت کو جاننا ہو توبندہ حج کر لے۔ حج کے بعد کی زندگی، حج سے پہلے والی زندگی نہیں رہتی۔ شاید نامہئ اعمال کی بھی دو جلدیں ہوں۔ حج سے پہلے والی اورحج کے بعد والی۔ تم ضرور جانا۔”
17سال کی عمر میں یہ الفاظ کہاں سمجھ آتے ہیں مگر بھلا ہو عبد اللہ کے حافظے کا کہ تمام الفاظ نقش ہوگئے۔ابّو نے داڑھی رکھ لی، تہجد گزار ہوگئے اور عبد اللہ نے بھی حج کا فیصلہ کر لیا۔
٭……٭……٭
حج پیکیج
اس سال عبد اللہ چھٹیوں پر امریکہ سے پاکستان آیا ہوا تھا عید کرنے۔ عبد اللہ نے سوچا کیوں نہ حج کر لیا جائے۔کچھ دنوں بعد عبد اللہ نے ایک دوست سے ذکر کیا تو اس نے حج منسٹری میں ایک صاحب سے ملوادیا۔ ان صاحب نے حج ٹریول گروپ کی طرف ریفر کر دیا اور ان کے پاس اچانک کہیں سے کسی نے سیٹ منسوخ کر دی اور عبد اللہ کو ”متبادل“ سیٹ مل گئی۔
بہت سارے پیکیجزکی چھان پھٹک کے بعد عبد اللہ نے VIPپیکیج لیا کہ حج عیش سے ہوجائے گا۔ ساڑھے پانچ لاکھ کا پیکیج،135,000کا ٹکٹ، 500ریال قربانی کے اور کچھ کیش۔ عبد اللہ نے سوچا 10لاکھ میں حج آرام سے ہو جائے گا۔ 15دنوں کا ٹور تھا۔ عبد اللہ نے پیکنگ شروع کر دی۔
٭……٭……٭
حج پیکنگ
کھلے پاؤں والی چپل، دو عدد احرام، دوائیں، دواؤں کو حاجی کیمپ سے سیل کرواناگردن توڑ بخارکا ٹیکہ اور پولیو کی ویکسین۔ نئے شلوارقمیص اور ویزہ پاسپورٹ کی کاپیاں۔ عبد اللہ کا 12کلو گرام کا بیگ تیار ہوگیا۔آج کل یہ سارا سامان راولپنڈی یا اسلام آباد میں G10مرکز سے بآسانی اور انتہائی مناسب نرخوں میں مل جاتا ہے۔
یوں تو PIAنے 30کلو گرام کی چھوٹ دی تھی مگر عبد اللہ کے پاس لے جانے کو اور کچھ تھا ہی نہیں۔وہ سوچنے لگا چلوکوئی بات نہیں 18 کلو کے تو گناہ ہونگے ہی، وزن پورا ہو گیا۔
٭……٭……٭
حج ٹریننگ
ٹریول گروپ نے اسلام آباد کلب کے ایئر کنڈیشن ہال میں ایک شاندار ٹریننگ کروائی، شاندار بوفے کے ساتھ۔ یخ بستہ ہال میں بیٹھ کر منیٰ اور عرفات کے خیموں کی تصاویر دیکھ کر لگتا تھا کہ جمعہ کی نماز شایدحج سے بھی مشکل ہے۔ عبد اللہ کو بار بار اپنے ابّو کی بات یاد آتی کہ حج مشقت ہے، جوانی میں کرنا مگر جو کچھ وہ دیکھ اور سن رہا تھا اس کا تو کوئی موازنہ ہی نہ تھامشقت سے۔
عبد اللہ نے مارکیٹ میں موجود اُردو کی ہر کتاب پڑھ ڈالی جو حج اور عمرہ سے متعلق تھی۔ کچھ سفر نامے بھی پڑھ ڈالے۔ رات سب کو پڑھنے کے بعد ایک توکوئی ہزار کے اوپر مسائل کی لسٹ بن گئی کہ کس کس وقت اور صورت حال میں شریعت کا حکم کیا ہے۔ لوگوں نے مفتیانِ کرام اور علمائے کرام سے اتنے سوالات پوچھ ڈالے ہیں جتنے شاید اسلام کے شروع کے 1200سال میں نہ پوچھے گئے ہوں۔ عبد اللہ بہت زیادہ کنفیوژ ہو گیا۔ سفر ناموں نے عقیدت و سرور کا وہ منظر باندھا کہ شاید واقعہ معراج کے آنکھوں دیکھے حال پر بھی نہ بن سکے۔ کیفیات، دعائیں، عاجزی، رونا، عبد اللہ کو یقین ہو چلا کہ وہ اولیاء اور اقطاب کے ملک میں رہتا ہے۔ عبد اللہ نے سوچا کہ آخر وہ حج کو کیسے ڈیفائن کر سکتا ہے؟
٭……٭……٭
حج کیا ہے؟
اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرے حضور میں۔ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ساری تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہیں، اور ملک اور بادشاہت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
آج کل حج کا سِیزن ہے ہر ایک اپنے ملنے والوں کو اپنے سفر کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ کوئی لوگوں سے ملاقات کر کے معافیاں مانگ رہا ہے تو کوئی ڈائری میں اُن تمام لوگوں کے نام لکھ رہا ہے جنہوں نے دُعا کا کہا ہے۔ کوئی سفری انتظامات میں پریشان ہے تو کوئی مناسکِ حج کے حفظ میں مصروف۔
عبداللہ سوچا کرتا کہ آخر حج ہے کیا؟ کیوں ہم سب کام چھوڑ کر کچھ دنوں کے لئے بیت اللہ چلے جائیں؟ وادیِ عرفات میں قیام کریں، منیٰ و مزدلفہ میں رُکیں، شیطان کو کنکریاں ماریں، طواف کریں؟ اِسلام کا ایک رکن اور زندگی میں ایک بار فرض تو سمجھ آتا ہے مگر وہ ایسی کیا چیز ہے جو اِسے تمام دوسری عبادتوں سے ممتاز بناتی ہے؟
حج مشقت کا نام ہے۔ جیسی محنت و مشقت ہم اپنی زندگیوں میں دنیا پانے کے لئے کرتے ہیں اس کا ایک چھوٹا سا اِظہار ایامِ حج میں ہم اللہ کو پانے کے لئے کرتے ہیں۔ اُس کے حضور حاضری دینے کے لئے۔ حضرت رِسالت پناہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حج کو عورتوں کا جہاد بتایا ہے۔ بندے کو ہمت کرنی چاہئے کہ جیسے دنیا کی لگن میں دن رات جُتا رہتا ہے ایسے کچھ دن اللہ کی رضا کیلئے بھی نکالے۔ اب اللہ کا قرب اتنا سستا تھوڑا ہی ہے کہ بغیر محنت و مشقت کے مل جائے۔ بندہ تڑخ جاتا ہے پھر کہیں جا کے آگ لگتی ہے۔
حج آزمائش بھی تو ہے کہ دیکھیں کون کس نیت سے آتا ہے اور کون نیت بچا کے لے جاتا ہے؟ کون ہے جو سامان، رونق، بازار، نظم و نسق، آرام و آسائش، سہولت و تکلف، پیرومرشد، مہمان و زائر اور غائب و حضوری میں اُلجھ جاتا ہے اور کون ہے جو اللہ کا بندہ بن کر اپنے رب سے جا ملتا ہے؟ کون ہے جِسے حضوری حاصل رہتی ہے اور کون ہے جو حضوری کی تلقین میں حضوری سے قاصر رہتا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ کہتے ہیں کہ راستے کے مناظر میں نہ اُلجھو تو منزل پر آنکھیں تازہ دم رہتی ہیں۔ اِس سفر میں نگاہ صرف اس کی طرف ہونی چاہئے جس نے بُلایا ہے۔ باقی سب تو فسوں ہے۔ بقول قدرت اللہ شہاب، اِس سفر میں کوئی تفصیل اہم نہیں سوائے حاضری کے۔
حج طواف بھی تو ہے کہ بس اُس کے گرد چکر لگاتے رہو، ان پروانوں کی طرح جو شمع کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ طواف چکّی کے پاٹ کی طرح ہر پھیرے میں آپ کو توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ آپ کی ذات کرچی کرچی ہوتی رہتی ہے۔ آپ تڑخ جاتے ہیں اور جو پہلے سے تڑخے ہوئے ہوں وہ دہک جاتے ہیں۔ نہ کوئی تڑخ نہ دھواں مگر آگ ایسی کہ جو ٹکرائے وہ بھی راکھ ہو جائے۔ طواف سب کو برابر کر دیتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، دنیا کے بڑے، ارب پتی، مالدار، رکھ رکھاؤ، ذات و کنبے والے، اختیارات و جائیداد والے، ایسے لوگ جو گنتی کے ہوں یہاں کسی گنتی میں نہیں رہتے۔ بس سبھی گول گول گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کسی پر احترام و رعب کی ایسی گرفت کہ خوشی کے پَر کٹ جائیں تو کوئی تشکر میں ایسا ڈوبا کہ دھمال ڈالنے کو جی چاہے۔ کسی کا دل ملتزم پر پہنچ کر پاش پاش ہو جائے تو کسی کے ذرّے حجرِ اَسود کو چُومتے نظر آئیں۔ سب سے کٹ کر ایک کی حاضری میں، ہستی اور نیستی کے درمیان جھومتے ہوئے لوگ، اپنے دلوں کو کعبۃاللہ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے۔ کیا عجیب بات ہے کہ لوگ دوڑ رہے ہیں، منظر ساکت ہے۔ قُرب ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اور زائرین کرچی کرچی ہو کر حرمِ مکہ میں پڑے رہتے ہیں۔ حج کے دنوں میں طواف سے بڑھ کر کوئی اور لذت نہیں۔ یہ وقت ہے اللہ کے ذکر میں، اللہ کی ذات میں سفر کرنے کا، اس کی یاد میں شرابور ہونے کا اور جو شرابور ہو جائے اسے رکھ رکھاؤ نہیں جچتا۔ کہہ دینی چاہئے دل کی بات کہ مالک سب سنتا ہے۔
حج ذکر بھی تو ہے اپنے محبوب کا، اپنے یار کا۔ اس پاک پروردگار کا جِسے بِن دیکھے مانتے چلے آئے ہیں۔ مسجدِ حرام میں حاجی اپنے جوتوں کے ساتھ ساتھ اپنا علم، اپنا مسلک، اپنی آن، اپنی رائے۔ اپنی مسند، اپنا عمامہ، اپنی دستار، اپنی دولت، اپنی دنیا، اپنا دین سب کچھ اُتار کے باہر رکھ دیتا ہے اور صرف خالص بندہ بن کر اندر جاتا ہے۔ اور کسے کیا خبر کہ واپسی پر کیا کیا واپس ملے گا یا سب کچھ ہی چھِن جائے گا۔
حج لاڈ بھی تو ہے کہ اللہ چُن کر چیدہ چیدہ بندوں کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ اگر آپ کو صدر یا وزیراعظم دعوت پر بُلا لیں اور لوگوں کو بتا بھی دیں کہ آپ کو بلایا ہے۔ تو آپ کی خوشی دیدنی ہو گی۔ حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ علی الاعلان، ببانگِ دیل وہ جھومتا جھامتا، اس کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کوئی غلط بات کریں گے تو بات میزبان پر آئے گی آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ بقول شاعر
؎ سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیو! طیبہ کی گلیوں میں
کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بے کار ہو جائے
خودستائی سے مارے ہوئے لوگوں کی ٹریٹمنٹ کا مرکز بھی تو ہے کہ حقیقت کھلتی ہے کہ اللہ اللہ ہے اور بندہ پھر بندہ ہے۔ حج گناہگاروں کی جنت بھی تو ہے کہ ڈھیروں ثواب سمیٹتے ہیں اور سارے گناہ معاف کروا لیتے ہیں۔ کردہ بھی، ناکردہ بھی۔ گناہ بھی، احساسِ گناہ بھی۔ حج کی مشقت سارے کس وبل نکال دیتی ہے۔ گناہوں کی شرمندگی بھی، نیکیوں کا بھرم بھی، تکبر کا جوبن بھی، عاجزی کا غرور بھی، نیکیوں کی تکریم بھی، گناہوں کا امتیاز بھی۔ پاکھنڈیوں کا سوانگ بھی، نیکوکاروں کی معرفت بھی۔ اس کی شانِ اظہر من الشمس ہوتی ہے۔ اس کی قدرت کی تجلی کتنے ہی بہروپیوں کو اصل کر دیتی ہے۔
حج طلب بھی تو ہے جو طالب کو مطلوب کی طرف کھینچتی ہے اور وہ طلب کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ بیشک طلب سے بڑی منزل کوئی نہیں۔ یافت تو ایک اتفاقیہ امر ہے۔ انعام تو طلب پر ہے، تلاش پر، جستجو میں، سفر میں۔ یہ سفر ہی تو ہے جس میں آنے والی مشکلات کو جھیلتے ہوئے انسان آگے بڑھتا ہے۔ راستہ ان ہی کا تو مارا جاتا ہے جن کے پہنچنے کا خوف ہو ورنہ شیطان کو اور بیسیوں کام پڑے ہیں وہ خوامخواہ اپنا وقت کیوں برباد کرے۔ حج کے سفر میں طلب کو سینک ملتی ہے جس سے وہ دل میں پختہ ہو جاتی ہے۔ محبوب سامنے ہو تو طلب میں اُبال آ جاتا ہے۔ ایک کلائمکس ہوتا ہے۔ اِسے وہ سمجھیں جس نے کبھی عشق کیا ہو یا وہ جو جنسِ مخالف سے آگ لے کر نفس کو جلانے کا منکہ جانیں۔
حج دعا بھی تو ہے۔ مانگنا اور بس مانگتے رہنا۔ بے بسی، آنسو، منت، سماجت۔ جس سے مانگا جا رہا ہے اس کی عظمت کا اعتراف، گناہوں سے چھٹکارا، جہنم سے خلاصی، مجبوری کی انتہا، قرب کی ابتداء۔ گناہوں کا پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی چھت۔ پیچھے ہٹتے رہنے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے اور آگے بڑھنے کی منزل کبھی نہیں آتی۔ اِن دو سِروں کا ملا دینے کا نام حج ہے کہ بندہ پھر سے شروع کرے۔ دیوالیہ ہوجائے، ایک نیا آغاز لے۔ جو وہ کر سکتا ہے وہ کرے باقی اللہ جانے اور اُس کا کام۔ کچھ لوگ اللہ کے ذکر سے ایسے بھر جاتے ہیں جیسے بھری بہار میں انار اپنے رس سے۔
حج پناہ بھی تو ہے، زمانے کے فسادات سے، ظلم سے، اپنے آپ سے، اپنے نفس سے۔ بقول ممتاز مفتی، اعضائے انسانی میں زبان وہ واحد عضو ہے جو جھوٹ بولنے پر قادر ہے۔ باقی اعضاء تو سچ ہی بولتے ہیں۔ اِس زبان سے پناہ بھی تو حج ہی میں ملتی ہے (شاید)۔
حج ”میں“ سے”تُو“ کا سفر ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ عجز بے نام ہوا کرتا ہے۔ جس کی تشہیر کی جا سکے وہ عجز تھوڑا ہی ہے۔ آئیں چلیں اللہ کو راضی کرنے کے لئے، اللہ کی دی ہوئی جان کے ساتھ، اللہ کے دئیے ہوئے مال سے، حاضری دے آئیں۔
ہوشیار رہئے گا کہ صدا اے اللہ میں حاضر ہوں ہی آئے۔ اے سامان، اے گولڈ، اے فیس بُک، اے رشتے دار، اے نفس یا اے خاندان نہ آ جائے۔
؎ کبھی اپنے دل کے اندر تجھے دیکھتے تو رُکتے
تیرے کاخِ بے مکیں کا یہ طواف کرنے والے
٭……٭……٭
روانگی
5ستمبر، 3ذی الحجہ، بروز پیر، عبد اللہ 10:30پر اسلام آباد ایئر پورٹ پر احرام پہنے موجود تھا۔ گورنمنٹ نے حاجیوں کو دیے جانے والے کتابچے میں فلائٹ کے وقت سے 4گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچنے کی تاکید کی تھی۔
ایئر پورٹ کے معاملات، اینٹی نار کوٹیکس فورس کی چیکنگ، بورڈنگ کارڈ کا حصول اور امیگریشن، سارے کام با احسن و خوبی ایک گھنٹے میں نمٹ گئے اور عبد اللہ VIPلاؤنج میں براجمان ہو گیا۔
٭……٭……٭
حج کی نیّت
غسلِ احرام اور احرام کے نفل تو وہ گھر سے کر کے اور پڑھ کر آیا تھا، سوچا کہ حج کی نیت بھی کر لی جائے۔ ٹریننگ والے مولوی صاحب نے کہا تھا کہ حج کی نیت کرتے وقت حج کے سہل ہونے کی دعا کرنا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ VIPپیکیج سہل ہی کی تو تفسیرہے۔ خیر ا س سے جیسے کہا گیا ویسے نیت کر لی۔
وہ اپنے Mentorسے مشورہ کر کے آیا تھا تو اس نے حج قر ٰن کی نیت کی کہ وہ جاکے پہلے عمرہ کرے گا، پھرحالت احرام میں حج کا انتظار اور پھر حج۔ ویسے بھی وہ اکیلا تھا تو اس نے سوچا کہ حج قرٰن سنت بھی ہے تو یہی کرنا چاہئے۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں ایک حج کیا اور وہ قر ٰن تھا۔
بہت سی کتابیں حج تَمتُع کو افضل بتاتی ہیں کہ عمرہ کرکے احرام کھولو۔ پھر حج کا احرام باندھو اور حج کرو۔ مگر عبد اللہ آنے سے پہلے حج سے متعلق تمام قوت فیصلہ اپنے Mentor کے سپرد کر آیا تھا۔ان سے درخواست کی تھی کہ اتنے مسائل تویاد نہیں ہوتے، میں آپ کو روز کال کر کے اگلے دن کے مسائل پوچھ لوں گا۔ عبد اللہ نے سوچا کہ کراچی والوں کا وہ ساڑھے سولہ لاکھ کا پیکیج کیسا ہوگاجس میں مولانا طارق جمیل،جنید جمشیداور پتہ نہیں کون کون سے صاحب کمال لوگ جارہے ہیں۔ اپنے عمرے کے تجربے کے پیش نظرعبد اللہ نے نیت میں ان3 چیزوں کا اضافہ کر دیا:
1۔اے اللہ، میں پورے حج میں کوئی تصویر نہیں کھینچوں گا۔
2۔اے اللہ میں پورے حج میں ایک روپے کی بھی خریداری نہیں کروں گاالّا یہ کہ بیماری میں دوائی لینی پڑ جائے۔
3۔اے اللہ میں کسی کو بتا کے نہیں جاؤں گاکہ پچھلی ساری زندگی میں ایک نیکی ایسی نہیں جس کا واسطہ دے کر دعا کر سکوں۔ تو چاہتا ہوں کہ حج صرف اور صرف تیرے لئے ہو۔ پورے خلوص کے ساتھ ہو۔