آج دن کا آغازواٹس اپ کے اس مسیج سے ہوا:
’’کیا یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ چھ ممالک جرمنی، برطانیہ، امریکہ، انڈیا، فرانس اور کینیڈا کے جو سفیر عراق کی تباہی کے وقت بغداد میں، لیبیا کی تباہی کے وقت طرابلس میں، اور شام کی تباہی کے وقت دمشق میں تعینات تھے، وہی آج پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘
اسکے بعد ایک طویل تقریر جس میں حب الوطنی کے تقاضوں اور امت مسلمہ کے خون کو گرمانے کے بعد اس مسیج کو زیادہ سے زیادہ آگے بھیجنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ ابھی میں میسیج لکھنے اور بھیجنے والے کی عقل پر ماتم کر ہی رہا تھا کہ یہی میسیج چھ مختلف لوگوں کی جانب سے پھر موصول ہوگیا۔ یہ سارے سنجیدہ، بردبار اور شعور رکھنے والے لوگ تھے اور میرے دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا۔
آج کے دور میں اگر کوئی خبر کسی قابل ِ اعتبار شخص کی طرف سے ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ خبر بھی اتنی ہی قابلِ اعتبار ہوگی۔ کسی بھی خبر کو آگے فارورڈ کرنے سے پہلے تھوڑا سا دماغ کا استعمال کر لیا کریں۔
جھوٹی خبریں کیا ہوتی ہیں۔ کیوں، کیسے اور کس لئے پھیلائی جاتی ہیں۔کون سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں اور انھیں ایک عام آدمی کیسے پہچان سکتا ہے۔ اس بحث میں جانے سے پہلے زیر نظر خبر پر غور کرلیتے ہیں۔
اس وائرل خبر کی صداقت کے لئے ہمیں بہت سارے شواہد درکار ہونگے، پہلی بات تو یہ کہ ہمیں چھ سفیر چاہیے جو کم و بیش گزشتہ ۲۰ سالوں سے حاضر سروس ہوں، پھر یہی چھ سفیر باری باری عراق، شام اور لیبیا کے بعد اب پاکستان میں تعینات ہوں۔
عراق کی جنگ مارچ ۲۰۰۳ میں شروع ہوئی۔ لیبیا کے حالات فروری ۲۰۱۱ میں بگڑے، شام کی سِول وار کی ابتدأ مارچ ۲۰۱۱ میں ہوئی اور لیبیا کی خانہ جنگی باقائدگی سے مئی ۲۰۱۴ میں شروع ہوئی۔ لہذا ان تمام سفیروں کا فروری سے مارچ ۲۰۱۱ میں ایک مہینے کے اندر اندر لیبیا سے شام تبادلہ ہونا ضروری ٹھہرا اور پھر ۳ سال بعد مئی ۲۰۱۴ میں واپس لیبیا میں موجود ہونا لازم ٹھرا اور یہ بھی کہ یہ عراق جنگ کے دوران کبھی نہ کبھی بغداد میں رہے یوں اور حالیہ وقتوں میں پاکستان میں تو موجود ہیں ہی۔
چلیں حال سے شروع کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت انڈیا کے ہائی کمیشن اجے بساریا ہیں جو اس سے پہلے لیتھونیا اور پولینڈ میں ہندوستانی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ نہ کبھی عراق میں سفیر رہے۔ نہ شام اور لبنان میں۔ پلوامہ حملے کے بعد واپس چلے گئے تھے اور ابھی حال ہی میں پاکستان واپس لوٹے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت برطانیہ کے ہائی کمیشن تھامس ڈر یو ہیں، ان کی پہلی سفارتی پوزیشن بھی پاکستان میں ہی تھی جب یہ کونسلر کی خدمات انجام دے رہے تھے۲۰۰۶ سے ۲۰۰۸ کے درمیان۔ پھر یہ لندن ہوم آفس اور یورپین یونین میں خدمات انجام دیتے رہے اور اب واپس پاکستان میں، نہ عراق میں سفیر رہے۔ نہ شام ، نہ لبنان۔ انکے کیریئر کی شروعات ملٹی نیشنل کمپنی مک کنسی سے ہوئی.
پاکستان میں اس وقت کینیڈین ہائی کمیشن وینڈی گلمور ہیں۔ یہ اس سے پہلے کینڈین ٹریڈ کنٹرول بیورو کی ڈائریکٹر جنرل تھیں اور سفارتی خدمات زمبابوے، موزمبیق، انگولا، بوئسوانا، کوسودو اور بوسنیا میں انجام دیں، نہ عراق میں سفیر رہیں، نہ شام، نہ لبنان۔
پاکستان میں اس وقت فرانس کے سفیر ڈاکٹر مارک باریتی ہیں۔ انھوں نے سفارتی خدمات سعودی عرب، تیونس، کویت، عمان، ملائیشیا اور عراق میں انجام دیں، یہ عراق میں ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۷ تک سفیر رہے لیکن جنگ کے ۱۱ سال بعد۔
پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر حال ہی میں ریٹائر ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ اس سے پہلے انھوں نے افغانستان، مصر، کمبوڑیا، لیبیا اور عراق میں خدمات انجام دی ہیں۔ یہ لیبیا میں اقوامِ متحدہ کے ایلچی کے طور پر نومبر ۲۰۱۵ سے جون ۲۰۱۷ میں رہے۔ خانہ جنگی شروع ہونے کے ڈیڑھ سال بعد اور عراق میں ۲۰۰۶ سے ۲۰۰۷تک رہے۔ جنگ کے ۳ سال بعد۔
پاکستان میں اس وقت امریکی سفیر کی خدمات پال جانز سر انجام دے رہے ہیں جنھیں چارج دی افیئر کا ٹایٹل ملا ہے۔ یہ اس سے پہلے سفارتی خدمات پولینڈ، فلپائن اور ملائیشیا میں سر انجام دے چکے ہیں۔ نہ عراق، نہ لبنان نہ شام۔
ٹرمپ کے بعدامریکہ کی خارجہ پالیسی ویسے ہی زوال کا شکار ہے۔ امریکہ کی ۱۸۸ سفارتی پوزیشنوں میں سے ۵۸ خالی ہیں۔ یقین جانئے کہ ان ملکوں کے پاس اگر اتنے ہی قابل افراد ہوتے کہ پورے پورے ملک تن تنہا تہس نہس کرسکتے تو بھی ان کے لئے درجنوں دوسرے کام ہیں بجائے اس کے کہ انہیں ہماری جیسی قوم پر تعینات کریں۔ دوست تو دوست ہمیں تو دشمن بھی اس قابل نہیں ملے کہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔
لیبیا کی خانہ جنگی سے پہلے وہاں امریکی سفیر جان کرسٹوفر اسٹیفن کو بن غازی حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا ۱۱ ستمبر ۲۰۱۲ کو، اب مردہ شخص تو قبر سے آکر پاکستان میں سفیر لگنے سے رہا۔ اس کے بعد ڈیبرا جونز سفیر بنیں جو کہ پاکستان میں گزشتہ امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی بیوی ہیں۔ ۲۰۱۵ میں طرابلس میں ایمبسی بند ہوجانے کے بعد یہ مالٹا چلی گئیں۔
عراق میں جنگ کے وقت وہاں امریکہ کے سفیر جان نیگرو پونٹے تھے اور ان کے بعد ۲۰۰۵ سے ۲۰۰۷ تک زلمے خلیل زاد جو حال ہی میں پاکستان آئے تھے۔
شام میں امریکی سفیر چارلس چک تھے اور یہ بھی کبھی سفارتی کام سے پاکستان نہیں آئے۔ جنگ کے دوران عراق میں جرمنی کے سفیر برنڈ اربل، شام میں اینڈر یاز ریسنی کے اور لبنان میں کرسٹین بک، عراق میں ہندوستان کے سفیر جنگ کے دوران شری برجی بھوشن تھے اور یہ بھی پاکستان میں تعینات نہیں رہے۔
آپ ان ناموں کو کھوجتے چلے جائیں اور آپکو معلوم ہوگا کہ پھیلایا جانے والا مسیج جھوٹ کا پلندہ ہے اگر کسی حد تک کوئی چیز ان لوگوں میں کامن ملے گی وہ ان میں سے کچھ کی تعیناتی اسرائیل اور پولینڈ میں ہے، اور اللہ کے فضل و کرم سے اسرائیل اور پولینڈ دونوں ماشاء اللہ پھل پھول رہے ہیں۔
آپ فیس بک، ٹوئیٹر اور واٹس اپ پر ملنے والے مسیجز (پیغامات) کو تکنیکی بنیادوں پر یا سچ کے معیار پر پرکھتے چلے جائیں۔ ان میں سے اکثر سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں۔ یہ کبھی الطاف حسین کے انتقال کی خبر دیتے ہیں، کبھی ڈالر کی قیمت ۲۰۰ روپے تک پہنچا دیتے ہیں، کبھی حکمران جماعت کو کفر کے پار چھوڑ آتے ہیں تو کبھی علمائے کرام کے خلاف طعن و تشنیع کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں، کبھی فوج کے خلاف تو کبھی عوام کے۔ اور کچھ نہ ملے تو پھلوں اور سبزیوں سے دنیا کی ہر بیماری کا علاج۔ پاکستان جھوٹی خبروں(Fake News) کے لئے شاید دنیا میں موزوں ترین ملک ہے۔ کیونکہ سچ بولنا اور کتاب پڑھنا تو یہاں پر تقریباً حرام ہے ہی، ساتھ میں ہمارا حافظہ من حیث القوم نہ ہونے کے برابر ہے اور جذبات میں تو ہم سے بڑھ کر کوئی ہے ہی نہیں۔ بد قسمتی سے دینی طبقہ بھی بغیر سوچے سمجھے ہر بات جو اسلام کے حق میں جا سکتی ہو اسے فارورڈ کر دیتے ہیں ، بھلے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو. ان معجزاتی پیغامات میں بیچارہ سچ کہیں دب کے مر گیا ہے جس کی غائبانہ نماز جنازہ تک نہ ہوئی.
جس ملک میں آپ ۵۰ ہزار دے کر ۵۰۰ بندوں کا مجمع جمع کرسکیں، ۲۰ ہزار میں ۱۰ لاکھ موبائل فونز پر SMS بھیج سکیں وہاں ہر خبر وائرل اور ہر Fake نیوز سچی ٹھری اور غلطی سے کوئی ’’بھٹکا ہوا‘‘ آدمی سچ لکھ بیٹھے یا خدانخواستہ بولنے کی جرأت کرلے تو سب اس کے دشمن۔
آئیے دیکھتے ہیں جھوٹی خبر کیا ہوتی ہے۔ کیوں پھیلائی جاتی ہے، کہاں سے شروع ہوئی اور اس کے سد باب کے لئے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
خبر کسے کہتے ہیں؟
خبر کہتے ہیں ایسے معلومات کو جو کسی واقعے، شخص یا جگہ سے متعلق ہو اور جس کے بارے میں عوام یا مخصوص لوگ جانکاری میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ مثلاً کسی جگہ آگ لگ گئی، کسی ملک نے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کردی یا الیکشن کا نتیجہ کیا نکلا؟
خبر کو ۳ مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔حقیقت (Fact) کے طور پر۔ رائے (Opinion) کے طور پر اور علمی رائے (Informed Opinion) کے طور پر۔
حقیقت (Fact) سے مراد وہ خبر ہے جو بآسانی ثابت کی جاسکے کہ یہ صحیح ہے یا غلط. آپ کے پاس ثبوت موجود ہو کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں، مثلاًکسی شخص کا انتقال ہوگیا۔ اب ہم اس کی لاش دیکھ کر، اہلخانہ سے پوچھ کر بآسانی بتا سکتے ہیں کہ ایسا ہوا یہ نہیں۔ یا مثلاً عمران خان الیکشن جیت گئے اور اس کا ثبوت ووٹوں کی گنتی ہے۔
رائے(Opinion) سے مراد کسی شخص کی ذاتی رائے ہے، جیسا وہ سوچتا ہے یا جو رائے اس نے ماحول ، تربیت ، مذہب، ملک یا تعلیم کی بدولت اس نے قائم کی۔ اس رائے کو قطعی طور پر ہم کبھی بھی ثابت نہیں کرسکیں گے، نہ تردید کر سکیں گے۔ مثلاً: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان دنیا کا سب سے عظیم ملک ہے۔
علمی رائے(Informed Opinion) بھی ذاتی رائے ہوتی ہے مگر اس کو قائم کرنے والا شخص اس رائے کے ساتھ کچھ علمی ثبوت ، واردات یا ماضی و حال کی مثالیں پیش کرتا ہے جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچ رہا ہے یا اس نتیجے پر کیسے پہنچا۔ مثلاً مضمون کے شروع میں موجود وائرل پیغام کو خبر بنا کر پیش کیا گیا اور ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ یہ پورا مضمون ایک علمی رائے ہی تو ہے کہ میں Fake News کو کیا سمجھتا ہوں اور اپنی اس رائے کے ساتھ علمی مثالیں اور شواہد فراہم کررہا ہوں۔
اگر ہم خبر کی ان تین جہتوں میں تمیز کر سکیں تو بات بہت آسان ہوجاتی ہے آئیے ۔ کچھ مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
– ہمسفر پاکستان کا مشہور ترین ڈرامہ ہے۔ اب یہ ایک رائے(Opinion) ہے۔
– ہمسفر پاکستان کا سب سے زیادہ کمانے والا ڈرامہ ہے۔ اب یہ ایک حقیقت (Fact) ہے جسے بآسانی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ بات سچ ہے یا نہیں۔
– کراچی کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا بریانی ہے۔ جیسا کہ مقامی اخبار کے پول سے ثابت ہے۔ علمی رائے (Informed Opinion)
– پشاور کے چپلی کباب سب سے اچھے ہیں۔ رائے (Opinion)
– ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے قطعی طور پر ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان کا بہترین کھانا کونسا ہے۔ حقیقت (Fact)
– محمد حفیظ پاکستان کے بہترین بلے باز ہیں۔ رائے(Opinion)
– محمد حفیظ آئی سی سی رینکنگ میں دنیا کے بہترین بلے بازوں میں آٹھویں نمبر پر ہیں۔ حقیقت(Fact)
امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہونگے۔
جھوٹی خبر (Fake News) کیا ہے؟
جھوٹی خبر سے مراد وہ خبر ہے جسے بگاڑ کر، جزئیات میں رد و بدل کر کے یا مکمل طور پر غلط معلومات پر بنا کر سچ کے طور پر پیش کیا جائے۔ جھوٹی خبروں (Fake News) کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی کو ایسی بات بتائی جائے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ یا جزئیات میں ترمیم کرکے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیا جائے، یا اصل بات وہی ہو مگر سیاق و سباق (Context) بدل دیا جائے جس سے اس بات کی حقیقت و نتیجہ یکسر بدل جائے مثلاً اگر کوئی عالم یہ بیان کرے کہ ’’مسجد مت جاؤ، اگر تم نا پاکی کی حالت میں ہو۔‘‘ اب آپ اس کی آڈیو یا وڈیو میں سے صرف یہ جملہ نکال کر پھیلادو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’مسجد مت جاؤ‘‘ اب یہ سچ ہے کہ انھوں نے ایسا کہا ہے، آپکے پاس آڈیو/ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے مگر پھر بھی یہ جھوٹ باندھنا ہی ہوگاکہ آپ نے ان کی آدھی بات حذف کر دی اور اسے سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا۔
فیک نیوز کی قسموں میں ایک قدرے کم نقصان دہ قسم، مزاحیہ یا طنزیہ خبروں پر مشتمل ہوتی ہے کہ کسی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، لکھنے والے، چھاپنے والے اور پڑھنے والے سب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہے مگر لوگ پھر بھی پڑھتے ہیں کہ مزہ ملے۔
امریکہ میں THE ONION اور سنگاپور میں New Motion اس کی مقبول سائیٹس ہیں۔
فیک نیوز کی ایک قسم ڈیجیٹل فوٹو اور ویڈیو ایڈیٹنگ بھی ہیں جس میں آپ کسی بھی شخص یا بلڈنگ کی تصویر کو کمپیوٹر میں ایڈیٹ کرکے تبدیل کر دیتے ہیں۔ مثلاً: سنگاپور میں ایک شخص نے مشہور بلڈنگ کی چھت کو تباہ شدہ دکھا کر ملک میں افراتفری مچادی، جب پولیس، فائر بریگیڈ اور ایمبولینس وہاں پہنچے تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور ساری وائرل خبریں ایک تحریف شدہ تصویر پر مبنی تھیں۔
آپ کسی بھی لیڈر کو دنیا میں کسی کے ساتھ کھڑا دکھا دیں، اس کے ہاتھ میں موجود اپیل جوس کو شراب سے بدل دیں یا ساتھ کھڑی لڑکی کو کسی اور سے ملا دیں اور ایک نیا اسکینڈل بنا ڈالیں۔ فیس بک اور واٹس اپ پر کتنے ہی جاننے والوں کے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا کہ انھیں کسی نے ان کی بیٹی، بیوی اور بہن کی تحریف شدہ تصویریں بھیج دیں اور جھوٹی غیرت کے علم بردار مارنے مرنے پر تل گئے۔
اور اب تو Deep Fake کے ذریعے آپ کسی بھی شخص کی وڈیو بنا سکتے ہیں اور آپ جو چاہے وہ بولے گا۔ اب کون کس کس کو ثبوت دیتا پھرے۔
رانگ نمبر پر گھر سے بیویوں کو نکال دینے والی قوم، دل پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنھیں ان کی بیگم کی تحریف شدہ تصویریں ملیں اور وہ صبر و عقلمندی سے کام لیں۔ میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوانے کا شیطان کا پسندیدہ کام جتنا اڈوبی فوٹو شاپ نے آسان کردیا ہے اتنا تو ہزاروں سال میں اس کے چیلے نہ کر سکے۔
امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے میڈیا فارنسک (MediFor) کے نام سےDeep Fake وڈیو کو پرکھنے کا ٹول نکالا ہے۔ مگر ہم کیوں پڑھیں، ہمیں جمعہ کو مبارک بنانے سے فرصت ملے تو ہم کچھ اور پڑھیں نا۔ اتنے لوگ ہمارے ملک میں نماز نہیں پڑھتے جتنے جمعہ کو مبارکباد کے میسیج بھیجتے ہیں۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ پاکستان دن کے دو ارب میسیجز بھیجتا ہے؟
Fake News کے نقصانات:
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وقتی طور پر ازراہِ تمسخر یا مذاق میں بھیجے جانے والے پیغامات کا کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے؟ جی ہاں، ان مختصر جھوٹے پیغامات کے بڑے سچے نتائج نکلتے ہیں۔
خواجہ آصف نے ٹویٹر پر اسرائیلی ڈیفنس منسٹر اویگدور لیبر مین کی فیک نیوز پر اسرائیل پر نیو کلیئر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیل کی ڈیفنس منسٹری نے بعد میں تصدیق کر دی کہ ایسا کوئی بیان ان کے کسی منسٹر نے نہیں دیا۔ اب بتائیے، ایک چھوٹی سی فیک نیوز سے دو ممالک میں نیو کلیئر جنگ چھڑ سکتی تھی اور پاکستان جیسے ’’عظیم الشان‘‘ ملک کے دفاعی وزیر کو اتنی عقل تو ہونی ہی چاہیے کہ کس خبر کو سچ مانیں اورٹویٹر پر کیا بات کریں۔
امریکہ میں ۲۰۱۶ الیکشن کے دوران ٹاپ ۲۰ فیک نیوز نے ٹاپ ۲۰ حقیقی نیوز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بزنس کیا، ایک فیک نیوز قارئین کی توجہ اپنی سائٹ کی جانب مبذول کر واکے ہر خبر پر ۱۰ سے ۳۰ ہزار ڈالر تک اشتہارات کی صورت میں کما سکتی ہے۔ یعنی ۱۵ سے ۴۵ لاکھ روپے ہر جھوٹی خبر پر اسی دنیا میں جہاں سچکوڑیوں کا بھی نہ رہا۔
ہندوستان میں حالیہ الیکشن میں فیک نیوز کے نقصانات کا مجھے ذاتی تجربہ ہوا۔ ہندوستان میں مودی جی کی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف بول بول کر خوب ووٹ اکھٹے کئے۔ ایک ستم ظریف نے میری تصویر وہاں کے ہندو کٹر لیڈر یوگی ادھیاناتھ کی ٹیم کے حوالے کردی، انھوں نے دھڑا دھڑ جھوٹی خبریں میری تصویر لگا لگا کر واٹس اپ اور سوشل میڈیا پر وائرل کردی کہ میں ہندوستانی نوجوانوں کو لڑائی پر ابھارتا ہوں ، میرا اصل نام محمد احمد ہے اور میں ہیما چل پردیش میں رہتا ہوں۔ صرف فیس بک پر یوگی سنھا کے پیج پر یہ فیک نیوز ۸ ہزار سے زائد مرتبہ شیئر ہوئی اور مجھے ۲۰۰ سے اوپر قتل کی دھمکیاں ملی۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں گالیاں الگ۔ یوگی جی اتر پردیش کے وزیر اعلی بن گئے اور میرے نصیب میں سوائےدھمکیوں اور گالیوں کے کچھ نہ آیا۔
ہم پاکستانی من حیث القوم حاسد قوم ہیں، کسی کی مصیبت میں اس پر مزید ظلم کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے، اور اگر خدانخواستہ کوئی ’گورا‘ آپکی برائی کردے تو اس کا کہا، وحی سے بڑھ جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں ہر اس شخص سے جو میرے بارے میں تجھ سے نہ ڈرے، آمین
واٹس اپ پر فیک نیوز وائرل ہوجا نے کے بعد ظلم و زیادتی اور قتل کی وارداتیں اب عام ہو چکی ہیں خواہ وہ ہندوستان ہو، امریکہ یا برازیل دنیا کا کوئی ملک اس سے مستثنی نہیں ہے۔
ہمیں یہ خبریں آگے شیئر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ کسی کی جان ہی نہ لے لیں، یا کسی کی ذہنی تکلیف و اذیت کا باعث نہ ہوں۔
فیک نیوز کی تاریخ:
دستاویزی تاریخ میں فیک نیوز کا پہلا استعمال ۱۳ ویں صدی قبلِ مسیح میں ملتا ہے جب مصر کے فرعون ریمیسنر اعظم نے کادش کی لڑائی میں اپنے آپکو ایک عظیم جنگجو ثابت کرنے کے لئے اپنی لڑائی کے مناظر اپنے محلات پر کنندہ کر والئے جبکہ اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگوں پر اسکی عسکری صلاحیتوں کا رعب بیٹھے۔
غزوہ احد میں رسالت پناہ حضرت محمدﷺ کی شہادت کی جھوٹی خبرپھیلائی گئی تاکہ مسلمان دل برداشتہ ہوکر ہتھیار پھینک دیں۔ واقع افک کی تفصیلات تو سب کو معلوم ہی ہیں جس کا جواب براہِ راست قرآن نے دیا۔
۱۴۷۵ عیسوی میں اٹلی کے ایک شہر ٹرینٹ میں ایک فیک نیوز پھیل گئی کہ یہودیوں نے ایک کرسچن ڈھائی سالہ بچی کو مار ڈالا تاکہ اس کے خون سے اپنی عبادات کرسکیں۔ خود اس وقت کے پوپ سکٹس نے اس کی تردید کی مگر اس کے باوجود شہر بھر کے یہودیوں کو گرفتار کرکے زد و کوب کیا گیا اور ۱۵ کو زندہ جلا دیا گیا۔
۱۶۱۰ء میں جب گلیلیو پر مقدمہ چلا تب فیک نیوز کی تصدیق کی قانونی ضرورت محسوس ہوئی۔
۱۸۳۵ء میں نیویارک سن نے چاند پر خلائی مخلوق کی موجودگی کی خبر لگا دی۔ انیسویں صدی کی جنگ عظیم اول میں جرمن مخالفت میں انگلش اخباروں نے نیوز لگا دی کہ جرمن دورانِ جنگ مر جانے والوں کے جسموں سے تیل اور صابن بنا لیتے ہیں تاکہ عوام الناس کے جذبات بھڑکا کر جنگ کی راہ ہموار کی جا سکے۔
بینجمن فرینکلن جو کہ امریکہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں ، ایک عرصے تک ریڈ انڈین اور Native امریکن کے خلاف فیک نیوز لکھتے رہے تاکہ امریکن ریوولوشن کی راہ ہموار ہو۔
۱۸۰۳ء میں لندن کے میئر سر چارلس پرائز کو لارڈ ہاکس بری کا خط کہ فرانس کے ساتھ جنگ ختم ہونے کا معاہدہ ہوچکا ہے جھوٹ پر مبنی تھا تاکہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
سینکڑوں مثالیں ہمیں تاریخ سے مل جائیں گی۔ آپ خود ہی سوچئے کہ پاکستان کی جنگ کی خبریں اور عدم استحکام کے واٹس اپ مسیجز کس
کو فائدہ پہچائیں گے اور ہمیں معاشی طور پر کیسے غیر مستحکم کریں گے۔
فیک نیوز اور اسلام:
فیک نیوز کی جتنی زیادہ ممانعت اسلام نے کی ہے اور جتنا برا اسے اسلام نے بتایا ہے کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ لوگوں کی عزت و نسب اور جان و مال اور آبرو کی حفاظت و صیانت پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جو انسانی عزت و آبرو کے حق کی نفی کریں اور غیبت، بہتان، الزام تراشی، چغلی، جھوٹ بولنا، افوہیں پھیلانا اور لوگوں کی باتیں بغیر تحقیق ادھر ادھر کرنا کو منکر بتاتا ہے۔
واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں، فیک نیوز کے سد باب کے لئے اسلامی احکام و عقائد کی پابندی اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔
فحش اور بے ہودہ باتوں سے کنارہ کشی کی تو اسلام تر غیب دیتا ہے۔ فیک نیوز باقی دنیا کے لئے تو کھیل تماشہ ہوسکتا ہے۔ اس سے انکار تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، آپ دیکھتے نہیں اللہ قرآن میں کیا کہتا ہے۔
’’اور جب بے ہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے، اور کہہ دیتے کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلامتی ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔‘‘
آپ دیکھئے سورۃالحجرات میں کیا کہا گیا ہے۔
’’اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذأ پہنچا دو۔ پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔‘‘
آپ سورہ النساء دیکھئے، آیت ۸۳ میں اللہ رب العزت کہتا ہے کہ
’’جہاں انھیں کوئی خبر امن یا خوف کی ملی، انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے۔ تو وہ لوگ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو چند لوگوں کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘
اورسورہ نحل دیکھئے، آیت ۴۳، اللہ جل شانہ کہتے ہیں۔
’’ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔‘‘
آپ سورہ نور کی آیت ۱۴ تا ۱۷ میں دیکھیں۔ اللہ تعالی کہتے ہیں۔
’’اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا و آخرت میں نہ ہوتی تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمھیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ جبکہ تم اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے، اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمھیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے، لیکن اللہ تعالی کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی، تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں، یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان اور تہمت ہے، اللہ تعالی تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو۔‘‘
آدمی کو ہر سنی سنائی بات آگے بیان نہیں کرنی چاہئے۔ الدر المنشور میں سعید بن جیررحمت الله فرماتے ہیں کہ ’’ جس شخص نے بھی اس قول و فعل یا مال و دولت سے حصہ لیا۔ اس کے پھیلنے میں مدد کی، یا اسے پسند کیا اور سراہا، اور اس سے اپنی خوشی اور رضا مندی ظاہر کی تو وہ اس گناہ میں بقدر حصہ زمہ دار ہوگا۔‘‘
اللہ نے اہل ایمان کی خوبی بیان کی ہے کہ وہ صرف صحیح معلومات پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔
’’اسے سنتے ہی مومن مرد و عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی، اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔‘‘ (النور:۱۲)
جھوٹی خبروں کی ترویج کی ممانعت حدیث میں بھی آئی ہے، بخاری شریف کی حدیث ہے۔
’’نبی کریمﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ’’ دو فرشتے آپکو لے کر ایک ایسے شخص کی جانب چلے جو گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا، اور اس کے پاس ایک اور شخص (فرشتہ) لوہے کا تر شول لئے کھڑا تھا۔ پھر وہ اس کے منہ کے ایک طرف جا کر اس کا جبڑا گدی تک پھاڑ ڈالتا، نتھنے اور آنکھ کو بھی اسی طرح گدی تک چیر دیتا، پھر دوسری جانب پلٹ کر ایسا ہی کرتا تھا جیسا کہ پہلی جانب کیا تھا، اور ایک طرف چیر کر فارغ نہیں ہوتا کہ دوسری طرف کا حصہ بالکل درست ہو کر اپنی اصل حالت پر آجاتا تھا، پھر وہ اس کی طرف پلٹ کر ایسا ہی چیرتا پھاڑتا جیسا کہ پہلی بار چیرا پھاڑا تھا، نبی اکرم ﷺ کہتے ہیں تو میں نے اپنے ساتھ والے دونوں فرشتوں سے پوچھا، سبحان اللہ، یہ دونوں کون ہیں؟ تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شخص جس کے پاس آپ آئے اور جس کا جبڑا اور نتھنے گدی تک چیرا جارہا تھا وہ ایسا شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور ایسا جھوٹ بولتا جو دور دور تک پھیل جاتا۔‘‘
اس حدیث کو دیوار پر فریم کرواکے لگا دیں اپنے بیڈروم میں اور پھر کریں واٹس اپ کا استعمال جتنا کرنا ہے۔
مسلم کی مشہورحدیث ہے کہ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات(بلا تحقیق) بیان کرے۔‘‘
اسلام نے تو افواہیں پھیلانے والوں پرتعزیر تک کی اجازت دی ہے۔
فیک نیوز کی پہچان:
کسی خبر کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے مندرذیل امور پر غور کرلیں:
۱- اس خبر کو پڑھنے کے بعد آپ کا رد عمل کیا ہے؟ کیا آپ بہت زیادہ جذباتی، نا امید، پرامید، یا غم محسوس کررہے ہیں۔ اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو بہت ممکن ہے کہ یہ فیک نیوز ہے۔
۲
– آپ نے یہ خبر کہاں پڑھی، اخبار میں؟ کیا وہ ایک معتبر جریدہ ہے؟ فیس بک پر، ٹویٹر یا واٹس اپ پر؟ اگر خبر کی اشاعت سوشل میڈیا پر ہوئی تو انتہائی محتاط رہیں۔
۳- کیا خبر کی ہیڈلائن جذبات کو برانگیختہ کرنے کا سبب بنی؟ کیا اس میں بہت سارے اموجی یا CAPS کرکٹر کا استعمال کیا گیا ہے؟ کیا ایسی زبان استعمال کی گئی ہے کہ آپکو کوئی خفیہ بات بتائی جارہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو زیادہ چانسز ہیں کہ یہ فیک نیوز ہے۔
۴- کیا یہ خبر آسانی سے شیئر کرنے کے لئے بنائی گئی ہے یا آپکو اسے شیئر کرنے کا کہا جارہا ہے؟
۵- کیا یہ کوئی طنزیہ بامزاحیہ خبر ہے؟
۶- اس خبر کو کس نے چھاپہ؟ مصنف کون ہے؟ کیا ادارے اور مصنف کا نام ساتھ لکھا ہوا ہے؟ کیا ویب سائٹ پر ویب سائٹ کے مالک کی تفصیل یا رابطہ کرنے کی معلومات موجود ہیں؟
۷- کیا تمام واقعات تاریخ اور کردار اصلی ہیں؟
۸- کیا خبر میں کسی اور ثبوت یا اخبار کو لنک کیا گیا ہے؟
۹- آپ اس خبر کی صداقت کو مشہور فیکٹ چیکنگ Fact Checking ویب سائٹ سے چیک کرلیں۔ مثلاً
FACTCHECK.ORG اور SNOPES.COM
ہمارے کرنے کے کام:
جھوٹی خبروں کے اس دور میں ان کو روکنے، ان کی جانکاری اور فلاح عامہ کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل کام کرنے چاہیے۔
۱- فیک نیوز کو رپورٹ کریں۔ سوشل میڈیا پر فلیگ کردیں۔ اپنے سوشل میڈیا پر فیک نیوز لکھ کر شیئر کردیں۔ جہاں شائع ہوتی ہے وہاں فیک نیوز لکھ کر کمنٹ کردین۔
۲- مزید آگے شیئر نہ کریں۔
۳- صحیح خبر کوشیئر کردیں جو کہ فیک نیوز کی کاٹ کرسکے۔
۴- بھیجنے والے کو مطلع کردیں کہ یہ فیک نیوز ہے اور اسے آگے شیئر نہ کیا جائے۔
۵- حکومتی سطح پر ایسی خبروں کی اشاعت اور مانیٹرنگ کا ادارہ بنا دیا جائے۔
۶- زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان موضوعات پر تعلیم دیں۔
۷- اس بارے میں پڑھیں مثلاً نیوز لٹریسی پراجیکٹ اور ڈس انفو لیب اچھی جگہ ہیں۔
۸- علمائے کرام جمعہ کے خطبات میں اس طرف لوگوں کی توجہ دلائیں۔
۹- اسکول، کالج اور یونیورسٹییوں میں اس موضوع پر کورسز اور سیمینار منعقد کرائیں جائیں۔
یاد رکھیئے، بد ترین جھوٹ ہے جب کوئی یہ سمجھ رہا ہو کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ ہر خبر جو کسی قابلِ اعتبار شخص کی طرف سے ملے آج کی دنیا میں بغیر تحقیق کے نہ مان لیں۔ اگر آپ اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔
اگر آپکو اس جیسی اور تحریریں اور مضامین پڑھنے ہوں تو اس لنک سے آپ میری کتابیں آرڈر کر سکتے ہیں