یہ تصویر میرے دماغ سے جیسے چپک سے گئی ہے، یہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) مظفر حسین عثمانی کی تصویر ہے. جنرل صاحب کراچی کے کور کمانڈر رہے اور ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کے عھدے تک ترقی کی.
نواز شریف نے جب جنرل پرویز مشرّف کا طیارہ کراچی میں اترنے سے روک دیا تھا تو یہی جنرل عثمانی تھے جنہوں نے جا کر کراچی ائیرپورٹ کا کنٹرول سنبھالا تھا اور جہاز کی لینڈنگ کرائی تھی. بعد اذاں جنرل مشرّف صاحب کی امریکا نواز پالیسی سے اختلاف کی پاداش میں کہ طالبان سے بات چیت کو بند نہ کیا جائے، انہیں ہلال امتیاز سے نواز کے سائیڈ لائن کردیا گیا
مجھے انکا نام اس لئے یاد ہے کے جب سن 2000 میں مولانا یوسف لدھیانوی کو کراچی میں شہید کردیا گیا تھا اور ہنگامے پھوٹ پڑے تھے تو شہر کی بادشاہت انہی کے ہاتھ میں تھی. میں ایک چھوٹی سے یونیورسٹی میں ملازم تھا اور کانووکیشن کی اجازت کے لئے ان کے آفس میں ہفتوں چکّر لگانے پڑے تھے
.
کور کمانڈر کی صرف روٹ ڈیٹیلنگ پر 50 سے زائد لوگ اور 8 سے اوپر ڈیپارٹمنٹس تعینات ہوتے ہیں. بلیٹ پروف کاروں کا ایک کاروان ہوتا تھا جو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر ممکن بناتا تھا. نیک آدمی تھے اور مجھے ان سے کوئی شکایت بھی نہیں ، میں کیا میری اوقات کیا. اللہ انہیں جنّت نصیب کرے. جنرل کے عھدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اگر کوئی ٣٥ سال پرانی گاڑی خود ہی چلا رہا ہو تو ولی نہیں تو صوفی تو ضرور ہوگا
.
مگر آپ دیکھئے یہ خاتمہ ہے جہاں ہم سب نے جانا ہے. اس دنیا سے اس دنیا کا سفر اکیلے ہی کرنا ہے. کیا روٹ ڈیٹیلنگ اور کہاں کی سیکورٹی، کسی بلٹ پروف گاڑیاں اور کونسی نوابی، سب لاد چلے گا بنجارہ. کوئی پاس نہیں تھا، نہ ماتحت، نہ دوست، نہ اولاد، نہ رشتے دار
اللہ مرحوم کو جنت نصیب کرے اور ہم جیسے مغرور لوگوں کو سوچنے کا موقع دیں کے کچھ زندگی کی ڈگر بدلیں
بقول شاعر
نظر سوئے مرقد، نظر سوئے دنیا
کدھر دیکھتا ہے، کہاں جا رہا ہے