ہر شخص کی کوئی نہ کوئی پہچان ہوتی ہے۔ بچپن سے جو اسے نام دیا جاتا ہے وہ قبر تک اسے ساتھ رکھتا ہے۔ آپ کسی شخص سے پوچھ لیں کہ آپ اُس کا نام تبدیل کرتا چاہتے ہیں تو وہ منع کردے گا۔ ہم میں سے ہر ایک شخص کو اپنے نام سے ایک خاص انسیت ہوتی ہے۔ کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اس نام کے ساتھ ساتھ ہمارا پیشہ، عہدہ یا مہارت بھی لگ جاتے ہیں مثلاً فلاں ڈاکٹر صاحب، فلاں منشی، فلاں جج، فلاں مفتی صاحب، فلاں پروگرامر، فلاں ڈیٹا سائنسٹسٹ وغیرہ۔
تعلیمی قابلیت، سرکاری عہدے، خاندانی نسبتیں، عوامی القابات اور پیشہ وارانہ لاحقے، یہ سب مل کر ہماری شخصیت کو دھندلا کر دیتے ہیں۔ ہم وہ نہیں رہتے جو ہوتے تھے۔ ہم اپنی بندگی کی بھینٹ دے کر، اپنی معصومیت کو تیاگ کر، اپنی انسانیت کو لٹا کر اور اپنی شناخت کو کھو کر یہ ساری ترقیاں، آسائشیں اور خوشحالی حاصل کرتے ہیں۔ اسی لئے آخر میں خالی رہ جاتے ہیں۔
خالی ہر کوئی ہوتا ہے۔ جو پڑھ لکھ جائے اسے سوال مار دیتے ہیں۔ جو بزنس میں چلا گیا اسے پیسے نے مار دیا۔ جو سیاست میں گیا اسے جھوٹ کھا گیا۔ جو دین میں گیا اسے ‘میں’ سے کون بچائے اور جس نے کچھ نہ کیا وہ کبھی بھرا ہی کہاں تھا جو خالی ہو۔
میرا ایک دوست ہے عبداللہ، وہ پیشے کے اعتبار سے منگتا ہے۔ ہر وقت مانگتا رہتا ہے، جاگنے میں بھی فقیر، سوتے میں بھی فقیر۔ میں اکثر اسے چھیڑتا ہوں کہ عبداللہ سوتے ہوئے اپنے ساتھ کشکول رکھ لیا کر، تو وہ ہنس کر کہتا ہے کہ دل کس کام آئے گا۔ عبداللہ کی ایکسپرٹیز مانگنے میں ہیں۔ بڑا عجیب پاگل شخص ہے۔ کہتا ہے کہ اگر آگے بڑھنا ہے، اپنی شناخت پانی ہے تو اپنی صحبت سے دور رہا کرو۔ تنہائی کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ آس پاس کوئی نہ ہو اور آپ اکیلے ہوں۔ تنہائی کا مطلب ہے کہ آپ خود بھی نہ ہوں اور صرف اللہ کی ذات ہو اور بس۔
آدمی سراپا طلب ہو تو مانگنا خود بخود آجاتا ہے۔ آپ پرندوں کو دیکھیں، آپ سالہا سال کھلائیں پلائیں، دلجوئی کی باتیں کریں۔ مگر جیسے ہی پنجرہ کھلا ملتا ہے وہ اڑ جاتے ہیں کہ اڑان ان کا مقصد ہے اور وہ اس سے بالکل بھی غافل نہیں ہوتے۔ دعا مومن کی اڑان ہے۔ دنیا کتنا ہی مصروف کر چھوڑے، جب موقع ملے مومن کا دل اڑان ضرور بھرتا ہے۔ آپ بچوں کو دیکھیں روتے ہوئے ماں کا آنچل اوڑھ کر گود میں چلے جاتے ہیں۔ اگر سجدہ کرتے ہوئے یہ فیلنگ یا کیفیت محسوس نہ ہو تو واپس کر لینا چاہئیے۔
دیکھئے، اللہ پاک رحیم ہے اور ہمارے پیارے نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی رحمت للعالمین ہیں۔ بندے کو چاہئیے کہ وہ ان دو رحمتوں کے بیچ میں رہے۔ اللہ کریم ہے اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کریم ہیں تو آپ بس درمیان میں رہیں۔ اگر بندے کی زندگی احادیث کے حصار میں رہے تو وہ کبھی بندگی کے محور سے باہر نہیں جا سکتا۔ اللہ سائیں کہتے ہیں مجھ سے مانگو۔ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کیا مانگنا ہے، کیسے مانگنا ہے۔ آپ کا کام صرف کاپی پیسٹ رہ گیا ہے وہ تو کر لیں۔
ہر سال کے آغاز میں دعاوں کی فہرست بنا لیا کریں اور آخر میں دیکھیں کتنی پوری ہو گئیں۔ دو چار ‘ناممکن’ دعائیں بھی لکھ دیں۔ ہر سال آپ کے ایمان ویقین میں زیادتی کا سبب بننے گا۔ دعا اطمینان دیتی ہے۔ پوری ہو گئی تو کیا کہنے، نہ ہوئی تو مالک نے اس سے اچھا کچھ رکھ چھوڑا ہوگا۔ ہمارا کام تو مانگنا ہے، دینا نہیں۔ تو بس مانگے جاو۔ کوشش کریں کہ آپ سے بڑا فقیر آپ کے شہر میں تو کوئی نہ ہو۔
اگر چوبیس گھنٹوں میں کبھی بھی آپ کو بےساختہ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا خیال نہ آئے تو سمجھ لیں کہ شخصیت دھندلی ہو گئی ہے۔ اِسے پانے کی جستجو کریں۔
میری حسرتوں کا شمار کر، مجھے ڈوبتے سے اچھال دے
میرے پاس آ میرے دلربا، میری بندگی کو کمال دے
تیری شبہہ یہ تیری جھلک، میرے دل میں آ کے دھمال دے
کبھی مل بھی جا او بےنیاز، نہ زندگی کا ملال دے