ہم میں سے ہر شخص کو اپنا سالگرہ کا دن یاد ہوتا ہے اور اکثر اِسے باقاعدگی سے مناتے بھی ہیں۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی تکنیک سکھاتا ہوں جس سے آپ کو بہت فائدہ ہو گا یہ تکنیک آپ کو آگے بڑھنے، سوچنے، سمجھنے اور اپنا محاسبہ کرنے میں بہت مدد دے گی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ موت کا ایک دن متعین ہے اور جب اِسے آنا ہو گا تو دنیا کی کوئی طاقت اِسے نہیں روک سکتی۔ کوئی جلدی چلے جاتے ہیں تو کوئی دیر میں۔کسی کا بچپنا ادھورا رہ جاتا ہے تو کوئی عین جوانی میں داغِ مفارقت دے جاتا ہے، کوئی بوڑھا ہو کر طبعی موت مرتا ہے تو کوئی وبا، بیماری یا حادثے میں اچانک ہی چلا جاتا ہے۔ غرض کسی کو نہیں پتہ کہ اس نے کب جانا ہے اور کوئی گارنٹی سے نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کب تک رہنا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ایک فرضی یومِ وفات مقرر کر لیں اور ہر سال اس دن پر سوچیں کہ آج شاید مجھے مر جانا تھا مگر اللہ کا کرم ہوا کہ کچھ دن یا مہینے اور مل گئے۔ یہ فرضی دن کوئی بھی رکھ لیں، چاہیں تو سالگرہ کا دن، چاہے تو 31 دسمبر کہ سال بھر کا حساب آسان ہو جائے، چاہے تو 30 رمضان یا 14 اگست کہ یاد رکھنا آسان ہو۔ چاہے تو ماں باپ کی برسی کا دن وغیرہ۔ جو بھی دن رکھیں اب اِسے زندگی بھر کے لئے متعین کر لیں۔
اب دوسرا کام یہ کریں کہ موت کا وقت اور طریقہ بھی فرض کر لیں مثلاً کوئی شخص چاہتا ہے کہ اسے رات سوتے میں ہی آرام سے موت آ جائے اور وہ صبح اُٹھے ہی نہیں، کسی کو خواہش ہو گی کہ وہ ایک پُرفضاء مقام پر یا ساحلِ سمندر میں ہو، اکثریت کی خواہظ محبوب کے پاس موت کی ہوگی تو کچھ یہ آخری لمحے اپنی فیملی کے ساتھ بتانا چاہیں گے۔ اب آپ مقررہ وقت اور طریقے کے مطابق متعین کردہ دن پر اپنی موت فرض کر لیں اور پھر سوچیں کہ سب لوگ کیا کر رہے ہوں گے۔ آپ تو نیند میں سوتے میں گزر گئے، بیوی بچوں کو تو دوپہر 3 بجے نوکر اطلاع دیں گے کہ وہ بے چارے تو رات بھی نیٹ فلکس دیکھ کر صبح سویرے ہی سوئے ہیں۔
کسی بچے کی گیم پریکٹس ہو گی، کسی کا اسکول، امتحان یا کوئی اور مصروفیت۔ شوہر نے آفس جانا ہو گا بیگم نے شاپنگ، اب ایک (فرضی) مردے کے لئے وقت کون نکالے۔
اب کچھ فیصلے کریں، کچھ دعائیں لکھیں، کوئی کاموں کی فہرست بنا لیں کہ آپ کو تو آج مر جانا چاہئے تھا مگر آپ بچ گئے۔ کچھ دعائیں لکھیں جو آپ ضرور چاہتے ہیں کہ اگلے سال آپ کے یومِ وفات سے پہلے پوری ہو جائیں۔ کوئی فیصلے کریں مثلاً آپ نے حج نہیں کیا تو اس سال لازمی کر لیں، اُدھار اُتار دیں۔ سود سے پاک ہو جائیں۔ وصیت لکھ لیں، بینک اکائونٹ اور جائیداد کی تفصیلات کہیں لکھ کر بیوی بچوں سے شیئر کر لیں۔ دیکھیں وہ کون سا نیکی کا کام یا صدقہ جاریہ آپ کرنا چاہئے جو مرنے کے بعد آپ کے کام آتا۔ دیکھیں وہ کون سی گاڑیاں، گھر، بینک بیلنس یا پراپرٹی ہے جو آج آپ مرنے کے بعد نہ بھی چھوڑتے تو بھی گزارہ ہو جاتا تھا۔ سوچیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ روٹھوں کو منا لیتے، خاندان میں کشیدگی کو کم کر لیتے، معافی مانگ لیتے، منا لیتے یا مان جاتے۔ یہ سب کچھ آپ سالگرہ پر بھی کر سکتے ہیں مگر یومِ وفات کی فیلنگ اور احساسات الگ ہیں۔
میرا ایک دوست عبداللہ ہر سال محرم میں عمرہ کے لئے چلا جاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کا یومِ وفات عمرے میں طواف کے دوران ہو اور پھر وہ تمام دعائیں، فیصلے، کرنے کے کام سب کچھ وہاں سے لکھ کر لے آتا ہے۔
آپ سب کو آپ کا یومِ وفات مبارک ہو۔ یاد رکھیئے! جو شخص مرنے کے قابل نہ ہو وہ جینے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔