آج عبداللہ نے نہادھوکرنئے کپڑے پہنے ،مسجدمیں جاکرنمازپڑھی،بیوی بچوں کے ساتھ کھاناکھایا،سب ہی اس کایاپلٹ پرحیران تھے،بِلّوکویہ کوئی طوفان کاپیشِ خیمہ لگ رہاتھا۔
جب علیحدگی نصیب ہوئی تووہ عبداللہ سے کہنے لگی:
عبداللہ !کیاہوا،تم ٹھیک توہو،کہیں انٹرویوکے لیے جارہے ہوکیا؟
نہیں بِلّو،اب مجھ سے یہ درد نہیں سہاجاتا،آج فیصلہ ہوکرہی رہے گا۔
کیامطلب؟
آج میں ایک بارپھر،آخری بار،اللہ سے مانگوں گا،اپنے سوالات کے جوابات،اوردل کا سکون ، اگرمل گیا، توٹھیک ،ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ کیا؟۔۔۔۔۔۔بِلّوکے منہ سے چیخ نکلی۔
ورنہ میرے بچوں کاخیال رکھنا۔
بِلّوتومصلّے پرڈھیرہوگئی کہ اُسے عبداللہ کے آہنی عزم کابھرپورادراک تھا،پتہ نہیں کب تک وہ کیاکیامانگتی رہی اسے خبرتھی کہ آج فیصلے کی رات ہے۔
جب سارے گھروالے سوچکے توعبداللہ چپکے سے اُٹھااورکمرے سے باہرنکل گیا ،بِلّونے بھی چپکے سے پیروی کی۔
عبداللہ ،برابروالے کمرے میں مصلّے پرتہجدپڑھ رہاتھا،نمازسے فراغت کے بعد اس نے ہاتھ اُٹھائے:
’’اللہ سائیں!
تجھے توپتہ ہے کیاہوا؟میں ہارگیااللہ سائیں۔وہ بدنصیب کہ جو سب جیت کے بھی ہارگیا۔اورتوایسابے نیاز کہ سب کچھ دے کے بھی پرواہ نہیں۔
میرے اللہ ،دیکھ میری مددکر،ورنہ میں مرجاؤں گا،میں نہیں رہ سکتازندہ اب بغیرTDL کے،تومجھے دے نئی TDL،ایسی TDLکہ جس کے ہرآئیٹم کوٹِک کرکے میں تجھ سے قریب ہوجاؤں،میں تجھ سے راضی تومجھ سے راضی ہوجائے،اوسوال دینے والے اللہ ،جواب بھی دے دے،اوکُلَّ یَوْمٍ ہُوَفیِ شَأنٍ والے اللہ ،میرابھی مسئلہ Solveکردے،اوءَ اِلٰہٌ مَعَ اﷲ والے اللہ میرے لیے کافی ہوجا،کھول دے بندگرہیں،ڈال دے دماغ میں کچھ ،ختم کریہ کشمکش، کردے رحم،دے دے آگہی،سُجھادے کوئی راہ ،کردے رہنمائی،توکچھ لوگوں کوچھوڑدیتاہے بھٹکنے کو،کچھ کوراہ دکھاتاہے،توکسی کاہاتھ پکڑکراسے چلاتاہے، اومیرے شہ رگ سے قریب اللہ !میراہاتھ پکڑ،مجھے راہ دکھا،میرے پاس آ،میری مددکر،اوغارمیں سکینہ اُتارنے والے اللہ ،اومیرے مالک، اومیرے مولا،اے میرے پالنہار،میڈاسائیں،میڈایار،میرے مالک،آجانا،ہاتھ پکڑ،راستہ دکھا،روشنی دے اپنے نورمیں سے ،میرے آگے روشنی کرمیرے پیچھے کر،میری دائیں کرمیرے بائیں کر،میرے اوپرکرمیرے نیچے کر،میں کیاکہوں گامنکرنکیرکواگرپوچھ بیٹھے فِیْمَ کُنْتُمْ؟
ماراجاؤں گامیرے اللہ ،میری TDLانگارہ بناکے نہ لگادی جاوے ۔رحم کرمیرے مولا،توکربھی لے،تجھے تیرے رحم کاواسطہ ،تیرے حبیبؐ کاواسطہ،واسطہ اس صحابیؓ کاجس کے سینے سے نیزہ پارہوگیاتھااوروہ کہہ رہاتھا:
فُزْتُ وَرَبُّ الْکَعْبَۃ(۱)۔
واسطہ اس با ت کاکہ تومیرے اللہ ہے اورمیں تیرابندہ۔
بچالے مجھے میرے مالک ،میری سرکار،کربھی دے مدد،سن بھی لے میرے مولا۔
میرے اللہ ، سخی کی شان نہیں ہوتی کہ دے کر واپس لے ، میرے مولا تو غافرالذنب ہے ، توسارے ہی معاف کردے ، دیکھ میں سجدے میں گرگیا ، دیکھ میں نے ناک رگڑلی، سجدے سے زیادہ Defenseless پوزیشن تو کوئی بھی نہیں ہے میرے اللہ۔میں تیری توحید کا اقرار کرتا ہوں میرے رب ،شرک سے بچتا ہوں میرے اللہ ، ان دونوں کے بیچ میں ہونے والے گناہوں کو معاف کردے ۔
تو نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
حشر میں حساب نہکرنا میرے اللہ ، ایسے ہی چھوڑدینا میرے اللہ، تو پوچھیو نہیں میرے اللہ، تو پوچھیو نہیں میرے اللہ، تو پوچھیونہیں میرے اللہ۔
اوراس کے بعدعبداللہ کی آوازجیسے گنگ ہوگئی،بول توکچھ رہاتھا،مگرالفاظ پلّے نہیں پڑ رہے تھے، رونے، سسکیوں،آہوں کی آوازمیں سب کچھ دب چکاتھا،وہ ایسے ہوامیں ہاتھ ماررہاتھاجیسے کوئی ڈوبنے والابچاؤکے لیے ہاتھ پاؤں چلاتاہے ،بلّوجویہ سب کچھ دیکھ رہی تھی وہ دھڑام سے گرگئی اورنجانے کب عبداللہ کوبھی نیند آگئی۔
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
صبح جب بِلّواُٹھی تورات کے واقعہ کی وجہ سے اس کاچہرہ سیاہ پڑاہواتھا،فوراًنظردوڑائی توعبداللہ نظرنہ آیا،ابھی ڈھونڈنے جارہی تھی کہ وہ ہنستامسکراتاکمرے میں داخل ہوا،آج بہت ہی بدلابدلااورسنبھلاہوالگ رہاتھا،آتے ہی ہمیشہ کی طرح بِلّوپہ پھبتی کَسی۔
کیا تیرا جسم تیرے حسن کی حدّت میں جلا
راکھ کس نے تیری سونے کی سی رنگت کردی؟
پہلے والاعبداللہ دیکھ کے بِلُوکی جان میں جان آئی ۔
اب عبداللہ کافی سنبھل گیاتھا،اس کے دل کوشایدکچھ چین مل گیاتھا،اس نے سمجھ لیاتھاکہ جوسوال تینتیس سالوں میں جمع ہوئے ہیں ان کاحل تینتیس دنوں میں نہیں ملے گا،وہ اب چلنا چاہتا تھا جستجوکے اس سفرمیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ دنوں بعدآج عبداللہ اپنے فیملی کے ساتھ ملک کی مایۂ ناز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرکی جاب جائن کرنے کے لیے جارہاتھا۔یونیورسٹی میں دیکھتے ہی دیکھتے عبداللہ کے نام کاڈنکابجنے لگا،ساتھ ہی عبداللہ نے اپنے بیوی بچوں پرخصوصی توجہ دیناشروع کی ۔وہ بچوں کی تعلیم وتربیت کابہت خیال رکھتا۔
زندگی میں کچھ ٹھہراؤساآگیاتھا،عبداللہ آج بھی نمازپڑھتاتواللہ سے گھنٹوں دعائیں مانگتا، عبداللہ آج بھی اپنے اللہ کوخط لکھاکرتا۔
عبداللہ کی زندگی میںآج بھی بہت سے سوال آتے ہیں۔ کچھ کاجواب مل جاتاہیں کچھ کانہیں،مگراسے اس بات کااحساس ہے کہ جس راہ پروہ چل رہاہے وہ اسے بھٹکنے نہیں دے گی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج یونیورسٹی میں کوئی اضافی سیمینار ہو رہاتھاGoals Settings پرکہ زندگی میں Goals کیسے بنائے جائیں اورپھران پہ محنت کیسے کی جائے؟
توعبداللہ جلدی گھرواپس آگیا،گھرآتے ہی عبداللہ کوخبرملی کہ اس کابچہ انگلش کے امتحان میں فیل ہوگیاہے ،اس نے اپنے بیٹے کوبلاکے پوچھاکہ تمہاری انگلش توبہت بہترہے توکیامعاملہ ہوا؟
بیٹے نے کہاپاپاسراسرزیادتی ہوئی ہے انگلش کاپیپرتھااس میں سوال آیا:
When was Quaid-e-Azam born?
میں نے جواب لکھا:
He was born on 14 August 1947.
ٹیچرنے نہ صرف میرے مارکس کاٹ دئیے بلکہ کلاس کے سامنے میرامذاق بھی اُڑایا۔
پاپامجھے پتہ ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش پچیس دسمبراٹھارہ سوچھہترہے،مگریہ انگلش کا پیپر تھا نہ کہ مطالعۂ پاکستان کا،آپ مجھے بتائیے:
How was my sentence gramatically wrong?
عبداللہ نے ہنستے ہوئے اپنی بیوی کی طرف دیکھااوربیٹے سے پوچھاتوپھرآپ نے ٹیچرکوکیاکہا؟
بیٹے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲاپنی بِلّو اور بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا کوئی گیم کھیل رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ ہیلو ‘میں ڈاکٹر حیدر بول رہا ہوں’ کیا عبداﷲ سے بات ہو سکتی ہے؟
جی سر ،میں عبداﷲ بول رہا ہوں کیسے ہیں آپ؟
عبداﷲ واپسی مبارک ہو، کسی روز ملنے آجاؤ۔
جی کچھ ہی روز میں حاضر ہوتا ہوں۔
کچھ دنوں بعد عبداﷲ ڈاکٹر حیدر کے سامنے بیٹھا ہو ا تھا۔
اور سر سنائیں۔ پچھلے 6 سال کیا ہوئے۔ کوئی نئی تازی یا زندگی ابھی تک اِسی ڈگر پہ مصروف ہے؟
ویسے تو سب ٹھیک ہے عبداﷲ، بس راستے اور منزل بدل گئے ہیں۔ اندر کا موسم باہر کے موسم سے جُدا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر حیدر کے منہ سے نکلنے والے یہ گہرے الفاظ عبداﷲ کے ذہن میں بھو نچال پیدا کر رہے تھے۔ وہ کہنے لگا۔
سر، ایک خالی پن کا احساس مجھے بھی ہے مگر کوئی سِرا ملتا نہیں ہے۔ کمپیوٹر سائنس کا کوئی پرابلم ہو تا تو کب کا حل نِکال چکا ہوتا۔ عبداﷲ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ڈاکٹرحیدر، عبداﷲ کے مزاج شناس تھے کہنے لگے ایک کام کرو، یہاں سے قریب ہی ایک صاحب کاآفس ہے، میں فون کر دیتا ہوں تم اِن سے جا کر میرے حوالے سے مِل لو۔
مجھے اُمید ہے کوئی سبیل نکل آئے گی۔ احمد نام ہے اُن کا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ اگلے ہی روز احمد صاحب کے چھوٹے سے آفس میں بیٹھا تھا۔ آفِس میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر مشہور زمانہ ٹی وی پر وگرام کی CDs پر پڑیں جس میں ایک شعلہ بیان مقرر مُلکِ عزیز کے ہر مسئلے کا تعلق امریکہ و اِسرائیل کی خفیہ سازشوں سے جوڑ دیتے ہیں مگر حل کچھ نہیں بتاتے، عبداﷲ کو ایسے لوگوں سے شدید چڑتھی۔ اِس کے اپنے مسائل ہی اتنے زیادہ تھے کہ وہ مزید مسائل سُننے کے مُوڈ میں بالکل نہ تھا۔ عبداﷲ نے جلدی سے ایک طائرانہ نظر بُک شیلف میں رکھی کِتابوں پر ڈالی، اِن میں سے زیادہ تر وہ پڑھ چکا تھا اور گفتگو شروع ہونے سے پہلے وہ احمد صاحب کے عقل و شعور کی اکاؤئنٹنگ کر چکا تھا۔ احمد صاحب آرام سے اُس کے ’’فارغ‘‘ہونے کا انتظار کرتے رہے، وہ کوئی چالیس کے پھیرے میں ہونگے،دبلے پتلے نکلتا ہوا قد، آنکھوں میں بَلا کی چالاکی مگر چہرے پر دَرد، عبداﷲ زیادہ دیر آنکھیں نہ مِلا سکا۔
احمد صاحب گویا ہوئے:
کیسے ہیں آپ ڈاکٹر صاحب؟
جی ٹھیک ہوتا تو یہاں کیوں آتا۔ پریشان ہوں، سمجھ نہیں آتا زندگی میں کیا کروں؟
اتنا پڑھا لکھا، خوب جان ماری، مگر نتیجہ صفر
دل کا چین پتہ نہیں کہاں لُٹا بیٹھا ہوں۔ پتہ نہیں کس بات کی جستجو ہے؟
کون سی منزل ہے کہ دل کھنچتا ہے مگر نظر نہیں آتی ۔
کوئی ہوک ہے کوئی آس کوئی تڑپ۔ کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ میں ایک ایسا مریض ہوں جسے اپنی بیماری کا نہیں پتہ، علامات کا بھی نہیں پتہ، تو اب عِلاج ہو کیسے؟ عبداﷲ بولنے پہ آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔
دریں اثناء احمدصا حب کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ وہ گویا ہوئے۔
ہم م م م م م۔ پہلے کہاں تھے آپ ؟ ہم تو آپکو ڈھونڈ رہے تھے۔
عبداﷲ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک پھیکی سے ہنسی ہنس کے رہ گیا۔
احمد صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔
ڈاکٹر صاحب، تھوڑی دیر کے لیے judgement ترک کر دیں۔ اندازے بعد میں لگائیے گا۔ آپ ایسا کریں کہ ہماری ایک ورکشاپ ہو رہی ہے کل سے، امین صاحب ہمارے انسٹرکٹر ہیں، وہ پڑھائیں گے ،یہ آپ کر لیں۔
ارے نہیں احمد صاحب ،میرے پاس دنیا کے 72 سر ٹیفکیٹس ہیں، میں ہر اس بندے سے مِلا ہوا ہوں یا پڑھ چکا ہوں جن کی کتا بیں آپ یہاں سجائے بیٹھے ہیں، میرا مسئلہ اب کوئی نیا کورس کر کے حل نہیں ہو گا۔ انہی کورسز نے تو یہ دن دکھلایا ہے، میں اپنا رونا رو رہا ہوں آپ اپنی ٹریننگ بیچنے کے چکر میں پڑے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ یہ ورکشاپ کر لیں پھر بات ہو گی۔ احمد صاحب نے جیسے کہ فیصلہ سنا دیا۔
پتہ نہیں یہ ان صاحب کے لہجے کااثر تھا یا طبیعت کا ٹھہراؤ کہ اگلی شام جمعہ کے روز عبداﷲ ٹریننگ سنٹر پہنچ گیا۔ کوئی بیس کے قریب مردو خواتین مو جود تھے۔ اور احمد صاحب جیسے ایک اور صاحب، جنہیں سب امین بھائی کہہ رہے تھے وہ ٹریننگ شروع کرنے کے لیے بے تاب۔
عبداﷲزندگی کی اتنی بد تمیزیوں کے بعد کسی سے تمیز سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ اپنے آپکو کو س رہا تھا کہ یہاں آیا کیوں؟ وہی اِسٹیفن کوی، وہی جیک ویلش، سیم والٹن، وارن بُوفے اور پیٹرسِنگر کے فر مودات، وہی بکو اس ہو گی جِس میں عبداﷲ خُود چیمپین تھا۔
لوگوں نے اپنا تعارف کرایا۔ عبداﷲ اس پورے عرصے میں سر بنچ پہ رکھے سو تا رہا، اُسے اب کسی کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی کیا سوچے گا، جب اپنی باری آئی تو صرف نام بتایا اور پھر کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔
سوتے سوتے یا سونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے امین بھائی کا ایک جُملہ کان میں پڑا۔
“اگر آپ یہاں بیٹھے بیٹھے مر جائیں تو کیا آپ اپنی زندگی کو مڑ کے دیکھیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں! لگ گئی؟ یا یہ کہیں گے کہ ضائع ہو گئی؟ یا یہ کہ پتہ نہیں کیا ہوئی اور کہا ں گئی ؟
ہمیں نہ بتائیں اپنے آپ سے پوچھ لیں۔
اب عبداﷲ نے آنکھ کھولی مگر سر و یسے ہی جُھکا رکھا۔
” اچھا، دوسرا سوال ،امین بھائی نے اپنے تر کش سے ایک اور تیر نکالا۔ کچھ لوگ آپکے مرنے کے بعد آپکے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں وہ کیا کہیں گے؟
پتہ نہیں کون تھا جو مر گیا۔ یا اچھا ہو ا مر گیا؟ یا اﷲ کا نیک بندہ تھا۔ بڑے اچھے کام کر گیا ہے جو سالوں زندہ رہیں گے۔
اب عبداﷲ سنبھل کے بیٹھ چکا تھا اور اسکی آنکھوں میں چمک سی آ گئی تھی۔
امین صاحب نے ایک تیر اور نِکالا اور ہاتھ میں موجود مار کر کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا کرتاہے؟
سا معین میں سے کسی نے جواب دیا، جناب مارکر ہے اور لکھنے کے کام آتا ہے۔
بہت خوب، اب آپ اپنے آس پاس دیکھیں اور چیزوں کی لسٹ بنالیں۔
عبداﷲ کا پین تیز ی سے چلنے لگا
پنکھا
کرسی
میز
چپل/جوتا
درخت
کھڑکی
ملٹی میڈیا پروجیکٹر
لیپ ٹاپ
اِسپیکرز
ٹیوب لائٹ
جگ
گلاس
مارکر
گھڑی
صوفہ
واٹر کولر
’’چلیں اب اِن تمام چیزوں کے سامنے ان کا (purpose) مقصد لکھیں۔‘‘
پنکھا ہوا دیتا ہے، مارکر لکھتا ہے، گھڑی وقت بتاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
’’اُوہو! ہم لسٹ میں ایک نام تو بھول ہی گئے ،جی ہاں ! آپ کا اپنا نام وہ بھی تو لکھیں۔‘‘
’’عبداﷲ‘‘ لِسٹ میں ایک نئے آئٹم کا اِضافہ ہو گیا ہے۔
جی اب اِ س کے سامنے اس کا مقصد purposeبھی لکھ لیں۔
تو عبداﷲ ہم ہیں ہی کیوں؟
why do we exist?
عبداﷲ ہو نق بنا صرف تکے جارہا تھا۔
امین بھائی نے اپنی بات جاری رکھی۔ ایک سید ھا سا ذریعہ ہے معلوم کرنے کا۔ جس نے بنایا ہے اُس سے پوچھ لو۔ اب مار کر بنا نیوالی کمپنی نے مارکر کی تمام specificationsبتا دی ہیں۔ اور
HPوالوں نے اِس میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی، اور ڈاؤ لینس نے اِس ائیر کنڈیشن کی، تو آپکی سمجھ کے حساب سے جو بھی آپ کا خالق ہے آپ اُس سے پوچھ لیں۔ بحیثیتِ مسلمان، ہمارا ماننا ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے رب ہیں۔ وہ قرآن میں فرماتے ہیں۔
3
’’ہم نے انِسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔‘‘
تو ہماری زندگی کااولین مصرف تو اﷲ کی رضا ہوئی ناں!
ہماری To Do List ( TDL) میں سب سے اُوپر تو “اﷲکو راضی کر نا” لکھا ہونا چاہیے نا۔ ہم ڈیزائن ہی اﷲ کو راضی کرنے کے لئے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے اﷲ کے۔
عبداﷲ کے دل پر یہ الفاظ بجلی کی طرح گر رہے تھے مگر امین بھائی نے تو جیسے چُپ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی تھی۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی ۔
کیا خیال ہے آپ کا اُس مار کر کے بارے میں جو لکھتا نہ ہو؟ اُ س گلاس کے بارے میں جس میں پانی نہ ڈالا جا سکے ؟ یا اُس ACکے بارے میں جو ہوا ٹھنڈی نہ کر سکے ؟ اِن تمام چیزوں نے اپنے ہونے کا حق ادا نہیں کیا نا؟
کیا خیال ہے آپ کااب اپنے بارے میں ؟
ہم م م م م، ذرا سوچیئے۔ اﷲ تو ہماری TDL میں ہوتا ہی نہیں ہے۔
ہر وہ عمل جو اﷲ تعالیٰ سے قریب نہ کر ے یا دُور لے جائے، انکی ناراضگی کا سبب بنے وہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔
عبداﷲ کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا تھا۔ وہ لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اٹھا اور کا پنتی ہوئی آواز میں انسٹرکٹر سے مخاطب ہوا، اِسکی آواز سُن کر سب ہی پریشان ہو گئے۔ خودانسٹرکٹر بیچارہ سوچ میں پڑ گیا کہ آخر میں نے ایسا کہا ہی کیا ہے؟ عبداﷲ گرجا ۔
“امین صاحب خدا را خاموش ہو جائیں اور بند کریں یہ ڈرامہ۔
کہاں مر گئے تھے آپ آج سے 10سال پہلے۔ پہلے کیو ں نہ بتایا کسی نے یہ مجھ کو، نہیں ہے جواب آپکے سوالوں کا میرے پاس ! ہوتا تو یہاں آتا ہی کیوں؟
اگر آپکو یہ خوش فہمی ہے کہ آپکے یہ چند گھنٹے میر ی زندگی کے تینتیس سال کھا جائیں گے تو منہ دھو رکھیں۔ وہ 33سال جس میں محنت بھی پسینے اور خون میں فرق نہ کر سکی۔ میری 198 آئٹمز پر مبنی TDL ،میری تمام تر کا میابیاں، کیا سب ایک لیکچر سے ضائع کرنے کا اِرادہ ہے؟ ایک لفظ، امین صاحب ایک لفظ منہ سے اور نِکالا تو یہ گُلدان مار کے آپ کا سر پھوڑ دوں گا۔ بھاڑ میں گئے آپ، بھاڑ میں گئی آپکی ٹریننگ اوربھاڑ میں گئے شوخ آنکھوں والے آپکے احمد صاحب، میں جا رہا ہوں۔
اور یہ کہہ کر عبداﷲ ٹریننگ روم سے نکل کے چلا جاتا ہے۔ حاضرین میں سے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کچھ بول سکے مگر امین صاحب پیچھے بھاگے اور سیڑھیوں کے پاس عبداﷲ کو جا لیا۔
ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب۔ آپ سُنیں تو سہی، عبداﷲ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو امین بھائی بھاگتے ہوئے آ رہے تھے۔ قریب تھا کہ عبداﷲ انہیں دو چار تھپڑ جڑ دیتا مگروہ آگے بڑ ھے اور عبداﷲ کو سینے سے لگا لیا۔ یکایک عبداﷲ کو اپنی آنکھیں تر ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ دل میں کہہ رہا تھا امین صاحب ہو سکتا ہے کہ آپ ٹھیک ہی کہتے ہوں، مگر میں غلط ہوں یہ کیسے مان لوں؟ میری حالت اُس ماں کی سی ہے جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو اور وہ لاش کے سامنے بیٹھی کہہ رہی ہو کہہ نہیں نہیں یہ مرا تھوڑا ہی ہے یہ تو سورہا ہے۔
عبداﷲ کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اپنے ارمانوں کی لاش کوکدھردفنائے اورکدھر اس کی تدفین کرے۔
عبداﷲ نے امین بھائی کو خدا حافظ کہا اور گھر چلا گیا۔
ابھی وہ بِلّو کو آج کی رود اد سنا ہی رہا تھا کہ اُس کا بیٹا عبدالرحمن آ گیا اور کہنے لگا پاپاہمیں آج Green Environment پر اسائمنٹ ملی ہے۔ Recyclingپر پوسٹر بنانا ہے۔ میں نے سب سے پہلے کچرے (Trash) کی تعریف لکھی ہے۔
وہ چیز جو اپنے مقصدِ و جود کے قابل نہ رہے۔
A thing that can’t fulfill it’s purpose anymore.
ٹھیک ہے ناپا پا بتائیے نا ، ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہو بیٹا۔
آ ج کی رات پھر رت جگا ہو گا۔ عبداﷲ نے بھیگی آنکھوں سے بِلّو کو کہا جو مسکرا کے خاموش ہو گئی۔
رات عبداﷲ پھر جا نماز پہ تھا۔
“یا ﷲ! تو چاہتا ہی نہیں ہے کہ میں سو سکوں۔ روز کی کوئی نئی پریشانی، کوئی ذہنی اذیت تو نے میرے دل و دماغ کو اتنا حساس کیوں بنایا ہے۔ یہ امین بھائی کیا کہہ رہے تھے۔ یہ TDLپہلے کسی نے کیوں نہ بتائی۔ تجھے راضی کرنا ہے مگر کیسے؟ میں کیا کروں کہ تو راضی ہو جائے میرے اﷲ؟ اﷲ میں کچرا ہی تو ہوں جو اپنے مقصدِ حیا ت کے قابل نہ رہا، جس نے بُھلا دیا اپنے مقصد کو مجھے معافی دے دے، بے شک تیرا فضل وجہ کا محتاج نہیں ایسے ہی بلاوجہ بخش دے۔ کو ن پوچھے گا تجھ سے۔ یا اﷲ میں کل واپس ٹریننگ میں جاؤ ں گا۔صحیح بات سمجھا دے۔ اب کہ چوٹ نہ کرنا! امین بھائی پہ رحم کر ،میری گستاخیاں معاف فرما۔ آج پھر سے اپنیTDL کو ری اِسٹارٹ کر رہا ہوں اِس بار پچھتاوے سے بچانا۔ اس بار قبول کر لینا۔ آمین! ‘‘
تر اب کاسۂ دل پیش کر دیا جائے
سنا ہے کوئی سخاوت میں حد نہیں رکھتا