باہر کے ملکوں میں بچی پیدا ہوتی ہے ، پھروہ بڑی ہوتی ہے، لڑکی بنتی ہے ، شادی کرتی ہے، ماں بنتی ہے اور پھر عورت کہلاتی ہے ۔ اسے ہر ہر موقع پر پورا حق ہوتا ہے اپنی ذات کی تشریح و تعریف کرنے کا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ معاشرہ اسے ایک پروڈکٹ سے زیادہ حیثیت کم کم ہی دیتا ہے ۔
ہمارے ملک میں بچی پیدا ہوتے ہی عورت بن جاتی ہے ۔ ماں باپ کو پہلے دن سے ہی اس کے اچھے نصیبوں کی ، شوہر ، سسرال ، رشتہ داروں اور محلے والوں کی فکر کھائے چلی جاتی ہے۔
یہ پہنو، یہ نہ پہنو، یوں نہ چلو، ایسے بولو، ایسا بولو۔ یہ کرو ، یہ نہ کرو۔
“لڑکی ذات ہے”
یہ جملہ ہزار ہا بار سنا تو کیا لڑکا ذات نہیں۔ ایسا ہی ہے ، ہمارے معاشرے میں لڑکی ذات ہے اور باقی سب تماشائی۔
لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ماں باپ کی ڈیفائن شدہ زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر بھائیوں کی خوشنودی حاصل کرنا تو عین عبادت ہے۔ پھر شوہر تو مجازی خدا ٹھہرا اور پھر بچوں کی جنت کا بھرم رکھتے رکھتے وہ خود جنت میں چلی جاتی ہے ، مر جاتی ہے ، جئیے بغیر۔
مجھے حقوق نسواں کا علمبردار ثابت کرنے سے پہلے آپ غور کریں کہ کیا ہمارا رویہ ہمارے معاشرے میں عورتوں سے انتقامی نہیں ؟ کیا ہم تاک میں نہیں رہتے کہ یہاں کوئی بھول چوک ، کوئی غلطی ہو اور یہاں ہم چارج شیٹ پیش کریں ؟
“یہ عورت آج تک کسی کو سمجھ نہ آئی “، فحش اور بد تہذیب لطیفے، گلیوں بازاروں، بس کے اڈوں ، ریلوے اسٹیشن، یونی ورسٹی، ہسپتال، الغرض ہر جگہ اس پر ہوٹنگ، جملے کسنا، بے ہودگی، کونسی جگہ ہے جو ہمارے معاشرے میں عورت کیلئے محفوظ رہ گئی ہے ؟ اپنے آپ سے پوچھ لیں، کیا آپ اپنی بیٹیوں کو ، ماوں بہنوں کو، بیویوں کو اکیلے مری بھیج سکتے ہیں ؟ ہسپتال میں؟ بازار میں ؟ اتوار سستا بازار میں؟ پنڈی راجہ بازار میں، لاہور اچھرہ میں، ملیر کراچی میں۔
ان سب کا ذمہ دار کون ہے ۔ آپ اور میں، مرد حضرات۔ جس ملک میں 50ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی 70 سال کی بڑھیا کو مکمل برقع اور نقاب پہننا پڑے، جہاں 4 بچوں کی ماں بھی بائیک پرصرف چادر اوڑھ کر نہ بیٹھ سکے۔ جہاں اس پر پڑنے والی ہر نظر عقابی اور ہر نیت گدھ کی ہو، وہاں حقوق نسواں کی موجودگی ثابت کرنے والوں کو جوتے مارنے چاہئیں۔
یہ آپ کو جتنے بڑے بزنس مین، سیاست دان، عالم دین، کھلاڑی، پروفیسرز اور صنعت کار دکھتے ہیں، جاکر ان کی ماوں اور بیویوں کے انٹر ویوز کریں۔ پتہ چلے گا کہ انہیں کتنی قربانیاں دینی پڑیں آپ کے ملک کو ایک باصلاحیت شخص دینے کیلئے ۔ پیمانہ اگر صبر ہوتو ملک عزیز کی تمام عورتیں مرد اور تمام مرد عورتیں کہلائیں۔
مرد پیسہ لاتا ہے، کماتا ہے، تو۔
کیا وہ مالک ہو گیا۔ جسم کا؟سوچ کا؟ اِرادوں کا؟ رُوح کا؟ گماں کا؟ اِمکان کا؟
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسے نہیں کھاتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسوں پہ نہیں سوتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر پیسوں سے راحت نہیں ملتی۔ نہ خوشی ملتی ہے نہ اطمینان۔
اِن پیسوں کو کھانا عورت بناتی ہے۔ اِن پیسوں کو گھر، خوشی، اطمینان، سکون اور بستر عورت بناتی ہے۔
آپ کا نام نہاد’’مرد‘‘ تو روز آفس سے گالیاں، غیبت، بہتان، جھوٹ، ظلم اور حسد کھا کے آتا ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو اُسے تسکین دیتی ہے۔ کھانا کھلاتی ہے۔ دوبارہ سے جوڑتی ہے اور صبح ’مرد‘ بنا کے واپس بھیجتی ہے۔
جس اسلام نے عورت کے استحصال کے درجنوں طریقے ختم کر کے اسے نکاح کی حفاظت میں دیا، ہم مسلمان ایسے گئے گذرے کہ اسے جانوروں کے حقوق بھی نہ دیں ۔
تُف ہے ایسی مردانگی پر ۔
آئیے میں آج مسئلہ ختم ہی کر دیتا ہوں کہ عورت کیا ہوتی ہے؟
مرد صرف جمع نفی کر سکتا ہے۔ عورت صرف ضرب جانتی ہے۔ آپ جو اسے دیتے ہیں، یہ اسے ملٹی پلائی کر دیتی ہے۔ آپ اسے پیسہ لاکر دیتے ہیں، یہ آپ کے مکان کو گھر بنا دیتی ہے۔ آپ اس کے بالوں میں ایک پھول لگاتے ہیں، یہ آپ کے گھر کو گلستان بنادیتی ہے۔آپ اسے تھوڑا سا وقت دے دیں، یہ آپ کو اولاد دیتی ہے، آپ مسکرا دیں ، یہ اپنا دل نکال کے آپ کے ہاتھ پر رکھ دیتی ہے۔آپ اسے عزت دیں، یہ آپ کو جان دے دے گی، آپ گروسری لا دیں، یہ آپ کو ڈنر بنا دے گی،آپ اس کی تعریف کر دیں، یہ آپ کو آئیڈیل بنا دے گی۔ آپ اسے نیکی پر چلا دیں، یہ دعائیں مانگ مانگ کر آپ کو ولی اللہ بنا دے گی ۔ آپ اسے جوتا لادیں، یہ آپ کو سر کا تاج بنا دے گی۔ آپ اس کی سال گرہ یاد رکھیں، آپ کا پورا سال اچھا گزر جائے گا ، آپ اسے پِزا کھلا دیں، یہ آپ کے سال بھر کے گناہ معاف کر دے گی۔
عورت کی ضرب دینے کی، ملٹی پلائی کرنے کی، اسی خاصیت کی وجہ سے اس کے سامنے بکواس نہیں کرنی چاہئے، یہ اسے بھی ملٹی پلائی کر دے گی۔
آئیے ، اس ویلنٹائن ڈے پر غیروں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنی ماں، بیٹی، بہن اور بیویوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہیں سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے احساسات و قربانیوں کا بدلہ اتار سکیں۔
چلیں میں آپ کو ایک ٹوٹکہ بتاتا ہوں، آج اپنی ماں یا بیگم کے پاس جائیں، موبائل نہ لے جائیں، صرف 5 منٹ خاموشی سے انہیں سامنے بٹھا کر پیار سے دیکھتے رہیں۔ میں شرطیہ کہتا ہوں وہ رو پڑیں گی، ہماری ان کہی عورتوں کے آنسو یتیم ہوتے ہیں، وہ عمر بھر جمع کرتی رہتی ہیں اور اپنے سینے میں ایثار کی بوتلوں میں قربانی کا ڈھکن لگا کر کر محفوظ کرتی چلی جاتی ہیں۔ آج آپ کے 5 منٹ وہ ڈھکن کھول دیں گے۔ آج ابر کھل کر برسے گا۔ یہ وہ آنسو ہیں جو آپ کی وجہ سے ہیں، آپ کی دین ہیں، آپ واپس لے لیں۔
آج کا یہ مضمون میری بلو کے نام جو میرے چار بچوں کو سنبھالے ہوئے ہے تاکہ میں کچھ کام کر سکوں اور یہ تحریر لکھ کے آپ لوگوں کی داد وصول کر سکوں ۔ ہم عجیب لوگ ہیں، ہیرا دیکھتے ہیں، جوہری کو بھول جاتے ہیں۔