میں نے اپنی پہلی نوکری 15 سال کی عمر میں ایک فوٹو اسٹیٹ مشین والے کی دکان پر روزانہ 4 گھنٹے کام کرنے سے شروع کی۔ سکھر جیسے شہر میں اس دور میں 300 روپے ماہانہ بھی جیب خرچ کے لئے بہت ہوتے تھے اور ساتھ میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی مفت یا رعایتی نرخوں پر کاپیاں بنانے کی “عیاشی” الگ۔ اپنا پیسہ اپنے زورِ بازو سے کمانا بھی ایک لت ہے جو مشکل سے ہی چھوٹتی ہے۔ آپ مزدور لوگوں کو دیکھیں وہ بڑھاپے میں بھی کام کر رہے ہوتے ہیں کہ خود سے کام کرنے کا مزہ ہی الگ ہے۔
اللہ سائیں کا فضل ہوا کہ اس دن کے بعد سے آج تک روزگار چل ہی رہا ہے اور صحیح معنوں میں “بیروزگاری” یا اہلیت کے باوجود “کام نہ ملنے” کی اذیت اور تجربے سے تقریباً ناواقف ہی رہا۔ پیسے زیادہ ملے یا کم، مگر الحمدلللہ کام چلتا رہا۔ بہت مرتبہ اپنا کاروبار کرنے کا خیال آیا اور کیا بھی، مگر ہر بار نقصان اٹھا کر بند کرنا پڑا۔ ابھی تک 18 مختلف چھوٹے بڑے کاروبار نقصان یا برابر سرابر چھوٹ کر بند کرنے پڑیں ہیں۔ مگر ہر تجربے کے ساتھ کچھ نیا سیکھنے کو ملا اور ہر آئندہ کاروبار میں بہتری آتی چلی گئی۔ اب 42 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شاید اتنا تجربہ اور عقل آگئی ہے کہ اب بزنس ڈیلز میں نقصان کے امکانات خاصے کم ہونے لگے ہیں۔ مگر کاروباری ذہانت یا تجربہ اس کتاب کا مقصد نہیں۔
اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے دو واقعات کار فرما ہیں۔ پہلے ان پر بات کر لیتے ہیں۔
جنوری 2017ء کا ذکر ہے میں سیلیکان ویلی، امریکا میں ایک شاندار نوکری چھوڑ کر فیملی کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو گیا۔ خیال تھا کہ اتنی تعلیم اور تجربے کی بدولت کمپنیز ہاتھوں ہاتھ لیں گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ امریکن لائف اسٹائل اور سہولتوں کو چھوڑ کر پاکستان میں پھر سے سیٹ ہونا ہی ایک مسئلہ ہے اور اس پر نوکری کا نہ ہونا ایک طرفہ تماشہ۔ کہیں پر تنخواہ کی ڈیمانڈ زیادہ بتائی گئی تو کہیں پر اوور کوالیفائڈ کا لیبل لگا۔ کہیں پر کام میری پسند کا نہ تھا اور کہیں پر کچھ اور مسئلہ۔ ڈیفنس میں ملک سے باہر آنے جانے پر پابندی تو پرائیویٹ کمپنیز میں ٹائم اور اوور ٹائم کی کوئی حد نہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنی کمپنی اور اسٹارٹ اپ کھولنے کا مشورہ دیا مگر میں کوئی محفوظ طریقہ ڈھونڈ رہا تھا کہ جس سے گھر کا چولہا جلتا رہے اور مجھے کچھ وقت مل جائے کچھ سوچ سمجھ کر صحیح فیصلہ کرنے کا کہ آئندہ زندگی میں کیا قدم اٹھانا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے 5 ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ ایک “بیروزگار” شخص کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذات پر سے لوگوں کا “یقین” اٹھ جاتا ہے۔ دوست، احباب اور رشتہ دار چھٹنے لگے کہ مبادا ادھار ہی نہ مانگ لوں۔ مجھے رہنمائی درکار تھی اور لوگ یا تو ہمدری کررہے تھے کے بیچارہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہے یا غصّہ کہ کیا ضرورت تھی امریکا سے لگی لگائی نوکری چھوڑ کر آنے کی. بیوی بچے الگ پریشان کہ جو تھوڑی بہت بچت تھی وہ دھیرے دھیرے ختم ہو رہی تھی۔ زندگی میں مہینہ کبھی اتنی جلدی ختم نہیں ہوا جتنا اب ہو رہا تھا، پھر سے بجلی کا بل، اسکول کی فیس، ڈرائیور کی تنخواہ۔
یا خدا، یہ کیا ماجرا ہے کے ہلکی سی رہنمائی بھی ملنا ممکن نہیں؟ ایسے میں اپنے آپ سے عہد کیا کہ ان شاء اللہ زندگی میں یہ دن پھر نہ دیکھنے پڑیں، اور اب کبھی بھی صرف ایک ذریعہ آمدن [نوکری] پر انحصار نہیں کروں گا۔
ایسے میں اپنے آپ کو ایک “فری لانسر کنسلٹنٹ” کے طور پر لانچ کرنے کا سوچا اور ساتھ ساتھ درجنوں طریقے اپنائے کہ جس سے ایک مستقل “انکم اسٹریم” یا ذریعہ آمدن وجود پا سکے۔ پیسے کتنے کماؤں گا یہ نہیں سوچا، ایک روپیہ ہی کیوں نہ ملے، مگر ہر ہر طریقہ آزماؤں گا جس سے رزق حلال میں اضافہ ہو سکے اور یوں اس کتاب کے اسباق ملتے چلے گئے۔
دوسرا واقعہ کورونا وائرس کا ظہور ہے۔ لاکھوں لوگ بےروزگار ہوگئے۔ گھر سے کام، فری لانسنگ اور ریموٹ ورک پہلے سے زیادہ قابل عمل نظر آنے لگے اور بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں نے ای میل اور میسجز کا سلسلہ باندھ دیا کہ انہیں گائیڈ کروں۔ آج میں ان کی اذیت اور پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں تو میں نے آن لائن کاؤنسلنگ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کے نتائج میری توقع سے کہیں زیادہ بہتر نکلے۔ جو باتیں یا ٹپس میرے لئے معمول کی بات تھیں وہ لوگوں کے لئے مشعلِ راہ اور ایک باعزت روزگار کا ذریعہ بن گئیں۔ چار سال پہلے آسمان سے گر کر جس کھجور میں میں اٹکا تھا، معلوم ہوا لوگوں کی نسلیں اس کھجور تک پہنچنے میں لگ جاتی ہیں، تو سوچا جو کچھ سیکھا وہ کتابی شکل میں شائع کردوں کے صدقہ جاریہ بنے.
حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور وہ زملونی، زملونی کہتے ہوئے اماں خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ “آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ تو لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں، مصیبت میں اور ان کو ذریعہ معاش میں مدد دیتے ہیں ۔۔۔ .”
تو سوچا کہ اس کتاب کے بہانے اس حدیث پر ہی عمل ہو جائے گا۔ اگر آپ میں سے کوئی ایک بھی اسے پڑھ کر کچھ کما سکا تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت وصول ہوئی۔
اس کتاب میں، میں نے صرف وہ طریقے درج کئے ہیں جن سے میں بذات خود پیسے کما چکا ہوں یا کما رہا ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کو بھی یہ طریقے سکھادئیے ہیں اور وہ بھی پیسے کما رہے ہیں۔ الحمد اللہ آج میری 11 انکم اسٹریمز ہیں۔ کچھ چھوٹی تو کچھ بڑی۔ کسی سے صرف بجلی کا بل نکلتا ہے [مثلاً یوٹیوب] تو کسی سے بچوں کی اسکول فیس [فیس بک]۔ کوئی مکمل بچت میں جاتی ہے تو کسی سے یہ کتابیں چھپوانے کے پیسے حاصل ہوتے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ بھی اس کتاب کو پڑھ کر اپنے لئے اضافی ذریعہ آمدن تلاش کر سکیں گے۔
ایک کام کی بات عرض کروں؟ ان اضافی انکم اسٹریمز میں سے کوئی فیصد اللہ اور اس کے بندوں کے لئے سوچ لیں، دئیے میں سے دینا ہے۔ کیا بھاری کام ہے؟
آپ گفتگو پبلیکیشنز کے اس لنک سے یہ کتاب آرڈر کرسکتے ہیں
اپنی آراء سے ضرور نوارئیے گا۔
طالب دعا
ذیشان الحسن عثمانی