اس شہرکوایک بڑاگاؤں کہا جائے توبہترہوگا، جوسہولیات بڑے شہروں میں ہوتی ہیں وہ یہاں عنقا تھیں
مگرفضلوکوکام خوب مل جاتا تھا گاؤں کامشقتی جسم تھا16گھنٹے کام کرتاتوبھی نہ تھکتا تھااوراوپرسے
ایمان دار۔ یہ دونوں ہی باتیں شہری لوگوں میں مفقودتھیں۔کچھ دن توعبداللہ شہری زندگی میں مٹرگشت
کرتارہاپھرایک دن فضلوسے پوچھا:
ابا!اب کیاکروں؟
فضلو:بیٹامیری توسات نسلوں میں کسی نے میٹرک نہیں کیا،مجھے کیاپتہ میٹرک کے بعدکیاکرتے ہیں
توایساکرڈاکیہ لگ جا،ایڈریس/پتہ توپڑھ لے گانا؟ہاں ہاں باباتوفکرنہ کر۔
اوریوں عبداللہ ڈاکیہ بننے کی فکرمیں لگ گیا۔اسے خواب میں بھی یہی دکھتاکہ وہ ڈاکیے کی ’’سرکاری
نوکری‘‘کررہاہے اورلوگوں کو خط ،ٹیلی گرام اورمنی آرڈرپہنچارہاہے۔
کچھ دن بعدعبداللہ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے انٹرویوکی لائن میں کھڑاتھاایک آسامی اورکوئی
200بندے کھڑے تھے ،بیس سال سے ساٹھ سال تک کے،عبداللہ توفقط پندرہ سال کاہی ہوگا۔
خیرانٹرویومیںیہ کہہ کرمنع کردیاکہ عمربہت کم ہے، ذاتی سائیکل نہیں ہے کہ ڈاک جاکے ڈال سکے
اورتجربہ نہیں ہے۔
عبداللہ نے بڑی کوشش کی کہ بات بن جائے مگرعبداللہ کی زندگی میں کوئی کام اتناآسانی سے بھلاکب
ہواہے اوریوں عبداللہ بے نیل ومرام گھرواپس آگیا۔
ابا اب کی اکروں؟
اسی سوال کے ساتھ صبح عبداللہ پھرفضلو کے سامنے کھڑا تھا۔
فضلونے آس پاس کچھ لوگوں سے مشورہ کیا،کسی نے کہاکلرک لگوادے توکسی نے پائلٹ بننے کامشورہ
دیا،کسی نے فوج کی نوکری کوزندگی کاحاصِل بتایاتوکسی نے مزیدپڑھائی کومقصدِحیات۔
الغرض فضلونے تمام معلومات عبداللہ کے گوش گزارکردیں۔
جب کچھ نہ سمجھ آیاتوگورنمنٹ کالج میں پری انجینئرنگ میں داخلہ لے لیاکہ ریاضی میں عبداللہ کے
ہمیشہ پورے نمبرآتے تھے۔
فضلو نے سختی سے منع کردیاتھاکہ کتابوں کے پیسے نہیں ہیں مگرعبداللہ نے سوچاکہ کسی سے مانگ
کے کام چلالے گا۔
پھوپھی کے گاؤں میں کوئی کالج تھا ہی نہیں ورنہ عبداللہ کب کاوہاں جا چکا ہوتا۔
عبداللہ کی شہرت کچھ کلاسوں بعدہی ہوگئی۔ایک ہی توتھاجوصبح سے لے کررات تک یاتولیکچرہال میں
ہوتایالائبریری میں۔عبداللہ آنکھ بچاکرکالج کے ردی کے ڈبے سے آدھی استعمال کی ہوئی کاپیاں اورپین
پنسل بھی اٹھالیاکرتاتھا۔عبداللہ اپنے نوٹس شاپنگ بیگ میں لایا کرتا تھا اور یوں کالج بھرکوطنز کرنے کے
لیے ایک کھلونامل گیاتھامگرعبداللہ نے توجیسے نہ سننے اورنہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی تھی جودل
چاہے جومرضی بولتا رہے ،عبداللہ نے صرف پڑھناتھااوربس۔
کچھ ہفتوں بعدکالج میں ریاضی کے نئے استادآئے ،عبداللہ کویہ مضمون بہت پسند تھا مگر استاد کواس
کے سوالات چبھتے تھے۔
فیثاغورث ہویاٹرگنامیٹری،کواڈریٹک ایکویشن ہویاالجبرا،عبداللہ کواگرروزمرہ زندگی میں ان کااطلاق
سمجھ نہ آئے تونہ وہ خودچین سے بیٹھتا اورنہ ہی ٹیچرکوبیٹھنے دیتا۔
روزروز کی اس تکرارکانتیجہ یہ نکلاکہ ٹیچرکلاس میںآتے ہی سب سے پہلے عبداللہ کوباہرنکال دیتا۔
کچھ دن عبداللہ نے برداشت کیامگرپھرکالج آنے کافائدہ ہی کیاہوجب کلاس ہی اٹنیڈنہ کرسکتاہو۔
آج عبداللہ ٹیچرکے کہنے کے باوجودکمرے سے باہرنہیں گیا’’میں کیوں جاؤں میں غلط سوال نہیں
پوچھتانہ ہی نیت آپ کوتنگ کرنے کی ہے ،مگرآپ بلاوجہ جب چاہے مجھے سب کے سامنے ذلیل کرتے
ہیں اورکوئی دکھ نہ ہواگراس کے بدلے کچھ سیکھنے کومل جاوے ،آپ ظلم کرتے ہیں، اللہ پوچھے گا!۔‘‘
یہ سنناتھاکہ ٹیچرنے کلاس ختم کرنے کااعلان کیااورڈسپلنری کمیٹی میں عبداللہ کے خلاف درخواست دے
دی۔
کالج پرنسپل نے عبداللہ کواپنے والدین کولانے کاکہامگرعبداللہ جانتاتھاکہ اس کاباپ کبھی کالج نہیںآئے
گااوراگراسے کسی ممکنہ پھڈے کی بھنک بھی پڑی تووہ اپنے ہاتھ سے ہی عبداللہ کومارڈالے گااوریوں
کالج پرنسپل نے عبداللہ کی بات سنے بغیریک طرفہ فیصلہ دے دیااورعبداللہ کوکالج سے
[Expelled]خارج کردیاگیا۔
آج توجیسے عبداللہ کی دنیاہی ختم ہوگئی وہ خواب جودیکھے تھے انجینئربننے کے،کچھ کردکھانے کے
بڑاآدمی بننے کے سب چورہوگئے۔
سمجھ میں نہیںآرہاتھاکہ گھرپہ کیابتائے ،کس منہ سے جائے گا،خیراسی سوچ بچارمیں جب
گھرپہنچاتوفضلو بہت خوش نظرآیادیکھتے ہی کہنے لگاعبداللہ میں نے مزدوری چھوڑدی ہے اورکرایہ پہ
ایک ٹھیہ لے لیاہے برتنوں کا۔اب میں برتنوں کاکام کروں گاآرام سے بیٹھ کراس دن تک جب تک
توانجینئرنہیں بن جاتااب شایدہم بھی خوش ہوسکیں گے۔
مگرابا آج مجھے کالج سے نکال دیاگیاہے برے کردارBad Characterکی وجہ سے، اب کہیں اورداخلہ
بھی نہیں ملے گا،فضلوکواپنے بیٹے پہ پورایقین تھاکہ کچھ بھی ہواس کاکرداربے داغ ہے ،عبداللہ دس
انگلیوں میں دس چراغ تھا۔ ویسے بھی جب بھوک کی بیماری بدن سے چمٹی ہو نا توخواہشوں کی ملکہ
کوسوں دوررہتی ہے۔
فضلو نے اداس لہجے میں کہاعبداللہ مجھے لگتاہے کہ تجھے مولوی کی بددعالگ گئی ہے توشاید’’بے
نام‘‘ہی رہ جائے ،توفکرچھوڑاورمیرے ساتھ ٹھیے پہ بیٹھاکر۔
اوریوں عبداللہ نے ٹھیے پہ بیٹھناشروع کردیا۔ساتھ میں وہ کوئی نہ کوئی کتا ب ساتھ لے جاتاپڑھنے کو،آج
کل زیادہ ترزوراسلامی کتابوں اورانگریزی سیکھنے پرتھا۔ عبداللہ شہر کی لائبریری سے روز نئی کتابیں
لے آتا۔اثر نعمانی، عزیز اثری، وحیدہ نسیم، قدرت اللہ شہاب، جبار توقیر، سعید لخت، کمال احمدرضوی،
نسیم حجازی ، سعادت حسین منٹو، علیم الحق حقی، ناصر کاظمی، یاس یگانہ، لطیف فاروقی، علامہ راشد
الخیری، عشرت رحمانی، حسینہ معین، انتظار حسین، شوکت تھانوی اور کرشن چندر۔ وہ کون سا ایسا
مصنف تھا جو عبداللہ نے چھوڑ دیا ہو۔
ایک دن ایک گاہگ دکان پرآیااسے لالٹین چاہئے تھی۔فضلونے ایک لالٹین اس کے سامنے رکھ دی
اورکہایہ 100روپے کی ہے۔ بڑی اچھی ہے پائیدار،لیک بھی نہیں ہوتی ،اس کاشیشہ بھی دستیاب ہے
وغیرہ وغیرہ،کچھ ہی دنوں میں فضلوایک گھاگ سیلز مین بن چکاتھا۔
مگرمجھے توولایتی چاہئے ،گاہک نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
فضلونے ایک اورلالٹین نکال کے رکھ دی اورقیمت 300 روپے بتاکرزمین وآسمان کے قلابے ملانے
لگااس کی خصوصیات کے بارے میں۔
تھوڑی سی تکرارکے بعدگاہگ نے ولایتی لالٹین 250 میں خریدلی جب کہ لوکل وہ 50 میں بھی خریدنے
پرآمادہ نہیں ہوا۔
جب وہ چلاگیا تو فضلونے قہقہہ لگایا اورکہا سالے شہری لوگ اپنے آ پ کوبہت عقلمند سمجھتے ہیں دونوں
لالٹین ایک ہی جگہ کی بنی ہوئی ہیں صرف پیکنگ کا فرق ہے۔
عبداللہ کویہ بات سخت ناگوارگذری اس نے باپ سے کہا۔ابا تو توبدل گیا ہے ،شہری ہوا تجھے راس نہیں آئی
اب کیا توجھوٹ بھی بولے گا؟
نہیں عبداللہ ،یہ یہاں کاعرف ہے ،ایسے ہرکام ہوتاہے، شروع کے کئی ہفتوں میں سیدھی سچی با ت
کرتارہامگربونی تک نہ ہوئی اب دیکھ کام دھندہ کیساچمک رہاہے۔
مگرابا،جان دینی ہے اللہ پوچھے گا۔
ہاں بیٹا،کہتا توتو ٹھیک ہی ہے۔ چل وعدہ، آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔
اگرتیرااورتیری ماں کابھوکوں مرنے کاخیال نہ ہوتاتوکبھی یوں نہ کرتا۔
چھوڑابا،مجھے تونہ ڈرا اب مرنے سے،مرناہوتاتوکب کامرگیاہوتا۔بھوکا مرنا لکھا ہے تو ایسے ہی سہی،
پر جھوٹ نہ بولیں گے ۔
کچھ روز بعداخبارمیں ایک نئے کالج کااشتہارآیاجوکسی N.G.Oنے غریب اوریتیم بچوں کے لئے
کھولاتھامگروہاں انجینئرنگ کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ انہوں نے پری میڈیکل سے شروع
کیاتھااورکلاسیں بھی شام کوہوتی تھی۔ عبداللہ اسی شام کالج پہنچ گیااورایڈمیشن فارم جمع کروادیا۔
انٹرویوکے وقت تمام ماجراسچ سچ کہہ سنایاکہ پچھلے کالج سے Bad Character کاسرٹیفکیٹ
کیونکرحاصل ہوا۔ایڈمشن کمیٹی کواس بات کاپورااحساس تھاکہ یہ پوزیشن ہولڈربچہ ہے اوراگرآگیاتواس
کانام مارکیٹنگ اورفنڈزکے حصول میں پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں۔
مگرعبداللہ کی اس قدرصاف گوئی انہیں بالکل نہ بھائی ،پرنسپل صاحب کہنے لگے برخوردار،تمہارے
میٹرک میں مارکس ضروراچھے ہیں مگرساتھ ساتھ تم تھوڑے سے بے وقوفِ اوربدعقل بھی ہو۔
نہیں پرنسپل صاحب ،عبداللہ نے ان کی بات کوبیچ میں سے اچکتے ہوئے کہا،میں بے عقل ہوسکتاہوں
مگربدعقل اوربے وقوف نہیں۔
سب ہنسنے لگے اورکہاکہ بے وقوف یہ تو ایک ہی با ت ہے، بھلا بتاؤ اس میں فرق کیا ہے؟
جناب!بے عقل وہ ہوتا ہے جسے اللہ نے عقل دی ہی نہ ہو،اس بارے میں میں کوئی دعوی فی الوقت نہیں
کرتا،آپ پڑھائیں گے تودودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا۔
بدعقل وہ ہوتاہے جس کے پاس عقل توہومگروہ اسے غلط کاموں میں استعمال کرے ،میں ایساکچھ نہیں
کرتا۔
بے وقوف ،وقوف سے نکلاہے ،جیسے کہ وقوف عرفہ،ٹھہرنے کوکہتے ہیں،ایساشخص جوٹھہرکے ،ٹک
کے کچھ نہ کرسکے وہ ہوابے وقوف اورمیرے میں یہ خصوصیت بھی نہیں پائی جاتی۔
ایڈمیشن کمیٹی نے مزید کچھ کہے بغیرفل اسکالرشپ کے ساتھ اس کے فارم پردستخط کر دئیے۔ اور یوں
عبداللہ ڈاکٹربننے کے خواب دیکھنے لگ گیااوروقت کاپہیہ اپنی رفتارسے گھومتارہا۔
کالج میںیوں توسب معمول کے مطابق چل رہاتھا،عبداللہ کی ذہانت کاڈنکاہرسُوبج رہاتھاکوئی تقریری مقابلہ
ہویابیت بازی کا،کوئی ڈرامہ ہویامضمون نِگاری،عبداللہ کانام ہی اس بات کی ضمانت تھاکہ کالج کی پہلی
پوزیشن آنی ہے۔ عبداللہ نے بارہااس کالج کے بچوں کوہرایاجہاں سے وہ نکالاگیاتھا،بدلے کاجذبہ توکوئی
خاص تھانہیں ہاں مگرہرکام کواحسان [Excellence]پہ کرنے کاجنون اسے پہلی سے کم کسی بھی
پوزیشن پہ ٹکنے نہ دیتاتھا۔مگرایک استادایسے تھے جوعبداللہ کوبے حدپسندکرتے تھے ان کانام
تھاعبدالرحمن۔ وہ درسِ نظامی سے فارغ التحصیل تھے، پرانے زمانے کے انڈیاسے پڑھے ہوئے تھے
اورکالج میں اردو،اسلامیات اورمطالعۂ پاکستان پڑھاتے تھے۔ عبداللہ نے کورس کی ساری کتابیں ازبر
یادکی ہوئی تھیں، کیمسٹری کے Periodic Tables ہوںیافزکس کے اکیویشن اورLaws،بائیولوجی کے
Zoological Names ہوں یاباٹنی کے پودوں کی Classification،اسلامیات کی کتاب کی احادیث ہوں
یا اردو کی غزلیں، عبداللہ سب یاد کرکے 2،3ماہ میں ہی فارغ ہوجاتا، شای دیہ بچپن کااثرتھا کہ مانگی گئی
کتابیں کچھ دنوں میں واپس کرنی ہوتی تھیں کہ اس کادماغ اسی طرح Tuneہوگیا تھا اورحافظہ بہت
تیزترہوتاچلاجارہاتھا۔عبدالرحمن صاحب وہ واحداستادتھے جن کے پاس اپنے مضامین میں عبداللہ کے
ہرسوال کاجواب ہوتا تھا۔
عبدالرحمن صاحب عبداللہ کوروزکوئی نئی دعاسکھاتے اوراللہ پہ توکل کادرس دیتے،وہ کہاکرتے یہ ساری
محبتیں اللہ کی محبت کے سامنے ہیچ ہیں۔
ایک دن کہنے لگے، یہ آنکھ بڑی عجیب شے ہے جب تک بندنہ ہوکھلتی ہی نہیں ہے۔
ایک دن دعامانگی کہ ’’اے اللہ توجانتاہے کہ توتوہے ،میں میں ہوں!‘‘
انہوں نے دودعائیں توعبداللہ کوازبرکرادی تھیں اورکہاتھاکہ روزبلاناغہ مانگاکرو۔
ایک سیدناموسیٰ ں کی دعا:
(رَبِّ اِنِّی لِمَااَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍفَقِیْرٌ)[سورۃ القصص۸۲:۴۲]
’’ الٰہی! میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔۔‘‘
اورایک یہ دعاکہ :
’’اے اللہ !سب ایمان والوں کومعاف کردے۔‘‘
اورعبداللہ تواترسے یہ دعائیں مانگے چلاجاتا۔
ایک عادت انہوں نے اورڈالی عبداللہ کو،وہ تھی اللہ میاں کوخط لکھنے کی ،وہ کہتے تھے جب کوئی بات
ہوجاوے ،جب کوئی خوشی دیکھویاغم آوے تواللہ کوخط لکھو،اسے سناؤاپنی کہانی،اس سے کہواپنی
کتھا،اورکسی سے کچھ نہ مانگو۔
ہرحدسے ماوراء تھی سخاوت میں اس کی ذات
ہم آخری سوال سے آگے نہ جاسکے
عبدالرحمن صاحب نے عبداللہ کی طبیعت کودیکھتے ہوئے اسے ایک بددعابھی دی تھی کہ اللہ تجھے
اتنامصروف رکھے کہ تیرے پاس گناہ کی فرصت نہ ہو۔
اورعبداللہ ہمیشہ اس بات پر ہنساکرتا۔
خیرانٹرکے امتحانات ہوئے اورعبداللہ نے پہلی پوزیشن حاصل کی پورے کالج میں۔
200میل کی مسافت پہ ایک شہرتھاجہاں میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا،اوریوں عبداللہ’’ڈاکٹرصاحب‘‘بننے
کی جستجومیں لگ گیا۔
میڈیکل کالج جاتے ہوئے اس نے ماں باپ اورسرعبدالرحمن کی خوب دعائیں لیں۔
مگرشایدزندگی کوکچھ اورہی منظورتھا،وہاں درجن بھرسیاسی پارٹیوں کی تنظیمیں تھیں جو عبداللہ کی
صلاحیتوں کواپنے اپنے پولیٹکل ایجنڈے کی تقویت میں استعمال کرناچاہتی تھیں مگرعبداللہ کوبھلاان
الجھنوں سے کیامطلب،نتیجہ یہ نکلاکہ گفتگواورمہذب دعوت،گستاخیوں اوربدتمیزوں پرچلی گئی
اورآخرکارایک دن ایک پارٹی کے لڑکوں نے عبداللہ کوخوب مارا،کپڑے پھاڑدئیے اورکتابیں تک جلادیں۔
اوراُسے اٹھاکرتمام اساتذہ ،پولیس سب کے سامنے کالج سے باہرپھینک دیا،پولیس والوں نے آکے کہااب
نظرآئے توکالج میں ہیروئن رکھنے کے جرم میں زندگی بھرجیل میں سڑادیں گے۔اورعبداللہ ’’ڈاکٹرصاحب
کے خواب‘‘کی لاش اُٹھائے واپس آگیا۔
ستارے کچھ بتاتے ہیں، نتیجہ کچھ نکلتاہے
بڑی حیرت میں ہے میرا مقدر دیکھنے والا
عبداللہ اپنے ازلی سوال کے ساتھ آج پھرفضلوکے سامنے کھڑاتھامجھے کیاپتہ،تیرے پہ مولوی کی
بددعاہے ،تومنحوس ہوگیاہے ،جہاں جاتاہے پِٹ کرواپس آجاتاہے ،کوئی کام تیرابنتانہیں ہے، مجھے نہیں
پتہ،نہ مجھ سے پوچھ نہ مجھے بتا۔اوریہ کہہ کرفضلواپنے آنے والے گاہگ کے ساتھ مصروف ہوگیا۔
مشوروں اورملاقاتوں کاایک سلسلہ پھرشروع ہوا،کسی نے کہابی فارمیسی کرلوتوکسی نے ایسوسی ایٹ
ڈپلومہ کرنے کوکہا،کسی نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی راہ دِکھائی توکوئی کمپیوٹرسائنس کاشیدائی۔
آج T.Vپرہالی وڈکی کوئی فلم چل رہی تھی جوعبداللہ نے دکان کے ساتھ والے چائے کی ڈھابے پردیکھی
،خوب صورت اورنوجوان،لوگ سفیدرنگ کے ایپرن پہنے،شیشے کی بوتلوں میں رنگ برنگے محلول
گھماتے پتہ نہیں کیاایجادکررہے تھے ،کسی نے کہاکہ یہ دوائیاں بنارہے ہیں توکسی نے انگریزی نہ
سمجھتے ہوئے مووی کوکیمیائی ہتھیاروں سے جوڑدیا۔
خیر،آج رات خواب میں عبداللہ نے دیکھاکہ وہ وائٹ کوٹ پہنے دنیاکی بیماریوں کی کھوج لگارہاہے۔ وہ
صبح اُٹھاتومسکرارہاتھا،اسے اپنی زندگی کی مقصد مل گیاتھااوروہ تھابیِ فارمیسی۔
بیِ فارمیسی کے لیے شہرکی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کروادِیا،فضلولاکھ سمجھاتارہاکہ فیس
کے پیسے کہاں سے لائیں گے؟،رہے گاکہاں؟،کھائے گاکہاں سے؟
مگرعبداللہ ہمیشہ جواب دیتاکہ ابامیں313کے فارمولے پرچلتاہوں،جوکام میں کر سکتا ہوں وہ
کرتاہوں،جوکرنہیں سکتااس کے بارے میں پریشان بھی نہیں ہوتا۔
غزوۂ بدرمیں313صحابہ کرام ثکے پاس جوبھی تھاوہ لے کے پہنچ گئے ،فتح جس کامقدرہوجائے توسبیل
خودہی ہوجایاکرتی ہے۔
خیروہی ہواجس کافضلوکوڈرتھا،ایڈمیشن لسٹ لگی مگرعبداللہ کانام تھانہیں اس میں،عبداللہ
سیدھارجسٹرارکے پاس گیا،کہاکہ ’’سررات بھرسے یونیورسٹی گیٹ پربیٹھاہوں کہ رہنے کی جگہ نہیں ہے
،ضرورکوئی غلطی ہوئی ہے ،میرانام لسٹ میں نہیں ہے۔
رجسٹرارصاحب نے پوچھاکہ تمہاراڈومیسائل کہاں کاہے، ہمارے پاس کوٹہ سسٹم ہے، میں چیک کرتاہوں۔
جناب ڈومیسائل تواندرونِ سندھ کے ایک گاؤں کاہے۔
ہاں،اس ضلع کی صرف ایک سیٹ ہے۔
جیِ بالکل،وہ ایک سیٹ میری ہے ،میرے سے زیادہ نمبرضلع میں کسی کے بھی نہیں۔
ہاں!مگرآپ کے ضلع سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبرایجوکیشن منسٹرہیں ۔
ہاں تو[عبداللہ نے بے قراری سے پوچھا۔]
توبرخوردار،آئینی طورپرچانسلرکی ایک سیٹ ہوتی ہے اوراس پران کابھانجاتمہارے ہی گاؤں کے
ڈومیسائل سے منتخب ہوچکاہے 53%مارکس لینے کے باوجود۔
اورعبداللہ کواپناوجوددھڑام سے فرش بوس ہوتانظرآیا۔
’’مقصدِ زندگی‘‘شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔وہ دوائیاں،وہ خواب،وہ پراجیکٹس سب خاک میں مل
گیا۔ اب کس منہ سے جائے گا واپس۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اباّاب میں کیاکروں؟
عبداللہ آج پھراپنے بے بس باپ کے سامنے کھڑاپوچھ رہاتھا۔
کچھ دنوں بعداخبارمیں اشتہارآیاکہ پاس والے شہرمیں کمپیوٹرسائنس کابیچلرزپروگرام شروع ہورہاہے
۔عبداللہ نے پھرصرف یہ سوچ کے فارم جمع کروایاکہ کچھ کرنانہ کرنے سے بہترہے ،ورنہ نہ تواسے
کمپیوٹرسائنس کی کوئی سمجھ تھی نہ شوق۔پھروہی 313کافارمولا۔
اس بارداخلہ تومل گیامگراسکالرشپ نہ ملی کہ پہلی باریہ پروگرام شروع ہورہاتھااورایک خلقت تھی
جوداخلہ چاہتی تھی ایسے میںیونیورسٹی کوکیاسوجھی تھی کہ وہ مفت میں داخلے دیتی پھرے۔
ایک ہزارروپے ماہانہ فیس تھی مگرفضلوکے لیے ہزارروپے ماہانہ دیناناممکنات میں سے تھابہت
سمجھایامگرعبداللہ بس دعائیں ہی مانگتارہتا۔
’’اے اللہ!تومحتاج نہیں چھوٹے بڑے لوگوں کا،توجب چاہے جیسے چاہے دے دے،تجھے کوئی بجٹ
تھوڑاہی پاس کراناہوتاہے اسمبلی سے ،تومجھے ایسے ہی دے دے، دیتا چلا جا، بس دیتاہی رہے۔
اے اللہ،اے میرے مالک،اے میرے رب،تومجھے اپنی قدرت کامظہربنادے،لوگ مجھے دیکھ کرکہیں کہ
جب اللہ کسی کودینے پرآتاہے نا تووہ ایسے دیتاہے،جب کسی کوبلاوجہ نوازتاہے نا تووہ ایسے
ہوتاہے،اومیرے اللہ ،تو وجہ کا محتاج نہیں تومجھے بلاوجہ ہی دے دے۔آمین۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
اسکالرشِپ تونہ ملنی تھی نہ ملی مگرعبداللہ کوشام میں نوکری مل گئی،یونیورسٹی کے ساتھ قائم دھوبی
گھاٹ پر۔
دن بھرپڑھنااوررات بھرکپڑے دھونا،اتنے پیسے مل جاتے کہ عبداللہ فیس جمع کروادیتااورایک آدھ وقت
کچھ کھابھی لیتا۔
کم کھانے کی عادت توگُھٹّی سے ملی تھی لہٰذااگرایک وقت بھی کھانامل جائے توغنیمت تھا۔
پہلاسمسٹرختم ہوا،عبداللہ کا4میں سے4 GPA آیاتوسب کوپتہ چلاگُڈری کالعل کسے کہتے ہیں۔جہاں کچھ
دوست بنے وہاں بہت سے دشمن بھی۔
دیکھ،توپوزیشن مت لایاکر۔ایک روزایک بڑے باپ کی اولادنے راستہ روک کے عبداللہ سے کہا۔
اس کے باپ کوسب پیرصاحب کے نام سے جانتے تھے اوران کی یونیورسٹی اورمعاشرے
میں’’خداترسی‘‘کی وجہ سے بڑی شہرت تھی ۔عبداللہ نے مسکراتے ہوئے پوچھاکیوں؟
کیونکہ تومزارع کی اولادہے اورہم پیرزادے ہیں ،گھروالے مذاق اڑاتے ہیں کہ مزارع کابچہ ٹاپ
کررہاہے اورتم لوگ فیل آرہے ہو،اب اگرتیری پوزیشن آئی توٹانگیں توڑدیں گے۔
عبداللہ نے پوراعزم کرلیاکہ اگلے سمسٹرمیں پوزیشن نہیں لے گا،کیونکہ اگراس بارپِٹاتویہاں سے بھی
باہرہوگااوراباتومارہی ڈالے گا۔فضلو نے تواب پیسے بھی مانگناشروع کردئیے تھے عبداللہ سے،کہ اکلوتے
بیٹے سے نہ مانگے توکس سے مانگے؟
مگرعبداللہ کاتواپناگزارہ مشکل سے ہوتاتھا،مانگے کی کتابوں سے توبھلاوہ گھرپیسے کیسے بھیجتا؟
خیراگلے امتحانات آئے ،عبداللہ نے جانتے بوجھتے ہوئے صرف آدھے سوال حل کیے حالانکہ اسے
پوراپیپرآتاتھاتاکہ پوزیشن نہ آئے صرف پاس ہوجاؤں۔
مگراللہ کاکرناایساکہ باقی کسی سے وہ آدھے سوال بھی حل نہ ہوئے اوربُرے مارکس کے باوجوداس کی
پوزیشن آگئی۔
پہلاسمسٹر4 GPAپہلی پوزیشن،دوسراسمسٹر2.8 GPAپہلی پوزیشن ،اب بے چارہ کیاکرے اورکہاں
جائے؟
پیرصاحب کے بچے اوراس کے دوست جہاں دل چاہتاعبداللہ کوروک لیتے،کبھی نوٹس پھاڑدیتے توکبھی
چپل اتروالیتے ۔عبداللہ صرف ایک درخواست کرتاکہ مجھے عینک سنبھالنے دوکیونکہ یہ میںAffordنہیں
کرسکتا،اب مارو۔اوریوں پِٹ پِٹ کے دوسال آخرپورے ہونے ہی لگے۔
شاگردتوشاگرد،عبداللہ اپنے استادوں کے بھی کان کترنے لگا۔تیسرے سمسٹر میں کمپیوٹر کی مشہورکمپنی
نے پروگرامنگ کے مقابلے کروائے ،عبداللہ کی پاکستان بھرمیں دوسری پوزیشن آگئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداللہ کی زندگی کابڑااہم دن تھا،آج اس کے بیچلزرپروگرام کاآخری پرچہ تھا،آ ج کے بعدنہ اس نے
کبھی پِٹناتھانہ کپڑے دھونے تھے۔اس کاموڈتھاپرچہ کرتے ہی سیدھاپھوپھی کے گاؤں جاؤں گااورنتیجہ
نکلتے ہی شہرمیں کوئی نوکری کرلوں گا۔پرچے بھی اس نے آخری سمسٹرمیں پورے کیے تھے کہ
رزلٹ کے بعدکسی سے ملنے کاموقع کہاں آنا تھا؟
عبداللہ پورے انہماک سے پرچہ کررہاتھا، پرچہ خاصامشکل تھامگرعبداللہ کے لیے نہیں،اتنے میں
باہرشوراٹھا،باقی تمام طلباء نے پرچے کوآؤٹ آف کورس قراردیتے ہوئے کاپیاں پھاڑیں اورپرچے
کابائیکاٹ کرتے ہوئے باہرچلے گئے ۔عبداللہ نے کسی کی فکرکبھی کی تھی جواب کرتا۔اس نے
سرجھکاکے خاموشی سے جلدی جلدی پیپرکیااورباہرنکل گیا۔
باہرآیاتوجیسے میلہ لگاہوتاہے ،لڑکے ،ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اورلاٹھیاں اورسامنے معافی مانگتے
ہوئے اساتذہ اوراسٹاف۔
اتنے میں کنڑولرآف ایگزامینشن آئے اوراعلان کیاکہ کیونکہ ایک بچے نے پرچہ مکمل حل کرکے جمع
کروادیاہے اس لیے پیپرCountہوگا۔اس کاجو رزلٹ آئے گاسوآئے گاآپ سب فیل۔اوریہ کہہ کروہ چلے
گئے لڑکوں کویہ معلوم کرنے میں دیرنہ لگی کہ وہ بچہ کون تھا؟
عبداللہ شکرانے کے نفل اداکرنے مسجدمیں داخل ہوہی رہاتھاکہ ’’پیرصاحب‘‘کے بچوں اوراس کے
دوستوں نے اسے دبوچ لیا۔
بس پھرکیاتھا،مار،گھونسوں،لاتوں،لاٹھیوں اورمکّوں کی وہ تکرارکہ پوری یونیورسٹی اس شورسے گونج
اٹھی،عبداللہ کی حالت دیکھ کراس کے دشمن بھی روپڑے،لاٹھی مارکے سرخونم خون کردیا،پانچ پسلیاں
توڑیں،پاؤں کے انگوٹھے کاناخن کھینچ کے باہرنکال دیااورجاتے جاتے ہاتھ کی انگلیاں لکڑی کی مددسے
توڑگئے۔
کوئی جگہ ایسی تھی نہیں جسم پرجہاں زخم نہ آیاہو،جب غصہ رفوہواتوسب لڑکے عبداللہ کومردہ سمجھ
کے چھوڑکے بھاگ گئے ۔جب تک ہوش رہاعبداللہ صرف ایک ہی بات دہراتارہا۔’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
کچھ اساتذہ اوربچوں نے مل کے عبداللہ کویونیورسٹی کی گاڑی میں ڈالااوراس کے گھر پہنچایا ۔
سات دن بعدعبداللہ کوسرکاری ہسپتال کے بسترپرہوش آیا،اباکو20ہزارروپے ادھار لینا پڑااس کی زندگی
بچانے کے لیے۔
عبداللہ نے ایک آہ کے ساتھ آنکھ کھولی توماں کاروتاہواچہرہ سرہانے پایا،ماں کاغم ہلکا کرنے کووہ
مصنوعی ہنسی کے ساتھ گویاہوا:
اماں مراتھوڑی ہی ہوں ابھی زندہ ہوں،توروکیوں رہی ہے؟
عبداللہ تومرہی جاتاتواچھاہوتا،اس عمرمیں بوڑھے باپ کویہ دن تونہ دیکھنے پڑتے۔
پیرصاحب نے پولیس بھیج دی تھی،محلے والوں نے بڑی مشکل سے ’’معافی نامہ‘‘دے کرجان چھڑائی
ہے۔
پیرصاحب نے چارگھنٹوں تک گھرکی صفائی بھی کروائی ۔
عبداللہ اس سے اچھاہوتاکہ توپیداہی نہ ہواہوتا۔اورماں روتے روتے کمرے سے باہر نکل گئی۔
عبداللہ نے آسمان کی طرف نظرکی اورمسکراتے ہوئے شعرپڑھا
وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا
اور جس پہ اتفاق سے آنسو حرام ہیں
عبداللہ نے شعرابھی پوراکیاہی تھاکہ کمرے کادروازہ کھلااورسرعبدالرحمن اور چاچا دینو دونوں چلتے
ہوئے آئے۔عبداللہ نے پوری کوشش کی کہ اٹھ کے ان کااستقبال کرسکے مگرجسم نے ساتھ نہ دیا۔اس نے
پھرمسکراتے ہوئے شعرپڑھا
اے درد تو ہی اُٹھ کہ وہ آئے ہیں دیکھنے
تعظیم کی مریض میں طاقت نہیں رہی
عبدالرحمن صاحب اورچاچا دینونے خوب پیارکیااورڈھیرساری دعائیں دیں۔
عبداللہ نے چاچادینوسے پوچھا،چاچاکوئی موٹی سی بددعابتاکہ مانگوں اورسامنے والوں کابیڑہ غرق
ہوجاوے۔
چاچا نے سنتے ہوئے کہابیٹامعاف کردے،ایسے نہیں کہتے۔
نہیں چاچامیں سنجیدہ ہوں،اتنی دعائیں بتاتاہے بغیرپوچھے ہی،ایک بددعابھی سِکھادے پوچھنے پر۔
عبداللہ!چپ سے بڑی بددعاکوئی نہیں ہوتی ،جب بندہ بولتاہے نہ توقدرت خاموش رہتی ہے جب بندہ چپ
ہوجاتاہے توقدرت انتقام لیتی ہے اوراس کاانتقام بہت براہے۔
عبداللہ نے سمجھنے نہ سمجھنے کی کیفیت میں التجائیہ نظروں سے عبدالرحمن صاحب کی طرف
دیکھا،انہوں نے اشکبارآنکھوں سے یہ آیت پڑھی:
( فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن)
[سورۃ الانعام۶:۵۴]
’’غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*