ستر کی دہائی تھی، کوئی آج کل والا پاکستان تو تھا نہیں ، اس نے کراچی میں موجودامریکن لائبریری میں قدم رکھا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ پیاسا تھا اور علم پیتا چلا گیا۔ کچھ ہی سالوں میں انجینئرنگ میں ٹاپ کیا اور امریکہ چلا آیا۔ کام، کام اور بس کام۔ وہ اپنے خاندان میں واحد گریجویٹ تھا۔ اکیلا خوش نصیب جسے ملک سے باہر کام ملا اور واحد کفیل۔
کام کے دوران اس کی ایک وائٹ امریکی مارگریٹ سے شادی ہوگئی۔ ترقی پر ترقی، اپنا گھر، اپنی گاڑی، بینک بیلنس، وہ منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا گیا۔
کافی سالوں بعد وہ آج اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان لوٹا۔ سن83 کا زمانہ تھا۔ سب لوگ خوب خوش ہوئے مگر ایک ضروری کام سے کمپنی نے واپس بلا لیا۔ بیوی کو پاکستان چھوڑ کر ایک ہفتے کے بعد واپس آنے کا کہہ کر وہ امریکہ روانہ ہوگیا۔
26 گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد اس نے رات کی تاریکی میں نیویارک میں موجود اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور بستر پر آکر اوندھے منہ لیٹ گیا کہ صبح کام پر پہنچنا تھا۔ اس نے بمشکل تمام 6 بجے کا الارم لگایا۔
صبح اس کی آنکھ 11 بجے کھلی، وہ کافی دیر تک حیران و پریشان گھڑی کو دیکھتا رہا، اس نے چھلانگ مار کر بستر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا، وہ تو اپنے آپ کو ایک انچ بھی نہ ہلاپایا۔اس نے گھبراہٹ میں چیخنا چاہامگر کوئی آواز نہ نکل سکی۔
رات کے کسی پہر جب وہ خوابوں میں دنیا فتح کر رہا تھا، قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسے فالج کا اٹیک ہوا اور صبح تک اس کا جسم ، اس کا چہرہ اور تما م عضلات کسی بھی قسم کی حرکت سے معذور ہو چکے تھے۔ اس کا دماغ کچھ کچھ کام کر رہا تھا مگر اسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کون ہے۔ اس کا نام کیا ہے ؟ بیوی بچے، ماں باپ کون ہیں؟ وہ سب کچھ بھولتا چلا جا رہا تھا۔یاداشت کا کھونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی قسطوں میں خود کشی کرے۔ ہلکے ہلکے ، رفتہ رفتہ، مدھم مدھم وہ تمام لوگ جن کے ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں دماغ سے رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دل میں رہتے ہیں مگر دل تو احساسات کا مجموعہ ہے۔ شکل کو نام اور صفات تو دماغ دیتا ہے۔
مسٹر صدیقی کو بسترپر پڑے پڑے آج تیسرا روز تھا۔ موبائل فون تو اس دور میں ہوتے نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو کون سا اس قابل تھے کہ وہ ہاتھ ہلا سکتے۔ گھر میں موجود فون بجتا رہا، کبھی آفس والے کال کرتے تو کبھی پاکستان میں گھر والے۔
اتنی بے بسی تو شاید مردوں کو بھی نہ ہوی ہوگی کہ انہیں کم از کم اس بات کا تو سکون ہوتا ہوگا کہ وہ مر چکے ہیں۔ مرنا کتنی بڑی نعمت ہے انہیں آج سمجھ آرہا تھا۔
چوتھا دن، پانچواں دن اور آج چھٹا دن، غلطی سے آج ڈاکیہ دروازہ کھلا دیکھ کر مسٹر صدیقی کو ہیلو ہائے کرنے آگیا کہ ان کے اخلاق اچھے تھے اور وہ ہمیشہ ڈاکیے کو دیکھتے تو حال احوال پوچھتے۔
ڈاکیے نے کھلی آنکھوں مگر ساکت جسم کو دیکھا تو 911 پر ایمرجنسی کال کردی۔ وہ آئے اور اٹھا کر لے گئے۔ اگلے 9 ماہ صدیقی صاحب کومے میں رہے۔ وہاں سے ہوش آیا تو کینٹکی کے ایک ہاس پائس ری ہیبیلی ٹیشن سنیٹر میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن کا واحد علاج خود موت ہوتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سال گزر تے چلے گئے۔
بیوی نے سمجھا کہ “کسی اور” کے ساتھ گھر بسا لیااور اسے بھول گئے اس نے بھی کہیں اور شادی کر لی۔
بہن بھائیوں اور رشتہ داروں نے سمجھا کہ پیسے کی حوس نے تمام رشتے ناطے توڑنے پر مجبور کر دیا۔
باپ نے سمجھا کہ بیٹا امریکی زندگی میں مصروف ہوگیا اور گھر والوں کی خیریت لینے کا وقت نہیں ہے۔ وہ ناراض ہوگیا اور اسی ناراضگی میں کچھ سالوں بعد باپ کا انتقال ہوگیا۔
ماں پھر ماں ہوتی ہے، وہ آخری وقت تک انتظار کرتی رہی کہ ایک دن اس کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔ اس نے مرتے وقت بھی وصیت کر د ی کہ جب بیٹا آئے تو اس کی قبر پر ضرور لے آئیں۔
آج اس واقعے کو 33 سال اور 4ماہ ہونے کو آئے ہیں ۔ مسٹر صدیقی {کوئی ان کا پورا نام نہیں جانتا } آج بھی بولنے کی سکت نہیں رکھتے مگر تھوڑا بہت کھا پی سکتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے اس سینٹر میں ایک پاکستانی آتا ہے اس کانام شاہد ہے۔ شاہد انہیں دیکھتا تو اسے شک گزرتا کہ یہ پاکستانی ہیں مگر ایک کلین شیو بوڑھے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بول تو وہ سکتے نہیں تھے۔
آج مسٹر شاھد کو ایک ترکیب سوجھی ، وہ گھر سے پاکستانی چکن بریانی لے گئے اور مسٹر صدیقی کے سامنے رکھ دی۔
مسٹر صدیقی کے پورے جسم میں صرف آنکھیں بولتی تھیں۔ آج تو جیسے وہ ابل پڑیں ۔ نرس چمچ سے بریانی آہستہ آہستہ منہ میں ڈالتی جاتی مگر اتنے آنسو اس میں مل جاتے کہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ چمچ میں چاول کی مقدار زیادہ ہے یا آنسوں کی۔
یہ آنسو اس بات کا ثبوت تھے کہ بندہ یا تو پاکستانی ہے یا انڈین۔شاہد نے مریض کو گلے لگالیااور دونوں نجانے کتنی دیر تک روتے رہے۔
اگلے6ماہ میں شاہد نے سب پتہ لگالیا کہ یہ شخص کون ہے مگر اب 33 سالوں بعد فیملی کی تلاش ایک بڑا مسئلہ تھا۔
اس نے ان کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر لگا دیں۔ دو ہی ہفتوں میں ان کا مسٹر صدیقی کی گزشتہ بیوی اور بہن سے رابطہ ہو گیا۔
اس ہفتے مسٹر صدیقی اپنی بہن سے امریکہ کے ایک ہسپتال میں ملے۔ نہ کچھ بول سکے اور نہ ہاتھ ہلا سکے، ہاں مگر آنسو تو کم بخت ہیں فالج میں بھی نکل آتے ہیں۔
آج رات شاھد سوچ رہا تھاکہ آدمی غرور تکبر کس بات کا کرے۔ چلتے ہوئے سسٹم میں سے قدرت نے ایک آدمی کو بنا مارے 33 سال کیلئے نکال کر باہر رکھ دیا۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ اگر وہ کام نہ کرے تو کھائے گا کہاں سے ، اسے بھی بٹھا کر، بلکہ لٹا کر 33 سال کھلاتے رہے ۔ صرف بندہ اپنے آپ کو دیکھ لے ۔
ان تمام بیماریوں کا اندازہ کر لے جو اپنے جسم میں ساتھ لے کر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی نکل پڑی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا تو غرور و تکبر آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں۔
About Me
Freelance Data Sciences, Blockchain and AI Consultant.
Subscribe to My Newsletter
Categories
Tags
AI AI4Impact AI4K12 AI4Kids AI4Schools AIPakistan Ants Artificial Intelligence Association Best Books Blockchain Business Career Paths Cryptocurrency Crytoassets Data Science Data Sciences Data Scientist Dengue Fever Developers Dream Merchants Ethereum Future Jobs Grasshopper Great Man H2O Halloween Honey Bee Humility Intelligence Kaggle Machine Learning Mosquito NLP Pakistan Pakistan Democracy Social Swarm Talent Techonology Termite Top Talent Trick-or-Treat Weka Zeeshan UsmaniBrowse
About Me
Freelance Data Sciences, Blockchain and AI Consultant.
Subscribe to My Newsletter
Like Us On Facebook